کیا کلمہ طیبہ پڑھ لینا ہی نجات کے لئے کافی ہے؟ Is only Faith sufficient for salvation?

Image result for faith  works Grace in islam

حدیت- کلمہ  جنت کی چابی -مسلم ، کتاب ایمان نمر 50 

كتاب الإيمان 1 The Book of Faith
(10)Chapter: The evidence that one who dies believing in tawhid will definitely enter paradise
10)باب مَنْ لَقِيَ اللَّهَ بِالإِيمَانِ وَهُوَ غَيْرُ شَاكٍّ فِيهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحَرُمَ عَلَى النَّارِ

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ - وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ - فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ أَبُو هُرَيْرَةَ ‏"‏ ‏.‏ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ‏.‏ قَالَ ‏"‏ مَا شَأْنُكَ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاَءِ النَّاسُ وَرَائِي فَقَالَ ‏"‏ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ‏"‏ ‏.‏ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ ‏"‏ اذْهَبْ بِنَعْلَىَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ ‏"‏ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَاتَانِ النَّعْلاَنِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ‏.‏ فَقُلْتُ هَاتَانِ نَعْلاَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ ‏.‏ فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَىَّ فَخَرَرْتُ لاِسْتِي فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً وَرَكِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَىَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاِسْتِي قَالَ ارْجِعْ ‏.‏ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَا عُمَرُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ ‏.‏ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ فَلاَ تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فَخَلِّهِمْ ‏"‏ ‏.‏

اردو گوگل ترجمہ >>>


It is reported on the authority of Abu Huraira:
We were sitting around the Messenger of Allah (may peace and blessings be upon him). Abu Bakr and Umar were also there among the audience. In the meanwhile the Messenger of Allah got up and left us, He delayed in coming back to us, which caused anxiety that he might be attacked by some enemy when we were not with him; so being alarmed we got up. I was the first to be alarmed. I, therefore, went out to look for the Messenger of Allah (may peace and blessings be upon him) and came to a garden belonging to the Banu an-Najjar, a section of the Ansar went round it looking for a gate but failed to find one. Seeing a rabi' (i. e. streamlet) flowing into the garden from a well outside, drew myself together, like a fox, and slinked into (the place) where God's Messenger was. He (the Holy Prophet) said: Is it Abu Huraira? I (Abu Huraira) replied: Yes, Messenger of Allah. He (the Holy Prophet) said: What is the matter with you? replied: You were amongst us but got up and went away and delayed for a time, so fearing that you might be attacked by some enemy when we were not with you, we became alarmed. I was the first to be alarmed. So when I came to this garden, I drew myself together as a fox does, and these people are following me. He addressed me as Abu Huraira and gave me his sandals and said: Take away these sandals of mine, and when you meet anyone outside this garden who testifies that there is no god but Allah, being assured of it in his heart, gladden him by announcing that he shall go to Paradise. Now the first one I met was Umar. He asked: What are these sandals, Abu Huraira? I replied: These are the sandals of the Messenger of Allah with which he has sent me to gladden anyone I meet who testifies that there is no god but Allah, being assured of it in his heart, with the announcement that he would go to Paradise. Thereupon 'Umar struck me on the breast and I fell on my back. He then said: Go back, Abu Huraira, So I returned to the Messenger of Allah (ﷺ), and was about to break into tears. 'Umar followed me closely and there he was behind me. The Messenger of Allah (may peace and blessings be on him) said: What is the matter with you, Abu Huraira? I said: I happened to meet 'Umar and conveyed to him the message with which you sent me. He struck me on my breast which made me fall down upon my back and ordered me to go back. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: What prompted you to do this, 'Umar? He said: Messenger of Allah, my mother and father be sacrificed to thee, did you send Abu Huraira with your sandals to gladden anyone he met and who testified that there is no god but Allah, and being assured of it in his heart, with the tidings that he would go to Paradise? He said: Yes. Umar said: Please do it not, for I am afraid that people will trust in it alone; let them go on doing (good) deeds. The Messenger of Allah (ﷺ) said: Well, let them.
Reference : Sahih Muslim 31
In-book reference : Book 1, Hadith 54
USC-MSA web (English) reference : Book 1, Hadith 50
  (deprecated numbering scheme)
http://sunnah.com/muslim/1/54
کیا کلمہ طیبہ پڑھ لینا ہی نجات کے لئے کافی ہے؟

