اہل سنت (حنفی مقلدین) اور اہل حدیث (غیر مقلدین ) کیا ہیں، سوال و جواب Questions by Non Followers (Ghair Muqaldeen)Responded

Image result for ‫غیر مقلدین کے سوالات کے جوابات‬‎

مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿30:32﴾

(اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے (30:32)

 اے ایمان والوں! اپنی فکر کرو، جب تم راه راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وه تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے (105سورة المائدة) 

امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ ہم غیر ضروری مباحثوں میں گم ہو کر اصل مسایل کو حل کرنے کی بجایے دوسرے ممنوع راستے کی طرف چل پڑے ہیں- لیکن کیوں کہ اب اس تفرقہ بازی سے جان چھڑانی ہے لہٰذا دونوں اطراف کے سوالات اور جوابات پیش ہیں- قاری خود اپنی عقل سے سیدھی راہ کا انتخاب کرے - اللہ آپ کا مدد گا ر ہو-

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُون َ( ٢٢ الأنفال)

یقیناًاللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے
کام نہیں لیتے (8:22)


تقلید اور اِتباع

سوال:یہ کہنا کہ صاحب علم آدمی کے لیے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کوئی شدید تر چیز ہے‘‘۔ اب غور کیجیے کہ، مثلاً حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت امام غزالیؒ ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سب مقلدین ہیں، تو کیا آپ کے نزدیک یہ حضرات صاحب ِ علم نہ تھے؟
جواب: 
 ’تقلید‘ اور ’اِتباع‘ میں فرق ہے۔ اگرچہ آج کل علما’ تقلید‘ کو مجرد پیروی کے معنی میں بولنے لگے ہیں، مگر قدیم زمانے کے علما ’تقلید‘ اور ’اتباع‘ میں فرق کیا کرتے تھے۔ ’تقلید‘ کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کرتے ہوئے کسی شخص کے قول و فعل کی پیروی کرنا، اور ’اتباع‘ سے مراد ہے کسی شخص کے طریقے کو بربناے دلیل پسند کر کے اس کی پیروی کرنا۔
پہلی چیز ’عامی‘ کے لیے ہے اور دوسری ’عالم‘ کے لیے۔ ’عالم‘ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی امام کی پیروی کی قسم کھالے اور اگر کسی مسئلے میں اس امام کے مسلک کو اپنے علم کی حد تک کتاب و سنت سے اوفق اور اقرب نہ پائے، تب بھی اس کی پیروی کرتا رہے.....
آ پ نے جن بزرگوں (   حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت امام غزالیؒ ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ   ) کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے اکثر کی کتابوں میں مَیں نے یہی بات پائی ہے کہ وہ جس امام کی پیروی بھی کرتے ہیں، دلائلِ شرعیہ کی بناپر مطمئن ہوکر کرتے ہیں اور اپنے     اس اتباع کے حق میں دلائل پیش فرماتے ہیں۔ باقی بزرگ جو کسی خاص مسلک کی پیروی کرتے ہیں، مَیں ان کے متعلق بھی یہی حُسنِ ظن رکھتا ہوں کہ وہ بھی اِسی طرز کا اتباع کرتے ہوں گے۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۱، محرم ۱۳۷۶ھ،اکتوبر ۱۹۵۶ء، ص ۱۳۷-۱۳۸)
مسلک اہل حدیث کے بارے میں چند سوالات کے جوابات (اہل حدیث کا نقطہ نظر)


 مقلدین خصوصاً احناف سے سوالات
سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟


الجواب: تقلید کی تعریف: کسی کا قول اس لئے ماننا کہ آپ کو یقین ہو کہ وہ شخص کتاب و سنت کے موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ تقلید کا شرعی معنی ہے، اب تقلید کے مطابق کسی راوی کی روایت کو قبول کر لینا تقلید فی الروایت، اور کسی مجتھد کی درایت کو قبول کرنا تقلید فی الدرایت ہے۔
کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو صحیح یا ضعیف کہنا بھی تقلید ہے، اور ثقہ یا مجہول کہنا بھی تقلید۔
اسی طرح کسی امتی کے بنائے گئے اصول حدیث و اصول تفسیر و اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید کہلاتا ہے۔

اب بات یہ کہ کیا تقلید واجب ہے؟ 
تقلید واجب ہے جب خود عقل نہ ہو، حدیث اور قران کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، ساتھ ہی اتنی بصیرت نہ ہو کہ کسی غیر منصوص مسئلہ کے مطلب کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ یہ کام فقہا کا ہے کہ انہوں نے احادیث طیبہ سے وہ مسائل نکالے جو ہماری سوچ میں کبھی نہیں سما سکتے تھے۔ اس لئے ہر انسان جو غیر مجتہد ہو اس پر تقلید واجب ہے، اس کی عام مثال دی جاتی ہے کہ جو خود ڈاکٹر نہ ہو وہ کسی اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر سے ہی دوا لے گا، کسی لا علم سے ہرگز نہیں اور اسی طرح نہ ہی اس ڈاکٹر کے دئے گئے نسخے کو جا کر علمِ طب کی کتب میں تصدیق کرے گا اور پھر کھائے گا۔ بلکہ وہ اسی بھروسے پر اس دوا کو استعمال کرے گا کہ اس ڈاکٹر (جو سب مریضوں اور تجربہ کاروں کے مطابق اچھا اور مستند مانا ہوا ہے) نے اسے صحیح دوا تجویز کی ہے۔ اور انشا اللہ شفایاب بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تقلید اس ڈاکٹر کی واجب ہے۔ ہم بھی بیمار ہیں، اور جانتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا طبیب علاج کے لئے میسر نہ آئے ہمارے مرض کا درماں ممکن نہیں، اس لئے فقیہہ امام کی تقلید ضروری ہے ورنہ کیا ہوتا ہے؟
ورنہ یہ ہوتا ہے کہ میں محدث ہی کیوں نہ ہوجاؤں مگر فقہ سے نا واقف ہوں تو حدیث کا سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہوں جیسے ایک غیر فقیہہ محدث چالیس سال تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ نماز جمعہ سے پہلے سر منڈوانا درست نہیں اور حدیث کیا تھی؟ ”نَھٰی عَنِ الحَلَقِ قَبلَ الصَّلٰوۃِ یَومُ الجُمُعَہ“
یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی، اپنی عقل چلتی ہے، پیروی چھوٹ جاتی ہے، گمراہی آجاتی ہے۔

مقلد اپنے آپ کو مقلد کہتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ قران اور حدیث کے خلاف ہے، بلکہ وہ ایسے شخص کا مقلد ہے جو قران اور حدیث کو اس مقلد اور ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو وہ سمجھاتا ہے مقلد اسکی بات کو مان لیتا ہے۔ لیکن یہ کہاں ہے کہ مقلد حدیث کو نہیں بلکہ امام کو مانتا ہے؟ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں سائنس کہ ٹیچر کی بات سنوں تو مجھ پر طعن ہو کہ تم سائنس کی ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کر ٹیچر کی بات مانتے ہو۔ اور یہ غلط ہے، مگر میں کیا کروں کہ مجھے اس ٹیکسٹ بک کی سمجھ نہیں آتی مگر ٹیچر اسی ٹیکسٹ بک میں سے وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔۔۔۔ تو ٹیچر کی تقلید واجب ہے مجھ پر۔

غیر مقلدین کے شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ فرماتے ہیں:

”تقلید کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ماننا اور عمل کرنا اس شخص کے قول پر بلا دلیل جس کا قول حجت شرعی نہ ہو، تو اس اصطلاح کی بنیاد پر عامی کا مجتھدوں کی طرف رجوع کرنا کوئی تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ تقلید کے معنی عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی میں میں کسی اہل علم کا قول اور اس پر عمل کرنا اور اسی عرفی معنی میں مجتہدوں کی ”اتباع“ کو تقلید کہا جاتا ہے“
گویا اتباع ہی تقلید ہے اور تقلید کا معنی ہی اتباع کرنا ہے۔ (معیار الحق)
آگے عقیدۃ الفرید کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اور فاضل حبیب اللہ قندھاری ؒ فرماتے ہیں:

تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجت شرعیہ نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ کی اور اجماع کی طرف تقلید نہیں کہلائے گا۔ اور اسی طرح کسی انجان کا مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا یا کسی قاضی کا ثقہ آدمی کے قول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ تو بحکم شرع واجب ہے۔ اب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یہ چیز واجب ہے تو اتباع کو اگر تقلید کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں (بحوالہ ایضاً امام الحرمین)
اس مفصل عبارت سے ثابت ہوا:

۱۔ لا علمی کے وقت مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔
۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہا جاتا ہے یعنی بالمآل تقلید اور اتباع میں کوئی فرق نہیں
۳۔ لا علم اور انجان کا کسی مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ بحکم شرع واجب ہے
۴۔ جس طرح مجتہدین کے اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے اسی طرح رسولﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے۔
امید ہے کہ سمجھ آیا ہو کچھ

سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟

---------------------------------------------------------------------
 غیر مقلدین کے سوالات کے جوابات -2

غیر مقلدین حضرات عوام اور ناواقفوں کو لامذہبیت کے راستہ پر لگانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، انہیں میں سی ایک طریقہ ان کا یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ سوالات قائم کر رہے ہیں اور ان کو کتابچہ کی شکل میں عوام میں پھیلا کر مقلدین سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا جواب د یا جائے۔ ان سوالات میں علم و عقل سے زیادہ عوام کے جذبات کو ابھارنے کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔

میرے پاس مختلف جگہوں سے اس قسم کے رسالے و پمفلٹ آتے رہتے ہیں ابھی ابھی ایک صاحب نے اسی قسم کا ایک پمفلٹ بھیجا ہے میں نے ان سوالات کی لغویت کے پیش نظر ان کو ہمیشہ نظر انداز کیا ،مگر غیر مقلدین کے بارے میں مجھے مسلسل یہ اطلاع مل رہی ہے کہ یہ اس قسم کی حرکت بڑے منصوبہ بند انداز میں کر رہے ہیں اور عوام مسلمانوں میں انتشار اور بیچینی کی فضا پیدا کر رہے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ایک دفعہ ان سوالات کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کر دیا جائے۔

ابھی ابھی جو کتابچہ شائع ہوا ہے اس کے بھیجنے والے نے بالیقین کوئی غیر مقلد ہی ہے میرے نام ایک خط بھی لکھا ہے اور مجھ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان سوالات کا جواب دیا جائے ۔ان غیر مقلد صاحب نے یہ خط حنفی بن کر لکھا ہے ، اس طرح کے بناوٹی حنفیوں کے میرے پاس مسلسل خطوط آتے رہتے ہیں ۔کتا بچہ کا عنوان ہے متلاشیان حق کی خدمت میں قابل توجہ چند سوالات ۔

 کوئی مرکز الاحیا لدعوة والا رشاد غیر مقلدین کا ادارہ ہے اس نے اس کو شائع کر کے فتنہ و شر پھیلانے کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے ۔یہ کتا بچہ ۱ ۳ سوالات پر مشتمل ہے ان ۱ ۳ سوالات کا تفصیلی جواب دینا تو ایک ضخیم کتاب چاہتا ہے اس کے لئے زمزم کے صفحات کی گنجائش کے بقدران کامختصراً جواب دیا جائے ۔



سوال نمبر ۱: دین اسلام رسول اللہ ﷺ پر مکمل نازل ہوا یا ادھورا ؟

جواب نمبر ۱: اللہ کے رسول ﷺ پر دین تو مکمل نازل ہوا مگر شاید غیر مقلدین کا اس پر ایمان نہیں ہے ان کو یہ شک ہی ہے کہ دین ادھورا نازل ہوا یا مکمل ورنہ یہ سوال نہ کیا جاتا ۔

سوال نمبر ۲ : کیا سورہ المائدہ کی یہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم الخ دین اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان نہیں کر رہی ہے ؟

جواب نمبر ۲ : اعلان تو کر رہی ہے مگر غیر مقلدین مانیں جب تو ؟ ان کو تو ابھی یہ شک ہی ہے کہ دین کامل ہے کہ ادھورا ہے۔

سوال نمبر ۳: اگر دین مکمل نازل ہوا تو نبی ﷺ نے ہم تک دین پہنچایا کہ نہیں جو اللہ نے ان پر نازل کیا تھا یا اس میں خیانت کی۔

جواب نمبر ۳ : پہلے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں غیر مقلدین اپنا عقیدہ درست کریں ۔اس طرح کا سوال ان کی بد عقیدگی کو بتلاتا ہے ،تمام مسلمانوں کا تو یہی عقیدہ ہے کہ دین مکمل ہے اور نبی اکرم ﷺ نے دین کو مکمل پہنچایا ۔ مگر غیر مقلدین کو اس شک ہے ،اگر عیر مقلدین کا یہی ایمان ہوتا کہ نبی اکرم ﷺ نے دین بلا خیانت مکمل پہنچایا ہے تو وہ الگ سے شرعی مسئلہ بتلانے کے لئے مسئلوں کی کتابیں نہ لکھتے۔ نزل الابرار ،کنز الحقائق بدور الاہلہ وغیرہ نہ معلوم غیرمقلدوں نے مسئلوں والی کتنی کتابیں لکھ ڈالیں اور ان میں ایسے مسائل ہیں جو نہ قرآن میں ہیں اور نہ حدیث میں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مقلدوں کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے دین کو کامل نہیں پہنچا یا اور معاذ اللہ انہوں نے اس میں خیانت کی ہے ۔

سوال نمبر ۴: اگر دین بھی مکمل نازل ہوا اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو مکمل دین سکھلایا ،تو اسمیں چاروں ائمہ کی تقلید کا حکم دیا ہے کہ نہیں ؟ ( مختصراً (

جواب نمبر ۴ : اللہ کے رسول پر دین مکمل بھی نازل ہوا اور صحابہ کرام کو آپ ﷺ نے مکمل دین سکھلایا بھی مگر جیسا کہ عرض کیا گیا کہ غیر مقلدوں کا یہ ایمان نہیں ہے مثلاً اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذ سے فرمایا تھا جو حکم کتاب و سنت میں نہ ملے تو تم اجتہاد سے کام لینا ، یہ دین کا حکم تھا غیر مقلدین اس کو نہیں مانتے اللہ کے رسولﷺنے صحابہ کرام کو دین یہ بتلایا تھا کہ تم خلفائے راشیدین کی سنت کو لازم پکڑنا مگر غیر مقلدین کو خلفائے راشدین کی سنتوں سے چڑ ہے ،اللہ کے رسول ﷺ نے دین کی بات یہ بتلائی تھی کہ میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہنا ،غیر مقلدین کا صحابہ کرام کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ خلاف کتاب و سنت کام کرتے تھے بلکہ صحابہ کی ایک جماعت فاسق تھی ،صحابہ کرام کے بارے میں دین کی بات یہ تھی کہ ان کی اقتداءاور پیروی کی جائے ،مگر غیر مقلدین کہتے ہیں کہ نہ صحابہ کرام کی فہم حجت ہے نہ قول حجت ہے ،نہ فعل حجت ہے اس طرح ان کی پیروی واقتداءسے انکار کر دیا ۔

قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ فاسئلواھل الذ کر ان کنتم لا تعلمون کہ اگر تم دین کی بات نہ جانتے ہو تو جاننے والوں سے معلوم کرو، اس آیت سے فقہا و علماءکی تقلید کا وجوحکم نکلتا ہے مگر غیر مقلدین اصلاً تقلید ہی کے منکر ہیں ، و جوب کی بات تو دور کی ہے ۔قرآن میں ہے یا یہاالذین امنوا اطیعو اﷲواطیعوا الرسول واولی الامر منکم یعنی اے ایمان والوں اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر یعنی علماءوفقہا کی اطاعت کرو ،اطاعت کہتے ہیں بات ماننے کو ۔اس آیت میں اللہ ورسول کے ساتھ ساتھ اولی الامر یعنی علما ءفقہاءکا بھی ذکر ہے ۔کہ ان کی بھی بات مانی جائے گی۔ اس سے بھی تقلید کا حکم ثابت ہو رہا ہے مگر غیر مقلدین علماءوفقہا کی تقلید کا انکار کر کے اس آیت کے حکم کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ،حضرت جابر رضی اللہ رضی عنہ سے مروی ہے کہ اولی الامر سے مراد اہل فقہ اور ارباب خیر ہیں۔ (مستدرک حاکم ص ۴۳ ۱) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد اہل فقہ ہیں ( ایضاً) لیکن غیر مقلدین صحابہ کرام کی تفسیر کے منکر ہیں ،جب آیت کریمہ میں اہل فقہ بھی مراد ہیں تو فقہا ءکرام کی بات ماننا بھی ضروری ہے ان فقہائے کرام میں چاروں ائمہ بھی داخل ہیں اس لئے کہ ان کے اہل فقہ ہونے کا انکار کرنا دوپہر میں سورج کے وجود کا انکار کرنا ہے ،ا س لئے ان فقہائے کرام کی بھی تقلید شرعاً ثابت ہے اس کا انکار قرآن کا انکار ہے ،یہ بھی یاد رکھیئے کہ فقہائے کرام کے بارے میں یہ تصور گمراہ کن ہے کہ وہ کتاب و سنت کے خلاف فتویٰ دےں گے جس طرح سے صحابہ کرام کے بارے میں تصور گمراہ کن ہے کہ وہ خلاف کتاب و سنت فیصلہ کریں گے ،مگر افسوس غیر مقلدین اس حقیقت سے بے خبر ہیں ،فقہا مجتہدین کی بات تو الگ رہی وہ صحابہ کرام کے بارے میں بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خلاف کتاب و سنت فتویٰ دیا کرتے تھے ایک غیر مقلد محقق صاحب حضرت عمر ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرماتے ہیں۔

”ان دونوں جلیل القدر صحابہ نے نصوص شرعیہ کے خلاف موقف مذکور اختیار کر لیا تھا ۔ “ ( تنویر الآفاق ۸۷ ص شائع کر دیا جامعہ سلفیہ بنارس (

حضرت عمر ؓ کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ انہوں نے نصوص کتاب و سنت کے خلاف طلاق کے مسئلہ میں قانون شریعت بنایا تھا ( ۹۹ ۴ص ایضاً ) انہیں محقق صاہب کا یہ بھی ارشاد ہے۔

”پوری امت کا اس اصول پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام کے وہ فتا وے حجت نہیں بنائے جا سکتے جو نصوص کتاب و سنت کے خلاف ہوں“ (ایضاًص۵۱۵ (

اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے غصہ میں خلاف شریعت فتویٰ دیا تھا ،غرض صحابہ کرام کے بارے میں جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے مقتدیٰ بنایا ،اور ان کی پیروی کا تاکیدی حکم فرمایا ،غیر مقلدین کا یہ عقیدہ ہے اور ظاہر بات ہے کہ یہ دین و شریعت کے خلاف عقیدہ ہے ۔

جب اللہ نے علماءو فقہا کے اطاعت کو بھی واجب قرار دیا اور نہ جاننے والوں کو جاننے والوں سے پوچھنے اور ان کی اطاعت کو لازم بتلایا تو اب خواہ کوئی ایک سے پوچھے یا دو چار سے پوچھے ، دوسرے لفظوں میں خواہ ایک کی تقلید کرے خواہ دو چار کی تقلید کرے یہ سب امر شرعی ہیں ،ان کو خلاف شریعت کہنا کتاب و سنت کا انکار ہے

سوال نمبر۵: رسول اﷲ ﷺ قیامت تک کےلئے امت کے واسطے کیا چھوڑ گئے ہیں، چاروں اماموں کی تقلید یا اتباع کتاب و سنت؟

جواب نمبر ۵: آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، میں تم میںدو چیزیں چھوڑ کر جا رہاہوں جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ امت کو گمراہی سے بچانے والی چیز اﷲ اور اس کے رسول کی ہدایتیں ہیں مگر افسوس غیر مقلدین ان ہداتیوں کے منکر ہیں، اﷲ کا حکم ہے جیسا کہ ابھی معلوم ہوا تقلید کرنے کا اور غیر مقلدین تقلید کے منکر ہیں، رسول اﷲﷺ کا ارشاد ہے کہ ہمارے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، مگر غیر مقلدین خلفائے راشدین کی سنت کو بدعت کہتے ہیں، ترمذی کی روایت ہے کہ اﷲ نے حق حضرت عمرؓ کی زبان پر نازل کیا ہے مگر غیر مقلدین اس حدیث کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ خلاف نصوص اور خلاف کتاب و سنت کام کرتے تھے، ایک غیر مقلد بکواسی یہ بکواس کرتا ہے۔

حضرت عمرؓ کھلے کھلے اور روز مرہ پیش آنے والے مسائل میں کھلی کھلی غلطی کرتے تھے۔

سینکڑوں مسائل میں غیر مقلدین نے کتاب و سنت کو چھوڑ رکھا ہے، مثلاً دیکھئے آنحضور ﷺ نے نماز پڑھنے کا طریقہ یہ بتلایا تھا، حضرت ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ :

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، آپ نے ہمارے لئے ہماری سنت کو بیان کیا اور ہمیں نماز سکھلائی، فرمایا کہ لوگو اپنی صفوں کو سیدھا رکھو پھر تم میں کا ایک امام ہو تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم شریف (

مگر غیر مقلدین اﷲ کے رسول کے اس حکم کو نہیں مانتے اور امام کے پیچھے مقتدی بن کر خاموش نہیں رہتے۔

اﷲ کے رسول کا حکم تھا، فجر کی نماز اجالا میں پڑھو، مگر غیر مقلدین اس کو نہیں مانتے اﷲ کے رسول کا بخاری شریف میں حکم موجود ہے کہ گرمی کے زمانہ میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو، مگر غیر مقلدین اس کو بھی نہیں مانتے، اﷲ کا فرمان ہے کہ شراب نجس ہے مگر غیر مقلدین کہتے ہیں کہ شراب پاک ہے، اﷲ کا حکم ہے کہ نماز کے وقت کپڑا نجاست سے پاک ہو، اور ان غیر مقلدین کا مذہب ہے کہ نجاست سے لت پت نماز ہو جائے گی، اﷲ اور اس کے رسول کاحکم ہے کہ تھوڑے دودھ یا زیادہ دودھ کی کوئی قید نہیں جس عورت نے کسی بچہ کو دودھ پلا دیا حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی لیکن غیر مقلدین کہتے ہیں کہ نہیں پانچ دفعہ دودھ پلانا ضروری ہے، اس طرح اور نہ معلوم کتنے مسائل ہیں جن میں غیر مقلدین کتاب و سنت سے ہٹ کر مذہب اختیار کئے ہوئے ہیں، اﷲ کے رسول ﷺنے تو فرمایا تھا کہ میری سنت اور کتاب اﷲ کو پکڑو گے تو گمراہ نہ ہو گے اور انہوں نے مسئلے مسائل کی موٹی موٹی کتابیں لکھی ہیں جن میں کتاب و سنت کا کہیں نام و نشان نہیں۔

سوال نمبر۶: نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور شخص کے کہنے پر کوئی چیز واجب فرض، یا سنت ، حلال یا حرام ہو سکتی ہے کہ نہیں؟

جواب نمبر۶: اﷲ و رسول نے جن کی اطاعت اور تقلید کا حکم دیا ہے اور ان کو امت کے لئے مطاع بنایا ہے اگر وہ اپنی رائے اور اجتہاد سے کسی بات کا حکم کریں تو حسب ضرورت اور موقع ان کا حکم ماننا بھی کبھی فرض و واجب اور سنت کے درجہ میں ہوتا ہے، مثلاً اگر حاکم یا قاضی کوئی فیصلہ کرے تو اس کا ماننا ضروری ہے، اس سے دلیل کاطلب کرنا غیر شرعی عمل ہو گا، یا مثلاً صحابہ کرام اگر کسی ایسے امر کا حکم فرمائیں جو آنحضور ﷺکے زمانہ میں نہیں تھا تو اس کا ماننا بھی سنت ہو گا، جیسے حضرت عمرؓ نے تراویح با جماعت بیس رکعت ایک امام کے پیچھے پورے رمضان مقرر فرمائی تو اس کو تمام امت نے مسنون قرار دیا۔البتہ غیر مقلدین نے انکار کر دیا یا مثلا حضرت عثمانؓ نے جمعہ میں ایک اذان کا اضافہ کیا اس کو تمام امت نے خلیفہ راشد کی سنت سمجھ کر اختیار کیا مگر غیر مقلدین نے اس کا انکار کر دیا، ائمہ مجتہدین نے اپنی فقہی بصیرت سے کام لے کر کتاب و سنت سے مسائل اخذ کئے جن کے بارے میں بتلایا کہ یہ سنت ہے، یہ واجب ہے، یہ فرض ہے، ساری امت ان کے فیصلہ کو مانتی ہے۔

