فرقہ واریت, 73 فرقوں والی حدیث



’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ:
 بنی اسرائیل میں سے لوگ بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور امت مسلمہ تہتر(73)فرقوں میں تقسیم ہو گی اِن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنّت میں ، اور وہ ہے جماعت۔ ‘‘ کیا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی فرقے میں رہنا ضروری ہے ؟

یہ  حدیث  مکمل مشکوٰۃ شریف میں یوں ہے (ترجمہ) :
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔‘‘

سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لیجیے کہ یہ حدیث جید محدثین نے قبول نہیں کی ہے   اور اسے ضعیف  قرار دیا ہے بالخصوص حدیث کا آخری حصہ کہ ایک میں اور باقی جہنم میں جائیں گے، اس پر محدثین نے خاصا کلام کیا ہے۔ یہ حدیث دراصل دوسرے تیسرے درجے کی کتابوں میں آئی ہے، یہ حدیث دوسرے انداز سے اور بھی کئی مجموعوں میں آئی ہے،لیکن سب کا حال یہی ہے۔  تاہم اس مضمون پر احادیث کی کثرت کی اور دوسرے طرق کی بناء پر یہ حسن کے درجے پر پہنچ جاتی ہے یعنی آپ اسے قابل قبول کہہ سکتے ہیں اور اس کے مضمون پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے جید محدثین نے کیا ہے ۔ 
لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سے کسی مولانا صاحب نے بیان کیا ہے آپ کا سوال کہ اس حدیث سے فرقہ واریت کی تائید ہوتی ہے یا نہیں ، تو اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ آپ کی بیان کردہ حدیث مکمل کرنے کے لیے میں لفظ فرقہ استعمال کیا؛ لیکن آپ نے جو حوالہ دیا اس حدیث میں فرقے کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا، ’’ملت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔فرقہ اور ملت میں فرق ہوتا۔ کسی خاص سوچ و فکر کو اپنا دین بنا کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملت کہتے ہیں، مثلاً آپ حدیث کا انکار کرنے والوں کو ملت قرار دے سکتے ہیں۔ قادیانیوں کو ملت قرار دے سکتے ہیں، یعنی ایسے لوگ جو بنیاد سے ہی منحرف ہوجائیں ۔ اور فرقہ اسے کہتے ہیں جو دین اسلام میں ہی رہے لیکن کچھ معاملات میں اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیں، کسی فروعی اختلاف کی بناء پر اپنی دو اینٹھ کی مسجد بنا لینا دراصل فرقہ واریت ہے۔ 
محض فقہی مسائل اور اْن میں بھی محض فروعی اختلافات کی بنا پر الگ الگ سوچ و فکر رکھنے والوں پر شرعی طور پر فرقہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ، البتہ اس مضمون کی بہت سی احادیث میں فرقے کا لفظ بھی آیا ہے مثلاً ابن ماجہ والی روایت میں لفظ فرقہ موجود ہے، لیکن ہم فرقہ بھی کہیں تو بھی اس سے فرقہ واریت کی دلیل نہیں بنتی ۔ کیونکہ اس میں فرقہ واریت کی پیشین گوئی ہے نہ کہ حکم۔۔ دین میں فرقہ واریت کی حرمت تو نص قطعی سے واضح ہے۔ اس حدیث کو قرآن مجید کی ہی روشنی میں سمجھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن میں  بے شمار آیات فرقہ واریت کی مذمت کرتی ہیں۔

اور پھر ذرا یہ بھی سوچیں کہ جس جماعت کے جنتی ہونے کی بشارت آقا علیہ السلام نے دی ہے وہ کون ہے؟ خود اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ ما انا علیہ واصحابہ، یعنی جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔ اس حدیث سے جو لوگ فرقہ پرستی کی دعوت دیتے ہیں میں انھیں کہتا ہوں کہ آپ ذرا یہ تو دیکھ لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا طرز کیا تھا؟ (وقت کم ہے اس لیے )میں آپ کو یہاں صرف صحابہ کرام کے متعلق بتاتا ہوں۔
صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مابین بہت سے معاملات میں اختلاف تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اختلافات تو ایک طرف میں آپ کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہی تقریباً ۳۰ سے زائد مسائل میں اختلافات گنوا سکتا ہوں ان سب مسائل پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے بیٹھ کر گفتگو کی ، لیکن کیا کہیں سے کفر کے فتوے لگے؟ کیا کسی ایک صحابی نے اپنا علاحدہ فرقہ بنایا؟ کسی ایک صحابی نے (معاذ اللہ) یہ کہا کہ اختلافی مسائل میں میری ہی پیروی کرنا، ورنہ ایمان سے خارج ہوجاؤگے؟ جنت اور نجات صرف یہیں مل سکتی ہے۔ 
اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو خدارا میرے سامنے تاریخ سے کسی ایک صحابی کا صحیح قول پیش کردیں جنہوں نے کہا ہو کہ فلاں صحابی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، فلاں کو کافر جاننا، فلاں کو سلام نہ کرنا، جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔
سارے اختلافات کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین وہ تھے جو باہم محبت و اخوت سے رہتے تھے، آپس میں رشتے طے کرتے تھے، ایک دوسرے سے علمی و روحانی فیض حاصل کرتے تھے۔مگر افسوس کہ ہم اختلافات کرتے ہیں تو لڑتے بھی ہیں، فتوے بھی لگاتے ہیں؛ اور پھر انتہاء تو دیکھیں کہ اپنے ناپاک عمل کی دلیل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتاتے ہیں،ہمیں خدا کا کوئی خوف نہیں ہے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ جن پر فتوے لگائے ہیں اگر ان میں سے ایک بھی اللہ کا ولی نکلا تو روز محشر ان تکفیری ملاؤں کی رسوائی ہی ہوگی۔ 

اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ (آمین) حافظ محمد شارق
~~~~~~~~~~~~~~~~
اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں ۔
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال: من كان على مثل ما أنا عليه وأصحابي.
یعنی یھود 71 اور نصاریٰ 72 فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت مسلمہ عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ جہنم سے بچنے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟آپ نے فرمایا جو اس طور طریقہ پر ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں ۔

اس حدیث میں افتراق امت مسلمہ کی پیشن گوئی کے لیے ‘ستفترق’ کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عنقریب یا بہت جلد متفرق ہو جائیں گے۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق مستقبل قریب کے لیے مضارع کے صیغہ کے شروع میں س کا اضافہ کیا جاتا ہے اور مستقبل بعید کے لیے ‘سوف’ لکھا جاتا ہے جیسے قیامت کے وقوع اور جہنم کو سرکی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے سورۃ التکاثر میں ‘کلا سوف تعلمون ‘کے الفاظ سے آگاہ کیا گیا ہے یعنی ‘ہرگز نہیں جلد ہی تمھیں معلوم ہو جائے گا’۔ چونکہ اس حدیث میں ‘سوف تفترق’ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ ‘ستفترق’ کہا گیا ہے اس لیے اس حدیث کی رُو سے امت مسلمہ میں 72 فرقوں کا وجود رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے فوراً بعد ہونا لازم آتا ہے اور فی الحقیقت ایسا ہوا بھی ہے ۔پہلی صدی ہجری میں ہی 72 فرقوں کا وجود شروع ہو گیا تھا، جن کی تشریح اور وضاحت قادیانیوں کے مسلمہ مجدد ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ‘تلبیس ابلیس’ میں کی ہے البتہ اس کے بعد بہت سے فرقے امت محمدیہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج بھی کئی فرقے موجود ہیں جیسے قادیانی، بہائی وغیرہ۔ لیکن انکے وجود سے اس حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعد میں پیدا ہونے والے تمام فرقے لازمی طور پر ان بہتر گمراہ فرقوں کے خیالات کا چربہ یا انکا نیا اڈیشن ہیں۔

اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبیہ و نصیحت کے تھی ۔حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے ملائکہ پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اچھی یا بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ،اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں ،حضرت محمد صلعم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں ،روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں ،معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں –دوسرے الفاظ میں جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے۔ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ۔دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطاء کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں ۔بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلافات میں قلت فہم کی بنا پر مختلف مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں ۔

72 فرقوں کی تصریح علامہ ابن جوزی نے اس طرح بیان کی ہے کہ ابتداء میں جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اور سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر خوارج اور دیگر فرقے بنے تھے ،پھر انکے ردّ عمل میں مزید چار فرقے اور پیدا ہو گئے یعنی قدریہ، جبریہ، جہمیہ، مرجیہ۔ اس طرح ان گمراہ فرقوں کی کل تعداد چھ ھوگئی۔ علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ ان چھ فرقوں میں آپس میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور تفریق ہوتی رہی یہاں تک ان میں سے ہر فرقہ بارہ بارہ فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر ان گمراہ فرقوں کی تعداد حدیث نبوی کی تصریح کے مطابق 72 ھوگئی۔ ان 72 فرقوں کے الگ الگ نام کی صراحت اور ان کے عقائد کی تفصیل یہاں بخوف طوالت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ان کی تفصیلات”تحفہ اثنا عشریّہ “از حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
http://www.khatmenbuwat.org/threads/%D8%A8%DB%81%D8%AA%D8%B1-%D9%81%D8%B1%D9%82%D9%88%DA%BA-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%AA.1778/

مزید پڑھیں:

Also Related:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits

No comments: