نوٹ : یہ مضمون تصویر کا دوسرا رخ ہے جو صرف علم کے متلاشی، اہل عقل و فہم ،میچورحضرات کے لیے ہے، جذباتی ، فرقہ پرست افراد اس کے مطالعہ سے گریز فرمائیں اور صرف اوپر والے مضا مین پڑھنے پر اکتفاء کرہیں-
جب پہاڑ کے دامن سے کوئی چشمہ پھوٹتا ہے تو اس کا پانی صاف شفاف ہوتا ہے۔ لیکن جوں جوں وہ میدانوں کی طرف پڑھتا ہے ، خس و خاشاک اور خاک و غبار کی کی وجہ سے گدلا ہو جاتا ہے۔ یہی حال مذہب کا ہے۔ آج سے 1400 برس پہلے اسلام کا چشمہ دامن فاران سے پھوٹا اور کئی دھاروں میں بٹ کر مشرق و مغرب کی طرف بڑھا۔ مررورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف الانواع کثافتیں شامل ہوتی گئیں۔ کہیں عیسائیوں کی رہبانیت اس میں آملی اور کہیں آریوں کا نظریہ حلول و وحدت الوجود، راہ میں کئی تصوف کی دلدلیں آ گئیں اور کہیں کلام و اعتزال کے خاکستان۔ ان مختلف گزر گاہوں سے ہوتا اور اس طویل راہ گرد کی آلودگیوں کو سمیٹتا ہوا جب یہ چشمہ ہم تک پہنچا تو ہم فیصلہ نہ کر سکے کہ یہ الہامی بلندیوں کا مقطرآب تھا یا کسی بدرو کا مکدر پانی۔ اہل نظر لرزے ، اور متلاشیان حق بے تابانہ منبع کی طرف بڑھے۔ تاکہ ان مقامات کا کھوج لگائیں۔ جہاں سے کثافت اس چشمے میں شامل ہو رہی تھی ، سفر لمبا تھا منزل کٹھن ، راہبر ناپید، خانہ ساز عقائد کی گھٹائیں محیط اور راہ تاریک ماحول میں گُم۔
ظلمات بعضھا فوق بعض (ظلمت تہ بر تہ)
بیسیوں جی ہار کر بیٹھ گئے اور کچھ ان ستاروں کی مدھم روشنی میں آگے بڑھتے گئے جو گھٹاؤں کی چلمن سے ان راہ نوردوں کا تماشہ دیکھ رہے۔ جوں جوں وہ بڑھتے گئے۔ گھٹائیں چھٹتی گئیں، ظلمت سرکتی گئی۔ پردے اٹھتے گئے۔ یہاں تک کہ وہ ایسے خطوں میں جا پہنچے جہاں آفتاب الہام کی تجلیوں سے نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں اور دل و دماغ منور۔ ہر حقیقت وہاں عیاں تھی اور ہر راز بے حجاب ، انھوں نے ملت کو بلند آواز سے پکارا اور کچھ کہا۔ یہ آواز چند کانوں سے ٹکرائی اور پھر گونج بن کر دشت کی پنہائیوں میں گم ہو گئی۔
جانتے ہو انھوں نے کیا کہا تھا ؟یہی کہ ہمارے شکم پرست اور خود بین سامریوں نے حرم حقیقت میں سینکڑوں بت بنا رکھے ہیں۔ جن میں ایک کا نام "وضعی احادیث" ہے۔ یعنی وہ اقوال جو لوگوں نے تراش کر حضورؐ کی طرف منسوب کر دئیے تھے اور آج وہ اقوال رسولؐ کے ساتھ یوں غلط ملط ہو چکے ہیں کہ حق کو باطل سے علیحدہ کرنا ناممکن ہو رہا ہے۔
اس میں کلام نہیں کہ ہمارے بعض علماء نے سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ راویوں کا سراغ لگایا، ان کے حالات جمع کئے بہ اندازہ ہمت تحقیق کی۔ لیکن معاملہ اس قدر الجھ چکا تھا کہ اسے سلجھانا انسانی دسترس سے باہر تھا۔
وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ علم کم تھا ، لکھنے والے محدود اور ذخائر علم معدوم۔ صحابہ کی تمام تر توجہ قیام سلطنت ، نشر اسلام اور تعمیر ملت پر صرف ہو رہی تھی۔ ان کے پاس خود رسولؐ موجود تھے اور رسولؐ کے بعد آپ کا دیا ہوا مکمل و اتم ضابطہ حیات یعنی قرآن۔
انھیں کیا خبر تھی کہ ڈیڑھ سو سال بعد لوگ قرآن کو چھوڑ کر احادیث پہ جھک پڑیں گے۔ احادیث کا ذخیرہ بڑھتے بڑھتے چودہ لاکھ تک پہنچ جائے گا۔ ہزارہا اہل غرض لاکھوں احادیث گھڑ کر اس مقدس ذخیرے میں شامل کر دیں گے اور اس وقت مسلمانوں کو صحیح و غلط میں امتیاز کی ضرورت پیش آئے گی۔
اگر انھیں یہ معلوم ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال جمع کر جاتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا۔ اس کی بڑی بڑی وجوہ دو تھیں۔
اول: وہ قرآن کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ جب رحلت سے پہلے حضور نے فرمایا کہ
ایتونی بکتاب و قرطاس اکتب لکم شیاءً لن نضلوا بعدی
لاؤ قلم دوات اور کاغذ میں تمھیں ایک ایسی چیز لکھ کر دے جاؤں کہ میرے بعد تمھاری گمراہی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
تو حضرت عمر ؓ بن خطاب جھٹ بول اٹھے ہمیں مزید کسی تحریر کی ضرورت نہیں ، اس لئے کہ
حسبنا کتاب اللہ
ہمارے پاس کتاب الٰہی موجود ہے جس میں انسانی فلاح و نجات کے مکمل گُر درج ہیں ، اور یہ کتاب ہمارے لئے کافی ہے ۔ حضرت فاروق کا یہ جملہ رسالت پناہ کے حضور میں جسارت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ مجبور تھے اس لئے کہ کچھ عرصہ پیشتر قرآن کی یہ آیت نازل ہو چکی تھی الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی
آج میں نے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تمھیں پوری طرح عطا کر دی ہے۔
اس آیت کی رو سے نسل انسانی کی یہ کتاب ہر طرح مکمل اور پوری ہو چکی تھی۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے کسی مزید ہدایت کا انتظار بےکار تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ایمان کا امتحان لے رہے ہوں۔ اس لئے حضرت فاروقؓ کا یہ جواب نہایت برمحل معلوم ہوتا ہے۔
دوم: حضور نے حدیث لکھنے سے روک دیا تھا۔
عن ابی سعید الحذری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تکتبوا عنی و من کتب عنی شیئاً غیر القرآن فلیمحہ (صحیح مسلم)
ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کے بغیر میرا کوئی اور قول قلمبند نہ کرو۔ اور اگر کوئی شخص ایسا قول لکھ چکا ہو تو اسے مٹا دے۔اور اس کی دو وجہیں تھیں۔
اول: کہ کہیں غلطی سے احادیث قرآن کے متن میں شامل نہ ہو جائیں۔ بعض گذشتہ انبیا کے الہامی صحائف میں ان کی احادیث بھی شامل ہو گئی تھیں اور کتاب الٰہی کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔
دوم: خود رسول کریم صلعم کی زندگی میں ان کے اقوال محترف ہو چکے تھے اور یہ ہے بھی ایک فطری چیز۔ آدمی کو اپنی کہی ہوئی بات تک یاد نہیں رہتی ، وہ دوسرے کی کیا یاد رکھ سکتا ہے۔ فرض کرو کہ ایک محفل میں چھ آدمی گھنٹہ بھر گفتگو کرتے رہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اختتام مجلس پر تمام گفتگو بالفاظہ دہرا سکیں؟ نا ممکن ہے۔ اسی طرح فرض کرو کہ ایک واقعے کو پچاس آدمی دیکھتے ہیں۔ اگر آپ ان کے پاس علیحدہ علیحدہ جا کر اس واقعے کی تفصیل قلمبند کریں، تو آپ کو ان تفاصیل میں کافی اختلاف نظر آئیں گے۔ اور اگر چھ ماہ یا سال بعد انھی لوگوں کے پاس جا کر اسی واقعے کی تفصیل دوبارہ قلمبند کریں تو یہ اختلاف اور نمایاں ہو گا۔ اور مرُور زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ تفاصیل یوں بدلتی جائیں گی کہ ان کا تعلق حقیقت سے منقطع ہو جائے گا۔
حضور علیہ السلام انسان کی اس فطری کمزوری سے آگاہ تھے۔ اس لئے آپ نے حکم دے دیا تھا کہ میری حدیث قید کتابت میں مت لاؤ۔ ممکن ہے کہ آپ یہ کہیں کہ انسان اپنے یا اپنے ساتھی کی بات تو بھول سکتا ہے لیکن وہ اپنے رہبر اور محبوب پیمبر کی بات نہیں بھول سکتا۔ میں عرض کروں گا کہ آپ یہاں بھی غلطی پر ہیں۔ آپ میں سے لاکھوں نے اپنے محبوب و محترم لیڈر حضرت قائد اعظمؒ کی بیسیوں تقاریر سنی ہوں گی۔ جنھیں بعد میں پاکستان ریڈیو نے بھی بارہا دہرایا۔ لیکن آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جنھیں آج ان تقاریر کے تین فقرے بھی یاد ہوں۔ انسان ہے ہی فراموش کا ر ، وہ سنتا ہے اور بھول جاتا ہے۔ آپ کو تاریخ کا ایک اہم واقعہ یاد ہو گا کہ حضرت فاروقؓ کے زمانے میں عراق کا قرآن حجاز سے مختلف ہو گیا تھا۔ کیوں ؟ اس لئے نہیں کہ کوئی بد نیت تحریف قرآن پہ تل گیا تھا۔ بلکہ اس لئے کہ ان کے سامنے قرآن کا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا۔ اس لئے بعض آیات حافظہ سے اتر گئیں۔ اور بعض میں کچھ رد و بدل ہو گیا تھا۔ حضرت عثمان نے قرآن کے کافی نسخے لکھوا کر قلمرو کے مختلف حصوں میں بھیج دئیے اور قرآن تحریف سے محفوظ ہو گیا۔ [ابن حزم لکھتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم کی رحلت کے وقت قرآن شریف کے ایک لاکھ نسخے تیار ہو چکے تھے؟]۔ آپ جانتے ہیں کہ صحابہ کرام عشق خدا میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور ان کا یہ محکم عقیدہ تھا کہ کسی آیت کو غلط پڑھنا اگر کفر نہیں تو فسق یقیناً ہے۔ اگر ان عشاقان خدا کو قرآن کی آیات بھول گئیں تھیں تو حدیث کے بھولنے پہ انھیں کون ملامت کر سکتا تھا۔
آنحضرت صلعم نے کتاب حدیث سے منع فرما دیا تھا۔ اور جو چیز لکھی نہ جائے وہ لازماً پہلے بگڑتی ہے اور بلا آخر مٹ جاتی ہے۔ حضورؐ کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرآن کریم کے بغیر کوئی اور کتاب ہدایت باقی نہ رہے۔ اس لئے حضورؐ اور ان کے صحابہؓ قرآن کو ایک مکمل ضابطہ حیات تصور فرماتے تھے۔ اور اس کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی قطعاً ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ورنہ اگر صحابہ کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال آتا کہ قرآن کی تفصیل، تکمیل، تفسیر یا امت کی رہبری کے لئے حدیث کا زندہ رہنا ضروری ہے تو ان کے لئے حدیث کی تدوین نہایت آسان تھی۔ جو عثمان رضی اللہ قرآن کے نسخے لکھوا سکتا تھا وہ پانچ چھ ہزار احادیث کا ایک مجموعہ بھی تیار کرا سکتا تھا۔ تمام صحابہ زندہ تھے ان کی بیشتر تعداد مدینہ میں موجود تھی۔ اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضرت انس بن مالکؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس احادیث کی کافی تعداد لکھی ہوئی بھی تھی۔ راویوں کا لمبا چوڑا جھمیلا بھی نہیں تھا۔ ان حالات میں اگر حضرت صدیقؓ یا فاروقؓ چاہتے تو صرف ایک مہینے میں سرور عالمؐ کے تمام اقوال جمع ہو سکتے تھے۔
لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا۔ کیوں ؟ کیا انھیں اقوال رسولؓ سے معاندت تھی؟ عیاذاً باللہ! کیا انھیں اسلام سے محبت نہ تھی ؟ استغفراللہ ! بات یہی تھی کہ اقوال رسول میں تحریف ہو چکی تھی۔ نیز رسول اکرم صلعم کا حکم تھا کہ احادیث مت لکھو۔ مزید برآں انھیں اس حقیقت پر بھی محکم ایمان تھا کہ قرآن ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اس لئے انھوں نے احادیث کو در خور اعتنا نہ سمجھا۔
علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق نے پانچ سو احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ حضرت صدیق کے مجموعے سے زیادہ قابل اعتماد اور کون سا مجموعہ ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک صبح اٹھ کر اسے جلا دیا۔
> حضرت فاروق ؓ کے متعلق مذکور ہے کہ آپ نے رسول اکرم صلعم کی احادیث اور آپ کا اسوہ لکھوانے کا ارادہ کیا۔ مہینے بھر استخارہ کرتے رہے اور پھر فرمایا۔
کانو اقبلکم قوما کتبو کتباً فاکتبوا علیھا و ترکوا کتاب اللہ و انی واللہ لا اشوب کتاب اللہ بشیء اہداً
تم سے پہلے ایسی قومیں گزر چکی ہیں جنھوں نے کتابیں لکھیں اور خدائی کتاب کو چھوڑ کر انھی پہ جھک پڑیں ، خدا کی قسم! میں قرآن میں ایسی آمیزش ہرگز نہیں ہونے دوں گا
نامناسب نہ ہو گا ، اگر اس سلسلے میں چند اور تاریخی واقعات بھی بیان کر دئیے جائیں۔
نمبر1۔ جب حضرت صدیقؓ مسند خلافت پر جلوہ آرا ہوئے تو آپ نے ایک دن ایک مجمع عام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
"تم لوگ آج حدیث میں اختلاف رکھتے ہو(ہم یہی عرض کر رہے تھے کہ اقوال رسول میں رد و بدل ہو چکا تھا اور وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ انھیں قلمبند کیا جاتا) آئندہ یہ اختلاف بڑھتا چلا جائے گا اس لئے تم آنحضرت سے کوئی حدیث روایت نہ کرو۔ اگر کوئی پوچھے تو کہو کہ ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔ جو اس نے جائز قرار دیا اسے جائز سمجھو" (تذکرۃ الحفاظ ذہبی ص 3)
نمبر2۔ ایک مرتبہ حضرت فاروقؓ نے تمام صحابہ سے فرمایا کہ گھر جاؤ اور احادیث کا تمام ذخیرہ اٹھا لاؤ۔ جب ذخیرہ جمع ہو گیا تو آپ نے تمام صحابہ کے سامنے اسے جلا دیا۔[i]
(طبقات ابن سعد جلد 5 ص 140)
ذرا سوچو کہ خلفائے راشدین کا زمانہ ہے۔ شمع نبوت پہ فدا ہونے والے ہزاروں پروانے موجود ہیں۔ اور حضور کے دو سب سے بڑے دوست اور فدائی آپؐ کے اقوال کا ذخیرہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر فنا کر رہے ہیں۔ آخر کیوں ؟ کیا انھیں ارشادات رسولؐ سے ضد تھی؟ یا اقوال رسول میں تحریف ہو چکی تھی ؟ ظاہر ہے کہ پہلی وجہ غلط ہے۔ اور دوسری صحیح۔ مقام حیرت ہے کہ جن احادیث کو مشتبہ یا ناقابل التفات سمجھ کر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم فنا کر رہے تھے ، تاکہ اعمال و عقائد میں کوئی فتور پیدا نہ ہونے پائے ، انھی احادیث کو اڑھائی سو سال بعد امام بخاری و مسلم وغیرہ نے جمع کیا اور ہم سب نے مل کر نعرہ لگایا۔
ھذا اصح الکتب بعد کتاب اللہ
(قرآن کے بعد صحیح بخاری صحیح ترین کتاب ہے)
آخر کس طرح؟ چند ایک احادیث جو بعض صحابہ کے پاس تھیں ان میں سے بیشتر جلا دی گئیں۔ جو زبانوں پہ جاری تھیں ان میں ہر لمحہ رد و بدل ہو رہا تھا۔ بات ایک دن میں کیا سے کیا ہو جاتی ہے ۔ اور ان اقوال پر تو اڑھائی سو برس گذر چکے تھے۔ وہ صحابہ جن کی دیانت اور سچائی پر بھروسا کیا جا سکتا تھا ، فوت ہو چکے تھے اور بعد میں آ گئے تھے ہم جیسے لوگ۔ امام حسین کے قاتل، حضرت علیؓ کے باغی، کعبے کو ڈھانے والے حاکم شرابی، امراء راشی، غنی عیاش، فقیر پست کردار، کیا ایسے ماحول(اُمیہ کا دور) میں کسی حدیث کا اپنی اصلی حالت پہ رہنا ممکن تھا؟ بعض صحابہ سے بھی اخلاقی لغزشیں سرزرد ہوتی رہتی تھیں۔ بخاری میں مذکور ہے کہ ایک صحابی روزے کی حالت میں جماع کر بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ابن نعمان کو شراب نوشی پر سزا دی تھی۔ حضور ؐ نے ایک صحابی پر زنا کی حد جاری کی تھی۔ رحلت رسولؐ کے بعد بعض مرتد ہو گئے تھے۔ اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کی جنگ میں دونوں طرف صحابہ کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ اور ظاہر ہے کہ دونوں راستی پر نہیں ہو سکتے تھے۔ ان حالات میں بالکل ممکن ہے کہ کسی صحابی نے عمداً کسی حدیث کے الفاظ بدل دئیے ہوں۔ اور سہو و نسیان کا خطرہ تو ہر وقت تعاقب میں رہتا تھا۔ دو سو پچاس برس تک یہ حدیثیں کروڑوں زبانوں پہ جاری رہیں۔ ہر نیک و بد کے پاس پہنچیں۔ الفاظ بدلے ۔ مفہوم بدلا۔ اضافے ہوئے۔ لاکھوں نئی احادیث وضع کی گئیں۔ جن میں حلال کو حرام اور اور حرام کو حلال بنایا گیا۔ جہاد پہ ضرب کاری لگائی گئی۔ رہبانیت کو اچھالا گیا۔ اور ایک ایک ورد پر ہزار ہزار جنتیں تقسیم کی گئیں۔ ان مشتبہ گوش بریدہ اور خود تراشیدہ احادیث کا سیلاب عظیم ۔ جب حضرت امام بخاری کے دور میں داخل ہوا تو آپ نے چھ لاکھ احادیث میں سے جو آپ کو یاد تھیں ، صرف 7275 انتخاب کیں اور باقی تمام کو ناقابل اعتماد قرار دے دیا۔
آپ نے انتخاب کا معیار راویوں کی صداقت کو قرار دیا۔ امام بخاری اور رسول اللہ کے درمیان اڑھائی سو سال کا طویل زمانہ حائل تھا۔ چھ لاکھ احادیث، ہر حدیث کے کم از کم پانچ چھ راوی۔ یعنی تیس پینتیس لاکھ راوی، جن میں سے بیس پچیس لاکھ لازماً مر چکے ہوں گے۔ نہ ان کے حالات محفوظ ، نہ انھیں کوئی جاننے والا موجود۔ امام بخاری کو کیسے پتہ چل گیا تھا کہ اس کے تمام راوی سچے تھے۔ اور کہ انھوں نے زندگی بھر میں کوئی گناہ نہ کیا تھا اور نہ کبھی جھوٹ بولا تھا۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کے معاصر یحییٰ بن معین نے راویوں کے حالات قلمبند کئے تھے۔ لیکن ان کے متعلق بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ انھیں یہ حالات کس نے بتائے تھے۔ اور دو سو سال پہلے کے راویوں کے متعلق انھوں نے معلومات کہاں سے حاصل کیں تھیں ؟ اگر آج ہمیں کہا جائے کہ محلے کے تمام ان لوگوں کے حالات قلمبند کرو جو گذشتہ دو سال میں مر چکے ہیں، تو ہم کبھی نہ کر سکیں گے۔ ممکن ہے مجملاً ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں صاحب پابند صوم و صلوۃ تھے لیکن اس کے کردار کی صحیح تصویر کھینچنا ہمارے لئے نا ممکن ہو گا۔
علاوہ ازیں ہمارے سوانح نگاروں میں ایک خاص نقص بھی تھا ، کہ وہ کسی کے کردار پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے عادی نہیں تھے۔ ہمیشہ حسن ظن سے کام لیتے تھے۔ اور مبالغہ آمیز مدح سرائی پر اتر آتے تھے۔ اس وقت ذہبی کا تذکرۃ الحفاظ میرے سامنے پڑا ہے۔ جس میں ہزار ہا بڑے بڑے راویان و حفاظ حدیث کے حالات مرقوم ہیں۔ میں ایک دور کے چند راوی لے کر ذہبی کی زبانی ان کی کہانی سناتا ہوں۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ ہمارے بزرگوں کا اندازہ کردار نویسی میں کیا تھا؟
مثلاً
1۔ علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کے متعلق لکھتے ہیں
کان یصلی فی الیوم و اللیۃ الف رکعۃ
آپ رات دن میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ (تذکرۃ ص 46)
اگر سونے کھانے ضروری حاجات اور وضو کے لئے کم از کم آٹھ گھنٹے الگ کر لئے جائیں تو باقی سولہ گھنٹے بچتے ہیں۔ اگر ہر رکعت پر اوسطاً دو منٹ صرف ہوں تو یہ تینتیس گھنٹے اور بیس منٹ بنتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ سولہ گھنٹوں میں تینتیس گھنٹوں کا کام سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
2۔ مطرف بن عبداللہ (وفات 95ھ) کے متعلق لکھا ہے
کان راساً فی العلم و العمل
کہ آپ علم و عمل میں سردار تھے (تذکرۃ ص 55)
3۔ محمد بن سرین (وفات 110ھ) کے متعلق کہا
عزیز العلم۔ ثقۃ ۔۔۔ راس فی الورع
کہ آپ علم میں بے مثال ۔ قابل اعتماد۔۔ اور تقویٰ میں سردار تھے (تذکرۃ ص 67)
4۔ طاؤس بن کیسان (وفات 106ھ) کے متعلق فرمایا
کان راساً فی العلم االواع
کہ علم و تقویٰ میں سردار تھا (تذکرۃ ص 78)
5۔ ابو صالح ذکوان (وفات 110ھ) کے متعلق ارشاد ہوا
من اجل الناس و او ثقھم
سب سے بڑا اور سب سے زیادہ قابل اعتماد (تذکرہ 78)
6۔ شعبی کے متعلق کہا
مارایت اعلم و افقہ من شعیی
شعبی سے بڑا عالم اور بڑا عقلمند یا فقیہہ میں نے نہیں دیکھا (تذکرہ ص 70)
7۔ عکرمہ (وفات 107ھ) کے متعلق لکھا
ما بقی احد اعلم بکتاب اللہ من عکرمہ
کہ عکرمہ سے بڑا کتاب اللہ کا کوئی عالم موجود نہیں (تذکرہ ص 84)
8۔ القاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق (وفات 106ھ) کے متعلق فرمایا
مارایت فقیھا اعلم من القاسم
کہ میں نے قاسم سے بڑا فقیہہ نہیں دیکھا(تذکرۃ ص 84)
9۔ عطا بن ابی ریاح (وفات 114ھ) کے متعلق لکھا
مارایت افضل من عطاء
کہ میں نے عطاء سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا (تذکرۃ ص 84)
دیکھا آپ نے سوانح نویسی کا انداز۔ یہ سب محدثین ہمعصر تھے۔ ذہبی ہر ایک بے مثال ، سب سے بڑا عالم، سرادر قرار دے گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ہی زمانہ میں اور قریباً ایک ہی ملک کے سب لوگ بے نظیر و بے مثال نہیں ہوسکتے ۔ تو جن راویوں کے حالات ان مبالغہ پسند سوانح نگاروں نے اس فیاضی سے قلمبند کئے ہوں ، ان پر اعتماد کر کے کسی قول کو بالکل صحیح سمجھ لینا درست نہیں۔
10۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے موطا (امام مالک) کی ایک شرح لکھی تھی جس کا نام "مُصَفیٰ" ہے۔ اس کے آخر میں کوئی اشفاق الرحمان صاحب ، حضرت مالک کے حالات یوں قلمبند کرتے ہیں۔
" ۔۔۔۔۔ امام مالک نے اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ حدیث لکھی۔ نو سو اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ اور سترہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو کر درس دینا شروع کیا۔ جب موطا لکھ چکے تو اسے پانی میں پھینک کر کہنے لگے کہ اگر اس میں سچی احادیث ہیں تو یہ نہیں بھیگے گی۔ چنانچہ وہ نہ بھیگی۔ ایک دن حدیث پڑھا رہے تھے کہ بچھو کپڑوں میں گھس گیا۔ اس نے سولہ مرتبہ امام صاحب کو کاٹا۔ لیکن امام صاحب نے درس ختم کر کے ہی اس کی طرف توجہ دی"
ملاحظہ فرمایا آپ نے اس سوانح نگار کو حقیقت نگاری سے کتنی چڑ ہے۔ ہر فقرہ اپنی تردید آپ کر رہا ہے۔ نو سو اساتذہ سے پڑھا بھی اور پھر سترہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل بھی ہو گئے۔ کوئی پوچھے کہ اس زمانے میں نو سو اساتذہ عرب میں جمع کہاں سے ہو گئے تھے ؟ اگر بالفرض ہو ہی گئے تھے ، تو یہ نہ بتایا کہ امام مالک ہر استاد کے پاس کتنا عرصہ رہے تھے۔ اگر ایک استاد کے پاس صرف ایک مہینہ بھی بسر کیا ہوتا تو بھی ان کا زمانہ تعلیم 75 برس بنتا ہے۔ حالانکہ وہ سترہ برس کی عمر میں تعلیم ختم کر چکے تھے۔ اس گپ کے علاوہ کتاب نہ بھیگنے اور بچھو کاٹنے کا گپوڑا بھی قابل داد ہے۔
تو یہ ہیں وہ سوانح نگار ، جن کی تحریرات کو ہم وحی سمجھ کر بعض راویوں کو سچا اور بعض کو جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ اور پھر ان سچے راویوں کی احادیث ایک کتاب میں جمع کر کے اس کا نام رکھ دیتے ہیں "صحیح بخاری و صحیح مسلم" اور ساتھ ہی دنیا کو دھمکاتے ہیں کہ یہ وحی (خفی) ہے ۔ اگر تم ان کتابوں پر ایمان نہ لائے تو تمھارا نام جنتیوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ حضرت صدیقؓ اور فاروقؓ حدیثوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر فنا کر تے رہے۔ ان کے بعد کیا ہوا۔ اس سلسلے میں چند اور واقعات ملاحظہ فرمائیے۔
نمبر 3 ۔ حضرت عبداللہ ؓبن یسار فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت علیؓ نے تمام صحابہ کو جمع کر کے حکم دیا کہ یہاں سے واپس جانے کے بعد ہر شخص پہلا کام یہ کرے کہ جس کے پاس کوئی بھی تحریر ہو اسے مٹا ڈالے۔ کیوں کہ پہلی قومیں اپنے علماء کی احادیث پہ چلنے اور کتاب اللہ کو چھوڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو چکیں ہیں۔ (مختصر جامع بیان العلم ص 33)
نمبر4۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ ، ابی بن کعبؓ جیسے جلیل القدر صحابی کو روایت حدیث کی بنا پر پیٹنے پر تل گئے تھے۔ اور اسی جرم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت ابوذرؓ اور حضرت ابوالدارداؓ جیسے عظیم المرتبت اصحاب کو قید کر دیا تھا ۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد 1ص 7)
ان اصحاب کو یہ سزا اس لئے نہیں ملی ہو گی کہ لوگوں کو صحیح احادیث سنایا کرتے تھے ۔ بلکہ اس لئے کہ وہ صحیح و غلط میں امتیاز نہیں کر سکتے ہوں گے۔
نمبر 5۔ آج حضرت عبداللہ ا بن مسعودؓ کی طرف سینکڑوں احادیث منسوب ہیں۔ لیکن ابو عمرو الشیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود کی خدمت میں برسوں رہا۔ اور ان کے منہ سے کوئی حدیث نہ سنی۔ ہاں جب کبھی مجبوراً کوئی حدیث بیان کرنا پڑتی تو خوف سے کانپنے لگتے اور فرماتے ، رسول اللہ نے غالباً یوں فرمایا تھا یا یوں یا قریباً یوں ۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد 1 ص 14)
یہ حال تھا ان صحابہ کا، جن کے علم و فضل پر خود بارگاہ رسالت کو ناز تھا۔ اور جن کے فضائل و فواضل ساری امت کے لئے سرمایہ افتخار تھے۔ اندازہ لگا لیا آپ نے کہ یہ حضرات احادیث کے معاملے میں کس قدر محتاط واقع ہوئے تھے۔
نمبر 6۔ ابی اسحٰق مرۃ سے اور مرۃ عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ کہا کرتے تھے
"جب تمھیں حصول علم کی ضرورت پیش آئے تو قرآن پڑھو اس لئے کہ ا س میں اولین و آخرین کا علم موجود ہے" (تذکرۃ جلد 1 ص 12)
نمبر 7۔ ایک شخص نے ابی بن کعب سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے ، فرمایا
اتخذ کتاب اللہ و ارض بہ حکما
کتاب اللہ کو ہاتھ میں لو اور صرف اسی کے فیصلوں پر عمل کرو (تذکرۃ جلد 1 ص 15)
نمبر 8 ۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سینکڑوں احادیث کے راوی ہیں۔ لیکن علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ رحلت رسول کے وقت آپ کی عمر صرف 13 برس تھی۔ (تذکرۃ جلد 1 ص 34)
تیرہ برس تک کا بچہ کسی حد تک غیر ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسے کیا خبر کہ نبی دنیا میں کیوں آتا ہے؟ اس کے اقوال کو کیا اہمیت حاصل ہوتی ہے؟ اور اگر ان اقوال میں رد و بدل ہو جائے تو کیا نتائج پیدا ہوتے ہیں؟ اس طرح کے غیر ذمہ دار بچے اور آنحضرت صلعم میں اسناد کی کوئ اور کڑی قائم نہ کرنا اور خود انھیں عاقل ، بالغ ، ثقہ سمجھ کر رسول اکرام صلعم سے بلاواسطہ روایت کے قابل قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔
نمبر 9 ۔ ایک مرتبہ کاتب الوحی حضرت زید بن ثابتؓ معاویہ کے دربار میں گئے۔ امیر نے احادیث کی فرمائش کی۔ آپ نے چند احادیث سنائیں۔ اور منشی دربار ساتھ ساتھ لکھتا گیا۔ آپ نے وہ کاغذ لے کر پھاڑ ڈالا۔ اور فرمایا کہ رسول اللہ نے احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا۔ (بیان العلم ص 32)
نمبر 10 ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری عمر فاروق کے مکان پر گئے۔ تین آوازیں دیں اور واپس چل دئیے۔ حضرت فاروق باہر نکلے ، واپس جانے کا سبب پوچھا ۔ تو کہا !
"رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر گھر پر تین آوازیں دو۔ اگر صاحب خانہ نہ بولے تو واپس لوٹ جاؤ"
حضرت عمر نے کہا اس حدیث پہ فوراً شہادت پیش کرو ورنہ میں تمھیں سزا دوں گا۔ وہ گھبرائے ہوئے مسجد نبوی میں پہنچے اور خوش قسمتی سے انھیں شہادت مل گئی ، ورنہ شاید پٹ جاتے۔ (تذکرہ جلد1 ص6)
نمبر 11۔ اسود بن ہلال کوفی (وفات 84ھ) کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس ایک بیاض یا کتاب لے کر گیا جس میں کچھ احادیث درج تھیں۔ آپ نے پانی منگوا کر اس کتاب کو پہلے دھویا اور پھر جلا دیا۔ (جامع ص 33)
نمبر12 ۔ ضماک بن مزاحم (وفات 105ھ) فرمایا کرتے تھے
"وہ زمانہ جلد آ رہا ہے جب احادیث کی کثرت ہو جائے گی ، لوگ کتاب الٰہی کو ترک کر دیں گے۔ مکڑیاں اس پر جالے تانیں گی۔ اور وہ گرد و غبار کے نیچے یوں دب جائے گی کہ نظر تک نہ آئے گی" (جامع ص33)
نمبر13 ۔ عبدالرحمن بن الاسود بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ، علقمہ کے ہمراہ حضرت ابن مسعود کے ہاں گئے۔ اور ان کی خدمت میں ایک مجموعہ احادیث پیش کیا۔ آپ نے خادمہ کو آواز دی کہ ایک طشت میں پانی لاؤ۔ جب آ گیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اس مجموعے کو دھو ڈالا اور فرمایا
ان ھذہ القلوب اوعیۃ فا شتغلو ھا بالقرآن ولا تشتغلوھا بغیرہ
تمھارے دل برتنوں کی طرح ہیں ۔ ان میں قرآن کے سوا کوئی چیز مت ڈالو (جامع ص 33)
ایک مرتبہ آئر لینڈ کے شہر ہ آفاق شاعر برنارڈ شا نے اپنے یوم ولادت پر اپنی دو تین تصانیف پر دستخط کر کے انھیں نیلام کیا۔ اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ وہ دو تین چھوٹی چھوٹی کتابیں (موجودہ حساب سے) دو لاکھ چوبیس ہزار روپے میں فروخت ہوئیں۔برنارڈشا کی تحریرات کی تو یہ قدر ہو اور رسول کے اقوال کو ان کے فدائی جہاں پائیں دھو ڈالیں اور یا مٹا دیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ کیا ان لوگوں کو رسولؐ سے محبت نہیں تھی ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ محبت تو تھی لیکن وہ اقوال ، اقوال رسول نہ تھے۔
نمبر14 ۔ جریر بن عبدالحمید کہتے ہیں کہ منصور ،مغیرہ اور الاعمش جیسے محدثین ، کتابت احادیث کو گناہ سمجھتے تھے ۔ (جامع ص 34)
نمبر 15 ۔ قرظہ بن کعب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم عراق کو روانہ ہوئے ، حضرت فاروقؓ مقام حرار تک ساتھ آئے۔ وہاں نماز ادا کی۔ اور پھر فرمایا دیکھو میں ایک نہایت اہم بات کہنے کے لئے تمھارے ہمراہ یہاں تک آ یا ہوں۔ اور وہ یہ کہ عراق کی سرزمین سے تلاوت قرآن کی سریلی آواز یوں اٹھ رہی ہے جس طرح چھتے کے ارد گرد شہد کی مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ خدا کے لئے انھیں احادیث میں پھنسا کر قرآن سے دور نہ پھینکنا۔ (تذکرۃ الحفاظ ص 6 ۔ جامع بیان ص 174)
نمبر 16 ۔ رحلت حضور ؐ سے صرف تین برس پہلے حضرت ابو ہریرہؓ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ لیکن روایت احادیث میں سب سے بازی لے گئے۔ اور اسی سلسلے میں ایک مرتبہ پٹے بھی۔ واقعہ یوں ہے کہ آپ رسول اکرم صلعم کے ہاں تشریف لے گئے۔ حضور نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ جا اور ہر اس شخص کو جنت کی بشارت لے دے ، جس نے زبان سے لآ الٰہ کہہ دیا ہو۔ ابو ہریرہ باہر نکلے تو سب سے پہلے حضرت عمر بن خطاب سے ملاقات ہوئی اور یہ بشارت سنائی۔ حضرت عمرؓ نے ابو ہریرہ کی چھاتی پر گھونسا کھینچ مارا۔ جس سے وہ زمین پر گر پڑے۔ اور رونی صورت بنائے واپس دربار رسالت میں پہنچے۔ پیچھے پیچھے عمر بھی پہنچ گئے۔ حضورؐ نے پوچھا کہ اسے کیوں پیٹا ؟ کہا کیا آپ نے صرف لآ الٰہ کہنے پہ جنت کی بشارت دی ہے ۔
فرمایا ہاں ۔ عمر نے کہا ۔ از راہ نوازش ایسا نہ کیجئے ،ورنہ لوگ اعمال کو ترک کر دیں گے۔ فخلھم یعلمون (آپ لوگوں کو کام کرنے دیں) ۔ حضور نے فرمایا ، بہت اچھا۔ لوگوں کو کہہ دو کہ کام کریں (ملخص)
(صحیح مسلم ۔ کتاب الایمان۔ طبع مجتبائی ص 405 مع فتح الملہم)
ملاحظہ کیا آپ نے کتنی دلچسپ حدیث ہے۔ صرف دو لفظ (لآ الٰہ) منہ سے نکالو، اور جنت لے لو۔ نہ صوم نہ صلوۃ کی ضرورت ، نہ میدان جہاد میں لہو بہانے کی حاجت، نہ صدقہ و زکوٰۃ کے جھمیلے اور نہ جہاد اکبر و اصغر کے جھگڑے۔ دوسری دلچسپی یہ کہ حضرت فاروق بارگاہ رسالت کو حکم دیتے ہیں ولا تفعل فخلھم یعملون آپ لوگوں کو ایسی احادیث نہ سنایا کیجئے۔ مطلب یہ کہ ایسی احادیث سنا کر انھیں خراب نہ کیجئے۔ اور لوگوں کو کام کرنے دیجئے۔ یعنی مذہب کے معاملے میں حضرت فاروق سرور کائنات کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ اور لطف یہ کہ حضور اس حکم سے سرتابی کی جرات نہیں کر سکتے اور فرماتے ہیں فخلھم (بہت اچھا لوگوں کو کام کرنے دو)۔ بدیگر الفاظ رسول اکرم صلعم نے اعتراف فرما لیا کہ ان کی حدیث (من قال لا الہ) سے لوگ بے عمل ہو سکتے ہیں۔
غور فرمائیے کہ اس حدیث نے حضور پر نور کی منزلت کو کتنا کم کر دیا۔ کہ ان کا ایک طفل مکتب انھیں سیدھا راستہ دکھا رہا ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابو ہریرہ اس قسم کی احادیث تراشا کرتے تھے۔ بلکہ یہ ہے کہ یار لوگ گھڑ کر ان کا نام جڑ دیتے تھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ خود ابو ہریرہ بھی روایت میں قدرے غیر محتاط ہوں۔
علامہ ذہبی نے ان کا یہ فقرہ نقل کیا ہے۔
قال ابو ھریرۃ لمقد حدثنکم باحادیث لوحدثت بھا فی زمن عمر بن الخطاب لضر بنی بالدرۃ
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسی ایسی احادیث بیان کی ہیں کہ اگر عمر بن الخطاب کے زمانے میں روایت کرتا تو وہ مجھے دُرے سے پیٹ ڈالتے۔ (تذکرۃ الحفاظ ص 8)
کیوں پیٹ ڈالتے؟ سرور کائنات کا اسوہ بیان کرنے پر؟ کیا کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے؟ نہیں ۔ بلکہ مشتبہ احادیث کی روایت پر۔ حضرت عمر اسی لئے تو احادیث جلا دیا کرتے تھے۔ اور بڑے بڑے صحابہ کو اس جرم میں قید و بند کی سزا دیتے تھے۔ جس عمر نے ابوہریرہ کو حضور پر نور کی کی زندگی میں پیٹ ڈالا تھا ، اور جس نے رسول اکرم صلعم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہہ دیا تھا "حسبنا کتاب اللہ" وہ اپنے عہد خلافت میں ابوہریرہ یا کسی اور بزرگ کو روایت احادیث کی اجازت یسے دے سکتے تھے؟ ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ حدیث وحی غیرمتلو ہے۔ اس پر ایمان لائیے۔ میں اس قسم کے علماء سے صرف ایک سوال پوچھتا ہوں کہ آپ بڑے مسلمان ہیں یا حضرت عمرؓ؟ اللہ و رسول کی منشا سے وہ زیادہ باخبر تھے یا آپ ؟
حاشا وکلا کہ مجھے حدیث سے بغض نہیں۔ بلکہ انسانی اقوال سے ضد ہے۔ جنھیں یہودیوں ، زندیقوں اور ہمارے فرقہ باز رہنماؤں نے تراش کر مہبط الوحی صلعم کی طرف اس لئے منسوب کر دیا تھا کہ خدا ، رسول اور قرآن کا کوئی وقار دنیا میں باقی نہ رہے۔
ہمارے موجودہ علماء میں ایک دو بڑی بڑی خوبیاں موجود ہیں
اول: کہ ان کا دامن وضع احادیث کے داغ سے ملوث نہیں۔
دوم: انھیں سرورکائناتؐ سے گہری محبت ہے۔
اور دو خرابیاں بھی ہیں
اول: کہ ملکہ تنقید سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے وہ صحیح و غلط میں تمیز نہیں کر سکتے۔