سوال نمبر۷: اگر کوئی شخص اپنے امام یا عالم کے کہنے پر کسی چیز کو حلال یا حرام فرض یا سنت سمجھے تو وہ اتخدوا احبارھم الخ کے مصداق اپنے اماموں کو اﷲ کے مقابلہ میں رب نہیں بنا رہا ہے؟

جواب نمبر۷: کوئی مسلمان کسی عالم کے کسی فتوی کو رب سمجھ کر نہیں مانتا، بلکہ یہ سمجھ کر اس کا فتوی قبول کرتا ہے کہ یہ عالم مجتہد شریعت اور دین کے واقف کار ہیں اور ہم نہیں ہیں، اور اﷲ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ نہ جاننے والے جاننے والوں سے پوچھیں، اس لئے ناواقف واقف کاروں سے پوچھتا ہے اور اس ناواقف کے ذمہ یہی واجب ہے کہ وہ اس عالم اور مجتہد کے فتوی پر عمل کرے، خود سے جاہلوں کو کتاب و سنت سے مسئلہ معلوم کرنا حرام ہے، اب وہ عالم اگر کسی مسئلہ کو سنت کہے تو سنت سمجھے، اگر واجب کہے تو واجب سمجھے، اگر جائز کہے تو جائز سمجھے اور اگر ناجائز کہے تو نا جائز سمجھے۔ بہرحال جاہلوں کے ذمہ عالموں کی تقلید اور غیر مجتہدین کے ذمہ مجتہدین کی تقلید مسائل دین میں واجب ہے۔

مگر غیر مقلدین کہتے ہیں کہ نہیں ہر عام و خاص کو براہ راست کتاب و سنت سے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔

سوال نمبر ۸: اگر بالفرض چاروں مسلک برحق مانے جائیں تو کسی ایک امام کی تقلید کر کے اس کو پورا اسلام مل جائے گا الخ۔

جواب نمبر ۸: کیوں نہیں ملے گا۔ قرآن سات لہجوں میںنازل ہوا ہے اور آپ صرف ایک لہجہ میں پڑھتے ہیں تو کیا آپ کو پورا قرآن پڑھنا حاصل نہیں ہوتا، کیا آپ نماز میں ساتوں قرات پڑھتے ہیں؟ چاروں مسلک اصول میں متحد ہیں، چاروں ائمہ اہل سنت والجماعت کے مذہب و عقیدہ پر تھے تو ان کے مقلدین کا بھی یہی حکم ہے، قرآن و حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ کسی ایک امام کی تقلید مت کرو۔

اگر کوئی جاہل غیر مقلد پوری زندگی صرف مولانا عبداالرحمن مبارکپوری سے فتوی پوچھ پوچھ کر عمل کرتا اور اسی پر مر جاتا تو کیا وہ غیر مقلد مذ ہب سے باہر قرار پاتا کیا ہر جا ھل غیر مقلد اپنے تما م غیر مقلد علما سے فتویٰ پوچھتا ہے ،یا ایک سے فتوی معلوم کر کے اس پر عمل کرنا بھی وہ اپنے لئے جائز سمجھتا ہے؟۔

سوال نمبر۹: تقلید کا ذکر قرآن میں کتنی مرتبہ آیا ہے اور کہاں ہے؟

جواب نمبر۹: کتنی مرتبہ کا کیا مطلب اگر تقلید کا ذکر قرآن میں صرف ایک دفعہ ہو تو اس کو آپ نہیں مانیں گے؟ یہ سوال کتنا جاہلانہ ہے، تقلید کا ذکر و حکم قرآن میں متعدد جگہ ہے۔ سورہ نساءمیں یاایھاالذین امنوا اطیعو اﷲ واطیعو الرسول واولی الامر منکم۔سورہ نحل میں۔فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔سورہ لقمان میں۔واتبع سبیل من اناب الی۔خوب یاد رکھئے کہ اتباع، اطاعت تقلید سب کا معنی ایک ہی ہے یعنی علمائے متقین و مجتہدین کی دین و شریعت مےں تابعداری کرنا، ان کی بات ماننا ، اور ان سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا۔

غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اتباع الگ ہی اور تقلید الگ، مگر یہ صرف بات کا الٹ پھیر ہے اور چونکہ بے جان بات ہے اس وجہ سے شیخ الکل فی الکل میاں صاحب نذیر حسین دہلوی کو کہنا پڑا۔

آنحضرت ﷺ کی پیروی کو اور مجتہدین کی اتباع کو تقلید کہنا مجوز (جائز) ہے۔(معیار الحق ص۷ ۶)

اس عبارت کا حاصل یہ نکلا کہ آنحضورﷺکی اتباع کو تقلید بھی کہا جاتا ہے جس طرح مجتہدین کی اتباع کو تقلید کہا جاتا ہے، دونوں میں معنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔

سوال نمبر ۰ ۱: تقلید کی شرعی حیثیت کیا ہے، فرض ، واجب، یا سنت؟

جواب نمبر ۰ ۱: اگر آدمی غیر مجتہد ہے یا جاہل ہے تو دین و شریعت پر عمل کرنے کے لئے بحکم قرآن علماءو مجتہد کی تقلید ضروری ہے، غیر مجتہد کا خود سے بلا کسی کی رہنمائی کے شریعت پر عمل کرنا جائز نہ ہو گا اس لئے کہ اندیشہ ہے کہ وہ گمراہ ہو جائے گا۔

سوال نمبر۱۱؛ تقلید کا حکم کس نے دیا؟

جواب نمبر۱۱: اﷲ و رسول نے تقلید کا حکم دیا ہے، قرآن کی آیتیں تو اوپر گذر چکیں، دو ایک حدیث بھی سن لیں۔

(۱ )مشہور حدیث ہے۔علیکم بسنتی و سنة الخلفاءالراشدین المھد ییین تمسکو ابھا و عضوا علیھا بالنواجذیعنی میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوط پکڑو اور اس پر دانت جمائے رکھو۔

اس حدیث میں خلفائے راشدین کے طریقہ و عمل کا لازم پکڑنے کا کتنا تاکیدی حکم ہے۔ اس حدیث سے تقلید شخصی کا بھی پتہ چلتا ہے، اس لئے کہ ہر زمانہ میں خلیفہ راشدایک ہی ہو گا، اس لئے ہر زمانہ کے خلیفہ راشد کی تقلید کا حکم دیا جا رہا ہے، اور اسی کا نام تقلید شخصی ہے گویا مسلمانوں پر اس کے زمانہ کے خلیفہ راشد کی تقلید و اتباع واجب اور ضروری ہے۔

(۲) آپ ﷺ نے اپنے زمانہ کے تمام صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا :

فاقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر۔یعنی تم میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتداءکرنا، اس حدیث سے بھی تقلید اور تقلید شخصی کا حکم ثابت ہوتا ہے۔

(۳)آنحضورﷺکا حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے بارے میں ارشاد ہے رضیت لکم ما رضی لکم ابن ام عبد،یعنی جو طریقہ و عمل تمہارے لئے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ پسند فرمائیں میں اس پر راضی ہوں۔

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے بارے میں آنحضور ﷺ کی اس وزنی شہادت کے بعد کون شخص ہو گا جو یہ کہے کہ ان کی تقلید و اتباع حرام ہے۔

سر دست یہ تین حدیثیں کافی ہیں، افسوس غیر مقلدین ان ارشادات رسول کو قبول نہیں کرتے۔

سوال نمبر ۲ ۱ : کیا ہم اﷲ کی شریعت کے خلاف فیصلے کر کے کفر کا ارتکاب نہیں کر رہے ہیں؟

جواب نمبر ۲ ۱: اگر آپ اﷲ کی شریعت کے خلاف جان بوجھ کر فیصلے کر رہے ہیں تو بلا شبہ آپ جہنمی ہیں اور کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں، یہ سوال پوچھنے کا ہے ہی نہیں، بہر حال یہ آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔

سوال نمبر۳ ۱: چاروں اماموں سے پہلے لوگ اور خود یہ چاروں امام کس کی تقلید کرتے تھے؟

جواب نمبر۳ ۱: جو مجتہد تھے وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے اس لئے کہ مجتہد کے لئے تقلید نہیں ہے، اور جو غیر مجتہد تھے و مجتہدین کی تقلید کرتے تھی، اس لئے کہ قرآن کا یہی حکم تھا، چاروں ائمہ مجتہد تھے وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے، براہ راست کتاب و سنت سے اور سنت خلفائے راشدین سے مسائل کا استنباط کرتے تھے اور دوسرے غیر مجتہدین لوگ ان کی اتباع و پیروی کرتے۔

سوال نمبر۴ ۱: اگر وہ کسی تقلید کے بغیر اسلام پر عمل پیرا تھے تو آج یہ ناممکن کیوں؟

جواب نمبر۴ ۱: اگر کسی میں اجتہاد کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں تو وہ تقلید نہ کرے، اگر نہیں پائی جاتی ہیں تو تقلید کرے گا، پہلے بھی یہی حکم تھا اور آج بھی یہی حکم ہے۔

سوال نمبر۵ ۱: رسول کے فرمان کے مطابق زمانہ خیرالقرون میں تقلید نہیں کی جاتی تھی تو آج کیون وہ ضروری ہے؟

جواب نمبر۵ ۱: اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ زمانہ خیرالقرون میں تقلید تھی اور یہ خدا اور رسول کا حکم ہے، ان زمانوں مین تقلید شخصی وغیرشخصی دونوں کا وجود تھا، خود اماموں کے زمانہ میں تقلید شخصی تھی، مشہور غیر مقلد عالم مولانا نواب صدیق حسن صاحب فرماتے ہیں:

اھل مصر کانوا مالکیة فلما قدم الشافعی مصر تحولوا الی الشافعیة (الجُنة)یعنی مصر والے مالکی تھے جب امام شافعی مصر تشریف لے گئے تو لوگ شافع مسلک والے بن گئے، اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ ائمہ کے زمانہ میں تقلید شخصی تھی۔

سوال نمبر۶ ۱: اگر چاروں اماموں سے پہلے لوگ تقلید نہیں کرتے تھے تو تقلید کی ابتدا کب سے ہوئی؟ کیا یہ بدعت نہیں ہے؟ بدعت کسے کہتے ہیں؟

جواب نمبر۶ ۱۔: یہ سوال ہی غلط ہے کہ چاروں اماموں سے پہلے تقلید نہیں تھی جیسا کہ معلوم ہوا، کہ تقلید کا حکم خدا ا و رسول کا ہے اس لئے اس کو جو بدعت کہے وہ خود سب سے بڑا بدعتی اور کتاب و سنت کا مخالف ہے، بدعت وہ ہے جو خلاف شریعت ہو۔

سوال نمبر۷ ۱: کیا رسول کے زمانہ سے لے کر چوتھی صدی ہجری تک کوئی عامی یا جاہل نہیں تھا، اگر تھا تو وہ کس کی تقلید کرتا تھا؟

جواب نمبر۷ ۱: ہر زمانہ میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، پہلے بھی یہی شکل تھی اور اب بھی یہی شکل ہے، جاہل عالم کی تقلید کرتا تھا، اور اس کو اس کی تقلید کرنی چاہئے کہ خدا ا و رسول کافرمان یہی ہے مگر غیر مقلدین خدا و رسول کے اس حکم کے انکاری ہیں۔

سوال نمبر ۸ ۱: رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر زمانہ میں حق پر قائم رہنے والی ایک جماعت ہو گی، جب کہ چوتھی صدی ہجری تک تقلید ی مذاہب کی پیدائش ہی نہیں تھی تو آج چاروں مسلک بر حق اور اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے تو یہ کس طرح حق پر قائم رہنے والی جماعت مانی جائے گی؟

جواب نمبر۸ ۱: چوتھی صدی ہجری تک تقلیدی مذاہب نہیں تھے یہ جاہل غیر مقلدوں کا پروپیگنڈہ ہے نواب صاحب بھوپالی فرماتے ہیں نشآ ابن شریع فاسس قواعد التقلید، الجنة ص۹ ۳۔ یعنی ابن شریح نے تقلید کی بنیاد ڈالی، اگر چوتھی صدی سے پہلے تقلید نہیں تھی تو دوسری صدی کے مجدد ابن شریح کو تقلید کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ابن شریح دوسری صدی کے آدمی ہیں۔ نواب صاحب فرماتے ہیں ولذلک یعد من المجد دین علی راس المآ تین یعنی اسی وجہ سے (یعنی تقلید کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کی وجہ سے) وہ دوسری صدی کے مجددین میں شمار ہوتے ہیں۔

اہل سنت والجماعت کی علامت ہے کہ وہ رسول اور صحابہ کرام کے طریقہ پر ہو گی چاروں مذاہب رسول اور صحابہ کرام کے طریقہ پر ہیں اس لئے یہ سب اہل سنت والجماعت ہیں، البتہ غیر مقلدین صحابہ کرام کے طریقہ پر نہیںہیں اس لئے سب اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام میں کچھ لوگ فاسق تھے اور صحابہ کرام غلط فتوی دیا کرتے تھے، اور کتاب و سنت کے خلاف فتوی دیا کرتے تھے، اس قسم کی باتیں رافضیت اور شعیت کی علامت ہیں، اہل سنت والجماعت کی نہیں۔

سوال نمبر۹ ۱: کسی امام کی تقلید کرنے پر آخرت میں مواخذہ ہو گا یا رسول اﷲ کی اطاعت سے منہ پھیر کر مفتی کے قول پر عمل کرنے سے؟

جواب نمبر۹ ۱: شریعت کے احکام قصدوار ادہ سے چھوڑنے والوں اور بدعقیدہ لوگوں پر آخرت میں مواخذہ ہو گا۔

سوال نمبر ۰ ۲: کیا قبر میں پوچھا جائے گا کہ تو کس کا مقلد تھا یا تیرا امام کون ہے؟

جواب نمبر۰ ۲: قبر میں یہ سوال نہیں ہو گا بلکہ یہ سوال ہو گا کہ تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہی اور یہ کہ من ھذا لرجل یہ آدمی کون ہیں قبر میں اس کا بھی سوال نہیں ہو گا کہ تو غیر مقلد تھا کہ نہیں۔

سوال نمبر۱ ۲: کیا حنفی شافعی اپنے اماموں کے ناموں سے پکارے جائیں گے جیسا کہ ارشاد باری ہے یوم ندعوا کل اناس بامامھم۔؟

جواب نمبر۱ ۲۔: ایک غیر مقلد عالم اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے، امام کے معنی پیشوا، لیڈر اور قائد کے ہیں۔ یہاں اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے آسمانی کتاب مراد ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہاں امام سے مراد نامہ اعمال ہے، اسی رائے کو ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔

معلوم ہوا کہ غیر مقلدین کے نزدیک امام سے مراد نامہ اعمال ہے اگر غیر مقلدین کا خیال ہے کہ حنفی شافعی اپنے اماموں کے ناموں کے ساتھ پکارے جائیں گے تو اس میںبھی اشکال کیا ہے؟ جبکہ امام کے معنی پیشوا کے بھی ہے۔

سوال نمبر ۲۲: چاروں خلفاءافضل تھے تو ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی، اماموں کی تقلید کیوں کی جاتی ہے؟

جواب نمبر۲۲: غیر مقلدوں کو یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک خلفاءکی بھی تقلید ایسے ہی حرام ہی جیسے اماموں کی، تو پھر یہ سوال کیوں؟

سوال نمبر۳ ۲: صرف انہیں چاروں اماموں کی تقید کیوں کی جاتی ہے کسی اور عالم مفتی کی تقلید کیوں نہیں کیجاتی؟

جواب نمبر۳ ۲: اس لئے کہ ان چاروں کے سوا کسی اور امام و فقیہ کا فقہ مرتب اور مدون نہیں ہے، اور ان چاروں کا فقہ مرتب اور مدون ہے اس لئے ان چاروں کی تقلید میں سہولت زیادہ ہے۔

سوال نمبر ۴ ۲: ان چاروں اماموں کے اساتذہ کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟

جواب نمبر۴ ۲: اس کا جواب ابھی گزر چکا ہے، رہا یہ سوال کہ ان چاروں ائمہ نے اپنے اساتذہ کی تقلید کیوں نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ تقلید مجتہد کاکام نہیں ہے، عامی کا فریضہ ہے۔

سوال نمبر۵ ۲: ان چاروں اماموں کے شاگرد اپنے استادوں کی تقلید کرتے تھے؟

جواب نمبر۵ ۲: جو خود مجتہد تھا وہ نہیں کرتا تھا اور جو مجتہد نہیں تھا وہ ان کی تقلید کرتا تھا۔

سوال نمبر ۶ ۲: اگر ان چاروں اماموں میں سے کسی کی تقلید کرے تو بھی نجات کہاں؟ اس لئے کہ حنفی فقہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ جو امام ابو حنیفہ کے قول کو رد کرے تو اس پر ہماری رب کی ڈھیر سی لعنت ہے۔

جواب نمبر ۶ ۲: غیر مقلدین ان چاروں اماموں مےں سے کسی کی صدق دل سے تقلید کریں انشاءاﷲ نجات پائیں گے۔ یہ شعر کسی شافعی، مالکی کے لئے نہیں ہے بلکہ غیر مقلدین کے لئے ہے جو امام ابو حنیفہ کی شان میں بدگوئی کرتے ہیں اور ان کے اقوال کو خلاف کتا ب و سنت قرار دیتے ہیں، شافعی، مالکی ، حنبلی یہ تمام کے تمام مذہب حنفی کی عزت کرتے ہیں ، امام ابو حنیفہ کا احترام کرتے ہیں، ان کی فقہی بصیرت کے قائل ہیں اس لئے اس شعر کے مستحق صرف دشمنان ابو حنیفہ یعنی غیر مقلدین ہیں،اگر کوئی شافعی حنفی، مالکی ، حنبلی ایک دوسرے کو برا بھلا کہتا ہے تو وہ قابل ملامت ہے۔

سوال نمبر۷ ۲: اگر چاروں مسلک برحق ہیں تو مقلدین حنفی شافعی ایک دوسرے کی تنقیص و تکفیر کیوں کرتے ہیں؟

جواب نمبر۷ ۲: حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ایک دوسرے کی تنقیص ہرگز نہیں کرتے ہر ایک دوسرے کا حترام کرتا ہے، اگر کوئی جاہل ایسا کرے تو جاہلوں کا قول و فعل حجت نہیں ہے اور اختلاف کا نام تنقیص رکھنا جاہلوں کا کام ہے۔

