رشوت خوری کا انجام ذلت و رسوائی - بنی اسرائیل اور آج کے مسلمانCorruption Disgraceful

وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ ۖ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
﴿007:168﴾

‏اور ہم نے ان کو جماعت جماعت کر کے ملک میں منتشر کر دیا۔ بعض ان میں سے نیکو کار ہیں اور بعض اور طرح کے (یعنی بدکار) اور ہم آسائشوں اور تکلیفوں (دونوں) سے ان کی آزمائش کرتے رہے تاکہ (ہماری طرف) رجوع کریں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
رشوت خوری کا انجام ذلت و رسوائی ہے بنی اسرائیل مختلف فرقے اور گروہ کر کے زمین میں پھیلا دیئے گئے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے کہا تم زمین میں رہو سہو ، جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تمہیں جمع کر کے لائیں گے ان میں کچھ تو نیک لوگ تھے کجھ بد تھے، جنات میں بھی یہی حال ہے جیسے سورہ جن میں ان کا قول ہے کہ ہم میں کچھ تو نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں ہمارے بھی مختلف فرقے ہوتے آئے ہیں پھر فرمان ہے کہ میں نے انہیں سختی نرمی سے ، لالچ اور خوف سے ، عافیت اور بلا سے غرض ہر طرح پر کھ لیا تاکہ وہ اپنے کرتوت سے ہٹ جائیں جب یہ زمانہ بھی گذرا جس میں نیک بد ہر طرح کے لوگ تھے ان کے بعد تو ایسے ناخلف اور نالائق آئے جن میں کوئی بھلائی اور خیریت تھی ہی نہیں ۔ یہ اب تورات کی تلاوت والے رہ گئے ممکن ہے اس سے مراد صرف نصرانی ہوں اور ممکن ہے کہ یہ خبر عام نصرانی غیر نصرانی سب پر مشتمل ہو وہ حق بات کو بدلنے اور مٹانے کی فکر میں لگ گئے جیب بھر دو جو چاہو کہلوا لو ۔ پس ہوس یہ ہے کہ ہے کیا؟ توبہ کرلیں گے معاف ہو جائے گا پھر موقع آیا پھر دنیا لے کر اللہ کی باتیں بدل دیں ۔ گناہ کیا توبہ کی پھر موقعہ ملتے ہی لپک کر گناہ کر لیا ۔ مقصود ان کا دنیا طلبی ہے حلال سے ملے چاہے حرام سے ملے پھر بھی مغفرت کی تمنا ہے ۔ یہ ہیں جو وارث رسول کہلواتے ہیں اور جن سے اللہ نے عہد لیا ہے جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز تک ضائع کر دی ۔ بنی اسرائیل کا آوے کا آوا بگڑ گیا آج ایک کو قاضی بناتے ہیں وہ رشوتیں کھانے اور احکام بدلنے لگتا ہے وہ اسے ہٹا کر دوسرے کو قائم کرتے ہیں اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے پوچھتے ہیں بھئی ایسا کیوں کرتے ہو؟ جواب ملتا ہے اللہ غفور و رحیم ہے پھر وہ ان لوگوں میں سے کسی کو اس عہدے پر لاتے ہیں جو اگلے قاضیوں حاکموں اور ججوں کا شاکی تھا لیکن وہ بھی رشوتیں لینے لگتا ہے اور ناحق فیصلے کرنے لگتا ہے پس اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ حالانکہ تم سے مضوبط عہد و پیمان ہم نے لے لیا ہے کہ تم حق کو ظاہر کیا کرو اسے نہ چھپاؤ لیکن ذلیل دنیا کے لالچ میں آ کر عذاب رب مول لے رہے ہو اسی وعدے کا بیان آیت (واذا کذ اللہ میثاق الذین اوتو االکتاب الخ،) میں ہوا ہے یعنی اللہ تعالٰی نے یہود و نصاری سے عہد لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہیں گے اور اس کی کوئی بات نہ چھپائیں گے ۔ یہ بھی اس کے خلاف تھا کہ گناہ کرتے چلے جائیں توبہ نہ کریں اور بخشش کی امید رکھیں پھر اللہ تعالٰی انہیں اپنے پاس کے اجرو ثواب کی لالچ دکھاتا ہے کہ اگر تقویٰ کیا حرام سے بچے خواہش نفسانی کے پیچھے نہ لگے رب کی اطاعت کی تو آخرت کا بھلا تمہیں لے گا جو اس فانی دنیا کے ٹھاٹھ سے بہت ہی بہتر ہے ۔ کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ گراں بہا چیز کو چھوڑ کر ردی چیز کے پیچھے پڑے ہو؟ پھر جناب باری عزوجل ان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو کتاب اللہ پر قائم ہیں اور اس کتاب کی راہنمائی کے مطابق اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں ، کلام رب پر جم کر عمل کرتے ہیں ، احکام الٰہی کو دل سے مانتے ہیں اور بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے رک گئے ہیں، نماز کو پابندی ، دلچسپی ، خشوع اور خضوع سے ادا کرتے ہیں حقیقتاً یہی لوگ اصلاح پر ہیں ناممکن ہے کہ ان نیک اور پاکباز لوگوں کا بدلہ اللہ ضائع کر دے ۔
_____________
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الْأَدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِنْ يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِيثَاقُ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
﴿007:169﴾

‏پھر ان کے بعد ناخلف ان کے قائم مقام ہوئے جو کتاب کے وارث بنے۔ یہ (بے تامل) اس دنیائے دنی کا مال ومتاع لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بخش دے جائیں گے۔ اور (لوگ ایسوں پر طعن کرتے ہیں) اگر ان کے سامنے بھی ویسا ہی مال آ جاتا ہے تو وہ بھی اسے لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے کتاب کی نسبت عہد نہیں لیا گیا کہ خدا پر سچ کے سوا اور کچھ نہیں کہیں گے؟ اور جو کچھ اس (کتاب) میں ہے اسکو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے۔ اور آخرت کا گھر پر ہیزگاروں کے لئے بہتر ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
_____________
وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ
﴿007:170﴾

‏اور جو لوگ کتاب کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز کا التزام رکھتے ہیں (انکو ہم اجر دیں گے کہ) ہم نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر

The Protocols of the Elders of Zion

http://www.biblebelievers.org.au/ij_ch12.htm

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

Also Related:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits

خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید

یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22 قرآن)
جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں (2:269 قرآن)
تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42 قرآن)

علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ پاکستان کے قومی شاعر، جدید مسلم فلاسفر، مفکر، دانشور اور قانون دان کےعلاوہ بانیان پاکستان میں بھی شامل ہیں. ان کی شا عری بہت مشہور ہے مگر مسلمانوں کی فکری تجد ید پر ان کے سات لیکچروں [ Reconstruction of Religious Thought in Islam]  "اسلام میں تفکر کا انداز جدید" پر بہت کم توجہ دی گیئ.  ان لیکچروں کو سمجھنے ،غور و فکر، تجزیہ ،پھہلا ؤ اور بتدریج  عملی اقدام کی ضرورت ہے تاکہ  امت  مسلمہ صدیوں  کے   جمود  سے نکل کر  جدید  دنیا  میں اپنا   حقیقی  مثبت  کردار ادا کر سکے -  علامہ اقبال نے یہ لیکچر مدراس، حیدر آباد، اور علی گڑھ (انڈیا)  میں دیے جو کہ ١٩٣٠ میں کتابی شکل میں شا یع ہوے- تمام لیکچرز انگریزی اور اردو  زبان میں اور ویڈیو لیکچرز  کی شکل میں مہیا کر دی ہیں-

Reconstruction of Religious Thought in Islam
By Dr.Muhammad Iqbal

 Available - http://goo.gl/MT7xqL
1.Knowledge and Religious Experience: علم اور روحانی تجربہ :  
 روحانی تجربہ کے مکشوفات کی عقلی جانچ
تصور خدا اور عبادت کا مفہوم
اسانی نفس اس آزادی اور سرمدیت
5.The Spirit of Muslim Culture     اسلامی ثقافت کی روح
اسلام میں اصول حرکت (اجتہاد)
7. Is Religion Possible?    کیا مذہب ممکن ہے ؟

تعارف – "اسلام کی تعمیر میں اصول حرکت"    لیکچر نمبر 6
چھٹا لیکچر"اسلام کی تعمیر میں اصول حرکت"; در اصل "اسلام میں تفکر کا انداز جدید" کے تمام لیکچروں میں سب سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ اقبال کا "اسلامی تفکر جدید" کا تصور اسی موضوع کے گرد گھومتا ہے جو کہ "اجتہاد" یعنی قانونی معاملات پر آزادانہ رایے قائم کرنا- قرآن سے ماخوز قانونی اصول، بدلتے  زمانہ اور حالات کے مطابق پھیلاؤ اور ترقی کی صلاحیت رکھتے ہیں-  حضرت عمر رضی اللہ نے حالات کے مطابق اجتہاد کیا. چہار فقہی مکاتب کے بعد اسلامی فقہ جمود کا شکار ہو گیا  کیونکہ مختف وجوہ کی بنا پر اجتہاد کے دروازے بند کر دیے گیۓ. اس سے مسلم امت کو کچھ فائدے مگر نقصانات زیادہ ہوے. ابن تیمیہ ر ح پھر عبد الوہاب ر ح نے جمود کو توڑنے کی کوشش کی .
شاہ ولی اللہ کے مطابق (بنیادی عقاید کے علاوہ) عام شریعیت اس وقت کے معاشرہ کی ضروریات کے مد نظر تھیں اور ان پر عمل ہمیشہ کے لیے حتمی نہیں کہ مستقبل کی نسلوں پرمکمل طور اسی طرح  پر نافذ کیا جا سکے. اس لیے امام ابو حنیفہ نے "استحسان" اختیار کیا- اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ آج کے مسلمان موجودہ حالات کے مطابق اپنی معاشرتی زندگی کی 'تعمیر نو' اسلام کے بنیادی اصولوں کی روح کے مطابق کریں-  <<چھٹا خطبہ>> اس پر روشنی ڈالتا ہے.
مکمل کتاب، لیکچر اردو، انگریزی اور  ویڈیوز << یہاں>> حاصل کریں-
مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد علامہ اقبالؒ کو عہدِ حاضر میں اعجاز قرآن کا مظہر قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’میرے نزدیک عہد حاضر میں قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا مظہر علامہ اقبال کی شخصیت ہے۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبال جیسا ایک شخص جس نے وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا، جس نے مشرق و مغرب کے فلسفے پڑھ لئے، جو قدیم اور جدید دونوں کا جامع تھا، جو جرمنی اور انگلستان میں جا کر فلسفہ پڑھتا رہا، اُس کو اس قرآن نے اس طرح Possess کیا اور اس پر   اس طرح چھاپ قائم کی کہ اُس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآنِ حکیم سے اور اس کی تشنگٔی علم کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے گویا بقول خود اُن کے ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی: مرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں!
قرآن حکیم  اور فکر اقبال
آں کتابِ زندہ، قرآنِ حکیم
حکمتِ او لایزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرفِ او را ریب نے، تبدیل نے
آیہ اش شرمندۂ تاویل نے ۱۵؎
(ترجمہ) وہ کتابِ زندہ جسے قرآن حکیم کہتے ہیں ۔اس میں حکمت کی درج باتیں ہمیشہ رہنے والی اور پرانی ہیں ۔ وہ ( قرآن پاک) زندگی کے ہونے یا نہ ہونے کے بھیدوں کا نسخہ ہے۔ بے ثباّت بھی اس کی وجہ سے ثابت قدم ہو جاتا ہے۔اس کے حروف میں نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے۔اس کی آیاتِ بینات کی کوئی غلط تاویل نہیں ہو سکتی ہے

رسالة التجديد

علامہ اقبال نے اسلامی فکر کے جمود میں بیداری پیدا کی اور ڈاکٹر برق کے مجربات و محسوسات مزید غور و تفکرانسپائر کرتے ہیں- بیس سال قرآن کے مطالعہ و تحقیق، علماء اور اہل علم لوگوں سے کئی کئی دن پر محیط طویل  تبادلہ خیالات و ای ایکسچینجز کے بعد اہم موضوعات پر حاصل نتائج کا خلاصہ پیش خدمت ہے- مکمل تحقیق اردو اور انگریزی ویب سائٹس اور eBooks میں موجود ہے- مواد (contents) پر توجہ دیں اور زبان کی غلطیوں کو نظر انداز کریں۔ اپنے موجودہ نظریات کو دوران مطالعہ ایک طرف رکھنا ہو گا، فٹ نوٹس پرریفرنس لنکس کو پڑھیں توسوالات کے جوابات مل جائیں گےپھررابطہ بھی کیا جا سکتا ہے-  کوشش کی ہے کہ الله تعالی کا پیغام درست ترین طور پرسمجھ کر پیش کیا جائے-  مگربشری محدودات سے کسی نادانستہ غلطی پراللہ تعالی سےمعافی اوربخشش کا طلبگار-

[بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر)] ١٢ ربیع الاول ١٤٤٨ ھ /  September 29 2023]


اقبال اور ملا کی تنگ نظری


The Reconstruction of Religious Thought in Islam is a compilation of lectures delivered
ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے:  کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را 
ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت: خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را 
میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو تاویلیں کیں،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔(علامہ محمد اقبال)

I extend my greetings, Salaam, to both the Sufis and Mullahs for their efforts in conveying the message of God to us. However, the manner in which they have interpreted these divine commands has left 
Allah, Angel Gabriel, and Muhammad (peace be upon him) perplexed  (Allama Muhammad Iqbal)

اقبال اور ملا کی تنگ نظری

====================
اسلام ٹائمز: 
’’ملا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے، اس میں نمی نہیں۔ اس کے مکتب سے میں اس لیے نکل آیا ہوں کہ اس کے حجاز کی ریت میں کوئی زمزم نہیں ہے۔ منبر پر جب ہو تو اس کا کلام چبھن والا زہریلا ہوتا ہے جبکہ اس کے پاس سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں۔ میں نے شرم کے مارے تیرے سامنے یہ بات نہیں کہی کہ وہ اپنے آپ سے تو چھپا ہوا ہے لیکن ہمارے سامنے آشکار ہے۔‘‘

تحریر: سید ثاقب اکبر

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں: ’’علامہ اقبال ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ اکثر پیشہ ور ملا عملاً اسلام کے منکر، اس کی شریعت سے منحرف اور مادہ پرست دہریہ ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ایک مقدمے کے سلسلے میں ایک مولوی صاحب میرے پاس اکثر آتے تھے۔ مقدمے کی باتوں کے ساتھ ساتھ ہر وقت یہ تلقین ضرور کرتے تھے کہ دیکھیے ڈاکٹر صاحب آپ بھی عالم دین ہیں اور اسلام کی بابت نہایت لطیف باتیں کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ آپ کی شکل مسلمانوں کی سی نہیں، آپ کے چہرے پر ڈاڑھی نہیں۔ میں اکثر ٹال کر کہہ دیتا کہ ہاں مولوی صاحب آپ سچ فرماتے ہیں۔ یہ ایک کوتاہی ہے، علاوہ اور کوتاہیوں کے۔ ایک روز مولوی صاحب نے تلقین میں ذرا شدت برتی تو میں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب آپ کے وعظ سے متاثر ہو کر ہم نے آج ایک فیصلہ کیا ہے۔ آپ میرے پاس اس مقدمے کے سلسلے میں آتے ہیں کہ آپ باپ کے ترکے میں سے اپنی بہن کو زمین کا حصہ نہیں دینا چاہتے اور کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں شریعت کے مطابق نہیں بلکہ رواج کے مطابق ترکہ تقسیم ہوتا ہے اور انگریزی عدالتوں نے اس کو تسلیم کر لیا ہے۔ میری بے ریشی کو بھی دینی کوتاہی سمجھ لیجیے لیکن رواج کے مقابلے میں شریعت کو بالائے طاق رکھ دینا اس سے کہیں زیادہ گناہگاری ہے۔ میں نے آج یہ عہد کیا ہے کہ آپ بہن کو شرعی حصہ دے دیں اور میں ڈاڑھی بڑھا لیتا ہوں۔ لائیے ہاتھ، آپ کی بدولت ہماری بھی آج اصلاح ہو جائے۔ اس پر مولوی صاحب دم بخود ہوگئے اور میری طرف ہاتھ نہ بڑھ سکا۔‘‘

علامہ اقبال نے ملا کی اس دو روئی کو یوں بیان کیا ہے:

واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چوں بہ خلوت می روند آں کار دیگر می کنند
مشکلی دارم ز دانشمند محفل باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
’’واعظ لوگ جب محراب و منبر پر جلوہ فرما ہوتے ہیں، وہاں جو باتیں کرتے ہیں، خلوت میں جاکر ان کے برخلاف کام کرتے ہیں، میری ایک مشکل ہے، محفل کے دانشمند سے ایک دفع پھر پوچھ کر بتائیں کہ جو لوگ توبہ کرنے کا فرماتے ہیں، وہ خود کمتر توبہ کیوں کرتے ہیں‘‘ اقبال مجھے کئی دنوں سے یاد آرہے تھے، خاص طور پر ان دنوں سے جب مولویوں کے ایک گروہ کے متشدد فہم نے سارے پاکستان کو وحشت و کرب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ جب پاکستان میں ایک مطالبے پر جو اپنے مقام پر صحیح بھی ہوسکتا ہے، اس مذہبی طبقے نے عوامی راستوں کو بند کر رکھا تھا، ہر چیز کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنا رہے تھے، ہر مخالف کو یہودی یا یہودی ایجنٹ قرار دے رہے تھے، سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگا رہے تھے، یہاں تک کہ بہت سے افراد کو انھوں نے مار مار کر زخمی کر دیا اور بعض تو ان کے تشدد کی تاب نہ لا کر چل بسے۔

اس موقع پر ایسے مذہبی طبقے کی ترجیحات کے حوالے سے ہمارے ایک دوست نے لکھا: ’’سچ بتائیے آپ نے پاکستان میں مولوی صاحبان کی بڑی تعداد کو جان لینے اور دینے کے نعرے لگاتے لگواتے سُنا، کیا کبھی کسی انسانی مسئلے پر بھی اس طبقے نے آواز اٹھائی؟ آپ نے کبھی ناجائز ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، ملاوٹ جیسے مسائل پر مذہبی طبقے کو بات کرتے ہوئے سُنا؟ کیا آپ نے کرپٹ سیاسی نظام، بدتر عدالتی نظام، رشوت پر مبنی پولیس سسٹم کے خلاف کبھی مذہبی جماعتوں کو مظاہرے کی کال دیتے ہوئے سُنا؟ پاکستان میں مذہبی طبقہ صرف "توہین" کے نام پر ہی مرنے مارنے پر ابھارتا ہے، یہ لوگوں کو سیرت نبوی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جینا کیوں نہیں سکھاتا!‘‘ ملا اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ایسی ایسی تاویلیں اور حیلے تراش لیتا ہے کہ عقل انسانی کو حیرت ہوتی ہے، علامہ اقبال نے اس کی بھی نشاندہی کر رکھی ہے:
ز من بر صوفی و ملا سلامی
کہ پیغام خدا گفتند ما را
ولی تأویل شان در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفیٰ را
میری طرف سے صوفی و ملا پر سلام ہے کہ جو ہمیں اپنی طرف سے خدا کا پیغام سناتے ہیں، لیکن اس پیغام میں وہ ایسی تاویل کرتے ہیں کہ جس پر خدا، جبرئیل اور مصطفیؐ بھی حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔

ایک طرف جنھیں ہم کافر کہتے ہیں، انھیں دیکھیں اور دوسری طرف جنھیں ہم اپنا مذہبی راہنماء کہتے ہیں، انھیں دیکھیں تو علامہ اقبال کی یہ بات سچ دکھائی دیتی ہے:
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
اقبال نے ملا کے مزاج کو ایک اور مقام پر بہ انداز دگر بیان کیا ہے اور ان کے مطابق اس مزاج کا حامل شخص جنت کی فضا میں مطمئن نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ کہتے ہیں:
ميں بھی حاضر تھا وہاں، ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت
عرض کی ميں نے، الہی! مری تقصير معاف
خوش نہ آئيں گے اسے حور و شراب و لب کشت
نہيں فردوس مقام جدل و قال و اقول
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت ميں ن ہمیشہ ملا کی کم نظری، فرقہ پرستی، ظاہر بینی اور خود خواہی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ ملا کے بارے میں ان کا عمومی تاثر یہ ہے کہ اگر وہ مخلص بھی ہو تو دین کے چھلکے سے جڑا ہوتا ہے، حقیقت دین کی اس کو خبر نہیں ہوتی۔ الفاظ و اصطلاحات کے بڑے ذخیرے سے کام لے کر عامۃ الناس سے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
 افسوس کہ یہ بات صرف مسلمانوں کے مذہبی پیشواؤں پر صادق نہیں آتی بلکہ دنیا بھر کے مذاہب پر ایسے ہی افراد کا قبضہ ہے۔ ایسے کئی واقعات سامنے آتے ہیں، جن کے مطابق بعض افراد کو مسلمان ہونا اس لیے مشکل ہوگیا کہ ملاؤں کے نزدیک ضروری تھا کہ وہ موجود فرقوں میں سے کسی میں شامل ہوں۔ علامہ اقبال نے بھی ایسے بعض واقعات کی نشاندہی کر رکھی ہے۔ دنیا میں جو تیز رفتار تبدیلیاں آئی ہیں اور آرہی ہیں، ملا عام طور پر اس سے نابلد ہیں۔ ان کے بہت سے مسلمات تحقیق کی دنیا میں پادر ہوا ہوچکے ہیں، لیکن وہ آج تک اسی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے صدیوں پرانے درسی نصاب پر عموماً نگاہ بازگشت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ عالمی حالات، حقائق اور واقعات ہی نہیں انسانیت کے دشمنوں کی تدبیریں اور طریقے بھی ان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ نئے حقائق کی شناسائی کی تمنا ان کے اندر پیدا ہی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے تئیں عقل کل ہی نہیں شیخ الکل فی الکل بھی سمجھتے ہیں، جبکہ ایسا عصر حاضر میں تو بالکل ممکن نہیں ہے۔

علامہ اقبال نے ملا کے بارے میں بہت کچھ کہہ رکھا ہے، ہمارے اس مضمون میں زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ قارئین کرام ایک تحقیقی نظر اس سلسلے میں علامہ اقبال کی شاعری کے علاوہ ان کے منثورات و مکتوبات پر بھی ڈالیں۔ ہم آخر میں ان کے چند اشعار پر اپنی بات تمام کرتے ہیں:
دل ملا گرفتار غمی نیست
نگاہی ہست، در چشمش نمی نیست            
از آن بگریختم از مکتب او
کہ در ریگ حجازش زمزمی نیست          
سر منبر کلامش نیش دار است
کہ او را صد کتاب اندر کنار است           
حضور تو من از خجلت نہ گفتم
ز خود پنہان و بر ما آشکار است
’’ملا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے اس میں نمی نہیں۔ اس کے مکتب سے میں اس لیے نکل آیا ہوں کہ اس کے حجاز کی ریت میں کوئی زمزم نہیں ہے۔ منبر پر جب ہو تو اس کا کلام چبھن والا زہریلا ہوتا ہے جبکہ اس کے پاس سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں۔ میں نے شرم کے مارے تیرے سامنے یہ بات نہیں کہی کہ وہ اپنے آپ سے تو چھپا ہوا ہے لیکن ہمارے سامنے آشکار
~~~~~~~~~~~~

قرآن کو چھوڑنے والے بدترین علماء 

وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)

یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا:
”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
مجھے اپنی امت پر گمراہ اماموں کا خوف ہے​
مجھے اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ ایک چیز کا ڈر ہے​ گمراہ اماموں کا!
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ ایک چیز کا ڈر ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی بات ارشاد فرمائی- سیدنا ابور ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں- میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ کس چیز کا خوف ہے- فرمایا : گمراہ اماموں کا [البانی رحمہ اللہ ،'' سلسلة الأحاديث الصحيحة " (1582) ، (1989)''بيان تلبيس الجهمية " (2/293) ]  [الراوي : أبو ذر الغفاري | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد، الصفحة أو الرقم: 5/2411 ]

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں سے ڈرتا ہوں '' [ الترمذي،2229  صحیح]
۱؎ ، نیز فرمایا : '' میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی ، ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے ''۔ [امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مجھے اپنی امت پر گمراہ اماموں کا خوف ہے ۔ ''[سنن أبي داؤد 4252  ماخوز]
 صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " مجھے تم لوگوں (حاضرین ) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں ) کا زیادہ خوف ہے اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے ) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والا خود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان ) ہوگا ۔ [صحيح مسلم 7373 ماخوز]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا :"میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں سے ڈرتاہوں"-  دوسرے فرقوں کے بانی جن کی وجہ سے امت تفرقہ کا شکار ہوئی. گمراہ آئمہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر لوگوں کی قیادت کرتے ہیں، اس میں فاسد حکام اور گمراہ علماء شامل ہیں. ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ وہ شریعت کی طرف بلارہے ہیں حقیقت میں شریعت کے سب سے زیادہ مخالف ہوتے ہیں [القول المفيد على كتاب التوحيد " (1/365)]
گمراہ امام یعنی شر کے امام [شيخ ابن عثيمين رحمه الله ] 
گمراہ اماموں سے امراء مراد ہیں " مجموع الفتاوى" (1/355) .
( گمراہ امام ) یعنی جو مخلوق کو بدعت کی طرف بلائیں " [سندي نے " حاشية ابن ماجة " (2/465)]

Wake Up Now ! جاگو جاگو جاگو امت مسلمہ

Presently the Muslim societies are in a state of ideological confusion and flux. Materialism, terrorism, ignorance and intolerance have threatened the peace, tarnishing the image of religion. These circumstances demand special response from the people who are deeply concerned about well being of humanity. Objective of this wakeup call is to draw the attention towards pressing issues which need urgent resolution. With persistent efforts we can get out of of this quagmire.
(1) Read online or dowlnoad E Book, pdf at https://goo.gl/9S1cpe or

(2) Keep reading at this page (Web link: http://goo.gl/S26GhY ) or

(3) Read in Urdu: http://goo.gl/reWFXA اردو میں پڑھیں




آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں. ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے. آپ کیتوجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکلا ل سکیں.  
        
اکثر لوگ علماء کو موجودہ حالت کا ذمہ دار ٹھرانے میں جلدی کرتے ہیں، جو مکمل طور پر تو نہیں مگر جزوی طور پر درست ہو سکتا ہے -علماء دین کی اسلام اور مسلمانوں کے لیے سینکڑوں سال کی خدمات  کو نظر انداز کرنا زیادتی ہو گی. آج دنیا میں 1.6 ارب سے زیادہ کلمہ گو مسلم دین اسلام کے بنیادی ارکان کا اقرارکرتے ہیں الله کی عبادات کرتے ہیں یہ آبادی میں اضافہ کے علاوہ مسلمانوں اور علماء اسلام  کی کاوشوں ،تبلیغ و دعوہ کی وجہ سے ہے. الله سبحان تعالیٰ نے مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کی ذمہ دای خاص طور پر علماء اسلام کی جماعت پر ڈالی اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر قرآن کا وارث قرار دیا.
 وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں۔ تو اسے (جہالت بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں۔ (٩:١٢٢ التوبة)
اوردعوت اور تبلیغ اسلام کا طریقه واضح کر دیا کہ  حکمت اور اچھی نصیحت کا  ذریعہ اختیار کریں (٢) (النحل 16:125).
آج کے حالت میں ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ اور کنفیوژن کا شکار ہے مادہ پرستی، دہریت کا دوردورہ ہے. ایسے مخصوص حالات مخصوص عمل اور طریقه کارکا تقاضا کرتے ہیں.
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے الفاظ میں؛"علماء اسلام نے ایک بحری جہاز کے لنگر کی مانند اسلام کے جہاز کو1400سال تک ڈولنےنہ دیا مگر اس جہاز کو آگےبھی جانے بھی نہ دیا". نتیجہ آج کے جدید دور میں فکری جمود کی وجہ سے امت مسلمہ ترقی کی دوڑ میں دوسری اقوام سے پیچھے رہ گیئی اگرچہ اسلام تمام انسانیت کے لیے ہر دور، ہر زمانہ کے لیے تا قیامت ہدایت اور روشنی ہے. مسئلہ اسلام میں نہیں اس کے پیرو کاروں، ہم میں ہے.

ہمارے موجودہ مسائل کی بڑی وجہ دین اسلام  سے عملی دوری ہے. ہم زبان سے کہتے ہیں:
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
دین اسلام سے محبت کا بہت دعوی کرتے ہیں مگر عملی طور پر دین سے دور ہیں.مسمان جہالت کے گڑھے میں گرے ہیں. ان کو دین کی تعلیم و تربیت کی سخت ضرورت ہے. جو لوگ یعنی علماء کرام ، مسلمانوں کو دین کے قریب لا سکتےہیں اور یہ ان کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے (٩:١٢٢ التوبة)  جہاں بہت علماء اپنے دینی فریضہ میں خاموشی سے مشغول ہیں وہاں بہت بڑی تعداد فروہی مسائل کی طرف مائل ہنے.
موجودہ حالت میں ضروری ہے کہ:
  • جائزہ لیا جائے کہ کہاں غلطی ہوئی؟
  • کہاں عملی حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے ؟
  • بہتری کی طرف سفر شروع کیا جائے.
تلخ حقائق ناگوار محسوس ہوں گے مگر مقصد ہرگز تنقید برائے تنقید نہیں اور نہ دل آزاری ہے بلکہ مقصد صرف پاکیستان اور مسلمانوں کے ضروری حل طلب مسائل کی طرف توجه مبذول کرانا ہے. یہ کھلا خط اسی سلسلے میں لکھا ہے . آپ کی توجہ اور رہنمائی سے ہم سب مل جل کر ان مسایل کو حل کر نےکی کوشس کر سکتے ہیں :
پچھلے 600 ٠ سال سے مسلمان سیاسی افراتفری اور سا مراجییت کا شکار ہو گئے زوال کا آغاز حصول علم کو صرف دین تک محدود  کر دیا. مگرمغربی اقوام نے مسلم ہسپانیا اسپین(Spain) اور بغداد کے علم کے خزانوں سے فائدہ حاصل کیا اوریورپ کی نشاط ثانیہ(Renaissance) ترقی کا آغاز ہوا. اقوام مغرب نے علم سائنس کے زریعے صنعتی انقلاب برپا کیا اور اقوام عالم کوبشمول اکثریت مسلمانوں کو غلامی میں جکڑ لیا. ان کی زبان ، تہذیب ،معاشرت، ثقافت، سماج غرض کہ ہر شعبہ زندگی پر مغربیت اثر انداز ہوئی. مگر علماء اسلام نے اسلام کی بنیادی اقدار اور ایمان کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائی اورمسلمانوں کے دل میں ایمان کا چراغ روشن رکھا. الله نے قرآن(٩:١٢٢ التوبة،  آل عمران 3:104) میں جو ذمہ داری علماء اسلام پر ڈالی انہوں نے وہ ذمہ داری کافی حد تک نبھائی.
انگریزوں سے آزادی کی جدو جہد میں علماء کا  کیا کردار رہا ؟ اس تاریخی حقیقت پر ایک طائرانہ نظر:
بہت  علماء نے ہندو کانگریس کا ساتھ دیا جس میں دارلعلوم  دیوبند پیش پیش تھا، (سواے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شببراحمد عثمانی اور ان کے ساتھیوں کے) مگر  اکثریت جن میں مجلس احرارلأسلام  سب سےآگے تھی نے ڈٹ کر قیام پاکستان کی مخالفت کی. وقت نے ثابت کیا کیہ یہ ان کی بڑی سیاسی غلطی تھی جوان میں سیاسی بصیرت کے فقدان کو ظاہرکرتی ہے.
لیکن اس سیاسی غلطی کی وجہ سے  دارلعلوم  دیوبند کی اسلام کے لیےگراں قدر دینی خدمات کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا.
مگر واضح ہے کہ غلطیوں سے  ساکھ (credibility) پر منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں جو اصل قرآنی مقصد (٩:١٢٢ التوبة، دینی تعلیم و رہنمائی) کے حصول میں منفی اثر پیدا کرتے ہیں.
جنگ آزادی میں مدارسِ اسلامیہ کے علماء کرام نے قربانیاں دیں جو قابل تعریف ہیں.
افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردوں (طالبان) کا فکری  تعلق بھی انہی سے مل جاتا ہے اگرچہ دارلعلوم  دیوبند نے دہشت گردی کے خلاف  (2008) بلآخر میں فتویٰ جاری کیا.
ضروری ہے کہ مقتدر ذمہ داران غور کریں کہ آخرمخصوص مکتبہ فکر کے ہی لوگ دہشت گردی، ان کی فکری،مالی، مادی  امداد، سہولت کاری میں کیوں ملوث پایے جاتے ہیں؟ ضروری اقدام کی سخت ضرورت ہے.
محمّد علی جناح اور علامہ اقبال پر کفر کے فتوے بھی لگے مگر وہ اوران کے ساتھی، مسلمانوں کے لیے علیحدہ آزاد وطن، پاکستان حاصل کرنے کے عزم پر ڈٹ گیئے.
تحریکِ پاکستان کی مکمل حمایت کرنے کے لئے سنی  اور بریلوی صوفی علماء کرام نے شرکت کی۔ محدث کچھوچھوی صدر آل انڈیا بنارس کانفرنس سید اشرفی جیلانی "اہل سنت" کے بہت بڑے رہبرورہنما تھے۔  کرسٹوف اپنی کتاب پاکستان اور اس کے ماخذ کی تاریخ میں لکھتا ہے کہ بریلوی علماء، تحریکِ پاکستان کے روحِ رواں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے 1948ء میں "جمیعت علمائے پاکستان" کی بنیاد رکھی، جو ٹکڑوں می بٹ گیئ.
[مولانا فضل الرحمان کی "جمیعت علمائے پاکستان" الگ ہے]
مسلمانان ہند کی اکثریت نے بغیر فرقہ واریت کے قائداعظم محمّد علی جناح کی قیادت پر مکمل اعتماد کیا جو کلین شیو(clean shaved) مغریبی تعلیم یافتہ،انگریزی سوٹ  میں ملبوس،انگریزی میں یا ٹوٹی پھوٹی اردو میں تقریر کرتا تھا.(اسماعیلی شیعہ، بعد میں اثنا عشری) وہ ایک ایمان دار، سچا اور مخلص شخص تھا. وہ علماء کے مسلمانی کے معیارپر پورا نہیں اترتا تھا, اس کے باوجود اگر اہل مذہب کے ایک بڑے طبقے نے قائد اعظم کو اپنی سیاسی قیادت کے لیے منتخب کیا تو کیوں؟ اس کا جواب جماعت علی شاہ صاحب نے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلمان قوم کو ایک مقدمہ درپیش ہے اور اسے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔ وکیل میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ دیانت دار ہو اور اہل ہو۔ قائد اعظم میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔
90% کلمه گو بھی علماء کے معیارمسلمانی پر پورا نہیں اترسکتے.80% لوگ پانچ وقت نماز (صلاه) ادا نہیں کرتے، اکثریت ہفتہ میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز ادا کرتی ہے، کچھ لوگ صرف عید کے عید.
خواتین جو کہ آبادی کا پچاس فیصد ہیں ان کا  مذھب  کی طرف کم رجحھان ہے. برقع مذہب سے زیادہ معاشرتی، ثقافتی علامت ہے. بازار میں اذان کے بعد کوئی برقع پوش یا سادہ لباس والی خاتون نماز پڑھنے کی تیاری میں نظر نہیں آے گی. مساجد میں خواتین کے لیے کوئی انتظام نہیں(یا بہت کم)، کیا 50% آبادی کونماز معاف ھے؟
الله تعالیٰ نے مسلمانوں کوقران کا وارث قرار دیا اور ان کو تین کیٹگری (زمرے) میں تقسیم کیا:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ(32:35 فاطر)
پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی امّتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اﷲ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں، یہی  بڑا فضل ہے، (مزید تفصیل  تفسیر ابن کثیر)
1. مسلم قرآن پر ایمان لا یے.
2. قرآن کو سمجھے.
3. قرآن کو پڑ ہھے.
4. قرآن کی تعلیمات پر عمل کرے.
5. قرآن کی تعلیمات کو دوسرے لوگوں تک پہنچا ے.
کیا ہم قرآن کے حقوق پوری کر رہے ہیں؟
افسوس کہ اکثریت کا جواب نہیں میں ہوگا، ہم سب کو قرآن کے حقوق کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشس شروع کرنا ہو گی ، ساری ذمہ داری علماء پر ڈال کر ہم اپنے فرض سے فارغ نہیں ہو سکتے. علماء سے دین اسلام کا علم حاصل کریں. عمل کرنا اور اس کو اگے پھیلانا ہمارا فرض ہے.
محمد علی جناح اور ان کے رفقاء نے مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی ملک بنایا جہان پرتمام مسلمان بغیر مسلک، فرقہ کی تخصیص کے مکمل آزادی سے  ملک میں اسلامی اصولوں، قرآن و سنت کے مطابق رہ سکیں اور اقلیتیوں کو مکمل مذہبی آزادی ہو. ان کے ذہن میں "میثاق مدینه" کا ماڈل تھا.ملایت (Theocracy) نہیں کیونکہ اسلام میں ملایت کی گنجایش نہیں.
انہوں نے "لبرل ازم" یا "سیکولرازم" کے الفاظ کبھی استمال نہیں کیے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اسلام تمام دنیاوی نظاموں کی اچھی خوبیوں کا احاطہ کرتا ہے.
9 مارچ 1949 کو آہین ساز اسمبلی نے  (١٠)" قراداد مقا صد" پاس کی، وزیراعظم لیاقت لیاقت علی خان  نے تقریر  میں پاکستان کا نظریاتی ڈھا نچا پیش کیا.
قرارداد مقاصد کا متن:  (١٥)
  • اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیر حاکمِ مُطلَق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خودمختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
  • جس کی رُو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
  • جس کی رُو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
  • جس کی رُو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات ومقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں.
  • جس کی رُو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
  • جس کی رُو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔
  • جس کی رُو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہوگی۔
  • جس کی رُو سے اقلیتوں اور پسماندہ، پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
  • جس کی رُو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔
  • جس کی رُو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
  • تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امنِ عالم اور بنی نوعِ انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں‘‘۔‘
اب مسئلہ  اس پر اصل روح کے  مطابق عمل درآمد کا ہے.
اخلاقی اور سیاسی فلسفہ میں، "سماجی معاہدہ"  یا "سیاسی کنٹریکٹ"  ایک نظریہ یا نمونہ ہے.
یہ عام طور پر معاشرے  کی اصل بنیاد اور انفرادی سے زیادہ ریاست کی اتھارٹی کی قانونی حیثیت کے سوالات کا حل پیش کرتا ہے. افراد اپنی رضامندی سے اپنے کچھ حقوق حکومت یا ریاست کو تفویض کر دیتے ہیں. اس کے عوض حکومت، حکمران شہریوں کے باقی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں.
اسلام کے آغازعرب قبائلی معاشرہ میں مروجہ طریقه قبائلی سرادروں اور معززین سے'بیعت' کا تھا. آج کے دور میں الیکشن سے حکمران کا چناؤہوتا ہے. یہ ایک "معاہدہ" ہے، 'عہد' ہے جوافراد کی اکثریت تمام شہریوں کی طرف سے اجتماعی طور پر قانونی مانا جاتا ہے. جیسے اسلام کے ابتدائی دور میں خلفائے راشدین اور حکمران کرتے تھے. حضرت محمّدﷺ  نے بھی 'بیعت' لی.
جب پاکستان وجود میں آیا تو پہلی آہین ساز اسمبلی، اور پرانا قانون لاگو ہوا. الیکشن کا سلسلہ اور حکمران بدلتے رہے جن کو سپریم کورٹ نے قانونی حیثیت دی.پھر 1956, 1962اور 1973کا آہین بنا. 1973 کے اسلامی جمہوری آیین پر اجماع امت ہوا. الیکشن ہویے. 'معاہدہ'، 'عہد' قائم ہے. کسی شخص یا گروپ کو اس اجتماعی'معاہدہ' کو توڑنے کا اختیار نہیں:
آج کے دور میں اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جس کے چارٹر پر تمام دنیا کے ممالک بشامل پاکستان دستخط  کیۓ ہیں. حکومت اور افراد پر ان معاہدوں کی پابندی لازم ہے. اگر ایسا نہ کریں تو پابندیاں اور جنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.
صلح حدبیہ کے وقت حضرت ابوجندل مکہ سے فرار ہو کر آے مگر رسول الله نے ان کو کفار مکہ کو واپس کر دیا جو ان پر ظلم کر رہے تھے. یہ ہے معاہدہ کا احترم.(١١)
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولً
عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی ,(17:34) (7:32, 23:28)
"سماجی معاہدہ" کے مطابق شہری کا حکمران سے اجتمائی طور پر وفاداری کا عہد ہے.
اسلام میں الله، رسول ﷺ اور حکمران کی اطاعت کا حکم ہے(٤:٥٩)
حکمران جب تک نماز پڑھتا ہواس کی اطاعت کریں. اگر وہ الله کی نا فرمانی کا حکم دے اطاعت لازم نہی.
اگرحکمران کھلم کھلا کفر کرے پھر اطاعت لازم نہیں.(بخاری،مسلم )
الحمد لِلَّـهِ  پاکستان میں ا یسے حکمران نہ کبھی تھے نہ ہوں گے انشا الله.
اس لیےپاکستان میں اسلامی نظام (جبکہ آہین پاکستان اسلامی ہے ) یا کسی اور بہانےدہشت گردی، فساد برپا کرنا بغاوت کرنا غیر اسلامی عمل ہے، جس کی سخت سزا ہے (٥:٣٣ المائدة )
اوپر ذکر ہوا کہ مسلمانوں کی اکثریت دین کے معاملہ میں بے عملی کا شکار ہے. سوال ہے کہ علماءاسلام نے ان اکثریتی (ان کے بقول) نام نہاد مسلمانوں کو "مکمل مسلمان" بنانے کے لیے کیا کیا؟  گنہگار سمجھ کر نفرت سےنذر انداز کرنا حل نہیں ہے. ان کی اصلاح کی کوشس جاری رہنی چاہیے. ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے.
اگر وہ تبلیغ میں ناکام رہے تو اب قتل و غارت، ڈر، خوف، دہشت گردی سے ان کی داڑھیاں بڑھوانی ہیں؟
اگرصرف لمبی داڑھی، ٹخنوں سے اونچی شلوار/ زیر جامہ پہن کر ہی مسلمان ہوا جا سکتا ت (٧)"خوارج" کو جہنم کے کتے کیوں کہا  گیا؟
کیا اسلام صرف مخصوص ظاہری لباس اور ظہور (appearance)  کا نام ہے یا ایمان کے ساتھ ساتھ  "أَحْسَنُ عَمَلًا"اور "عمل صالح"(عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ) بھی ضروری ہیں؟
ان کا آپس میں کیا توازن ہےاورترجیحات کیا ہونی چاہیں؟
کلمہ گو مسلمان اگر اسلام کے ایمان کے 6 بنیادی ارکان اور 5 بنیادی ستون (٩) پر ایمان رکھتا ہے مگر عمل میں  کا ہل، سست ہے، کیا اس کو دعوت و تبلیغ سے عمل کی طرف لا یا جائے یا اسلام سے خا رج،  تکفیر اورپھر قتل؟
کیا علماء کا مسلمانوں سے درشت اورسنگدل رویہ  قرآن (٣:١٥٩ ،آل عمران) کے خلاف تو نہیں؟
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (٣:١٥٩ ،آل عمران)
"(اے محمدﷺ) یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے اتنے نرم مزاج ہو۔ ورنہ اگر تم درشت مزاج اور سنگدل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے منتشر ہو جاتے۔ انہیں معاف کر دیا کریں۔ ان کے لیے دعائے مغفرت کیا کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ بھی لے لیا کریں۔ مگر جب کسی کام کے کرنے کا حتمی ارادہ ہو جائے تو پھر خدا پر بھروسہ کریں بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔" (٣:١٥٩ ،آل عمران)
پاکستان میں یا کہیں  بھی  نفاذ اسلام کی بات کر تے ہوے ان حقائق کومد نظررکھنا بہت ضروری ہے.  
بحر حال قیام پاکستان کے بعد ان میں سے بہت علماء پاکستان تشریف لاے اور اسلامی پاکستان کے لیے مل جل کر جدوجہد کا آغاز کیا. آیین پاکستان کا اسلامی تشخص، قرارداد مقاصد (Objective Resolution ) ان کی کوششوں سےآیین میں شامل ہوا.قادیانوں کوآیین پاکستان میں غیر مسلم قرار دینے میں ان کا اہم کردار تھا.1973 کے اسلامی جمہوری آیین پر اجماع امت ہوا. مفتی تقی عثمانی  نے اسلامی بنکا ری کے نظام کی ابتدا کی جو تیزی سے پھیل رہا ہے.
مذہبی شدت پسندی کا عنصر 80ء کے عشرے میں بڑھا، فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی باقاعدہ طور پر وجود میں آئیں۔ ان کی وجوہ سب کے سامنے ہیں۔ ایران کا انقلاب، اسے ایکسپورٹ کرنے کی مبینہ کوشش اور اس پر ہونے والا مقامی ردعمل، سب سے بڑھ کر افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف دس سال تک جاری رہنے والی تحریک مزاحمت ۔ غیر ریاستی عسکری تنظیمیں اس ملک میں پہلی باربنائی گئیں۔ نوے کی دہائی میں ان تمام تنظیموں کا رخ مغرب کے بجائے مشرق کی جانب ہوگیا۔ پوسٹ نائن الیون منظرنامہ ایک اور طرح سے قیامت خیز ہوا، جب ان جہادی تنظیموں میں سپلنٹر گروپ پیدا ہوئے جو خود پاکستانی اداروں اور ریاست پر حملہ آور ہوگئے - (١٥)
سیاسی سوچ رکھنا ہر باشعور انسان کا حق ہے علماء اس سے مستثنیٰ نہیں. سیاست کے لحاظ سے علماء  اور ان کے پیروکاروں  کو پانچ بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہ سکتا ہے .
1. غیر سیاسی علماء : بہت سے علماء سیاست میں حصہ لینے کی مخالف ہیں ، وہ مذہبی سیاسی  جماعتوں  سے علیحدہ  قرآن کے حکم کے مطابق (٩:١٢٢ التوبة،  آل عمران 3:104) دین اسلام کی تعلیم اورعوام کی دینی تربیت، دعوت ، تبلیغ و اصلاح میں مصروف ہیں. اگرچہ ذاتی طور پر سیاسی خیالات رکھتے ہیں مگر مسجد کے ممبر کا تقدس بحال رکھے ہوۓ صرف  خالص مذہبی تعلیم  و تربیت اور اخلاق و عبادات پر زور دیتے ہیں. ( ان میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل ہین)  "تبلیغی جماعت"جو دیوبند  فکر رکھتی ہے ،بین القوامی لیول پر بہت اچھا کام کر رہی جس کوبنیاد پرست (Radical) عسکریت پسند دشت گرد نشانہ بناتے ہییں.بحر حال ان کی صفوں میں بنیاد پرست (Radical) عسکریت پسند افراد کی شمولیت  کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا.
1. سیاسی مذہبی تنظیموں کے علماء :یہ تنظیمین الیکشن میں حصّہ تو نہیں لیتی لیکن بظاھر پر امن جدوجہد سے اپنے نظریات کوفروغ کے لیےکم کرتی ہیں. جیسے ڈاکٹر اسرار احمد نے سیاسی جماعت کی بجاۓ اپنی الگ تنظیم بنا لی. مسجد کے ممبر کو  اپنے سیاسی نظریات  کے فروغ کے لیے استمال کیا. وہ موجودہ جمہوری نظام کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں.  ان میں خاص طور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے بین القوامی خلافت کا قیام، اسلامی شرعی نظام کا نفاذ مگر پرامن جدوجہد سے.  اسی قسم  کے نظریات کی حامل اور بھی بہت مذہبی تنظیمیں ہیں، کالعدم حزب التحرير جو بظاھر پرامن جدوجہد کا اظہار کرتی ہیں مگر اندرونی طور پرشائد بندوق کے استمال کو بھی ایک آپشن سمجھتی ہوں. ان تنظیمیوں کی صفوں میں بنیاد پرست (Radical) عسکریت پسند افراد کی شمولیت  کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا.
2. سیاسی جماعتوں کے علماء : باقاعدہ سیاسی مذہبی جماعت کے اراکین اور عھدے دار (تمام مکاتب فکر) جو براہ راست سیاست میں (actively) حصہ لےکربذریعہ الیکشن حکومت حاصل کر کہ اسلام کی خدمت کر سکیں.(ظاہر ہے کہ یہ اپنی اصل قرآنی ذمہ داری، تعلیم و تبلیغ سے انحراف اور توجہ میں کمی ہے). مذہبی  سیاسی جماعتین بن گییًں اس طرح علماء  طاقت کے غلیظ سیاسی کھیل میں شامل ہو گیۓ.ان  کی صفوں میں بنیاد پرست (Radical) عسکریت پسند افراد بھی گھس جاتے ہیں.
3. بنیاد پرست ،فرقہ پرست عسکریت پسند، دہشت گرد، تکفیری تنظیمں اور علماء:ان میں کالعدم  تحریک طالبان پاکستان (TTP) ایک تنظیم ہے جو پاکستان میں خود کش حملوں، دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوث ہے۔""ضرب عذب" نے ان کی کمر توڑ دی ہے اور وہ بھاگ رہے ہیں.  پاکستان میں سرگرم کئی فرقہ وار  تنظیمیں بھی طالبان کا نام استعمال کرتی ہیں جو خودکش حملوں اور مسلح لڑائیوں میں ملوث ہیں۔
4. بنیاد پرست (Radical) اور فرقہ پرست عسکریت پسند علماء: علماء کی ایک بڑی تعداد نے سیاسی جماعتوں یا تنظیموں میں شامل ہوئے بغیر مسجد کے ممبر کو  مخصوص سیاسی نظریات کی تشہیر کے لیے استمال کرنا شروع کر دیا. وہ موجودہ جمہوری نظام کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں.(جبکہ مذہبی سیاسی جماعتیں اسلامی مانتی ہیں؟ علماء کی اکثریت کا 'اسلامی جمہوریت' پراجماع ہے ) مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے بین القوامی خلافت کا قیام، اسلامی شرعی نظام اور ان سب کے لیے جہاد کی ضرورت اور فرض ہونا (بقول ان کے) قرار پایا. ارادی یا غیرارادی طور پر وہ کالعدم دشت گرد تنظیموں اور گروہوں کے آ لۂ کار بن گۓ.
حکومت اور عوام نے اس معاملہ کا کوئی خاصنوٹس نہ لیا. جب دہشت گردوں نے ساٹھ ھزار سے زیادہ معصوم لوگوں کو خود کش اور بم دھماکوں سے شہید کر دیا اور پشاور میں آرمی پبلک سکول کے درجنوں بچوں کا قتل عام کیا تو قوم جاگ اٹھی. پاک فوج نے آپریشن "ضرب عزب" شروع کیا مگر یہ حضرات مسلسل اپنے جمعہ کے خطبات کے ذریعےعوام کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں.
قوم کو ذہنی طور پر تقسیم کرکہ فسادی، تکفیری دشتگردوں کی حمایت کر کہ یہ اسلام کی اور مسلمانوں کی کیا خدمت کر رہے ہیں؟
یہ لوگ مذہبی سیاسی پارٹیوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیوں کہ یہ ملک میں انتشار(Anarchy) اورفاشسٹ نظریات کو اسلام کے بہانے سے پھیلا کر عدم استحکام سے دوچارکرنا چاہتے ہیں.
یہ اسلام کی خدمت ہے یا مسلمانوں کی تباہی؟
مشرق وسطیٰ کے حالات ہمارے سامنے ہیں.اگرچہ حکومت نے اب دہشت گروں کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کے لیے سخت قوانین نافذ کردیے ہیں جب تک عوام ان کو چیک نہیں کرے گی یہ لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گے.
جو علماء اور مسلمان اسلام اور پاکستان کو واقعی ترقی پر دیکھنا چاھتے ہیں، اور اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ اسلام دنیا میں غالب دین ہو جائے تو ان کو چاہیے کہ وہ بنیاد پرست (Radical) عسکریت پسند علماء کوچیک کریں ان کو روکیں ،جو مسلمانوں کو فساد کے ذریعے  تباہی اور بربادی کے راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں. اور تیسری قسم یعنی سیاسی جماعتوں کے علماء کو مشورہ دیں کہ اپنے اصل قرآنی مشن  (٩:١٢٢ التوبة) پر کاربند ہوں.
علماء کو چاہے کہ مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ لازمی طور پر عصر حاضر کے افکار اور جدید علوم سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے علمی فرائض احسن طریقے سے ادا کر سکیں.  
سیاسی علماء فرماتے ہیں کہ کیا ہم ملک کو کرپٹ سیاست دنوں کے رحم پر چھوڑ دیں؟
امربا المعروف نہی المنکر ہما ری بھی ذمہ داری ہے  لیے ہم  حکومت  شامل ہوتے ہیں یہ ضروری ہے. مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں علماء سیاست کے میدان میں ڈائریکٹ شامل نہ ہوے ہان حکمرانوں کی اسلامی اصولوں سے رہنمائی کی قید مصائب جھیلے. دنیا نے پریسٹ(priest)  سے چھٹکارا پا کر ترقی کی ہےاسلام میں تو ملایت کا کوئی تصور نہیں علماء یہ کام بخوبی حکومت سیاست سے با ہر ہو کر کر سکتے ہیں. علماء نے حکومت سے باہر رہ کرباشاہوں خلیفہ پر تنقید کی، قید کاٹی،امام ابو حنیفہ، مالک، حمبل، امام شافعی کی مثالیں موجود ہیں، آج تاریخ ان کی عزت کرتی ہے.
ایک اور نقطہ "اسلام مذہب نہیں بلکہ دین" ہے جو انسانی زندگی کے تمام . معاملات میں رہنمائی  کرتا ہے. سیاست دین سےعلیحدہ نہیں ہوسکتی.لہذا علماء سیاست میں داخل ہوں:
1400ساله اسلامی تاریخ میں، خلفائے راشدین کے علاوہ شاذ ہی کوئی مذہبی عالم حکمران گزرا ہو. اگرچہ بہت سے نیک دیندارحکمرانوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے.
ایران میں 1979کے انقلاب سے شیعہ ملایت قائم ہوئی، ہزاروں مارے گیے، عراق سے جنگ سے انقلاب کو خون ملا،فرقہ واریت، جنگ وجدل عراق اور اب شام میں عروج پر ہے. دا عش، فرقہ واریت کے رد عمل میں وجود پکڑ گئی.اقتصادی پابندیوں نے ایران کو نہ صرف بین الاقوامی تنہائی کا شکار کیا بلکہ معیشت تباہ کر دی. عوام غربت میں تباہ ہو گیے. موجودہ  اعتدال پسند قیادت نے مسایل کو کچھ کم کیا.اب الیکشن میں اعتدال پسند ریفا رمر(Reformers) آگےآرہےہیں.
سعودی ملوکیت، ملایت کے ساتھ اتحاد سے اپنے وجود کو جواز اورمذہبی و قانونی حیثیت حاصل کرتی ہے.(سہولت کی شادی-marriage of convenience).
بلکل درست ہے کہ اسلام مکمل دین ہے. انسانی زندگی کے بیشمار شعبے ہیں، انجینرنگ، میڈیکل، دفاع، سوشل سائنسز، بزنس، فزکس، کیمسٹری، وغیرہ وغیرہ. ہر شعبے کے ماہرین ہیں جو سالہا سال مخصوص تعلیم و تجربہ کے بعد ایکسپرٹ بنتے ہیں. کوئی مذہبی عالم صرف مذہبی تعلیم  کی وجہ سے خود بخود ان شعبوں میں ایکسپرٹ نہیں ہو جاتا.
دنیاوی علوم دینی علوم الگ ہیں. ہاں اگرکوئی دینی عالم میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کرلے تو سرجن بن کر آپریشن کر سکتا ہے. علماء تمام لوگوں کی دینی رہنمائی کرکے ان کو اچھا مسلمان بننے میں مدد کریں نہ کہ خود ہی ہر معاملہ میں دین کے نام سے دخل اندازی کو اپنا حق سمجھیں.
اسلام  وسیع ہے، اسلام مسلمان کی زندگی میں ہے سیاست میں بھی. ایک اچھا مسلمان ,اچھا سیاست دان, اچھا ڈاکٹر، اچھا انجنیئر ہو گا تو سارا معاشرہ اچھا ہو جائے گا. رسول الله صلعم نے جب مدینه میں زراعت پر مشورہ دیا، پھر جب کھجور کی فصل میں کمی ہو گیی  تو فرمایا کہ  (5) ایسے "دنیاوی معاملات" میں اپنے مروجہ طریقه پر چلو (حدیث مسلم، مفھوم) . اس وقع میں  اہل عقل کے لئے واضح سبق ہے.
قرآن ٥٩:٧ الحشر، وحی، شرعی، دینی احکام سے متعلق واضح ہے:"اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو"
اگرکسی نے سیاست میں حصہ لینا ہے تو شوق سے لیں مگر دین اسلام کی اڑ میں نہیں اپنے عالم دین ھونے پر ووٹ کے لیے بھیک نہ مانگیں اپنے کردار سے اپنے آپ کواہل ثابت کرکہ شوق سے اقتدار میں آیئں  وعدہ کریں پورا کریں.
(اور میری آیتوں کو (دنیا کی) تھوڑی سی قیمت پر فروخت نہ کرو-قرآن ٢:٤١ )
کسی عالم کے لیے دین اسلام کے نام پر اپنے لیے ووٹ لینے کو مذہبی فریضہ قرار دینا دین کے ساتھ ظلم ہے.پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، آیین قانون اسلامی ہیں، کوئی غیر مسلم صدر ، وزیراعظم نہیں بن سکتا. مذہبی سیاسی جماعتوں کا کیا جواز؟  
علماء اکرام قرآن (٩:١٢٢ التوبة،  آل عمران 3:104) کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیں.
علماء سیاست میں داخل ہو کر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنےلیے دین اسلام کو ڈھال کے طور پر استمال کرتے ہیں.علماء کی ساکھ   (credibility) خراب ہوتی ہے، لوگ ان کی درست مذہبی باتوں پر بھی دھیان دینا چھوڑ دیتے ہیں، یہ اسلام کے ساتھ زیادتی ہے.
مذہبی سیاسی جماعتوں کو عوام نے پزیرائی نہ دی، سیاسی کرپشن اور افرا تفری  کے دور میں مذہبی سیاسی جماعتوں نے مذہب اسلام کوخوب استمعال کیا.مگر کوئی قابل ذکر مفید کام نمونے کے طور پر پیش کرنے سے قاصر رہے. نفاذ شریعت صرف ایک مقبول نعرہ بن گیا ہے .
اب ہرمسئلے کا حل نفاذ شرعیت میں تلاش کرتے ہیں اورکچھ افراد (تکفیری طالبان) جن کو علماء نے آج کے خوارج قرار دیا ہے نفاذ شریعت کے نام پر قتل و غارت دہشت گردی سے معصوم لوگوں کو مارتے ہیں  خودکش حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور ان غیر اسلامی اقدام کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی غلط تاویلین پیش کرتے ہیں.حکومت وقت (١٣) ، مسلمانوں کی ریاست  کے خلاف (فساد) بغاوت کو جائز کہتے ہیں جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا (١٣).  یہ سلسلہ افغانستان سے پاکستان، مشرق وسطیٰ(داعش) ، افریقۂ (نائجیریا، لیبیا) تک پھیل چکا ہے.مغربی اقوام اور امریکا نے اس بربادی میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اس  آگ کو خوب بھڑکا کرثابت کیا کہ ان کے حکمران مسلمانوں کے کتنے خیرخواہ ہیں؟
افغانستان، عراق، شام،لیبیا تباہ ہوچکے ہیں، فاٹا کو پاکستان آرمی بحال کر رہی ہے. مصر، ترکی کے حالت خرابی کی طرف جا رہے ہیں. اسرائیل فلستینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے، بیت المقدس کو یہودیوں کی عبادت کے لیے کھول رہا ہے. مسمانوں کی تباہی کا فائدہ اسرائیل اور دشمن اٹھا رہے ہیں.
کوئی مستند عالم دین (بظاھر) ان دہشت گردوں کے ساتھ نہیں بلکہ وہ ان غیر اسلامی اقدام کو رد کرتے ہیں فساد فی ا لارض کو حرام کے فتوے جاری کئے.جید علماء کے علاوہ  بہت سے عام درجے کے  امام لاعلمی اور جہالت کی وجیہ سے اور ظالم کرپٹ  نظام، حکمرانوں کی وجہ سے ان سے دل میں ہمدری  رکھتے ہیں.اگر ظالم ،فاسق، فاجر حکمران  ہوں تو علماء اور مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہے؟ (٦،١٣)بغاوت نہیں یہاں پڑھیں)
بہت بڑا ظلم ہے کہ کسی اچھے مقصد کے نام پر غلط طریقه اختیار کیا جاے.اس قسم کے تمام لوگ جو خوارج دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں وہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قتل میں حصہ دار ہیں، کونکہ الله تعالیٰ فرماتا ہے:
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)
دہشت گردی، منظم پلان کے تحت مسلمانوں میں پھیلائی گیی ہے. جاہل لوگوں کو اسلام کے نام پردشمن قوتوں نے مسلمانوں کے خلاف استمال کیا اور کر رہے ہیں. ان کو ( Oded Yinon Plans & Bernard Lewis Plan) کا علم نہیں ، یہ ان کے خلاف کاونٹر پلان کیسے بنا سکتے ہیں؟ اسلامی دنیا تباہ ہو رہی ہے، اسرائیل اور اس کے مدگار خوشیاں منا رہے ہیں.
دہشت گردی سے لاکھوں مسلمان مار دیے  گیۓ. یہ الله  کے احکام کی نا  فرمانی ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا (قرآن ;17:33)
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے(قرآن ;4:93)
وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ
فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے(قران ;2:217)
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے.(قرآن ;18:105)
افسوس کا مقام ہے جب جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن صاحب دشت گردوں کو شہید کہتے ہیں اور عوام کے جان و مال کی حفاظت پر مامور افواج اور سرکاری اداروں کے افراد کو شہید کہنے سے انکاری ہیں.
دین کافر‘ فکر و تدبیر جہاد
دین مُلاّ‘ فی سبیل اللہ فساد
ضروری ہے کہ علماء اس شعرکوغلط ثا بت کریں تا کہ عوام کا ایسے دینی علماء یا سیاسی مذھبی لوگوں پر سے اعتبارنہ اٹھ جاے. وہ ان کے منہ سے اصل دین کی سچی باتوں پر اعتبار کرنے سے کتراتے ہیں.


ایک بڑی غلط فہمی جو صوفی، درویشی طریقه زندگی اور دوسرے مذاھب میں رہبانیت سے متاثر ہو کرپیدا ہوگیئ ہے کہ: "مسلمانوں کو اس دنیا کی بجاے،صرف آخرت کی فکر کرنا چاہے".  یہ اسلام کے پیغام کے برعکس ہے. اسلام سادگی کی تلقین کرتا ہی مگراس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمان دوسری اقوام کی محکومیت میں ذلت کی زندگی گزاریں.


اسلام مسلمان سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ وہ یکسر دنیا سے لا تعلق ہو جائے. اور نہ یہ کہ مسجد میں جا بیٹھے اور پھر وہاں سے نہ نکلے. اور نہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان کسی غار میں جا کر پناہ گزین ہو جائے اور پوری زندگی وہیں گزاردے …. ہرگز نہیں!
بلکہ مسلمانوں سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی  بہترین تہذیب اور بےمثال تمدن کو پوری طرح اپنائیں تاکہ مہذب اقوام عالم پر سبقت لے جائیں. مال ودولت کے اعتبارسے دنیا میں سب سے دولت مند ہوں. اور علم وحکمت کے لحاظ سے تمام علوم میں سب سے بڑے عالم ہوں.[شیخ علی طنطاوی' تعریف عام بدین الاسلام']  
"… جس رہبانیت کو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلیا تھا اور اس سے رضائے خدا کے طلبگار تھے اسے ہم نے ان کے اوپر فرض نہیں قرار دیا تھا…" (قران57:27)
وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّـهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾
ور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا (201) ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی (البقرة2:202 )
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٣٢﴾ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (الأعراف7:32-33)
پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے ... اور بتائیے کہ یہ چیزیں روزِ قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں .ہم اسی طرح صاحبان هعلم کے لئے مفصل آیات بیان کرتے ہیں



مسلمانوں کے دماغ میں ایک اور سوچ ڈال دی گیی ہے کہ جنگ و جدل، دہشت گردی سے بین الاقوامی مسلم خلافت قائم کر کہ ازمنہ وسطیٰ کی عظمت حاصل کی جا سکتی ہے. یہ غلط ماینڈ سیٹ تبدیل کرنے  کی ضرورت ہے. موجودہ نیشنل ازم کے دور میں یہ ممکن نہیں. امریکہ جیسی فوجی اور طاقتور معیشیت کی حامل سپر پاور کو ویتنام، کوریا،افغانستان، عراق سے جانا پڑا. اس سے قبل سوویت یونین ،افغانستان میں شکست کے بعد ٹکڑوں میں بٹ گیا، اب روس باقی رہ گیا. امریکہ، مغرب اور اب ابھرتی سپر پاور چین اپنی مضبوط معیشت،تیز رفتارصنعتی ترقی کے زور پر دنیا کو زیر اثر کر رہے ہیں. مسلمانوں نے بھی سینکڑوں برس فوجی قوت کے ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی اور بلند فکر و سوچ کے زور پر دنیا پر غلبہ قائم رکھا. اب جدید دور کے ہتھیار علم، سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں، ان کے ساتھ صرف اسلام کا نظام عدل وانصاف اور روحانیت،بنی نوانسان کی مادی اور روحانی ضروریات کی تسکین کر سکتی ہے:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ(آل عمران9:33)
اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک نا پسندکریں (آل عمران9:33)
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الأنفال 8:53)
یہ (عذاب) اس وجہ سے ہے کہ اللہ کسی نعمت کو ہرگز بدلنے والا نہیں جو اس نے کسی قوم پر اَرزانی فرمائی ہو یہاں تک کہ وہ لوگ اَز خود اپنی حالتِ نعمت کو بدل دیں (یعنی کفرانِ نعمت اور معصیت و نافرمانی کے مرتکب ہوں اور پھر ان میں احساسِ زیاں بھی باقی نہ رہے تب وہ قوم ہلاکت و بربادی کی زد میں آجاتی ہے)، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے، (الأنفال 8:53)
غیر مسلموں سے خواہ مخواہ کی دشمنی اور جنگ و جدل سے منع کیا گیا ہے:(الممتحنة 9-60:7)
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿الممتحنة ٩﴾
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگون نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو بےشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اللہ تو صرف تمہیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکا لنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے گا وہی ظالم ہیں۔ (الممتحنة 9-60:7)
عَسَى اللَّـهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً ۚ وَاللَّـهُ قَدِيرٌ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٧﴾
بہت ممکن ہے کہ اللہ تمہارے درمیان اور ان لوگون کے درمیان جن سے (آج) تمہاری دشمنی ہے کبھی محبت پیدا کر دے اور اللہ بڑی قدرت والا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔  (60:7 الممتحنة)
وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ(5:48 المائدة)
اگر خدا (زبردستی) چاہتا، تو تم سب کو ایک ہی (شریعت) کی ایک ہی امت بنا دیتا۔ مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزمائے (ان احکام میں) جو (مختلف اوقات میں) تمہیں دیتا رہا ہے بس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا۔ ان باتوں سے جن میں تم اختلاف کرتے ہو۔ (5:48 المائدة)
مسلمانوں کو چاہیئے کہ نظریاتی بین الاقوامی سلطنت قائم کرنے کو اپنا مقصد بنائیں. یه ایسے ہی ممکن ہے جس طرح میڈیا، بزنس امپائر بن سکتی ہے. مسلمانوں کو موجودہ دور میں غلبہ اسلام کے لیے چاہے کہ:
1. اچھے حکمران منتخب کریں، برے حکمرانوں کو پر امن جمہوری طریقه سے ہٹائیں اور پریشر ڈال کر سیدھےراستے پر چلنے پر مجبور کریں. مسلمان اس دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی چاہتا ہے، جبکہ غیر مسلم  کو اپنے اچھے اعمال کا صلہ اسی دنیا میں ہے آخرت میں نہیں.
2. مسلمان حکومتوں کو مظبوط کریں، مظبوط جدید دفاعی قوت حاصل کریں، امن قایم کریں، دینی و دنیاوی علوم حاصل کریں اورترقی میں بھر پور حصہ لیں.
3. بین القوامی امن میں اقوام متحدہ کے چارٹرکے معاہدوں کےمطابق اپنا پرامن کردار ادا کریں.دشت گردی کو مسترد کریں.
4. غیر مسلمانوں کے ساتھ امن سے رہیں (الممتحنة 9-60:7)اور اچھے کاموں میں ان سے سبقت لیں.(5:48 المائدة). ان کومسلمانوں کے مقابلے ولی نہ بنایں مگر نارمل تعلقات میں کوئی حرج نہیں. تاریخ گواہ ہے کہ حنین سےعثمانیہ خلافت کے اختتام تک مسلمان حکومتوں ںیں غیر مسلمانوں سے اچھا سلوک کیا اور اچھے تعلقات رکھے.    
5. اسلام کی تبلیغ، دعوہ اورمسلمانوں کی اصلاح کے لیے علم اور جدید میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استمال کرنا چاہیے.
آیے تاریخ پر ایک نظر ڈالیں:-    
انڈونیشا (دنیا کا سب سے برا اسلامی ملک)، ملایشیا، برونائی ، شرق وسطیٰ میں کون سی اسلامی فوج حملہ آور  ہوئی؟
چین میں اسلام چودہ سو سال سے موجود ہے. حضرت سعد بن بی وقاص کوئی لشکر لے کر چین پر حملہ اور نہیں ہوے تھے.
افریقہ جہاں دنیا کے مسلمانوں کا ٣٣% حصہ ہے، سواہے شمالی افریقہ کے جو فتح کیا گیا، باقی افریقه میں اسلام تجارت اور تبلیغ سے پھیلا.
اور اسپین جہاں مسلمان ٨٠٠ سال تک حکمران رہنے کی بعد ایسے گیے کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا. اسلام تلوار کی طاقت سے نہیں بلکہ ایمان ، قرآن اور تبلیغ ودعوه کی طاقت سے پھیلتااور قائم رہتا ہے.  
آج یورپ اور امریکہ شامل،(دہشت گردی کے پروپیگنڈا کے با وجود) دنیا میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین ہے. کون سی افواج وہاں حملہ اور ہیں؟
اسلام اپنی نظریاتی اورفکری برتری کی وجہ سے تیزی سے پھیل رہا ہے.  ناکام مخالفین جھنجلاہٹ میں مسلمانوں کو تشدد اور داشت گردی کے راستے پر ڈال کر گمراہ کر کہ اسلام کے پھیلاؤ کو روکنا چاہتے ہیں. علماء اور مسلمانوں کو اس سازش کا شکار بن کر دشمنوں کے ہاتھ آلہ کار نہیں بننا چا ہے. پر امن طور پر اسلام کے پیغام کو پھلا یں، اپنے عمل سے امن کے پیغام بر بن جا ییں.
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ، کوئی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بن سکتا ، وفاقی شرعی عدالتیں موجود ہیں. مگر حکمران نفاذ شریعت میں مخلص نہیں. کشمکش جاری ہے. عوام شریعت کے نظام کے زرییے استحصال سے پاک سماجی، معاشرتی، معاشی انصاف و عدل پر مبنی نظام کی خواہش رکھتے ہیں. صرف قانون کے نام کی تبدیلی نہیں.  
اگر عوام، حکمران اور مذھبی جماعتیں اسلامی شریعت کو نافذ کرنا چاہیں تو کیا رکاوٹ ہے؟
رکاوٹ یہ ہے کہ عوام اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں. شراب، نشہ کی مما نعت کے احکام قرآن نے بتد ریج نافذ کئے.
١٨٢٧ کوسید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں نے پشاور کے علاقے میں اسلامی حکومت قائم کی، ان کو امیر المومنین بنایا. مگر جلد ہی لوگوں نہیں ان کے علماء کو قتل کر دیا اور حکومت ختم ہو گیئ.
سوڈان میں ١٩٨٨ میں اخوان المسلمون کو موقع ملا کہ جعفر النمیری کے ساتھ حکومت بنیں مگر یہ تجربہ ناکام ہوا. ابھی مصر میں اخوان کے صدر مرسی کے ساتھ جو ہوا قابل افسوس ہے.حکومت کرنا اور سیاسی مخالفوں کو تدبر سے قابو میں رکھنا مشکل کام ہے جو علماء کے بس میں نہیں.
   
اسلامی مذہبی جماعتیں حکومت میں شامل رہتی ہیں اور سیاسی و مالی فوائد حاصل کرتی ہیں ان کی کرپشن کی داستانیں عام ہیں. خیبر پختون خواہ صوبہ میں پہلے مفتی محمود (١٩٧٠-٧١) کی حکومت پھر ان کے فرزند مولانا فضل ا لرحمان اور جماعت اسلامی (MMA) کے اتحاد نے صوبۂ سرحد اور بلوچستان میںپانچ سال تک حکومت  کی. ماسوا اشتہارات میں عورتوں کی تصویروں پر پینٹ ملنے کے انہوں نے کوئی خاص کام نہ کیا جومختلف یا اسلامی کہا جا سکے.مذہبی طبقہ کی طرف سے کوئی ایسا قابل ذکر پروجیکٹ جس سے معاشرہ میں بہتری نظر آے شاذ نذر آے گا. اگلے الیکشن میں عوام نے ان کو مسترد کرکہ سیکولر پارٹی (ANP ) کو منتخب کیا جو ان جیسے ہی کرپٹ اور نہ اہل تھے. پہلے جنرل ضیاء الحق (١٩٧٧-٨٨) کی اسلامی حکومت، عوام کو اسلام کے نام پر دھوکہ دے کر اسلام کی خدمت نہیں بلکہ نقصان دیا.
مذہبی سیاسی جماعتوں کے نوجوان پچھلے ٦٧ سال سے دیکھ رہے ہیں کہ قومی سطح پر ان کو کامیابی نہیں ملتی تو وہ مایوس ہو کربنیاد پرستی اور  تشدد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.یہ ایک بہت  منفی رجحان ہے. عدم برداشت اور غیر لچک رویہ جو خود کو مکمل طور پر حق پر سمجھنے کی وجہ سے مذہبی لوگوں میں پیدا ہو جاتا ہے ان کو سیاست جیسے ٹیڑہے،  پرپیچ، پیچیدہ، سازش اور جھوٹ سے بھر پور میدان میں علیہدہ کر دیتا ہے. وہ اگر ان سیاسی ہتھکنڈوں کو استمال کرتے ہیں توان کی مذہبی ساکھ  (credibility) متاثرہوتی ہے جونہ صرف ان کی ذات کے لیے بلکہ معاشرہ کے لیے سخت نقصان دہ ہے.
آپ نے میٹھا کھا رکھا تھا تو کسی کو کل آنے کا فرمایا، اگلے دن اس کو میٹھا کھانے سے منع فرما یا، اس شخص نے کہ یہ تو آپ پہلے بھی کہ سکتے تھے ، آپ نے فرمایا میں نے میٹھا کھا رکھا تھا تم کو کیسے منع کرتا.
اگر لوگوں کا علماء سے اعتبار اٹھ جاتا ہے تو پھر مذہبی رہنمائی کون کرے گا؟  اسی لیے الله تعالی کے فرمان پر غور کی ضرورت ہے :
"اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں۔ تو اسے (جہالت بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں۔" (٩:١٢٢ التوبة)
مسلم امت کو جو حالت درپیش ہیں یہ اتنے سادہ نہیں کے صرف اسلامی قوانین نافذ کرنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا. قوانین موجود ہیں مسئلہ بد نیتی،کرپشن، بد انتظامی ہے.
شریعت کیا صرف چند قوانین اور سزاؤں کا نام ہے ؟
شریعت  کا ایک حصہ ہر مسلمان کے نفس پر لاگو ہوتا ہے جو اس نے خود نافذ کرنا ہوتا ہے یہ علماء کا کام ہے کہ دعوہ سے تبلیغ سے مسلمانوں کو بیدار کریں ان  کا ایمان پختہ کریں جس کو آخرت پر یقیں ہو وہ غلط کم گناہ کرنے سے اجتناب کرے گا.
اگر سوسائٹی کی دینی تعلیم و تربیت درست ہو تو ہم کو اچھے سیاست دن اچھے حکمران اچھے تاجر اچھے پولیس الغرض ہر شعبے  میں اچھے لوگ مل جیئں گے.
اگر تبلیغ صرف اتمام حجت کے طور پرہواور اسلام کوزبردستی  قانون شریعت  یا طاقت سے نافذ کریں.
اسلام میں پا پیت (ملائیت) کا تصور نہیں.
تاریخ گواہ ہے کہ ایسا نظام دیر پا ثابت نہیں ہوتا. سید احمد شہید بریلوی، سوڈان، مصر میں اخوان، پاکستان میں ضیاء الحق، مفتی محمود، مولانا فضل ارحمان، جمت اسلامی کا اتحادی ٹولہ سیاسی ناکامیوں کی داستانیں ہیں اسلام کی ناکامی نہیں. علماء نے اسلام کے طریقے پر عمل نہ کر کہ انجام دیکھ لیا.
  کیا پیغمبر محمدﷺ  نے ایسا کیا ؟ مکّہ  میں ١٣ سال تبلیغ کی مدینہ طاقت سے فتح نہ کیا بلکہ تبلیغ سے. صلح حدبیہ کی خلاف درزی پر نوٹس دیا اور بغیر خون کے مکّہ فتح ہواعام معافی کا علان ہوا.
لوگوں کے ایمان کا یہ حال تھا  کہ زانی شخص رسول اللهﷺ سے سزا کا مطالبہ کرتا ہے آپ منہ پھیرتے ہیں مگر اسرار کرتا ہے تو رسول اللهﷺ حد جاری کرتے ہیں.
میثااق مدینه ایک ایسی سوسائٹی قائم کرتا ہے جو مختلف مذاھب کے افراد پر مشتمل تھی جس کی مثال قدیم  انسانی تاریخ میں نہیں ملتی.
اگرچہ پاکستان میں ٩٥ فیصد سے زائد مسلمان ہیں مگر زیادہ  لوگ صرف کلمہ پڑھنے اور اسلام کے نام پر مرنے ما رنے کی حد تک مسلمان ہیں. دنیا کی ہر برائی ہم میں موجود ہے. لہٰذا جب تک ایمان ہمارے اندر داخل نہیں ہو جاتا ہم کو اس قسم کا نظام چا یے جس سی امن رواداری کا ماحول ہو تاکہ دعوه تبلیغ سے لوگوں کو دین کی طرف لایا جائے اور اسلامی معاشرے کی بنیاد مضبوط کی جا سکے.
ایمان سب سے زیادہ ضروری ہے جب لوگ ایمان والے ہوں گے سب ٹھیک ہو جائے گا انصاف کا نظام شریعت نافذ ہو گا اور نافذ کرنے والے کرپٹ بے ایمان نہیں بلکہ ایمان دار مومن ہوں گے
آپ درجنوں قانون بنا لیں جب تک عمل کروانے والے ایمان دار مومن نہیں ہوں گے معاشرہ میں امن انصاف نہیں ہو سکتا.
الله تعالی نے علماء کو علم دین سے نوازا ہے یہ امانت عوام تک اس طرح  پہنچانا کہ ان کی دنیا اور آخرت سنور جائے علماء کی ذمہ داری ہے.
اگر چہ علماء اپنے طریقه سے اپنا فرض نبھانے کی کوشس کر رھیں ہیں مگر طریقه پر نظر ثانی ، کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے.
اصلاح نصاب درس نظامی کے لیے 1894 میں ندوة العلما لکھنونے علماء کی کمیٹی قائم کی کہ نصاب میں فلسفہ جدید کے جواب میں انگریزی کے ماہرین مسلمانوں سے ترجمہ کرا کر علماء سے جواب سلیبس میں داخل کریں تاکہ طلبہ اس سے فائدہ اٹھائیں. سو سال گزر گیۓ مگر کچھ نہ ہوا. اب مزید اصلاح جدید کی ضرورت ہے. (٣)
اصلاح نصاب درس نظامی سلسلے میں آج کل کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے. سلیبس میں تجدید کے علاوہ ضرورت اس بات کی ہے کہ طلباء کا مخصوس مائنڈ سیٹ (mindset)، بھی تبدیل کیا جائے. 'ہم' اور' وہ' کی تفریق بتدریج کم، پھر ختم کی جائے. مدارس کے طلباءعام معاشرہ کا حصہ نظرآیں، کم از کم ذہنی طور پر. تعلیم ختم ہونے پر وہ امام مسجد کے علاوہ کسی اور شعبہ میں بھی کام کرنے کے قا بل ہو. حتی کہ اگر کوئی کسی اور شعبہ میں مزید تعلیم حاصل کرنا چاہے تو کر سکے. اس کا بیس base اتنا مضبوط ہو. قدیم مدارس نے اس طرح معاشرہ کے ساتھ رابطہ رکھا اور مایہ  ناز سکالر پیدا کیے.انہوں نے معاشرہ میں شادیاں کیں، اور معاشرہ کا حصہ بن گیے. ہم ، تم کی تفریق نہیں تھی. اس پر بہت سا کام کی ضرورت ہے.اعلی پانے کی خواتین علماء کی شدید قلت ہے.  
کون لوگ ہیں جواسلامی نظام ، شریعت کو نافذ کریں گے ؟
1. کالعدم تحریک طالبان، داعش اور ان جیسی داشت گرد تکفیری تنظیمین جو پاکستان میں خود کش حملوں اور دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.
2. سیاسی کرپٹ لوگ جو غیر ملکی مدد اور گارنٹیوں سے دھوکے کے الیکشن کے ذریعہ حکومت بناتے ہیں؟
3. مذہبی سیاسی لوگ جن کا اپنا سیاسی کردار مشکوک ہے؟
4. پرامن علماء ، خطیب، امام جو لوگوں کودین اسلام  کی تعلیم دیتے ہیں، نماز پڑھاتے ہیں اور خطبے دیتے ہیں موت پیدائش شادی پر رسومات ادا کرتے ہیں؟  
5. سول، ملٹری بیوروکریسی موجودہ نظام کا حصہ ہے اور قانونی آینی طور پر حکومت وقت کے طا بع ہے؟
6. پڑھے لکھے سیکولرمغرب زدہ لوگ جو دنیوی تعلیم میں ماہر ہیں، دین کو فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں، دین سے لابلد؟
7. پڑھے لکھے لوگ جومختلف دنیاوی علوم کے ماہر ہیں  دینی علم میں ماہر تو نہیں مگر دین کی  سمجھ رکھتے ہیں، مضبوط ایمان ہے، اسلام کو راہ نجات سمجھتے ہیں؟
8. مظلوم عوام، جو ان تمام لوگوں  سے جھوٹی امیدیں لگاے بیٹھے ہیں.جو عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استمال کرتے ہیں.
اگر  موجودہ حالات کا بغورعقلی جائزہ لیں تو عملی طور پر درج بالا لوگوں میں سے کوئی ایک گروپ تنہا اسلامی نظام نافذ نہیں کر سکتا.اگر کسی کے پاس علم ، تجربہ، خواہش ہے تو اس کے پاس  عمل درامد کے لیےقانونی، سیاسی طاقت نہیں. جن لوگوں کے پاس قانونی سیاسی طاقت ہے ان کے پاس  خواہش (political will) نہیں.
ممکن حل ہے کہ:
1. پاکستان کا آییین اسلامی جمہوری ہے ، تمام مکتبہ فکر کے علماء کا اس اسلامی جمہوری آیین پراجماع ہے.لہٰذا خلافت کے نام پر تفرقہ اجماع کے خلاف ہے. یھاں کوئی سیاسی جماعت جو آیین کے خلاف ہو وجود میں نہیں آ سکتی، لہٰذا الگ مذہبی ، سیاسی جماعتوں کا کوئی جواز نہیں.    
2. مذہبی سیاسی جماعتیں فوری طور پر عملی سیاست سے علیحدہ ہو کرکرپٹ نظام کی تبدیلی،حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کی مہم کا آغاز کریں. کسی حکومت میں شامل نہ ہوں سیاسی پریشر گروپ کا کم کریں. 67 سال ناکام مذہبی سیاست کر لی اب علماء اسلام قرآنی طریقے کو بھی موقع دیں.
3. تمام سیاسی جماتوں پر لازم ہو کہ وہ علماء کو مشاورت میں شامل کریں. اسسبلیوں اور سینیٹ میں علماء کے لیے کوٹہ مخصوص کیا جا سکتا ہے، جیسے خواتین اور ٹیکنوکریٹ کا ہے. اچھے علماء کی ہر فیلڈ میں ضرورت ہے مگر ان کو الیکشن کی سیاسی گندگی سے دور رکھیں.
4. علماء دین اپنے علم کے دائرۂ کو جدید حالا ت کے مطابق وسیع کریں تاکہ نئی نسل کی موثر رہنمائی کر سکیں.
5. عوام کی دینی رہنمائی، صبر، تحمل، برداشت سے مرحلہ وار آسان سے مشکل کی طرف کریں. ایمان اور نماز سے ابتدا کی جا سکتی ہے.
6. خواتین جو آبادی کا 50% ہیں اور نئی نسل کی تربیت کی ذمہ دار، ان کی دینی تعلیم و تربیت اور مساجد میں الگ نماز کا بندوبست کریں.
7. اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ان پر عمل درآمد کے لیے معاشرہ کو تیار کریں.(١)  
8. جہالت اور ثقافتی خرافات ، غیر اسلامی رسم و رواج جیسے جہیز ، ونی ، غیرت کے نام پر قتل، کرپشن وغیرہ کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کریں تا کہ معاشرہ ان خرافات سے پاک ہو.
9. تمام علماء دہشت گردی، خوارجیت ، تکفریت، فرقہ واریت  کو مسترد کریں. گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لایں.
10.جہاد بالسیف، قتال: تمام عالم اسلام اور پاکستان کے علماء کا اجماع ہے کہ جہاد قتال اسلامی حکومت کی زمہ داری ہے جو وہ  اقوامی معاہدوں کے مطابق اپنی افواج کے ذریعے کرے ، پرائیویٹ جہادی گروپ ممنوع. باغی فسادی افراد کو ساتھ سختی سے کچل دیا جائے. (٤) (المائدة 5:33)
11.جہاں مسلمان مظلوم ہیں حکومت وقت  کو واضح کریں کہ بین القوامی معاہدوں کے مطابق ان کی ہر طرح سے مدد کرے. اور تمام مسلمان ممالک کا (EU کی طرح) مضبوط اتحاد قائم کرنے کی کوشس کرے.
12.جہاد اکبر،رسول اللهﷺ کے فرمان کے مطابق، نفس کے خلاف جہاد کی ترویج کریں.
13.جِهَادًا كَبِيرًا: موجودہ دور کے جدید کمیونیکشن ٹولز کو استمال کریں اور اسلام کی اعلی اقدار پر نظریاتی انٹرنیشنل امپائر قائم کرنے کی جدو جہد کریں.اس طرح اسلام کا نظریہ تمام نظریات پر غالب آ سکتا ہے.الله فرماتے ہیں:
14.                    فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (٢٥:٥٢الفرقان)  "
15.                   پس (اے مردِ مومن!) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس (قرآن کی دعوت اور دلائل) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کر،"(٢٥:٥٢الفرقان) بنکنگ اور معاشی نظام کو 'الربا' سے مکمل پاک کرنے کے لیے اقدام تجویز کریں اور معاشرہ میں اسلامی بنکنگ کا شعور بیدار کریں.  اس لیے علماء کی ضروری تعلیم و تربیت کریں.
16.                   آج کا دور سائنس و ٹیکنالوجی، علم اور ماس میڈیا(mass media) کا ہے. افواج اور ہتھیاروں سے تباہی تو پھیلی جا سکتی ہے مگر ملک فتح کرکہ قبضہ زیادہ دیر نہیں قایم رہ سکتا.آج کا ہتھیارعلم اورجدید میڈیا ہے.
17.                   اس دور میں غلبہ اسلام کے لیے  تبلیغ، دعوه اور اصلاح  معاشرہ و انسانیت کے لیے علم ( سائنس و ٹیکنالوجی اور دین) اور جدید میڈیا کو استمال کرنا چاہیے. فوری طور پرترجیحات میں تھوڑا ردوبدل، جمعہ کے خطبہ کے موضوعات کے انتخاب میں ایمان اور  مسلم قرآن کے پانچ حقوق: قران پر ایمان، سمجھنا، پڑہھنا، تعلیمات پر عمل، اور قرآن کی تعلیمات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے پر عمل درآمد شروع کرے.
18.                   عوام علماء، سیاست دانوں، حکمرانوں پرکڑی نظر رکھین تا کہ دھوکہ نہ کھائیں، ان پر پریشر ڈالیں، ان کو سیدھے رہتے پر مجبور کریں.
19.                   جب معاشرہ تیار ہو گا، سیاسی بیداری ہو گی ، عوام دیانت دار ، نیک مسمانوں کو الیکٹ کریں گے اسلامی انقلاب برپا ہو جائے گا. جیسے لوگ ویسے حکمران.(١٣)
یہ بحر حال ایک نقطہ نظر ہے جس میں مزید بہتری اور امپروومنٹ کی گنجائش ہے .انشا الله
 إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٦﴾
آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے (القصص 28:56)
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾
آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں (7:199 الأعراف)
الله ہم کو ھدایت دے اور صراط مستقیم پر چلنے میں رہنمائی فرماے اس تحریر میں کوئی غلطی نا دادستہ ہے اللہ معاف فرماے، اللہ  ہماری کوتاہوں کو معاف فرماے. آمین
والسلام
آفتاب احمد خان
 مسلم وعلماء کے نام کھلا خط 

View / Download as: <<PDF>>

View /Download as:  <<MS Word Docx>>


-  - - - - - -  -  - - -  - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -- - - - - -  -  -- - - - -
نوٹ :
١. مزید بہتری کے لیے آپ کی رائے ضروری ہے، اس کے لیے نیچے "Post Comments" خانہ استمال کریں.
٢. اس کو زیادہ سے افراد سے شیئر کریں، اور اسلام کے اصل پیغام امن کوپھیلانے میں اپنا حصّہ ڈالیں. الله کا فرمان ہے :
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)  
- - - - - - -  -  - - -  - - - - - - - - - - - - - - - - -  - - - - - - - -  - - - - - - - - - - - -
حوالہ جات:References
(١)
علماء اسلام پرمسلمانوں کیتعلیم و تربیت کی ذمہ داری:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ  (٩:١٢٢ التوبة،. مسلمان قرآن کے وارث (32:35 فاطر)
اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں۔ تو اسے (جہالت بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں۔ (٩:١٢٢ التوبة،
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  آل عمران 3:104)
اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے, نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں آل عمران 3:104
تفہیم القرآن میں  (٩:١٢٢ التوبة) کی تفسی:
(٢) دعوت اور تبلیغ اسلام کا طریقه :
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ  (النحل 16:125)
آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں  (النحل 16:125)
(٣) علماء اور دور جدید:
(٤) ملک میں فساد
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٣٣﴾
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے
(المائدة 5:33)
(٥)  Date palms Pollination Hadith: http://en.islamtoday.net/node/1691
محمدﷺ
Related:
  1. https://ur.wikipedia.org/wiki/تبلیغی جماعت
  2. Pakistan-Islam &
  3. Open Letter to Muslims & Ulema:  مسلم وعلماء کے نام کھلا خط 
  4.  پاکستان - امن اور ترقی کا راستہ: http://pakistan-posts.blogspot.com/2013/11/pakistan-basic-issues-need-immediate.html 
  5. Short Web link: http://goo.gl/xNolSV  
  6. Google Document: https://goo.gl/xAtokS
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
.سم الله الرحمن الرحيم
 لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر. جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا.
مزید پڑھیں:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~