دوم: وہ اسلاف پرستی اور اندھی تقلید کے امراض میں مبتلا ہیں۔ چونکہ ہمارے بعض اسلاف کہہ بیٹھے ہیں کہ صحیح بخاری کی ہر حدیث صحیح ہے اس لئے ہمارے علماء بخاری کی کسی حدیث کو ناقدانہ نظر سے دیکھنا یا معیار روایت پہ پرکھنا کفرسے کم نہیں سمجھتے۔ شیخ عبد الحق دہلوی کی رائے تھی کہ صحاح میں انسانی اقوال کی آمیزش ہے۔ علامہ ابن حجر کا خیال تھا کہ صحیح بخاری کی چالیس احادیث مشتبہ ہیں (ملاحظہ ہو حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا رسالہ الفرقان شاہ ولی اللہ ص 268 ، 276)
اور شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں
"میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)
نمبر 17 ۔ شعیب بن حرب (وفات 197ھ) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سفیان ثوریؒ کے ہاں حدیث کا ذکر چل پڑا تو آپ نے کہا
لوکان فی ھذا الحدیث خیر لنقص کما ینقص الخیر و لکنہ شر فاراہ یزید کما یزید الشر
اگر حدیث کوئی اچھی چیز ہوتی تو باقی نیکیوں کی طرح یہ بھی گھٹتی جاتی لیکن یہ بڑھ رہی ہے۔ اس لئے یہ ایک بدی ہے۔ (جامع ص 178)
نمبر 18 - جب سفیان بن عینیہ سے حدیث کی فرمائش کی گئی تو آپ نے فرمایا
ما ادری الذی تطبونہ من الخیر ، ولو کان خیراً لنقص کما ینقص الخیر
تم جس چیز کی تلاش میں ہو وہ کوئی نیکی نہیں ہے۔ اگر نیکی ہوتی تو باقی نیکیوں کی طرح کم ہوتی جاتی ۔ ( جامع 178)
نمبر 19 ۔ بکر بن حماد (دوسری صدی کا ایک شاعر) مضمون بالا کو یوں ادا کرتے ہیں
اری الخیر فی الدنیا یقل کثیرۃ وینقص نعتما و الحدیث یزید
و لوکان خیر اقل کالخیر کلہ فاحسب ان الخیر منہ بعید
میں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا میں نیکی کم ہو رہی ہے لیکن حدیث بڑھ رہی ہے۔ اگر حدیث اچھی چیز ہوتی تو باقی نیکیوں کی طرح یہ بھی گھٹتی جاتی۔ پس میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ حدیث کا نیکی سے کوئی تعلق نہیں۔ (توجیہ لنظر شیخ طاہربن صالح ص 11-18)
نمبر 20 ۔ بشران حارث کہتے ہیں کہ میں نے ابو خالد الاحمر الکوفی (وفات 196ھ) کو یہ فرماتے سنا
باقی علی الناس زمان تعطل لیما المصاحف لایفر فیھا و یطلبون الحدیث
ایک ایسا زمانہ بھی آ رہا ہے کہ لوگ قرآن شریف کو ایک طرف رکھ دیں گے اور احادیث کی تلاش میں نکل پڑیں گے۔ (جامع ص 180)
اور وہ زمانہ دوسری صدی سے شروع ہوتا ہے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ ساری امت قرآن سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ قوائے عمل پر اوس پڑ چکی ہے۔ ہر فرد حدیث کی ارزاں جنت کی تلاش میں ہے۔
سارا زور اوراد اور وظائف پر پہ صرف ہو رہا ہے۔ صرف وضو کرنے پہ گناہوں کی مغفرت ہو رہی ہے۔ چند الفاظ کے ورد پر زمرد اور موتیوں کے محل تیار ہو رہے ہیں۔ نماز میں ربنا لک الحمد کہنے پر زندگی کی تمام سیاہ کاریاں دھوئی جا رہی ہیں۔ اور حلوے کا ایک لقمہ کھلانے سے قبر کا عذاب ٹل رہا ہے۔ کہیے ، کہ اس قدر سستی جنت کو چھوڑ کر قرآن کے شمشیر و سناں ، صبر و ابتلا، خوف و جوع، ایثار و شہادت والے اسلام کے قریب کون جائے ؟ کون عمر بھر کی کمائی قوم کے حوالے کر دے۔دسمبر کی ٹھنڈی راتوں میں برفانی پہاڑوں پہ کون پہرہ دے۔ طیاروں کی بمباری کون سہے۔ ٹینکوں کے آگے میلوں کون بھاگے۔ اور گولیوں سے سینہ چھلنی کرا کے بہشت کون لے؟ کیوں نہ مسجد میں گھس کر کچھ وقت کے لئے اللہ اللہ کرے اور مرنے کے بعد سیدھا جنت میں چلا جائے۔
من قال سبحان اللہ و بحمدہ فی یوم مائتا مرۃ حطعت منہ خطا یاہ وان کانت مثل زیدۃ البحر
جو شخص دن میں سو مرتبہ "سبحان اللہ وبحمد" کا ورد کرے گا۔ اس کی تمام سیاہ کاریاں معاف ہو جائیں گی۔ خواہ وہ سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں ۔ (موطا امام مالک ۔ مطبع مجتبائی طبع 1345ھ ص 73)
موطا کے اسی صفحے پر ایک اور حدیث دی ہوئی ہے۔ جو موطا میں موقوف (حضورؐ تک نہیں پہنچتی بلکہ کسی صحابی کی رائے ہے) اور ترمذی و ابن ماجہ میں باقاعدہ حضور سے مروی ہے
عن ابی الدردا قال الا اخبرکم بخیر اعمالکم وارفعھا فی درجاتکم و خیر لکم من اعطاء الذھب و الورق و خیر لکم من ان تلقو عدوکم فتضربوا عناقکم و یفربوا اعناقھم۔ قالو بلیٰ۔ قال ذکر اللہ تعالیٰ۔
ابی االدردا (صحابی) کہتے ہیں کہ آؤ میں تمھیں بتاؤں کہ سب سے بہتر عمل جس سے تمھارے مدارج بہت بلند ہو جائیں ، کون سا ہے۔ ایسا عمل جو سونے اور چاندی کی قربانی اور جہاد سے بھی بہتر ہو ، وہ جہاد جس میں تم دشمن کا سر کاٹتے ہو اور وہ تمھارا، لوگوں نے کہا فرمائیے! کہا! اللہ کا ذکر۔
ہر صاحب علم جانتا ہے کہ حدیث کی دنیا میں موطا کا درجہ کتنا بلند ہے۔ اس بلند کتاب میں اس حدیث کو پڑھنے کے بعد کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے ملک و ملت کی حفاظت یا اپنی مستورات کی عزت و عصمت بچانے کے لئے سر دیتا پھرے۔ وہ غلام رہے یا آزاد اس کی بلا سے۔ ساری دنیا جنت کے لئے مرتی ہے۔ اور یہ نعمت اس کو زبانی خدا کی یاد سے مل سکتی ہے۔ پھر خوامخواہ دکھ کیوں اٹھائے اور اپنی لاش کو خاک و خون میں کیوں تڑپائے۔
نمبر 21۔ وکیع فرماتے ہیں کہ امام داؤد طائی سے کسی نے پوچھا کہ آپ احادیث کی روایت کیوں نہیں کرتے ۔ فرمایا
"میں بچوں کا کھلونا نہیں بننا چاہتا" (جامع ص 180)
نمبر22 ۔ ایک مرتبہ چند طلبائے حدیث حضرت فضیل بن عیاض کے ہاں درس حدیث لینے کے لئے آئے۔ آپ نے انھیں ان الفاظ میں ڈانٹ پلائی۔
انکم قد ضیعتم کتاب اللہ ولو طلبتم کتاب اللہ لوجد تم فیہ شفاء ثم قر یا ایھاالناس قد جاء تکم مر عظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمتہ للمومنین۔ قل بفضل اللہ و برحمتہ فیذلک فلیف حوا ھر خیر مما یجمعون
تم لوگوں نے اللہ کی کتاب کو ضائع کر دیا ہے اگر تم کتاب الٰہی کی تلاش کرتے تو اس میں تمھیں شفاء مل جاتی۔ اور اس کے بعد یہ آیت پڑھی۔ اے لوگو! تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ضابطہ حیات آ چکا ہے جس میں دل و دماغ کی تمام بیماریوں کا علاج درج ہے۔ اور اہل ایمان کے لئے ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی۔ اے رسول ان مسلمانوں سے کہہ دو وہ اللہ کی اس رحمت اور نعمت (قرآن) پر خوش ہوں اور یہ قرآن اس چیز (اس سے مراد حدیث بھی ہو سکتی ہے) سے اچھا ہے جسے وہ جمع کر رہے ہیں۔ (جامع ص 181)
تو جو کتاب شفاء بھی ہے، موعظت و رحمت بھی، اللہ کا فضل بھی ہے اور نعمت بھی۔ کیا وہ ہدایت کے لئے کافی نہیں؟
نمبر 23 ۔ اسی طرح ایک دفعہ چند طلباء نے حضرت فضیل بن عیاض کو درس حدیث کے لئے مجبور کیا۔ تو آپ نے فرمایا
لم تکر ھونی علی امر تعلمون انی کارہ لہ
تم مجھے ایسی بات پہ کیوں مجبور کر رہے ہو جس سے مجھے نفرت ہے (جامع ص 181)
نمبر 24۔ سفیان ثوری کا قول ہے
انا فی الحدیث منذ ستین سنۃ ودرت ان خرجت مند کفاناً لا علی ولالی
میں گزشتہ ساٹھ برس سے حدیث کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوں اور اب اس سے اس حالت میں نکلنا چاہتا ہوں کہ اس کے فائدے اور نقصان ہر دو سے محفوظ رہوں۔ (جامع ص 181)
نمبر 25۔ اس زمانے میں علمائے اسلام احادیث کی کثرت اور رنگ برنگی سے اس قدر گھبرا اٹھے تھے کہ یموت بن المزرع کو یہ فقرہ کہنے کی جرات ہو گئی تھی
اذا رایت شیخاً یعدوا فاعلم ان اصحاب الحدیث خلفہ
جب تم کسی عالم کو سرپٹ بھاگتا دیکھو تو سمجھ لو کہ طلبہ حدیث اس کا پیچھا کر رہے ہیں ۔ ( جامع ص 181)
نمبر 26 ۔ محمد بن سلام حضرت فاروقؓ کے اس قول کے راوی ہیں
ما رایت علماً اشرف و لا اھلا اخف من اھل الحدیث
میں نے حدیث سے بہتر کوئی علم اور اہل حدیث سے زیادہ ذلیل کوئی مخلوق نہیں دیکھی ۔ (جامع ص 181)
مطلب صاف ہے کہ اقوال رسول کی عظمت میں تو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا لیکن ان میں انسانی اقوال کی اس قدر آمیزش ہو گئی ہے کہ اس علم کے خزینہ دار بے قابو ہر کر رہ گئے ہیں۔
نمبر 27 ۔ سفیان بن عینیہ مسعر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے کہا
"خدا میرے دشمن کو محدث بنا دے"
ایک اور موقعہ پر فرمایا
"کاش علم حدیث میرے سر پر شیشوں کا ایک ٹکڑا ہوتا جو گر کر چُور چُور ہو جاتا"
نمبر 28۔ ایک دفعہ چند طلبہ حدیث سفیان بن عینیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں دیکھ کر فرمایا
انتم منخزذعینی
تم میری آنکھوں کی جلن ہو۔
اور ساتھ ہی کہا
"اگر آج عمر بن خطاب زندہ ہوتے اور ہم سب کو دیکھ پاتے ، تو ہمیں سزا دیتے"(جامع ص 182)
نمبر 29 ۔ ابن ابی عدی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام شعبہ نے فرمایا۔
"ایک زمانہ تھا کہ میں اصحاب حدیث سے مل کر خوش ہوتا تھا لیکن آج لیس شی ابغض الی من ان اری واحد امنھم میرے ہاں سب سے زیادہ قابل نفرت یہی لوگ ہیں" (جامع ص 182)
نمبر 30۔ یحییٰ بن سعید القطان البصری (وفات 198ھ) روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ چند طلبہ امام شعبہ کے پاس درس حدیث لینے کے لئے آئے۔ آپ نے چمک کر کہا۔
ان ھذا لحدیث لیصد کم عن ذکر اللہ فھل انتم منتھون
یہ حدیثیں تمھیں اللہ کے ذکر سے روکتی ہیں۔ کیا تم باز نہیں آؤ گے ؟ (جامع ص 182)
نمبر 31۔ سفیان بن الحسین فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایاس بن معاویہ سے میری ملاقات ہوئی، تو انھوں نے کہا
اراک تطلب الاحادیث التفسیر ایاک و الشناعتہ
میں دیکھ رہا ہوں کہ تم احادیث اور تفسیری اقوال کی تلاش میں پھر رہے ہو۔ خبردار ! اس کثافت سے بچو۔ (جامع ص 183)
نمبر 32 ۔ ایک مرتبہ امام الاعمش ؒ نے طلبہ حدیث سے کہا
"مجھے حدیث حنظل سے بھی زیادہ کڑوی معلوم ہو ، تم جس شخص کے قریب جاتے ہو، اسے جھوٹ بولنے (یعنی احادیث پڑھنے) کی ترغیب دیتے ہو۔ (جامع ص 183)
نمبر 33 ۔ ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں کہ ایک موقع پر مغیرۃ العنبی نے ارباب حدیث کے متعلق فرمایا
واللہ لانا اشد خوفاً منھم من الفساق
خدا کی قسم میں بدمعاشوں سے اتنا نہیں گھبراتا ، جتنا ان حدیث والوں سے (جامع ص 183)
نمبر 34 ۔ سعید القطان نے اپنے بیٹے کو کہا
لم تری الصالحین فی مثیی اکذب منھم فی الحدیث
کہ یہ صوفی و زاہد لوگ احادیث کے معاملے میں سب سے بڑے جھوٹے واقع ہوئے ہیں۔
(فتح الملہم شبیر احمد عثمانی طبع مجتبائی جلد 1 ص 132)
نمبر 35 ۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ تین قسم کی احادیث میں تحریف ہو چکی ہے۔ پیشین گوئیاں، جنگیں اور تفسیری احادیث۔ صرف باب التفسیر میں احادیث کی یہ کثرت ہے کہ ابن حنبل کے ایک دوست ابو زرعہ کو ایک لاکھ چالیس ہزار تفسیری احادیث یاد تھیں۔ (توجیہہ ص 11- 18)
[i] کتاب جامع بیان العلم از حافظ ابن عبدالبر طبع مصر 1320ھ ص 33۔
محمد لطیف چوہدری؛ http://www.ourbeacon.com/cgi-bin/bbs60x/webbbs_config.pl/md/read/id/314123119212917
.....................................................
حدیث کی حثیت :
اس موضوع کے اختتام سے پہلے مسئلے کا ایک اور پہلو سے جائزہ لیاجانا ضروری ہے۔ احادیث کے وحی ہونے یا نہ ہونے کی جہت سے بعض علماءِ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے دو حصے مقرر کر دیئے اور کہا کہ آپؐ کا ہر قول و فعل تو وحی نہیں البتہ آپؐ جب بحیثیت رسول احکام دے رہے ہوتے تھے تو وہ وحی پر مبنی ہوتے تھے۔ اس طرح آپؐ بحیثیت انسان اور بحیثیت رسول دو الگ الگ حیثیتیں رکھتے تھے۔ جب بحیثیت انسان خطاب کر رہے ہوتے تھے تو اس وقت وحی کی زبان میں کلام نہیں کرتے تھے البتہ بحیثیت رسول آپؐ ہمیشہ وحی کی زبان میں ہی کلام کیا کرتے تھے اور یہی حصہ واجب الاطاعت ہے۔ لیکن یہ نظریہ خود اپنے اندر شدید تضاد (self-contradiction) رکھتا ہے۔ مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، حجۃ البالغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور کتبِ حدیث میں مدون کیا گیا ہے اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ وہ امور جو امور تبلیغ رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: پیغمبر جو تم کو بتائے اس کی تعمیل کرو اور جس سے منع کرے اس سے باز آؤ۔ مَآ اٰتَکُمْ وَالرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاط۔ ایسے امور میں سے ایک حصہ علومِ معاد اور عالمِ ملکوت کے عجیب عجیب حالات کا ہے۔ یہ سب امور بواسطہ وحی کے ہی ہوا کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو ان میں کچھ دخل نہیں ہے اور انھی امور میں سے ایک حصہ احکامِ شرعی اور منافع کا وجود مذکورہ بالا میں سے کسی نہ کسی وجہ سے منضبط کرنے کا ہے۔ ان علوم میں سے بعض وحی کے ذریعے سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد سے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی وحی کے درجہ میں ہے۔۱۴۰
اب آپ صرف خط کشیدہ جملوں کو ہی دیکھیے کہ ان میں کیا کہا گیا ہے؟ پہلے خط کشیدہ جملے سے معلوم ہوتا ہے وحی کچھ اور ہے اور حضوؐر کا اجتہاد کچھ اور۔ دوسرے خط کشیدہ جملے میں پہلے تو یہی دہرایا گیا کہ ان علوم میں سے بعض وحی کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں اور بعض حضوؐر کے اجتہاد سے۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد سے الگ چیز ہے مگر اسی جملے میں اس بات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے کہ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی وحی کے درجہ میں ہے۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضوؐر کی شخصی اور پیغمبرانہ حیثیت میں فرق کرنے کا نظریہ خود اپنے اندر تضاد رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:
یہ بات مسلمات شریعت میں سے ہے کہ سنت واجب الاطاعت صرف وہی اقوال و افعالِ رسول ہیں جو حضوؐر نے رسول کی حیثیت سے کیے ہیں۔ شخصی حیثیت سے جو کچھ آپؐ نے فرمایا یا عمل کیا ہے وہ واجب الاحترام تو ضرور ہے مگر واجب الاتباع نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے حجۃ البالغہ میں باب بیانِ اقسام علوم النبیؐ کے عنوان سے اس پر مختصر مگر بڑی جامع بحث کی ہے۔ صحیح مسلم میں امام مسلم نے ایک پورا باب ہی اس اصول کی وضاحت میں مرتب کیا ہے اور اس کا عنوان رکھا ہے۔ ’’اس باب کے بیان میں کہ واجب صرف اُن ارشادات کی پیروی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرعی حیثیت سے فرمائے ہیں نہ کہ اُن باتوں کی جو دنیا کے معاملات میں آنحضورؐ نے اپنی رائے کے طور پر بیان فرمائی ہے‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حضوؐر کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت میں فرق کر کے یہ فیصلہ آخر کون کرے گا اور کیسے کرے گا کہ آپؐ کے افعال و اقوال میں سے سنت واجب الاتباع کیا چیز ہے اور محض ذاتی و شخصی کیا چیز؟ ظاہر ہے کہ ہم بطور خود یہ تفریق و تحدید کرلینے کے مجاز نہیں ہیں۔ یہ فرق دو ہی طریقوں سے ہو سکتا ہے یا تو حضوؐر نے اپنے کسی قول و فعل کے متعلق خود تصریح فرما دی ہو کہ وہ ذاتی و شخصی حیثیت میں ہے۔ یا پھر جو اصولِ شریعت آنحضوؐر کی دی ہوئی تعلیمات سے مستنبط ہوتے ہیں ان کی روشنی میں محتاط اہلِ علم یہ تحقیق کریں کہ آپؐ کے افعال و اقوال میں سے کس نوعیت کے افعال و اقوال آپؐ کی پیغمبرانہ حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں اور کس نوعیت کی باتوں اور کاموں کو شخصی اور ذاتی قرار دیا جاسکتا ہے۔۱۴۱
اس میں پہلی بات تو یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ مولانا محروم کے پہلے خط کشیدہ جملے میں اس بات سے صاف انکار کیا گیا ہے کہ ہم بطور خود یہ تفریق و تحدید کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں کہ ہم یہ متعین کرسکیں کہ حضوؐر کے کون سے افعال وا قوال ذاتی نوعیت کے تھے اور دوسرے پیغمبرانہ نوعیت کیے۔ لیکن دوسرے خط کشیدہ جملے میں بہرحال یہ اختیار ’’محتاط اہلِ علم‘‘ کو مل جاتا ہے۔ اس تضاد کی دراصل مجبوری یہ ہے کہ آپؐ نے بہت کم اِکا دُکا معاملات میں۔۔۔ اپنے افعال و اقوال کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ یہ ذاتی نوعیت کے ہیں یا نہیں۔ مثلاً جب آپؐ شرح زکوٰۃ مقرر فرما رہے تھے یا نصابِ زکوٰۃ کا تعین کر رہے تھے تو یقیناًآپؐ نے یہ نہیں بتایا کہ میں ذاتی حیثیت سے یہ کام کر رہا ہوں یا پیغمبر کی حیثیت سے۔ اسی طرح جب آپؐ نے حضرت زیدؓ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دو تو یہ نہیںّ بتایا کہ میں یہ کام ذاتی حیثیت سے کر رہا ہوں یا رسول کی حیثیت سے۔ لہٰذا مجبوری ہے کہ اس نظریئے میں تضاد اُبھر آئے اور دوسری بات یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ یہ کوئی معمولی معاملہ تو نہیں۔ اُمت کی ہدایت و رہنمائی کا معاملہ ہے۔ اس کی فلاح و کامیابی کا معاملہ ہے۔ جب حضوؐر کوئی کام کر رہے تھے یا حکم دے رہے تھے تو یہ ذمہ داری آخر کس کی بنتی ہے کہ وہ بتاتا کہ حضوؐر کے یہ افعال و اقوال کس نوعیت کے تھے؟ ظاہر بات ہے کہ ہر معقول شخص یہی جواب دے گا کہ یہ ذمہ داری حضوؐر ہی کی بنتی ہے کہ وہی ہم کو بتا جاتے کہ ان کے فلاں حکم یا فعل کو یہ حیثیت دو کیونکہ ’’ہم تو اس کے مجاز ہی نہیں کہ بطور خود یہ تفریق کر سکیں‘‘۔ اور جب ہم مجاز ہی نہیں تو ’’محتاط اہلِ علم‘‘ کس طرح اس کے مجاز ہوگئے؟ وہ غالباً ہم میں سے ہی ہوں گے!
دراصل واقعہ یہ ہے (صورتِ حال کی صحیح عکاسی محترم خرم مرادؒ نے کر دی ہے) کہ حضوؐر معلم بھی تھے‘ داعی اور قائد بھی تھے‘ حاکم اور سپہ سالار بھی تھے مگر آپؐ نے یہ سارے کام اپنے علم و فہم‘ عقل و شعور اور اپنے اصحاب کے مشورے سے کیے تھے لہٰذا آپؐ کے احکامات مبنی بروحی نہیں تھے۔ اب ہم مکمل طور پر اس نتیجے پر پہنچ جانے کے بعد کہ احادیث مبارکہ وحی نہیں ہیں جس طرح قرآن وحی ہے‘ ہم یہ دیکھیں گے کہ احادیث کی صحیح پوزیشن کیا ہے؟
احادیث کی حیثیت
اب اگر احادیث وحی نہیں ہیں تو ان کی اصل حیثیت کیا ہے؟ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اپنی کتاب ’’تدوین حدیث‘‘ میں لکھتے ہیں:
دنیا کی اسی تاریخ کے عظیم الشان‘ حیرت انگیز انقلابی حصہ کا نام‘ سچ پوچھیے تو حدیث ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جن انقلابات و حو ادث سے گزر کر نسلِ انسانی موجودہ حالت تک پہنچی ہے‘ ان میں ایک ایسا واقعہ کسی خاص شعبۂ حیات ہی میں نہیں بلکہ مذہبی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور اخلاقی ۔۔۔ تمام شعبوں میں انسانیت کا رُخ پلٹ دیا‘ جس سے زمین کا کوئی خاص حصہ نہیں بلکہ بلامبالغہ مشرق و مغرب دونوں متاثر ہوئے‘ ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ماضی کے اس مدہش حیرت انگیز واقعہ کی تاریخ یا تفصیلی بیان کا نام حدیث ہے۔۱۴۲
چند صفحات کے بعد اس تاریخ کو مسلمانوں ہی کی تاریخ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تاریخ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
آج جب علمی دنیا میں ’’فنِ تاریخ‘‘ ہر قسم کے احترام و اعزاز کا مستحق ہے تو ’’حدیث‘‘ جو صرف مسلمانوں ہی کی تاریخ نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا تمام دنیا کی انسانیت کے عظیم انقلابی عہدِآفریں دور کا ایک ایسا مکمل تاریخی مرقع ہے۔۔۔۱۴۳
اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں:
ماسوا اس کے سچ یہ ہے کہ بالکلیہ یہ میری تعبیر ہے بھی نہیں۔ فنِ حدیث کے سب سے بڑے امام‘ امام الائمہ حضرت امام بخاریؒ نے جو اپنی کتاب کا نام رکھا ہے اگر اسی پر غور کرلیا جائے تو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جو میں نے کہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ امام بخاریؒ کی کتاب آج تو صرف ’’بخاری شریف‘‘ کے نام سے مشہور ہے لیکن یہ اس کتاب کا اصلی نام نہیں ہے بلکہ خود حضرت امامؒ نے اپنی کتاب کا نام ’’الجامعُ الصحیحُ المسند المختصرُ مِنْ اُمُورِ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہُ عَلَیہِ وسلم واَیَّامِہٖ‘‘ رکھا ہے۔ اس میں ’’امور‘‘ اور ’’ایام‘‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی صحیح تعریف امام بخاریؒ کے نزدیک ان تمام امور کو حاوی ہے جن کا کسی نہ کسی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ہو۔ آگے ایام کے لفظ نے تو اس تعریف کو اور بھی وسیع کر دیا۔ یعنی وہی جات جو میں نے عرض کی تھی کہ فنِ حدیث دراصل اس عہد اور زمانہ کی تاریخ ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی ہمہ گیر‘ عالم پر اثرانداز ہونے والی ہستی انسانیت کو قدرت کی جانب سے عطا ہوئی۔ بہرکیف اگر اصطلاحی جھگڑوں سے الگ ہو کر پھل سے درخت کے پہچاننے کے اصول کو مدنظر رکھا جائے تو حدیث کے موجودہ ذخیرہ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد بھی ایک معمولی آدمی اس کا اندازہ کرسکتا ہے کہ حدیث کی صحیح حقیقت اور اس کی واقعی تعریف وہی ہو سکتی ہے جس کی طرف حضرت امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کے نام میں اشارہ فرمایا ہے اور میں نے جس کی تشریح کی ہے۔ تاریخ کے اس حصہ کی تدوین کس طرح اور کس زمانہ میں عمل میں آئی؟ اسی سوال کے جواب میں آپ کے سامنے وہ امتیازات اور خصوصیات بھی آجائیں گے جو تاریخ کے اس حصہ کو دنیا کے دوسرے تاریخی ذخیروں سے ممتاز کرتے ہیں۔۱۴۴
اسی کتاب میں دو ٹوک اندازم یں حدیث کی صحیح حیثیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ کہنا یقیناً مبالغہ نہ ہوگا کہ عہدِنبوتؐ میں ہی ہماری وہ تاریخ جس کا نام حدیث ہے اس کے کامل و ناقص زندہ نسخوں اور اڈیشنوں (اصحابؓ رسولؐ) کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی۔ کیا دنیا میں کوئی تاریخ یا کسی تاریخ کا کوئی حصہ ایسا موجود ہے جس کے عینی شاہد اتنی تعداد میں خود اس واقعہ کے مجسم آئینے بن کر دنیا کے سامنے پیش ہوئے ہوں؟۱۴۵
ان چاروں اقتباسات سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ احادیث کو ’’تاریخ‘‘کا مقام اور درجہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تاریخ اگر عہدنبوتؐ میں ہی لکھ لی جاتی یا اس کی عمومی اشاعت ہوجاتی تو قرآن اور اس تاریخ کے احکامات میں کوئی فرق باقی نہ رہ جاتا اس لیے مصلحتاً اس کی تدوین کو مؤخر کر دیا گیا۔ مثلاً وہ فرماتے ہیں:
اگر نبوت ہی کے عہد میں اس کثرت سے ان کے مکتوبہ مجموعے تیار ہوجائیں گے تو بتدریج ان حدیثوں سے پیدا ہونے والے احکام و نتائج میں اور قرآنی آیات سے پیدا ہونے والے احکام و نتائج میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔۱۴۶
اب اگر احادیث تاریخِ اسلام یا زیادہ صحیح الفاظ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک کی تاریخ ہے تو وحی خفی کی کیا حقیقت ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے؟ یا احادیث کے علاوہ بھی وحی خفی کہیں پائی جاسکتی ہے؟
ہم نے گذشتہ اوراق (وحی کی اقسام) میں دیکھا تھا کہ وحی کی کئی قسمیں ہیں۔ وحی انبیاء علیہم السلام کے علاوہ‘ عام انسانوں‘ جانوروں اور دوسری مخلوقات پر بھی نازل ہوتی ہے۔ اصطلاحی یا شرعی لحاظ سے تو وحی جو کتابی شکل میں محفوظ ہے‘ اب صرف قرآن مجید میں پائی جاتی ہے اور یہ وحی انسانی ہدایت کے لیے نازل کی گئی اور قیامت تک کے لیے ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے۔ وحی خفی‘ وحی کی وہ قسم ہے جس کا ہدایت عامہ سے کوئی تعلق نہیں‘ جو نبی پر بھی نازل ہو سکتی ہے‘ انسان۔۔۔ جانور اور غیرعاقل مخلوقات مثلاً زمین اور آسمان‘ سب ہی پر نازل کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن شاہد ہے۔ اس کے بارے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے (رسائل و مسائل‘ حصہ سوم ص ۳۴۸) میں ارشاد فرمایا کہ ’’یہ وحی انسانوں سے بڑھ کر جانوروں پر اور شاید اُن سے بھی بڑھ کر نباتات و جمادات پر ہوتی ہے‘‘۔ وحی خفی کے نام پر خواہ مخواہ اعتراض کرنا یا سرے سے حدیث کے پورے ذخیرے ہی کو ’’عجمی سازش‘‘ قرار دینا کوئی صحت مندانہ اندازِ فکر نہیں۔ درست رویّہ یہ ہے کہ تاریخ کسی کے ہاتھ سے بھی مرتب ہو جائے ایک قابلِ تحسین قدم ہے چاہے مرتب کرنے والا عربی ہے یا عجمی۔ البتہ وحی کی دوسری اقسام کا تعلق سراسر اسی خاص فرد‘ جانور یا غیرعاقل مخلوق سے ہوتا ہے جس کی رہنمائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کی حیثیت قرآن کی طرح ہو ہی نہیں سکتی اس لیے یہ قرآن میں لکھی ہی نہیں گئی۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیمات (جلد اول) میں ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’رسالت اور اس کے احکام‘‘۔ یہ مضمون دراصل محترم غلام احمد پرویز مرحوم کے ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ مضمون کی نوعیت اسی طرح کی ہے جو ایک بحث مباحثے میں ہوجایا کرتی ہے۔ تاہم اس میں وحی خفی کی حقیقت پر مولانا مرحوم نے اظہارِخیال کیا ہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر صرف کتاب ہی نازل نہیں کی جاتی تھی بلکہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ ہمیشہ وحی نازل کرتا رہتا تھا اور اسی وحی کی روشنی میں وہ سیدھی راہ چلتے تھے‘ معاملات میں صائب رائے قائم کرتے تھے اور تدبیریں عمل میں لاتے تھے۔* مثال کے طور پر دیکھیے:
نوح علیہ السلام طوفان کی پیش بندی کے لیے اللہ کی نگرانی میں وحی کے ماتحت کشتی بناتے ہیں (ہود:۳۷)۔ حضرت ابراہیم ؑ کو ملکوت سموات وارض کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے اور مُردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت دکھائی جاتی ہے۔
اسی طرح کی بہت سی مثالیں دینے کے بعد پوچھتے ہیں:
کیا ان میں سے کوئی بھی وحی ایسی ہے جو کتاب کی صورت میں ہدایت عامہ کے لیے نازل ہوئی ہو؟ یہ مثالیں اس امر کے ثبوت میں کافی ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی طرف اللہ تعالیٰ متوجہ رہتا ہے اور ہر ایسے موقع پر جہاں بشری فکرورائے کی غلطی کرنے کا امکان ہو اپنی وحی سے ان کی رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ اور یہ وحی اس وحی سے ماسوا ہوتی ہے جو ہدایت عام کے لیے ان کے واسطہ سے بھیجی جاتی اور کتاب میں ثبت کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے لیے ایک الٰہی ہدایت نامے اور دستور العمل کا کام دے۔
ایسی ہی وحی غیرمتلو اور وحی خفی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں۔۱۴۷
اس کے بعد مولانا محترم نے قرآن مجید سے متعدد مثالیں دی ہیں۔ ہمیں مولانا محترم کی تحریر کے اس حصے سے مکمل اتفاق ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں پر وحی ہو سکتی ہے‘ شہد کی مکھی پر وحی ہوسکتی ہے‘ زمین اور آسمان پر وحی ہوسکتی ہے‘ اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ وحی کی ان اقسام سے ہدایت عامہ مقصود نہیں‘ تو یہ بات مان لینے میں قطعاً کوئی حرج نہیں کہ چند مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آپؐ کی رہنمائی کے لیے اسی طرح کی ’’وحی خفی‘‘ نازل ہوئی ہو۔ اب چونکہ اس طرح کی وحی کا ہدایت عامہ سے کوئی تعلق نہیں‘ اسے انسانوں کے لیے ہدایت نامہ اور دستور العمل بننا ہی نہ تھا اس لیے اس کو کتاب میں ثبت نہیں کیا گیا۔ جس وحی کو انسانوں کے لیے ہدایت اور دستور العمل بننا تھا وہ قرآن مجید میں درج کی جاچکی ہے۔
اس طرح کی وحی خفی کی مثالیں احادیث میں بھی مل جائیں گی اور چند موقعوں پر قرآن مجید سے بھی اشارات مل جائیں گے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ احادیث کا سارا ذخیرہ اورآپؐ کے سارے احکامات ہی وحی خفی پر مشتمل ہیں۔ وحی خفی وہی ہو سکتی ہے جس کے لیے آپؐ نے خود تصریح کی ہو یا جس کی شہادت قرآن مجید دے رہا ہو۔ لیکن اس کی بھی حیثیت ہدایت عامہ کی نہیں ہوتی جیسا کہ خود مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ صرف انبیاء علیہم السلام کی ذاتی رہنمائی کے لیے ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ ہر جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عقل و فہم‘ شعور و ادراک اور اپنے اصحاب کے مشورے کے بعد فیصلہ فرمایا۔ قرآن مجید کے مجمل احکام کی تفصیلات طے کیں اور بعض نئے احکام دیے‘ یہ سارے احکام اپنی ضروریات‘ یعنی ظروف و احوال اور زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق تھے اور ان کا وحی سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا ان کو ہم ’’وحی خفی‘‘ یا ’’وحی غیرمتلو‘‘ کا نام نہیں دے سکتے۔ ایسے کلام‘ احکام اور قوانین کے متعلق بالکل درست فرمایا ہے جناب مولانا محمد ادریس میرٹھی نے۔ اپنی کتاب’’سنت کی تشریحی حیثیت‘‘ میںآپ لکھتے ہیں:
اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ظاہر ہے کہ ایک بشر کا کلام ہے جو ظروف و احوال کی قیود اور زمان و مکان کی حدود سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اس میں نہ وہ وسعت اور جامعیت ہوسکتی ہے نہ وہ احاطہ و استقصا۔ اس کا لازمی نتیجہ وضاحت و تفصیل ہے۔۱۴۸
نتیجۂ بحث: تغیر احوال و تغیر احکام
یہ تو طے ہے کہ وحی میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے وحی پر مبنی صرف وہ اصول و جزئیات مقرر کیے گئے ہیں جن پر زمان و مکان اور ظروف و احوال کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہی اصول و جزئیات کو قرآن میں درج کیا گیا اور اس کے بعد صرف قرآن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تاکہ اس میں کسی قسم کی تحریف ممکن نہ ہو سکے اور وہ تمام جزئیات قرآن سے باہر رکھی گئیں جو وحی پر مبنی نہیں تھیں۔ یہ اس لیے ہوا کہ زمان و مکان کے بدل جانے سے ان جزئیات کو حسبِ ضرورت تبدیل کیا جا سکے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ زندگی میں جمود طاری ہوجاتا۔ ظروف و احوال کا تقاضا کچھ اور ہوتا لیکن ہم ماضی میں سانس لے رہے ہوتے۔ چونکہ ایسا ناممکن ہے اس لیے یہ تضاد ہمیں زیادہ عرصہ جینے نہ دیتا اور سچ پوچھیے تو جمود موت ہی کا دوسرا نام ہے اور زندگی حرکت کا۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہو سکے گی۔ قرآن مجید میں بیسیوں مرتبہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ایک دفعہ بھی نصابِ زکوٰۃ کا تعین کیا گیا نہ شرح زکوٰۃ مقرر کی گئی۔ آخر کیوں؟ کیا نعوذ باللہ خالقِ کائنات سے کوئی بھول ہوگئی تھی یا اس میں کوئی مصلحت پوشیدہ تھی؟ آخر اس میں کیا امر مانع تھا کہ صرف ایک آیت میں نصابِ زکوٰۃ اور شرحِ زکوٰۃ کا ذکر کر دیا جاتا۔ اس سے قرآن کی ضخامت پر کوئی بھی اثر نہ پڑتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یقیناًخداوندعالم سے سہو و نسیان نہیں ہوا۔ اس میں حکمت و مصلحت ہے۔
اس مسئلے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے (یا کم از کم ان کا عدمِ اتفاق ہمارے علم میں نہیں) کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصابِ زکوٰۃ مقرر کرتے وقت اشیاء میں مساوات (parity) کو مدنظر رکھا تھا۔ مثلاً حضوؐر کے زمانے میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت ساڑھے سات تولے سونے کے برابر تھی۔ اس لیے آپؐ نے انھیں نصابِ زکوٰۃ قرار دیا۔ اور مسئلہ یہ ٹھہرا کہ ایک شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا ہو تو وہ صاحبِ نصاب ہوگا۔ اب آج صورت حال ملاحظہ ہو۔ ایک شخص کے پاس سات تولے سونا‘ جس کی قیمت تقریباً ساٹھ‘ ستر ہزار روپے ہے‘ ہو تو یہ شخص زکوٰۃ نہیں ادا کرے گا کیونکہ وہ صاحبِ نصب نہیں۔ اس کے برعکس دوسرا شخص جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی‘ جس کی قیمت دس ہزار روپے سے بھی کم ہے‘ ہو تو وہ زکوٰۃ ادا کرنے کا پابند ہے کیونکہ ڈیڑھ ہزار سال قبل نصاب یہی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامت تک غریب تو زکوٰۃ ادا کرتا رہے مگر اس سے زیادہ امیر اس فرض کی ادایگی سے ’’محفوظ‘‘ قرار پائے۔
یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ زمانے کے تغیر و تبدل نے سونے اور چاندی کی شرح مبادلہ (rate of exchange) میں تبدیلی پیدا کر دی۔ اب اگر یہ نصاب قرآن میں مذکور ہوتا‘ یعنی نصاب کا تعین وحی کے ذریعے سے کر دیا گیا ہوتا‘ تو اس میں تبدیلی ممکن نہ تھی اور حکومتِ وقت قیامت تک غریب سے زکوٰۃ لیتی رہتی اور امیر کو نہ چھیڑتی۔* یہی وجہ ہے کہ یہ جزئیہ قرآن مجید میں درج نہیں ہوا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عملی انسان کی حیثیت سے اپنے زمانے کے حالات کے تحت‘ اپنے ہی زمانے کی شرح مبادلہ کے مطابق نصابِ زکوٰۃ اور شرحِ زکوٰۃ مقرر کر دیا۔ اسی سے یہ ثابت ہوا کہ حضوؐر کے احکام ظروف و احوال کی قیود اور زمان و مکان کی حدود سے ماورا نہیں ہو سکتے۔ فلہٰذا وحی نہیں قرار دیے جا سکتے۔ تغیر احوال کا لازمی نتیجہ تغیر احکام ہے۔ اس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضوؐر کے عہدمبارک میں تو تغیر احوال کی وجہ سے تغیر احکام‘ جسے نسخ بھی کہا جاتا ہے‘ ہوتا رہے مگر اس کے بعد صدیوں تک بلکہ قیامت تک تغیر احوال کا تصور ہی نہ ہو! یا اگر تغیر احوال کو تو مانا جائے مگر اس کے لازمی نتیجے یعنی تغیر احکام کا انکار کر دیا جائے!! اس ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تغیر احوال کی وجہ سے اور تو اور تعبُّدی امور میں بھی عہدِصحابہؓ میں ردّ و بدل اور کمی و بیشی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ ہم صرف ایک کا ذکر کریں گے۔(پوری بحث کے لیے دیکھیے رسائل و مسائل‘ حصہ پنجم‘ص ۲۱۴ تا ۲۳۷۔ از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ )
مولانا محترم لکھتے ہیں:
بخاری‘ نسائی‘ ابوداؤد‘ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت سائبؓ بن یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کے عہد میں جمعے کی پہلی اذان اسی وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر جب حضرت عثمانؓ کا زمانہ آیا اور آبادی بڑھ گئی تو انھوں نے تیسری اذان (پہلی دو۔ اذان اور تکبیر اقامت کہلاتی تھیں) یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر آنے سے پہلے دی جاتی ہے‘ کا حکم دیا جو زَوْراء کے مقام پر دی جاتی تھی۔
بخاری کی ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ جمعہ کے روز تیسری اذان کا اضافہ کرنے والے حضرت عثمانؓ تھے‘ جبکہ اہلِ مدینہ کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے حکم دیا کہ پہلی اذان اس مقام پر دی جائے جس کا نام زَوْراء تھا۔ پھر جب وہ منبر پر بیٹھ جاتے تھے تو اُن کا موذن اذان دیتا تھا اور جب وہ منبر سے اُترتے تھے تو مؤذن تکبیر اقامت کہتا تھا۔ یہ تعبُّدی امور کے دائرے میں ماثور و مسنون عمل پر ایک صریح اضافہ تھا جو خلیفۂ برحق نے ایسے زمانے میں کیا تھا جبکہ صحابہؓ و تابعینؒ سے دنیائے اسلام بھری پڑی تھی مگر اس کی مخالفت تو کیا ہوتی‘ اسلامی دنیا کے بلاد و امصار میں وہ مقبول ہوگئی۔۱۴۹
اس اقتباس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیکی زمانے میں بھی حالات میں تبدیلی آگئی تھی اور اتنی تبدیلی بہرحال آگئی تھی کہ خلیفۂ برحق کو حضور اکرمؐ کے حکم‘ وہ بھی تعبُّدی حکم‘ میں اپنے زمانے کے حالات کے مطابق تبدیلی کرنی پڑی۔ اب کیا یہ ذہن میں آنے والی بات ہے کہ عہدرسالتؐ میں اور عہدصحابہؓ میں، یعنی تقریباً تین دہائیوں تک تو حالات میں تبدیلیاں آتی رہیں‘ لیکن اس کے بعد پندرہ سو سال کا عرصہ گزر چکا لیکن زمانہ اور حالات وہیں کے وہیں رہیں اور ہم زبانِ حال اور زبانِ قال سے یہ اعلان کرتے رہیں کہ اب تغیرات نہیں آتے!!
بہرحال اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے حالات کے تحت حضور اکرمؐ کے جس حکم کو تبدیل کیا تھا وہ وحی پر مبنی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جزئیات میں تبدیلی صرف اسی صورت میں جائز ہے جب حالات میں تبدیلی آچکی ہو ورنہ وہی جزئیہ نافذ العمل رہے گا۔ اسی سے تغیر و ثبات کا حسین امتزاج قائم رہ سکتا ہے۔ قرآنی احکام و اوامر زمانے کے ہر دور کے لیے ہیں کیونکہ وحی پر مبنی ہیں (ملاحظہ ہو‘ حوالہ نمبر ۱۳۷)۔ قرآن سے باہر جزئیات وحی پر مبنی نہیں ہیں اس لیے اگر حالات میں تبدیلی آجائے تواِن میں تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے یہی کیا۔ حضرت عمرؓ کے عہدِمبارک میں تو درجنوں معاملات میں ایسی جزئیات میں تبدیلیاں لائی گئی تھیں جو اوّلیات عمرؓ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان میں سے صرف چند کا ذکر کرنا کافی ہوگا۔
مولانا خلیل احمد حامدیؒ ،جو پاکستان کی تحریکِ اسلامی کے قائد اور عربی زبان کے نامور عالم تھے‘ اپنے ایک اہم مضمون ’’اسلام کا نظامِ قضا‘‘ میں لکھتے ہیں:
اسی طرح طلاق ثلاثہ کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ آپؓ (حضرت عمرؓ) نے اس کے برعکس ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو ایک ہی طلاق کے بجائے اسے تین طلاق ہی شمار کیا۔۱۵۰
مولانا نجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شرابی لایا گیا تو آپؐ نے اس کو کھجور کی چھال یا ریشے کی بنی ہوئی چھڑی یا کوڑے سے تقریباً چالیس ضرب ماری۔ یہی طرزعمل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اختیار کیا مگر حضرت عمرؓ نے اسّی کر دیا۔ ۱۵۱
اسی طرح عہدنبویؐ میں امہات اولاد کی فروختگی پر پابندی‘ اور صبح کی اذان میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کے جملے کا اضافہ‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن شرائط پر باشندگان نجران سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ وہاں رہ سکتے ہیں‘ بعد میں حضرت عمرؓ کے حکم سے ان کی جلاوطنی‘ ان چند اولیاتِ عمرؓ میں شامل ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان احکامات میں تبدیلی صرف اس لیے ہی ممکن ہو سکی تھی کہ حالات کا تقاضا تھا‘ اور یہ احکامات وحی پر مبنی نہیں تھے۔ اس کی وجہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ:
تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف خداوند عالم ہے جس کے پاس حقیقی علم ہے اور جس علم میں زمانہ کے تغیرات سے ذرہ برابر کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔۱۵۲
مولانا مرحوم اپنے ایک مضمون ’’تدوین جدید اور اس کے تقاضے‘‘ جو ’’چراغِ راہ‘‘ کے اسلامی قانون نمبر میں شائع ہوا تھا‘ لکھتے ہیں:
اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد (static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانہ اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدون کیا گیا ہو اس صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانہ اور حالات اور مقامات کے بدل جانے پر بھی اس صورت میں کوئی تغیر نہ کیا جا سکے۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں بلکہ ہم کہیں گے کہ وہ اسلامی قانون کی روح ہی کو نہیں سمجھے ہیں۔۱۵۳
مولانا محترم کا یہ اقتباس ہم نے محض اس بات کی تائید کے لیے پیش کیا ہے کہ زمانہ‘ حالات اور مقامات کے بدل جانے سے کوئی قانون ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ’’تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد صرف خداوندعالم ہے‘‘۔ ہم نے یہ اقتباس اس لیے نہیں پیش کیا کہ مولانا محترم بھی اس بات کے قائل تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعین کردہ جزئیات میں تبدیلی جائز ہے۔ سنت کی آئینی حیثیت میں مولانا محترم نے بڑا واضح اسٹینڈ لیا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد کہ تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد صرف خداوند عالم ہے اور نیز یہ کہ کسی خاص زمانہ کے لیے کسی قانون کا مدون کیا جانا اور ہر دور کے لیے اسے اسی صورت پر قائم رکھنے پر اصرار کرنا جبکہ زمانہ‘ حالات اور مقامات بدل چکے ہوں‘ اسلامی قانون کی روح سے ناواقفیت کی دلیل ہے‘ مولانا محترم کا وہ اسٹینڈ جو انھوں نے سنت کی آئینی حیثیت میں لیا ہے‘ خاصا کمزور ہوجاتا ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا محترم کے مندرجہ بالا دونوں اقتباسات ہر لحاظ سے درست اور قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ حضوؐر کی متعین کردہ جزئیات میں بھی تبدیلی جائز اور ممکن ہے کیونکہ آپؐ تو بہرحال زمانی و مکانی قیود سے آزاد نہیں ہو سکتے تھے۔
اسلام کی اسی خصوصیت کی وجہ سے یہ آفاقی دین قرار دیا جا سکتا ہے‘ جس کا کسی خاص علاقے‘ زبان‘ نسل یا زمانے سے تعلق نہ ہو اور ہر دور کے لوگ اپنے اپنے معروضی حالات کے مطابق قرآنی اصولوں کی روشنی میں تفصیلی قانون سازی کر سکتے ہوں۔
یہ ایک حقیقت ہے جس سے منہ موڑنا تقریباً ناممکن ہے کہ قرآن کی اسپرٹ اور اصول غیرمتبدل ہیں۔ لیکن عملی زندگی کے احوال تغیر پذیر ہیں لہٰذا ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر کے ساتھ بالکل اسی طرح بدلنا ضروری ہے جس طرح عہدنبویؐ میں اور دورِصحابہؐ میں ان اصولوں کو منطبق کرتے ہوئے گذشتہ عہد کی جزئیات حسبِ حال تبدیل کی جاتی رہیں ورنہ وہ جمود جو ہمارے علوم اور قوانینِ حیات پر طاری ہے مزید مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔ ماضی کو یاد تو کیا جا سکتا ہے‘ اس کی تحسین بھی کی جاسکتی ہے مگر ماضی میں رہا نہیں جاسکتا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس حقیقت کو ۱۹۳۷ء میں ہی سمجھ لیا تھا۔ وہ چودھری نیاز علی خاں صاحب کو ایک مکتوب* میں لکھتے ہیں:
ہم خالص قرآن کی بنیاد پر اسلام کی (renaissance) نشاۃِ جدیدہ چاہتے ہیں۔ قرآن کی اسپرٹ اور اسلام کے اصول ہمارے نزدیک غیرمتبدل ہیں۔ مگر افکار اور معلومات کی ترتیب اور عملی زندگی کے احوال پر اس روح اور ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر اور علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلنا ضروری ہے۔ متقدمین اسلام اس چیز کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنے زمانہ میں عملاً اس کو برتا مگر متاخرین یہ سمجھے کہ اصول اور اسپرٹ کی طرح ان کا انطباق بھی غیرمتبدل ہے۔ اس چیز نے وہ جمود پیدا کیا جو سات سو برس سے ہمارے علوم اور ہمارے قوانینِ حیات پر طاری ہے۔۱۵۴
مولانا محترم نے یہ خط ۱۲ محرم ۵۶ھ بمطابق ۲۶ مارچ ۱۹۳۷ء کو لکھا تھا۔ اس وقت اُن کے نزدیک یہ بالکل واضح تھا مگر اس کے ساتھ ہی وہ اس کو کوئی آسان کام بھی نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اسی خط میں آپ نے یہ بھی لکھا کہ:
یہ کام بالکل نیا ہے اور ماضی و حال دونوں میں اس کے لیے پہلے سے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ اس لیے اِس نتیجہ کو اکثر لوگ مشکوک ہی پائیں گے اور خود آپ کو بھی اس کے لیے صحیح راستہ متعین کرنے میں دقتیں پیش آئیں گی مگر چونکہ مقصود بالکل واضح طور پر ہمارے سامنے متعین ہوچکا ہے اس لیے تمام مشکلات کے باوجود سیدھا راستہ ہم کو ضرور مل جائے گا۔۱۵۵
اگر یہ بات درست ہے (اور ہمارے نزدیک تو یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے) کہ احادیث نبوی یا۔۔۔ اسوۂ رسول۔۔۔ وحئ خداوندی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذاتی بصیرت کا نتیجہ ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو حالات عہدِرسالتؐ میں دنیائے اسلام کے تھے اگر ان میں تبدیلی آگئی ہو تو ان تبدیل شدہ حالات کے مطابق احکام میں تبدیلی ضروری ہے اور یہ عین اسوۂ رسولؐ ہے۔ اس موضوع کو ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہی کے اقتباس پر ختم کرتے ہیں:
یہ حقیقت یقیناً ناقابلِ انکار ہے کہ شارع نے غایت درجہ کی حکمت اور کمال درجے کے علم سے کام لے کر اپنے احکام کی بجاآوری کے لیے زیادہ تر ایسی ہی صورتیں تجویز کی ہیں جو تمام زمانوں اور تمام مقامات اور تمام حالات میں اس کے مقاصد کو پورا کرتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بکثرت جزئیات ایسے بھی ہیں جن میں تغیر حالات کے لحاظ سے احکام میں تغیر ہونا ضروری ہے۔ جو حالات عہدِرسالتؐ اور عہدِصحابہؓ میں عرب اور دنیائے اسلام کے تھے‘ لازم نہیں کہ بعینہٖ وہی حالات ہر زمانے اور ہر ملک کے ہوں۔ لہٰذا احکامِ اسلام پر عمل کرنے کی جو صورتیں اُن حالات میں اختیار کی گئیں تھیں‘ ان کو ہوبہو تمام زمانوں اور تمام حالات میں قائم رکھنا اور مصالح و حکم کے لحاظ سے ان کے جزئیات میں کسی قسم کا ردّ و بدل نہ کرنا ایک طرح کی رسم پرستی ہے جسے روحِ اسلامی سے کوئی علاقہ نہیں۔ ایک موٹی سی مثال لے لیجیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے سورج کی حرکت کے لحاظ سے اوقات مقرر فرمائے ہیں۔ اس لیے کہ عرب اور ربع مسکوں کے بیشتر حصوں کے لیے تعین اوقات کی یہی صورت مناسب ہے لیکن اگر کوئی شخص قطب شمالی کے قریب رہنے والوں کے لیے بھی نمازوں کے اوقات معین کرنے میں وہی سورج کے طلوع و غرب اور سایہ کے اُتار چڑھاؤ کا لحاظ کرے تو بظاہر یہ شارع کے منصوص احکام کی حرف بحرف پیروی ہوگی‘ مگر درحقیقت اس سے شارع کا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور اس کا شمار خلاف ورزی احکام میں ہوگا کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ترک صلوٰۃ اور اسقاطِ فرض ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جزئیات میں دلالۃ النص اور اشارۃ النص تو درکنار‘ صراحتہ النص کی پیروی بھی تفقہ کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ اور تفقہ کا اقتضا یہ ہے کہ انسان ہر مسئلہ میں شارع کے مقاصد اور مصالح پر نظر رکھے اور انھی کے لحاظ سے جزئیات میں تغیر احوال کے ساتھ ایسا تغیر کرتا رہے جو شارع کے اصولِ تشریح پر مبنی اور اس کے طرزِ عمل سے اقرب ہو۔۱۵۶
حاصل بحث
۱۔ انسانی علم محض اندازوں پر قائم ہے۔ پوری انسانی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ قطعی حقیقت کا ادراک ممکن ہی نہیں جب تک کہ تمام محسوس کائنات کا علم نہ حاصل ہوجائے۔ انسانی علم کے پاس صداقت کی کوئی کسوٹی ہے نہ معروضی پیمانہ جس کے مطابق کسی کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے انسانیت کے لیے کوئی ضابطۂ حیات دینے سے بالکل معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔ مجبوراً مغربی مفکرین تک کو یہ کہنا پڑا کہ ہمیں یہ بات اب قبول کرلینی چاہیے کہ جس طرح مثالی حکمرانوں کا کوئی وجود نہیں اسی طرح علم کے مثالی ذرائع بھی موجود نہیں لہٰذا انسانی مسائل کے لیے ایسے علم کی ضرورت ہے جو ماورائے بشر ہو۔
۲۔ انسانوں ہی کے طبقہ میں ایک گروہ ایسے متحد الخیال افراد کا گزرا ہے جو اگرچہ مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اس کے باوجود بنیادی امور میں متفق تھے۔ اُن کا دعویٰ یہی تھا کہ اُن کے پاس جو علم آیا ہے اس کا انسانی حواس سے کوئی تعلق نہیں‘ وہ ماورائے بشر ہے۔ اس علم کو وحی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ہر دور اور ہر قوم میں ایسے افراد آتے رہے جو انسانوں کو رشد و ہدایت کی تعلیم دیتے رہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جو وحی انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتی تھی وہ محدود طبقے اور محدود زمانے کے لیے تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی زمانے میں ایک سے زیادہ انبیائے کرام مبعوث ہوتے رہے کیونکہ ذرائع رسل و رسائل کی عدم موجودگی میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی ایک عالمگیر وحی نازل کرکے اس کی حفاظت کی جاتی۔ ممکن ان معنوں میں کہ بہرحال اللہ اس دنیا میں اسباب کے ذریعے ہی کاروبارِ حیات کا انتظام کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ زبور‘ تورات اور انجیل میں تحریف ممکن ہوسکی۔
۳۔ آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی‘ اس کو چونکہ قیامت تک کے لیے ہدایت عامہ کا ذریعہ بننا تھا اس لیے اس کی حفاظت کا براہِ راست اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا۔ اس کی حفاظت کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک طرف تو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس وحی کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا تو دوسری طرف اللہ کے نبیؐ نے اس وحی کو لکھوا کر محفوظ کروایا۔ اللہ کی وحی پر مبنی یہ وہ واحد کتاب ہے جو حضوؐر کے عہدِمبارک سے لے کر آج تک ہر دور میں ہر قسم کے تغیرات سے پاک رہی ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں پائی جاتی جو اس قدر قطعی الثبوت ہو۔
۴۔ چونکہ اس کتاب کو قیامت تک کے لیے واجب الاطاعت اور رشد و ہدایت کا ذریعہ بننا تھا‘ مگر ارتقائے زمانے کے ساتھ ساتھ اس کے اقتضاء ات و مصالح میں گوناگوں تغیرات و اختلافات ناگزیر ہیں‘ اس لیے یہ ضروری تھا کہ دائرہ کے نقطہ کی طرح قرآنی احکام و اوامر اپنی جگہ ثابت رہتے‘ لیکن اس قیام و ثبات کے باوجود ان میں جمود و تعطل نہ ہوتا بلکہ زمانے کے اقتضاء ات و تغیرات کے ساتھ وہ حرکت پذیر رہتے اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا جب قرآن میں صرف ان ہی اصول و کلیات پر اکتفا کیا جاتا جن کے دامن میں قیامت تک کی جزئیات سمٹی ہوئی ہیں‘ مگر ان جزئیات کو قرآن میں درج نہ کیا جاتا اور یہی قرآن نے کیا ہے۔
۵۔ قرآن چونکہ وحی الٰہی پر مشتمل ہے‘ اس لیے اس کے اصول و جزئیات غیرمتبدل ہیں۔ مگر افکار اور معلومات کی ترتیب اور عملی زندگی کے احوال پر قرآنی روح اور ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر اور علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلنا ضروری ہے۔ چنانچہ وہ جزئیات جن پر زمان و مکان اور تغیر احوال کے اثرات پڑسکتے تھے‘ قرآن میں نہیں رکھی گئیں۔ ایسا کرنا کسی بھول چوک یا سہو کا نتیجہ نہیں تھا‘ بلکہ مبنی برمصلحت تھا اور وہ مصلحت یہی ہو سکتی ہے کہ وحی میں تو چونکہ تبدیلی ممکن نہیں‘ اس لیے ان جزئیات کو وحی نہیں قرار دیا گیا۔ لہٰذا اب ایسی جزئیات جو قرآن میں نہیں تغیر احوال کے مطابق ان میں تغیر ممکن اور لازمی ہے۔
۶۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ایک عملی انسان ہونے کے ناطے یہی کیا۔ آپؐ نے قرآنی اصولوں کو اپنے ملک اور عہد کے خصوصی حالات کے مطابق منطبق کیا اور صرف وہ جزئیات مقرر فرمائیں جن کی ضرورت تھی۔ آپؐ آنے والے زمانے اور حالات کے متعلق جزئیات متعین نہیں فرما سکتے تھے کیونکہ تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف خداوندِعالم ہے جس کے پاس حقیقی علم ہے اور جس کے علم میں زمانہ کے تغیرات سے ذرہ برابر کوئی تغیر نہیں ہوتا‘‘۔لیکن چونکہ ’’اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد(static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانہ اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدون کیا گیا ہو اس صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانہ اور حالات اور مقامات کے بدل جانے پر بھی اس صورت میں کوئی تغیر نہ کیا جا سکے‘‘، اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مقرر کردہ جزئیات کو‘ وحی نہ ہونے کی وجہ سے قرآن میں تو خیر درج کروا ہی نہیں سکتے تھے‘ الگ ایک مجموعے کی صورت میں بھی لکھوا کر اُمت کو سپرد کیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
۷۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تغیر احوال کے مطابق تغیر احکام ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عہدرسالت اور عہدصحابہ میں عرب اور دنیائے اسلام کے جو حالات تھے وہ بعینہٖ ہر دور اور ہر ملک کے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا احکام اسلام پر عمل کرنے یا قرآنی اصولوں کو اُس دور پر منطبق کرنے کی جو صورتیں اُن حالات میں اختیار کی گئی تھیں اُن کو ہوبہو تمام زمانوں اور تمام حالات میں قائم رکھنا اور مصالح و حکم کے لحاظ سے ان جزئیات میں کسی قسم کا ردّ و بدل نہ کرنا اسوہ رسول کی پیروی نہیں بلکہ محض ایک طرح کی رسم پرستی ہے اور یہی چیز اس دور میں اسلامی نظام کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
۸۔ لہٰذا انسانیت کی فلاح اور بقا کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ بنی نوع انسان لپک کر وحی خداوندی کو سینوں سے لگا لیں۔ یہ وحی اپنی اصل حالت میں اب صرف قرآن مجید میں محفوظ ہے جو ہدایت عامہ کے لیے خداوندعالم کا عظیم تحفہ ہے۔
ہٰذا ما عندی والعلم عند اللّٰہ ، علیہ توکلت والیہ انیب
حوالہ جات:
۱۴۰۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ : حجۃ البالغہ (اردو) مترجم مولانا عبدالحق حقانی‘ ص ۲۰۷
۱۴۱۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : سنت کی آئینی حیثیت‘ ص ۵۳۔۵۴
۱۴۲۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ : تدوینِ حدیث‘ ص ۴۔۵
۱۴۳۔ ایضاً‘ ص ۷۔۸
۱۴۴۔ ایضاً‘ ص ۹۔۱۰
۱۴۵۔ ایضاً‘ ص ۴۴
۱۴۶۔ ایضاً ‘ ص ۲۴۲
* اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات انبیاء علیہم السلام کی اس معنی میں رہنمائی کرتا ہو جب وہ کوئی غلط کام کربیٹھیں۔ یا جب کوئی بالکل ہی نئی بات سمجھانے کی نوبت آجائے مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم۔ مگر یہ کہنا درست نہیں ان کی ہدایت کے لیے ہمیشہ وحی نازل کی جاتی تھی تاکہ وہ سیدھی راہ چلیں‘ تدبریں عمل میں لائیں یا معاملات میں صائب رائے قائم کریں۔ نعوذباللہ کیا انبیاء ؑ عام انسانوں سے بھی کم عقل و فہم رکھتے تھے کہ ہر قدم پر ان کو انگلی پکڑ کر چلانے کی نوبت آتی؟ ان حالات میں ہمارے لیے انبیاء ؑ کو اسوہ بنانا تو ناممکن ہوگا کیونکہ وہ سیدھی راہ تو اس لیے چلے کہ ان پر وحی آتی تھی۔ معاملات میں صائب رائے اس لیے قائم کرتے تھے کہ اُن پر ہمیشہ وحی نازل ہوتی تھی۔ ہم تو عام انسان ہیں۔ دعوت و عزیمت کی راہ میں‘ اقامت دین کی جدوجہد میں ہم تو کسی ایسے ہی انسان کو نمونہ بنا سکتے ہیں جو انسان ہوتے ہوئے یہ سارے کام کرتا رہا ہو نہ کہ سیدھی راہ پر چلنے یا صائب رائے قائم کرنے کے لیے بھی بیرونی سہارے کا محتاج رہا ہو۔ مزید دیکھیے حوالہ نمبر۱۳۹
۱۴۷۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : تفھیمات‘ حصہ اول‘ ص ۳۰۶۔۳۰۷
۱۴۸۔ مولانا محمد ادریس میرٹھی: سنت کا تشریعی مقام‘ ص ۱۶۳
* اس مثال کو ہم آج ان تمام معاشی‘ معاشرتی یا سیاسی مسائل پر‘ جن میں زمانی و مکانی بعد کی وجہ سے تبدیلیاں آچکی ہیں‘ منطبق کرسکتے ہیں۔
۱۴۹۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : رسائل و مسائل‘ حصہ پنجم‘ ص ۲۲۵
۱۵۰۔ مولانا خلیل حامدی: اسلام کا نظامِ قضا‘ چراغِ راہ‘ اسلامی قانون نمبر‘ ص ۲۰۰
۱۵۱۔ مولانا نجیب اللہ ندوی: اجتہاد اور تبدیلئ احکام، چراغِ راہ‘ اسلامی قانون نمبر‘ ص ۲۰۲
۱۵۲۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : تنقیحات‘ ص ۱۸۳
۱۵۳۔ " تدوینِ جدید اور اس کے تقاضے‘ چراغِ راہ‘ اسلامی قانون نمبر‘ جلد دوم‘ ص ۱۱
* یہ اقتباس وثائقِ مودودی‘ ص ۸۲ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
۱۵۴۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : اقبال‘ دارالاسلام اور مودودی‘ مکتوب نمبر ۹‘ ص ۱۲۷
۱۵۵۔ ایضاً‘ ص ۱۲۷۔
۱۵۶۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : تفھیمات‘ حصہ دوم‘ ص ۳۸۸۔۳۸۹
مزید پڑہیں:
- انسداد فرقہ واریت. مختصر تاریخ اورعملی اقدامات :http://salaamforum.blogspot.com/2017/03/counter-sectarianism-islam.htmll
مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں
Salaamforum.blogspot.com
Facebook.com/AftabKhan.page
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہاٹس اپپ"یا SMS کریں
Twitter: @AftabKhanNet
No comments:
Post a Comment