کیا کلمہ طیبہ پڑھ لینا ہی نجات کے لئے کافی ہے؟
کلمہ طیبہ پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے ایمان کی دولت میسر آ جاتی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : آپ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے، اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باﷲ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار، 1 : 95، رقم : 94
لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اﷲ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo
’’جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘
 النساء، 4 : 123
اگر کسی کلمہ گو شخص نے اپنے گناہوں پر توبہ کی اور اس کی توبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی تو وہ کلمہ گو شخص جنت میں جائے گا۔ یا اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر وہ کلمہ گو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
ہے اور محمدؐ اس کے رسول ہیں وہ جنت میں جائے گا۔ اہل تقویٰ کے سرخیل سیدنا ابوذر غفاریؓ سے آپؐ نے کہا تھا۔ ابوذر جس نے کہا اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے رسول ہیں، وہ بخش دیا جائے گا۔ حیرت زدہ انہوں نے کہا، خواہ اس نے چوری اور بدکاری کی ہو۔ فرمایا: ہاں خواہ اس نے چوری اور بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ باردگرِ آپؐ کے رفیق نے تعجب سے اپنا سوال دہرایا تو رحمتہ للعالمین نے یہ کہا: ہاں! خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ ظاہر ہے کہ خطا کا ارتکاب کرنے والا توبہ کرے گا۔ جس کی چوری کی ہے، اسے لوٹا دے گا۔ ثانوی ترجیحات پر کچھ نہیں ملتا،اللہ نہ اس کا راستہ، حسنِ عمل اور نہ علم و معرفت۔ اپنی خطا پر، اپنی ترجیحات پر آدمی اگر ڈٹا رہا۔ -
قرآن کی  معتد د آیات میں واضح ہے کہ نجات، بخشش صرف ایمان اور اچھے اعما ل کی بنیاد پر ہو گی:
(قرآن ; 103:2-3, 32:19, 42:22, 30:45, 31:8-9, 47:12, 18:107, 5:11, 22:23, 56,40)
اس کے ساتھ اللہ کا انصاف ، رحم ، فضل اور شفاعت (صرف اللہ  کی اجازت سے).
امام شا فعئی سوره العصرکو قرآن کا خلاصہ قرار دیتے ہیں. آپ نے فرم یا کہ اگر صرف سوره العصر (١٠٣) نازل ہوتی تو بھی کافی تھی:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾
زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (103:3)
  
بہت سے احادیث سے یہ تاثرملتا ہے کہ نجات، بخشش کے  لیےصرف ایمان ہی کافی ہے. تمام کلمہ گو (مسلمان)، حضرت محمدﷺ کی امت کے لوگ  جنت میں جاییں گنے چاہے وہ کتنے ہی گناہ گار ہوں. ایک مشہور حدیث کے مطابق اگرچہ مسلمان زانی یا چورہو! (زنا اور چوری گناہ کبیرہ ہیں) پھر بھی وہ جنت میں جائے گا.
اب ایک طرف قرآن کی واضح آیات بہت بڑی تعداد میں ہیں اور دوسری طرف احادیث جو بظاھر قرآن کی واضح آیات کو منسوخ کرتی نظر آتی ہیں. یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ مذھب اسلام کی بنیاد کا معاملہ ہے.
علماء کے مطابق احادیث کو قران کی روشنی میں سمجھنا چاہیے. دل سے کلمہ پڑھنے کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام پر دل و جان سے عمل کرے صرف زبانی اقرار کافی نہیں.
اگر صرف کلمہ زبان سے ادا کیا جائے تو یہ کافی نہیں.دنیاوی، قانونی طور پر وہ مسلمان سمجھا جایے گا مگر اس کو اپنے عمل سے بھی مسلمان ثابت کرنا ہو گا.
گناہ، ثواب ، حلال ، حرام ،آخرت ، حساب کتاب ، جزا ، سزا . انصاف ، حقوق اللہ ، حقوق العباد وغیرہ ایک طرف اور ایمان (زبانی اقرار، کلمہ شہادہ) دوسری طرف اسلام کے چھ  بنیادی عقاید، اورپانچ ستون پر عمل کرنا ہو گا.  
تحقیق سے معلوم ہوا کہ علماء مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں - کچھ  تاویلیں عقل ودانش کے سادہ معیار سے بھی بعید معلوم ہوتی ہیں.

حدیث مسلم بمطابق حضرت ابوحریرہ ، جس میں رسول اللہﷺ دل سے کلمہ گو (مسلمانوں) کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں، حضرت عمر(رضی اللہ)   کی درخواست پر کہ مسلمان ظاہری الفاظ سے غلط مطلب سمجھ لیں گنے، ان کو اچھے اعمال کرنے دیں، آپ نے فرمایا کرنے دیں (اچھے عمل کرنے دیں) (مسلم حدیث 50  ، کتاب الایمان).  حضرت عمر(رضی اللہ)   کی اس پیغام کو عام کرنے سے منع کرنے کی درخواست رسول اللہﷺ نے قبول کر لی.
رسول اللہﷺ نے جس بات کو عام کرنے سے منع فرما دیا پھر  رسول اللہﷺ کے ارشاد کے خلاف آج تک اس کی تشسہیرکرکہ کنفیوژن پھیلایا جاتا ہے؟
حضرت عمر (رضی اللہ) نے جس خدشہ کا اظھار کیا تھا وھی کھلم کھلا ہو رہا ہے.لوگ ظاہری طور پر اپنی مرضی کا مطلب نکال کر اچھےاعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتے بس کلمہ ادا کرنا نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں جو درست نہیں.  
کیا یہ اللہ کے فرمان  (سورة الحشر 59:7) کی کھلی خلاف درزی نہیں؟
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ(29:2 سورة العنكبوت)
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ "ہم ایمان لائے " اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟(29:2 سورة العنكبوت)

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾
جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے (سورة الحشر 59:7)

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)

عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمات، صحیح) تم پر لاز م ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں مضبوط پکڑنا۔

مسیحیت میں نجات کے کیے "ایمان" کو کافی سمجھا جاتا ہے. (ان کے ایمان کی تفصیل معلوم  ہے).یہودی اپنے آپ کو اللہ کی خاص قوم اور جنت کا حقدار سمجھتے ہیں. اگر عذاب آیا  بھی تو صرف تھوڑا.
اسلام "ایمان اور اعما ل" نجات کی بنیاد کی وجہ سے مسیحیت سے مختلف ہے.
جب قران کی واضح تعلیمات اور احکام کے خلاف صرف ایمان کی بنیاد پر نجات کا نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو عام مسلمان اس کو کامیابی اور جنت کی کنجی سمجھ کر گناہ کرنے کو معیوب نہیں سمجھتا. دانشور اور علماء عوام کو نادانستہ طور پر گناہ اور تباہی کی دنیا میں دھکیل رہے ہیں.

قرآن واضح کرتا ہے کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی  اور دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اسلام کی تمام بنیادی نظریات کو دل سے قبول کرے اور پوری دیانت داری سے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے. اللہ  اور رسولﷺ کی کی نافرمانی سے بچے. اس کو چاہے کہ اس دنیا کی بجایے آخرت کی فکر کرے. اللہ کی کتاب ایسے لوگوں کو آخرت میں کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی جو ان شرایط پر پورا نہیں اترتے، اللہ کا ارشاد ہے:

"پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا  اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا جنت اس کا ٹھکانا ہوگی " ( سورة النازعات 79:35-41)
مسلمانوں کو چاہے کہ گمراہ کن نظریات سے با ھر نکلیں اور اپنی طرف سے پوری کوشش کریں کہ آخرت میں کامیاب ٹھریں اور اس کے لیے ایمان کے ساتھ نیک اعمال کریں، پھر بھی اگر کچھ کمی کوتاہی کی وجہ سے رہ جائے تو اللہ کی رحمت اور بخشش کا طلبگار ہو، یقینا اللہ ایسے ایمان والوں کو مایوس نہیں کرے گا-
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر ملاحضہ کریں:
  • http://salaamforum.blogspot.com/2016/05/blog-post_15.html
  • Muslims , Paradise & Hell - Clear False Concepts thorough Quran: http://islam4humanite. blogspot.com/2016/05/muslims-in-paradise-not-hell.html-------------------------------------- جماعت کا اتباع ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115) اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس اسی کی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔ یہ آیت اجماع امت پر عمل کرنے کی دلیل ہے۔
مجتہد کا اتباع
واتبع سبيل من اناب الي (لقمان: 15) راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ حضرت عرباضؓ سے ایک روایت ہےجس میں آپ ﷺ کی وصیت ہے کہ میرے بعد بہت سے اختلافات پیدا ہوں گے اس کے بعد ارشاد فرمایا: عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمات، صحیح) تم پر لاز م ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں مضبوط پکڑنا۔ حضرت علیؓ کی ایک روایت ہے: جلد النبي صلى الله عليه وسلم اربعين وابو بكر اربعين وعمر ثمانين وكل سنة وهذا احب الي (الحدیث)(صحیح مسلم کتاب الحدود) رسول اللہ ﷺ نے (شرابی کو) چالیس (کوڑے) لگوائے اور ابوبکرؓ نے بھی چالیس (کوڑے لگوائے) اور عمرؓ نے اسی (کوڑے لگوائے) اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے اور مجھے یہ (یعنی اسی کوڑے) زیادہ پسند ہیں۔ فائدہ: حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کے فیصلے سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔ حدیث 1 عن ابي وائل قال جلست مع شيبة على الكرسي في الكعبة فقال لقد جلس هذا المجلس عمر رضي الله عنه فقال لقد هممت ان لا ادع فيها صفراء ولا بيضاء الا قسمته قلت ان صاحبيك لم يفعلا قال هما المرءان اقتدي بهما۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالسنۃ) ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (رسول اللہ ﷺاور ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا)۔ · سیدنا عمرؓ نے اپنے عمل کی بنیاد رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے عمل پر رکھی یعنی ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی طرح نافذ ہوسکتا ہے۔
سنت اور حدیث میں فرق
· سنت دائمی عمل کو کہتے ہیں۔ ثبوت سنت کے لئے غیرلازم چیز پر مواظبت (ہمیشگی) ضروری ہے۔ سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج طریق ہے جو خواہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو یا آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے ثابت ہو۔ اس کی دلیل آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے: تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اور سے دانتوں سے (یعنی مضبوطی سے) تھام لو۔ · علیکم بسنتی (صحیح البخاری) علیکم بحدیثی نہیں آیا۔ · صرف فعل سے دوام اور عمل کا سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاپ فرمانے کا ذکر ہے۔ فبال قائما (صحیح البخاری) لیکن یہ سنت نہیں۔سنت بیٹھ کر پیشاپ کرنا ہے۔ قبلہ رخ ہوکر رفع حاجت کرنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ یا مثلا یہ روایت ہے کہ ابوبکرؓ جماعت کروا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ کے پہلو میں تشریف فرما ہوگئے اب ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ ابوبکرؓ کی۔ یہ حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں۔ سنت وہی ہے کہ ایک جماعت کا ایک ہی امام ہوگا۔ اس لیے کہ امت نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا کہ ایک جماعت کے دو امام ہوں۔ · یا مثلا رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ جوتا پہن کر نماز پڑھتے تھے۔ کان یصلی فی نعلیہ (صحیح البخاری) جب کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ بغیر جوتوں کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن امت کا عملی تواتر پہلی حدیث کے بجائے دوسری حدیث پر ہے۔ ساری امت کا اتفاق ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا آپ ﷺ کا نادر عمل ہے۔ https://goo.gl/N6IUG6



~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
بسم الله الرحمن الرحيم
 لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر. جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا.
مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall 2 Million visits/hits

No comments: