تشدد اور قتل وغارت گری کے اسباب

ہمارا معاشرہ عرصہ دراز سے قتل و غارت گری کی زد میں ہے۔ تشدد اور قتل وغارت کو روکنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنا اور اس کے نفسیاتی محرکات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ جب تک نفسیاتی محرکات کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا جائے گا اس وقت تک تشدد کی بیخ کنی نہیں ہو سکتی۔
تشدد کا پہلا سبب حد سے بڑھا ہوا تعصب ہے جو کسی انسان کو دوسرے انسان کی زندگی لینے پر آمادہ کر دیتا ہے۔
 مخالفت کے اسباب مذہبی ہوں یا سیاسی، بہر صورت انسان کو دوسرے انسانوں کو زندہ رہنے کا حق ضرور دینا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ کئی مرتبہ کسی گروہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص یا بعض افراد کا ظلم اخلاق اور مذہب کی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے ، لیکن ایسی صورت میں بھی مد مقابل لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا چاہیے اور ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے تاکہ ایک ناانصافی کا بدلہ دوسری ناانصافی سے نہ لیا جائے۔ 
تشدد کا دوسرا بڑا سبب لالچ اور حد سے بڑھی ہوئی خواہشات ہوتی ہیں۔
 جب انسان راتوں رات امیر بننا چاہے تو اس کے لیے ہر جائز وناجائز راستہ اختیار کرتا ہے اور اس حوالے سے کئی مرتبہ دوسرے انسانوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اچھی کوٹھی ، اچھی گاڑی اور وافر سرمائے کی خواہش حد اعتدال سے تجاوز کرجاتی ہے تو انسان کی آنکھوں پر ہوس کی پٹی بندھ جاتی ہے، وہ ہوائے نفس کا اسیر بن جاتا ہے، اس کے لیے حلال وحرام کے درمیان تفریق کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ایسا شخص تشدد اور نفرت کے سوداگروں کے لیے خام مال کا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ تھوڑا سا بھی سرمایہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی انسان کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتا ۔ وہ شعوری یا لا شعوری طور پر ملک و ملت کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اپنے ہی ہم وطن اور ہم مذہب لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر بیٹھتا ہے۔ 
تشدد کا تیسرا بڑا سبب ریاستی قوانین سے بے خوفی ہے۔
 جب کسی انسان یا گروہ کے ذہن میں یہ بات اتر جائے کہ بوقت ضرورت قوانین کوہاتھ میں لیا جاسکتا ہے یا یہ تاثر عام ہو جائے کہ قوانین کا نفاذ معاشرے میںہمہ جہت نہیں ہے تو ایسی صورت میں معاشرے میں لاقانونیت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ طاقتور افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے یا ظلم کا نشانہ بننے والے افراد کی داد رسی نہیں ہو سکی۔ اس قسم کے واقعات مستقبل میں لاقانونیت کی بنیاد بن جاتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ قوانین کے ہمہ گیر نفاذ پر بہت زیادہ توجہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب بنو مخزوم کی فاطمہ نامی بااثر عورت نے چوری کی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ آپ ﷺ نے سابقہ اقوام کی تباہی کے ایک بڑے سبب کو بھی بیان فرمایا تھا کہ جب ان میں سے چھوٹے لوگ جرائم کا ارتکاب کرتے تو ان کو سزا دی جاتی اورجب بڑے لوگ ظلم کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا۔ تشدد کا ایک اور اہم سبب معاشی ناہمواریاں بھی ہیں ۔انسانوں کی بنیادی ضروریات کا انتظام کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جب عوام کی بڑی تعداد سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اخلاقیات اور مذہب کی تمام پابندیوں کو پامال کر دیتا ہے ۔ بہت سے یورپی ممالک میں سماجی تحفظ اور انصاف کا ایک ایسا نظام موجود ہے‘ جس کے تحت کسی بھی انسان کو روٹی ، کپڑا ، مکان اور علاج ومعالجے کی سہولیات کے حصول کے لیے تکلیف اور تردّد کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ چنانچہ لوگ چھیناجھپٹی، لوٹ مار اور تشدد کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ جب معاشی ناہمواری اور محرومی حد سے بڑھ جاتی ہے تو انسان اپنے حقوق کے حصول کے لیے منفی راستوں کو اختیار کر لیتا ہے۔ معاشی طور پر محرومیوں کا شکار انسان پرتشدد سرگرمیوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور اگر اس کو کوئی اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہے تو وہ فی الفور آمادہ و تیار ہو جاتا ہے ۔
تشدد کا ایک اہم سبب میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ روّیہ بھی ہے۔
لڑائی جھگڑے پر مبنی مواد کوبکثرت میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسے ڈرامے اور فلمیں بنائی جاتی ہیں جن میں غنڈوں کو ہیرو کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ پر تشدد مناظر دیکھنے والے نوجوانوں کی نفسیات مسخ ہوجاتی ہے اور وہ جلد یا بدیر غیر معمولی کردار کے حامل ہیرو کے روپ میںنظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جہاں بگڑے ہوئے نوجوانوں نے بغیر کسی وجہ کے بڑے پیمانے پر سکول وکالج اور دیگر مقامات پر بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
تشدد کا ایک اور اہم سبب مذہب سے دوری بھی ہے۔
 مذہب انسان کو صبر و تحمل اور بردباری کا درس دیتا ہے۔ مذہب سے بیزار انسان ان صفات سے عاری ہوتا ہے، وہ صبر و تحمل اور برد باری کے اجر و ثواب سے نا واقف ہونے کے سبب انتقام اور غصے سے مغلوب ہو کر تشدد پر اتر آتا ہے۔ قرآن مجید نے ہمیں بتلایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کے حسد کا نشانہ بنے اور بھائیوں نے ان کو تاریک کنویں میں اتار دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کی بے مروّتی کی وجہ سے زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ طویل عرصہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اقتدار عطا فرمایا اور وہ وقت بھی آیا جب بھائی آپ کے رحم وکرم پر تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اگر چاہتے تو ان سے انتقام لے سکتے تھے لیکن انہوں نے انتقام لینے کے بجائے ان سب کو معاف کر دیا ۔
اسی طرح حضرت رسول اللہﷺ کو کفار مکہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہوں نے آپﷺ کو ہر طرح کی اذیتیں اور تکالیف دیں، آپ ﷺکے وجود اطہر پر پتھر برسائے، آپﷺکے راستے میں کانٹے بچھائے، آپ ﷺکے گلوئے اطہرمیں چادر ڈال کر کھینچا گیا، آپ کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا، یہاں تک کہ آپ کو ہجرت پر بھی مجبور کر دیا۔ قیام مدینہ کے دوران بھی آپﷺ پر جنگیں مسلط کی گئیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب آپﷺ فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپﷺ کفار مکہ سے انتقام لے سکتے تھے لیکن آپﷺ نے ظلم وبربریت کا مظاہرہ کرنے والے تمام لوگوں کو معاف کر دیا۔ 
تشدد کا ایک اور اہم سبب معاشرے میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام بھی ہے۔ سیاسی کشمکش کی وجہ سے کئی مرتبہ رہنماؤں کے درمیان گرم وسرد بیانات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس دوران رہنما ایک دوسرے پر جھوٹ، فریب، دغابازی اور لوٹ مار کے الزامات بکثرت لگاتے ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے معاشرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں ۔ ماضی میں بنگالی اور غیر بنگالی تنازع نے اتنا طول پکڑا کہ ملک دو لخت ہوگیا۔ اسی طرح قومی اتحاد کی تحریک میں بھی پورا معاشرہ تشدد اور نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ 
2013 ء کے انتخابات کے بعد بھی معاشرے میں سیاسی افراتفری پورے عروج پر رہی۔ درجنوں کی تعداد میں لوگ اس سیاسی افراتفری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ تشدد کی روک تھام کے لیے کوئی بھی موثر حکمت عملی تیار کرتے ہوئے ارباب ریاست وسیاست کو ان محرکات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے جو تشدد پر منتج ہوتے ہیں۔ ان محرکات کو نظر انداز کرکے اگر کوئی پالیسی تیار کی گئی تو یہ تشدد کے دیر پا  خاتمے کے لیے موثر اور کارگرنہیں ہو سکے گی
 لکھاری :  علامہ  ابتسام الہی  ظہیر 
Source: http://dunya.com.pk/index.php/author/allama-ibtisam-elahi-zaheer/2016-03-30/14906/64730955#tab2

دہشت گردی کا ایک اہم پہلو سماجی اور ثقافتی بحران بھی ہے۔ ایک طرف غریب طبقات کے بچے کالے دھن کی اس آگ کا ایندھن بنتے ہیں تو دوسری جانب متوسط اور بالادست طبقات کے نوجوان جس معاشرتی اور ثقافتی پراگندگی اور ابہام کا شکار ہیں، وہ ان کی نفسیات کو جنون اور وحشت میں دھکیل دیتا ہے۔ ایسا گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی واقعات کی تفتیش کے دوران واضح ہوا۔ متوسط اور بالادست طبقات کے ایسے افراد یا تو بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہو جاتے ہیں‘ یا پھر بالواسطہ طور پر مالی وسائل اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
اس نظام کے اقتصادی‘ سماجی‘ ثقافتی اور نفسیاتی بحران کی بیماریاں پورے معاشرے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ بنیاد پرستی، مذہبی جنون اور دہشت گردی جیسے کینسر کا علاج اب گہری جراحی کا متقاضی ہے۔ سکیورٹی انتظامات، آپریشن، نئے نئے سکیورٹی ادارے اور پولیس فورسز وغیرہ جیسی شعبدہ بازیوں کے نتائج آج سب کے سامنے  ہیں۔ حقیقی وجوہ اس گلے سڑے اور تعفن زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں:
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall 2 Million visits/hits

تبلیغی بیان, ، عالم ، گستاخی اور پٹائی

جماعت ہو چکی تھی۔ ایک گروہ ایک طرف بیٹھا تھا اور بختیار ان کے درمیان کھڑا تقریر کر رہا تھا۔ اس تقریر کو خاص اصطلاح میں ''بیان‘‘ کہا جاتا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر میں بھی بیٹھ کر بیان سننے لگا۔ بختیار محیر العقول، ناقابلِ یقین واقعات پے در پے سنا رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب واقعہ ختم ہوتا تو دوسرا شروع کر دیتا۔ بیان ختم ہؤا۔ اُسی نے دعا کرائی۔ مسجد سے نکلتے وقت اس سے پوچھا: ''بختیار بھائی! آپ کا بیان بہت اچھا تھا۔ جو واقعات آپ سنا رہے تھے، وہ آپ نے کہاں سے پڑھے؟ ان کی کوئی سند؟‘‘ بختیار مسکرایا اور کوئی جواب نہ دیا!

جنید جمشید کے حوالے سے جو واقعہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر پیش آیا، اس میں مار کھانے والا‘ مارنے والے سب مسلمان تھے اور پاکستانی تھے۔ اس پر میڈیا میں بالخصوص سوشل میڈیا پر انواع و اقسام کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ مگر اس واقعہ کے مضمرات میں ایک پہلو ایسا ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور وہی اس سارے واقعہ کا اصل سبب نہ سہی، بہت بڑا سبب ضرور ہے!

امرِواقعہ یہ ہے کہ جنید جمشید عالم نہیں۔ انہوں نے دین کا باقاعدہ علم کہیں سے نہیں سیکھا۔ وہ گلوکار تھے۔ کایا کلپ ہوئی تو تبلیغی اجتماعات میں ''بیان‘‘ کرنے لگ گئے۔ مشہور تو پہلے سے ہی تھے، الیکٹرانک میڈیا کو نہ چھوڑ سکے، فقط زاویہ بدل لیا۔ پہلے صرف نعتیں پڑھیں۔ پھر درس اور تقریریں کرنے لگ گئے۔ کئی سال سے ہر رمضان میں کسی نہ کسی ٹی وی چینل سے ان کا باقاعدہ معاہدہ ہوتا ہے اور وہ پورا مہینہ وعظ اور تقریریں کرتے ہیں!

تبلیغی جماعت سے پہلے برصغیر میں (اور باقی عالمِ اسلام میں اب بھی) مذہبی وعظ و تذکیر صرف وہ علماء کرتے تھے جو باقاعدہ دین کا علم سیکھ کر آتے تھے۔ انہوں نے عربی زبان، ادب، فقہ، منطق، صرف، نحو، فلسفہ، علمِ کلام، پھر حدیث اور تفسیر پڑھنے میں آٹھ دس سال لگائے ہوتے تھے۔ اکثریت کی تقریریں ذمہ دارانہ بیانات پر مشتمل ہوتی تھیں۔ آپ علماء کو دیکھ لیجیے۔ مولانا تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا طارق جمیل، مولانا راغب نعیمی، مولانا ساجد نقوی، ان حضرات نے اپنی ساری جوانیاں قال اللہ اور قال الرسول سیکھنے میں گزاریں۔ اس کے بعد بھی مطالعہ اور کسبِ علم جاری رہتا ہے۔ روایت یہ تھی کہ عوام الناس کے لیے وعظ و تبلیغ کا کام علماء کرام کرتے تھے جنہیں قرآن و حدیث پر، فقہ و تفسیر پر، مسائل پر اور تاریخِ اسلام پر عبور ہوتا تھا!

تبلیغی جماعت کا المیہ یہ ہے کہ وہاں ہر شخص نے ''بیان‘‘ کی صورت میں تقریر کرنا ہوتی ہے اور یہ لازمی ہے۔ فرض کیجئے، سہ روزہ کے لیے دس افراد کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر شخص کو اپنی باری پر تقریر کرنا ہو گی۔ اگر علمِ دین سے اس کا دور سے بھی تعلق نہیں، دکاندار ہے، یا فون آپریٹر ہے یا مکمل نا خواندہ ہے، وعظ اس نے ہر حال میں کرنا ہے۔ اب جو وعظ وہ کرے گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے!

جنید جمشید نے جو کلمات ایک مقدس ہستی کے بارے میں کہے (بعد میں انہوں نے معافی بھی مانگی)گمان غالب یہ ہے کہ کوئی عالمِ دین ایسے الفاظ کبھی نہ کہتا۔ عربی کی مشہور کہاوت ہے۔۔۔۔ لِکلِّ فنِّ رجال، جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ بڑے بڑے ثقہ علماء، فنِ تقریر سے نابلد ہوتے ہیں۔ ہر کوئی وعظ اور تقریر نہیں کر سکتا۔ سیّد انور شاہ کاشمیری علم کا سمندر تھے ‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ان سے کم علم رکھتے تھے مگر خطابت کے بادشاہ تھے۔ علامہ اقبال ہر گز ایسے مقرر نہ تھے کہ مجمع پر چھا جاتے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے سکہ بند علما ء نے آج تک ابوالاعلیٰ مودودی اور دوسرے کئی سکالرز کو تو ''باقاعدہ‘‘ عالم اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ وہ کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل نہ تھے۔ مگر جن لوگوں کو مدرسہ کی ہوا بھی نہیں لگی اور جن کی وجہ شہرت کوئی اور ہے، وہ الیکٹرانک میڈیا پر دین سکھانے میں لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک معروف سابق کرکٹ سٹار کا وعظ سنا جا سکتا ہے۔ ایک ایک فقرے میں تین تین بار ''دوستو بزرگو‘‘ کہتے ہیں۔ انتہائی غیر موثر! اپنے ایک ساتھی کرکٹ کھلاڑی پر برس رہے تھے کہ کہتے ہیں ملک ٹھیک کروں گا، بقول ان کے اپنا گھر تو ٹھیک نہیں کر سکتے! 

یہ حقیقت ہر شخص کو، خواہ وہ عالم ہے یا غیر عالم واعظ، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس ملک کا گنہگار سے گنہگار اور بے عمل سے بے عمل مسلمان بھی کسی مقدس ہستی کے بارے میں کوئی نازیبا جملہ برداشت نہیں کر سکتا۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم، انبیاء کرام، امہات المومنین، اہلِ بیت عظام اور صحابہ کرام کے بارے میں حد درجہ احتیاط سے اور ادب و احترام سے بات کی جانی چاہیے، یوں کہ معاذاللہ، گستاخی کا دور دور تک شائبہ بھی نہ ہو۔ یہ دلیل محض جو شیلی بات نہیں، حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں ‘بیوی بچوں کے بارے میں گالی تو درکنار، منفی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پھر مقدس ہستیوں کے متعلق ناشائستہ اور ذومعنی قسم کے کلمات کون برداشت کرے گا؟ شائستگی کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں بھی کوئی غیر مناسب بات نہ کی جائے۔ اس کی طرف اشارہ کلام پاک میں بھی کیا گیا ہے!

رہا یہ عذرِ لنگ کہ وہ تو زبان کی لغزش (Slip of Tongue) تھی یا یہ کہ زبان سے الفاظ نکل گئے، تو سارے الفاظ زبان میں سے نکلتے ہیں‘ زبان کو قابو میں رکھیے۔

نفرت کا ایک محرک تجارت کے لیے مذہب اور مذہبی جذبات کا استحصال بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام الناس ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے۔ ایسے ایسے اشتہارات الیکٹرانک میڈیا پر رات دن دکھائے جا رہے ہیں جن میں باریش مالک کی تصویر بار بار دکھائی جاتی ہے۔ آخر میں ''دل دل پاکستان‘‘ کا تڑکا بھی لگایا جاتا ہے۔ مذہبی اور حب الوطنی کے جذبات کا تجارت کے لیے یہ استعمال مناسب نہیں۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ میں اگر مذہبی ہوں اور مجھے بار بار یہ بتایا جا رہا ہے کہ فلاں برانڈ، ایک مذہی شخصیت کی ملکیت ہے تو میں غیر شعوری طور پر متاثر ہوں گا اور قدم اُسی طرف اٹھیں گے۔ آقائے نامدار سے محبت اس قوم کے رگ و ریشہ میں سرایت کیے ہے۔ یہاں اس مقدس نام پر نہاری بیچی جا رہی ہے۔ بیکریاں چلائی جا رہی ہیں۔ عشقِ رسول میں ڈوبا ہؤا سچا اور سادہ مسلمان، آقاؐ کا نام دکان کے سائن بورڈ پر دیکھ کر کیسے آگے گزر سکتا ہے؟ بس یہی وہ جذبہ ہے جس کا تاجر حضرات استحصال کر رہے ہیں۔
''اسلامی شہد‘‘ کا بورڈ دیکھ کر لوگ رُک جاتے ہیں؛ حالانکہ آج تک دنیا میں کسی شہد کو غیر اسلامی نہیں کہا گیا! اس دنیا میں جتنے ماکولات اور مشروبات ہیںاور استعمال کی جتنی بھی اشیاء ہیں، قدرتی ہیں یا مصنوعی، سب پروردگارِ مطلق کی قدرت کا کرشمہ ہیں اور اس کی پیدا کردہ انسانی دماغ کا عطیّہ! پھر ہم کچھ کو اسلامی اور کچھ کو غیر اسلامی کیسے کہہ سکتے ہیں؟

 کیا صحرائے عرب میں پیدا ہونے والی کھجور اسلامی اور کیلی فورنیا کی کھجور غیر اسلامی کہلائے گی؟ نہیں! ہر گز نہیں! بیج سے درخت اُگانے والی اور درخت پر پھل لگانے والی ذات ایک ہی ہے اور یہ زمین کیا، پوری کائنات اُسی کی مٹھی میں ہے!!
اظہارالحق- دنیا 

مزید پڑھیں:
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Overall 2 Million visits/hits

حضرت محمدﷺ کا عیسائیوں کے ساتھ عہد: النبي محمد وعد الآخرة للمسيحيين



حضرت محمدﷺ کا عیسائیوں کے ساتھ عہد
مسلمان اور عیسائی دونوں مِل کر دنیا کی نصف آبادی کے برابر ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں امن کے ساتھ رہتے تو ہم عالمی امن کی طرف جانے والا آدھا راستہ طے کر چکے ہوتے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کی سمت میں ایک چھوٹا سا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ ماضی کے مُثبت قصّوں کو بار بار دہرایا جائے اور ایک دوسرے کو راکھشس قرار دینے کی کوشش سے اجتناب برتا جائے۔

میری تجویز ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو ایک ایسا وعدہ یاد دلایا جائے جو حضرت محمد ﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس عہد کے بارے میں جاننے سے عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے رویّے پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمان عام طور پر اپنے پیغمبر کی مثال کا احترام کرتے اور خود بھی اس پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ 628 عیسوی کی بات ہے جب سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کا ایک وفد نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور ان سے پناہ دینے کی درخواست کی۔ جس پر آپ نے انہیں حقوق کا پورا ضابطہ عطا کیا جسے میں یہاں مِن و عِن نقل کر رہا ہوں۔ سینٹ کیتھرین کی خانقاہ جدید مصر میں جبلِ سینا کے دامن میں واقع ہے اور اسے دنیا کی قدیم ترین خانقاہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں عیسائی مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے جس سے بڑا ذخیرہ صرف ویٹی کن میں ہے۔ اس خانقاہ کو عالمی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پر عیسائیت کی سب سے پرانی اور نایاب تصاویر بھی موجود ہیں۔ یہ عیسائی تاریخ کا ایک ایسا خزانہ ہے جو چودہ سو سال سے 
مسلمانوں کی حفاظت میں سنبھال کر رکھا گیا ہے۔
سینٹ کیتھرین کے ساتھ کیا گیا عہد:

" یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمتگار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں؛ اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ نہ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اُس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مُرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے رُوگردانی نہیں کرے گا۔"

اس ضابطے کا پہلا اور آخری جملہ انتہائی اہم ہے۔ یہ جملے اس عہد نامے کو ابدی اور کائناتی حیثیت دیتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ نے اس پر زور دیا تھا کہ مسلمان عیسائیوں کے ساتھ ہیں چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک۔ اس طرح واضح طور پر انہوں نے مستقبل میں اِس معاہدے کو صرف سینٹ کیتھرین تک محدود رکھنے کو مسترد کر دیا۔ مسلمانوں کو روزِ حشر تک اس وعدے کی تعمیل کرنے کا حُکم دے کر انہوں نے مستقبل میں اس سے منہ پھیرنے کی کسی کوشش کا راستہ بند کر دیا ہے۔

یہ حقوق ناگزیر ہیں۔

نبیﷺ نے سارے عیسائیوں کو اپنا اتحادی قرار دیا تھا اور عیسائیوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھنے کو خدا کے عہد سے روگردانی سے تعبیر کیا تھا۔

اس چارٹر کا ایک بے مثال پہلو یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں پر ان سہولیات سے لطف اندوز ہونے کے لئے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ ان کا صرف عیسائی ہونا ہی کافی ہے۔ ان سے اپنا عقیدہ تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا، انہیں کسی قسم کا معاوضہ ادا نہیں کرنا اور نہ ہی ان پر کوئی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ یہ حقوق کا ایک ایسا ضابطہ ہے جو فرائض کے بغیر ہے۔

یہ دستاویز جدد دور میں کیا گیا انسانی حقوق کا معاہدہ نہیں ہے لیکن 628 عیسوی میں لکھا جانے کے باوجود یہ واضح طور پر ایک شخص کے جائیداد رکھنے کے حق، مذہبی آزادی، کام کرنے کے حق اور جان کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔

مجھے پتہ ہے کہ بہت سے قارئین ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ " تو پھر کیا ہوا؟"

اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ جو لوگ مسلمانوں اور عیسائیوں میں نفاق کے بیج بونا چاہتے ہیں وہ ان موضوعات پر توجہ دیتے ہیں جو ان میں پھوٹ ڈالتے ہیں۔ ان کا سارا زور نزاع کا باعث بننے والے معاملات پر ہوتا ہے۔ لیکن جب عیسائیوں کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کے وعدے جیسے وسائل پر توجہ دی جائے اور انہیں اجاگر کیا جائے تو دونوں اقوام کے درمیان پُل تعمیر ہوتے ہیں۔

یہ عہد مسلمانوں کو طبقاتی نا رواداری سے بالاتر ہونے اور عیسائیوں کے لئے خیر سگالی کے جذبات کی آبیاری کرنے کی ترغیب دیتا ہے جو اپنے اندر اسلام یا مسلمانوں کا خوف چھپائے بیٹھے ہوں گے۔

جب میں اسلامی وسائل کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ان میں مذہبی رواداری اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی نادر مثالیں نظر آتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ خیر کی تلاش اور دوسروں کے ساتھ بھلا کرنے کی صلاحیت ہم سب کے اندر موروثی طور پر موجود ہے۔ جب ہم اپنے اندر پہلے سے موجود اس جذبے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو دراصل اپنی بنیادی انسانیت سے منہ پھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجھے اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم دوسرے لوگوں کی اقدار، ثقافتوں اور تاریخ میں کوئی ایسی چیز تلاش کرنے کا وقت ضرور نکال لیں گے جو مثبت ہو اور جس کی ہم تعریف کر سکیں۔
از مُقتدر خان
22 جنوری 2010

* ڈاکٹر مُقتدر خان ڈیلاویئر یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامیات کے ڈائریکٹر اور انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اور انڈر سٹینڈنگ کے فیلو ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) نے آلٹ مسلم ڈاٹ کام کی اجازت
سے تقسیم کیا ہے
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
تبصرہ:
اس معا ہدہ کی تاریخی حقیقت جو بھی ہو یہ واضح ہے کہ اس مندرجات اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہیں :
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولً
عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی ,17:34) (7:32, 23:28)

صلح حدبیہ کے وقت حضرت ابوجندل مکہ سے فرار ہو کر آے مگر رسول الله ﷺ نے ان کو کفار مکہ کو واپس کر دیا جو ان پر ظلم کر رہے تھے. یہ ہے معاہدہ کا احترم.
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل



Article also available in:  English  |  Indonesia  |  عربي  |  اردو  |  Français

Courtesy Common Ground News Service
http://www.ijtihad.org/Prophet%20Muhammed's%20Promise.htm

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall 2 Million visits/hits

Pakistan’s Quagmire پاکستان کی دلدل - امن اور ترقی کا راستہ

Pakistan is in a state of turmoil, in order to get out of this quagmire some basic issues need to be settled. Ideologically the Pakistani society can be divided in to three main groups: <<Click to read in English as webDoc>>

پاکستان کی ترقی ، خوشحالی اور امن کے لییے کچھ بنیادی معاملات طے کرنا ضروری ھیں. اس وقت پاکستانی سوسائٹی ، معاشره فکری طورپرتین بڑے حصوں تقسیم ہو چکا ہے 
ایک طرف  اشرافیہ , لبرل طبقہ ہے جو مذہب کوہر شخص کا ذاتی معاملہ سمجھتا ہے،ان کے مطابق مذہب، اسلام کا  قانون، سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں . مذہیب عبادت گاہوں تک محدود ہو.کچھ معتدل لوگ اقلیت میں  ہیں. یہ  اشرافیہ لبرل طبقہ  اگر چہ تعداد میں قلیل ہے مگربہت طاقتور ہے .اشرافیہ کل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر پورے یه پاکستان کی پچاس فیصد سے زیادہ دولت پر قابض ہیں. ٩٩ فیصد پاکستانی ٥٠٠ ڈالر اوسط سالانہ آمدنی  پرغربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں.   حکومت ،معشیت،جاگیریں، کاروبار، بیورو کریسی، فوج، سیاست دان، میڈیا سب  کچھ ان کے قبضہ  اور کنٹرول میں ہے. ان میں کچھ لوگ راے  عامہ ھموار کرنے کے لیے مذہب اسلام کا نام استمال کرتے ہیں. یہ صرف دکھا وہ ہے. طاقت اور پیسے کے زور پر یہ مخالف کوکچل دیتے ہیں 
یہاں اشرافیہ سے مراد ان کے ھمدرد ، فائدہ اٹھانے والے مدد گار اور دوسرے طبقات کے امیدوار بھی شامل ہیں 
کسی صورت میں یہ طاقت چھوڑنے کو تیار نہیں ، یہ مختلف بھیس بدل کر پاور میں رہتے ہیں
ان میں کچھ شدت پسند لوگ بھی ہیں جو مذھبی یا مذہب کی طرف مائل لوگوں کوچاہے وہ معتدل مزاج ہوں، ان کو  جاہل، دقیانوسی ، کم عقل، قابل  نفرت سمجھتے ہیں. ان کے خیال میں تمام مصیبتوں کی بنیاد مذہب اور مذھبی لوگ ہیں. ان کو لبرل فاشسٹ بھی کہا جا سکتا ہے
مذہب سے ان کی نفرت کی دو بڑی ممکنہ وجوھات ہو سکتی ھیں. اول: مغربی ترقی اور ثقافت سے مرعوب. دوئم: مذہبی لوگوں کی قدامت پسندی، جدید دنیا وی ترقی،سائنس ٹیکنالوجی سے بیزاری، صرف عبادات پر ترجیح، مکالمہ کی بجاے اپنی مخصوص فکراور نکتہ نظرکو مذہب کی آڑ میں دوسروں پر زبردستی نافذ کرنے کی کوشس اور اس میں شدت پسندی، دہشت گردی کے استعمال کو جائز سمجھنا. اگر چہ مذہبی لوگوں کی اکثریت معتدل مزاج اور امن پسند ھے

 دوسری طرف خاموش اکثریت ہے

 "اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں۔" - قرآن ٢:١٤٣ 

اکثریت اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے تمام جگہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں . اور اس کو قیام پاکستان کا مقصد سمجھتے >>> پڑھتے جایے>>

مزید پڑھیں:
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall 2 Million visits/hits