سوال نمبر۸ ۲: کیا ہم اسلام کو چار فرقوں میں تقسیم کر کے گروہ بندی اور فرقہ بندی نہیں کر رہے ہیں؟

جواب نمبر۸ ۲: اسلام کو کوئی تقسیم نہیں کرتا، سب کا دین اسلام ہے عقیدہ سب کا ایک ہے، سب اہلسنت والجماعت ہیں، رائے کے اختلاف کا نام دین کی تقسیم رکھنا جاہلوں کا کام ہے، رائے و اجتہاد کے اختلاف سے دین کی تقسیم نہیں ہوتی۔

سوال نمبر۹ ۲: اگر چاروں مسلک بر حق ہیں تو حنفیوں کو آمین اور رفع یدین سے چڑ کیوں ہے؟

جواب نمبر ۹ ۲: کوئی حنفی نہ آمین سے چڑتا ہے اور نہ رفع یدین سے، حنفی آہستہ سے آمین کہنے کو پسند کرتے ہیں، اور عدم رفع یدین کو اولی سمجھتے ہیں، اس کا نام چڑ رکھنا احمقوںکا کام ہی، البتہ غیر مقلدین شیعوں کی طرح بیس ۰ ۲ رکعت تراویح سے چڑھتے ہیں اس لئے اس کو بدعت عمری کہتے ہیں جیسا کہ شیعہ اسے بدعت عمری کہتے ہیں، حالانکہ بیس۰ ۲رکعت تراویح جمہور اہلسنت والجماعت کا مسلک ہے۔

غیر مقلدین جمعہ کی اذان میں حضرت عثمانؓ والی اذان سے شیعوں کی طرح چڑھتے ہیں، اسی وجہ سے جیسے شیعہ اس کو بدعت کہتے ہیں یہ بھی اس کو بدعت کہتے ہیں، حالانکہ ساری امت نے اس کو سنت سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔

سوال نمبر۰ ۳: کیا تقلید میں ہم قول امام کے مقابلے میں حدیث رسول کو ترک کر کے جنت سے محروم نہیں ہو رہے ہیں؟

جواب نمبر ۰ ۳: تقلید تو اسی لئے کی جاتی ہے کہ قول رسول اور پوری شریعت پر کسی ماہر شریعت کی رہنمائی میں عمل کیا جائے، تقلید کا راستہ تو سیدھا جنت میں لے جائے گا البتہ غیر مقلدین کا جنت میں جانا مشکوک ہے اس لئے کہ ان کا ہر جاہل بھی براہ راست کتاب و سنت پر دسترس رکھتا ہے اور یہ کتاب و سنت کے بارے میں انتہائی درجہ جرات اور گستاخی کی بات ہے۔

سوال نمبر ۱ ۳: کیا ہم رسول کے مقابلے میں غیر نبی کی اطاعت کر کے اپنے اعمال برباد نہیں کر رہے ہیں؟

جواب نمبر۱ ۳: اگر آپ غیر مقلدین یہ حرکت کرتے ہوں تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو بلا شبہ سیدھے جہنم میں جائیں گے اور اپنا سارا عمل برباد کریں گے، البتہ اہلسنت والجماعت کا کوئی فرد رسول کے مقابلے میں کسی غیر کی اطاعت نہیں کرتا، بلکہ اﷲ و رسول کی اطاعت ہی کے لئے غیر کی اطاعت کرتا ہے اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ غیر ہم سے زیادہ دین و شریعت اور ان کے حقائق و اسرار کا راز داں ہے

سوالات کے ختم ہونے پر، سوالات کے مرتب فرماتے ہیں:

”آپ کی ایمانی غیرت و دینی حمیت کا تقاضہ ہے کہ آپ حق کی جستجو کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم چار مسلکوں میں تقسیم ہو کر صراط مستقیم چھوڑ کر شیطان کے راہ پر چل رہے ہیں“۔

غیر مقلدین کو عقل اور دین کی سمجھ ہوتی تو اس طرح کی باتیں نہ کرتے، گمراہی اور شیطان کا راستہ یہ ہے کہ جاہل لوگ براہ راست قرآن حدیث لےکر بیٹھ جائیں اور اپنی سمجھ سے قرآن و حدیث سے مسئلے مسائل معلوم کریں، ائمہ اربعہ ماہران شریعت تھے، ان کی رہنمائی میں دین و شریعت کی وادی کو بلا خوف و خطر طے کیا جا سکتا ہے۔ انشاءاﷲ ساحل مراد تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی، البتہ جو تیر نا نہ جانتا ہو وہ دریا میں اترے گا تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بچے گا یا مرے گا، جو مریض اپنا علاج خود سے کرے گا اس کا انجام معلوم ہے، عقلاءاور اہل فہم ہمیشہ ماہر طبیب کی طرف لپکتے ہیں، کتاب و سنت اور دین و شریعت بچوں کا کھلونا نہیں ہے کہ جو چاہے اس سے کھیلے، شریعت کے ماہرین اور اہل فقہ و اجتہاد کی قیادت ہی میں دین کا راستہ طے ہو گا، ورنہ پھر کوئی عبداﷲ چکڑالوی بن جائے گا، اور کوئی پرویز اور کوئی نیاز، اور کوئی غلام احمد قادیانی،کوئی اسلم جیراجپوری یہ سب غیر مقلد تھے اور آخر میں سب کے سب دین سے باہر ہو گئے، کوئی کتاب و سنت کا منکرہوا، کوئی ملحد ہوا اور کوئی نبوت کا مدعی بن گیا۔

آج بھی عدم تقلید کے نتیجہ میں غیر مقلدوں میں شیعیت و رافضیت کے جراثیم پیدا ہو چکے ہیں اور اسلاف اور صحابہ کرام کے بارے میں ان کی تبرا گوئی شیعوں کی طرح ہو گئی۔

اللھم احفظنا من کل بلاءالدنیا والاخرة واجعل اخرتنا خیرالنا من الاولی، وصل وسلم علی سید الانبیاءوالمرسلین والہ وصحبہ اجمعین۔
Source: http://algazali.org/
القواعد فی العقائد
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

Also Related:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits

No comments: