حدیث اور اسکی اقسام Types of Hadiths


 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
 آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (5:3)
... This day I have completed your religion for you and completed My blessing upon you. I have chosen for you Islam as your religion(Quran: 5:3)


 تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ ﴿٦﴾
  یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ آپ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں تو آخر اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد وہ کونسی  حدیث ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے؟ (45:6)
These are the Messages of Allah We convey to you with Truth. Then, in what HADITH, if not in Allah and His Verses, will they believe?(Quran 45:6)

Read in English:
The Arabic word 'Hadith' means a report, tale, story, statement, narration, a communication or a discourse. Its plural form is 'Ahadith'.  In common parlance, 'Hadith' has now become synonymous with a specific body of work within Islamic literature which constitutes narrations that depict the words and practices of the Prophet Muhammad(pbuh) and are attributed to him. Keep reading...Quran & Hadith 》》》

کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، شمس الائمہؒ کہتے ہیں، شریعت کی تین حجتیں (بنیادیں) ہیں، کتاب اللہ، سنت اور اجماع، چوتھی بنیاد قیاس ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہیں؛ اگرغور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان تمام اصولوں کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے (اصول السرخسی:۱/۲۷۹) اور اجماع امت اور قیاس بھی آپﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے معتبر ہیں توجب دین کی بنیاد رسول اللہﷺکی ذاتِ گرامی ٹھہری تو پھر عبادت واطاعت کے معاملہ میں حدیث وقرآن میں فرق کرنا بے بنیاد ہے؛ کیونکہ یہ دونوں اطاعت میں برابر ہیں؛ البتہ حجت دین کے بارے میں دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔
متضاد احادیث اور جواب:

حدیثِ رسول قرآن کی نظر میں
حدیث رسول کی اسی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحَى"۔ (النجم:۳،۴)
ترجمہ:یعنی رسول اپنے جی سے نہیں بولتے، وہ بس اللہ کے پاس سے آئی ہوئی وحی ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ (الحشر:۷)
ترجمہ:جوتمھیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ؛ نیز رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا۔ "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"۔ (النساء:۸۰)
ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ"۔ (آل عمران:۳۱)
ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ اگرتم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوتوتم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ نیز جوشخص حکم رسول کو نہ مانے اسے قرآن نے مؤمن قرار نہیں دیا ہے اور قرآن میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ شخص اس دنیا میں مصیبت میں مبتلا رہے گا اور آخرت میں دردناک عذاب چکھے گا، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: "فَلَاوَرَبِّكَ لَايُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَايَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"۔ (النساء:۶۵)
ترجمہ:پھرقسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جھگڑے واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کراویں؛ پھرآپ کے اُس تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورے طور پر تسلیم کرلیں۔ امام شافعیؒ نے اپنی کتاب الرسالۃ میں آیت قرآنی "وَمَاأَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ" (البقرۃ:۲۳۱) کے بارے میں لکھا ہے کہ "اس آیت میں حکمت سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث مراد ہے؛ کیونکہ الکتاب کے ساتھ واوِعطف کے بعد حکمت کا ذکر ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اس احسان کو بیان کیا ہے جو اس نے "الکتاب" قرآن کریم اور حکمت (حدیثِ رسول) کی تعلیم دے کر کیا ہے، اس لیے یہاں الحکمۃ سے حدیثِ رسول ہی مراد ہے، اس کے علاوہ کچھ اور مراد لینا درست نہیں ہے"۔ (الرسالۃ:۱/۱۳)
نیز اللہ تعالی ٰنے اپنے رسول کے اوپر قرآن نازل کیا اور قرآنی آیات کی تشریح کی ذمہ داری اپنے رسول پر ڈالی، ارشادِ ربانی ہے: "وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ"۔ (النحل:۴۴)
ترجمہ:اور ہم نے تمہاری طرف الذکر یعنی قرآن نازل کیا؛ تاکہ تم لوگوں کے ساتھ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کو کھول کھول کر بیان کرو۔ ان تمام آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احادیثِ رسول، اللہ کی وحی کا حصہ اور قرآن کی تفسیر ہیں، ان کے بغیر نہ دین کی صحیح تفہیم ہوسکتی ہے اور نہ دین عملی زندگی میں پوری طرح جاری ہوسکتا ہے؛ اسی لیے حضرت عمران بن حصینؓ سے ایک شخص نے جب سوال کیا اور آپ نے اس کے جواب میں حدیث سنائی تو اس نے کتاب اللہ سے جواب دینے کے لیے کہا تو آپ نے کہا "انک امرءاحمق" تم احمق آدمی ہو، کیا تم قرآن میں یہ پاتے ہو کہ ظہر کی نماز میں چار رکعات فرض ہیں، جس میں بآواز بلند قرآن پڑھا نہیں جاتا؛ اسی طرح انہوں نے مختلف نمازوں کو گنایا اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر کیا؛ پھرفرمایا:کیا یہ سب تم قرآن میں تفصیل سے پاتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ کتاب اللہ نے ان سب کواجمالاً بیان کیاہے اور سنت ہی اس کی تفصیل کرتی ہے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ:۳/۶۲)
رسولﷺ نے اگر دین کے باب میں کچھ فرمایا ہے تو وہ حجت ہے۔ اس سے صرف نظر صرف ایک خیر سے محرومی نہیں، ایمان سے محرومی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے رسول دین کی کوئی بات بتائیں اور ایک مسلمان رد و قبول کے انتخاب میں الجھ جائے۔ معاذاللہ۔ تاہم ''اللہ کے رسول نے فرمایا‘‘... یہ جملہ کہتے وقت، ذمہ داری کا ایک بوجھ آپ کے سر ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو محدثین شب و روز اس کی نذر نہ کرتے۔ لاکھوں روایات سے چند ہزار کا انتخاب نہ کرتے۔ سنگ ریزوں کے انبار سے ہیرے نہ چنتے۔ حدیث کے باب میں اس امت کی روایت یہی رہی ہے۔ یہ انتخاب ایک مسئلہ تھا جس نے اس امت کو بخاری و مسلم جیسی شخصیات عطا کیں۔ حیرت ہوتی ہے جب لوگ بڑی آسانی سے کوئی جملہ رسول اللہﷺ سے منسوب کر دیتے ہیں اور وہ بھی کسی سند کے بغیر۔
محدثین کے نزدیک روایت کے اعتبار سے سب کا درجہ ایک نہیں۔ گویا سب کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آپ ہی کا فرمان ہے۔ اس لیے محدثین کی احتیاط کا معاملہ یہ ہے کہ روایت بیان کرتے ہیں تو آخر میں کہتے ہیں ''او کما قال‘‘... یا جیساکہ آپ نے فرمایا۔ یہی معاملہ درایت کا بھی ہے۔ روایت کے ساتھ یہ بھی بات کو پرکھنے کا مسلمہ معیار ہے‘ جس پر یہ امت صدیوں سے عمل کرتی ہے۔ اس کا تعلق راوی سے نہیں متن سے ہے۔ راوی ثقہ ہو تو بھی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا، اگر متن قرآن مجید یا کسی سنتِ ثابتہ کے خلاف ہے جو زیادہ یقینی ذرائع سے ہم تک پہنچی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: تین طرح کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں:
1۔ ملاحم، 
2۔باب الفتن
3۔ تفسیر۔
کیسا المیہ ہے کہ آج جو دین بیان ہو رہا ہے، اس کی بنیاد یہی《 تین》باتیں ہیں.


کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، شمس الائمہؒ کہتے ہیں، شریعت کی تین حجتیں (بنیادیں) ہیں، کتاب اللہ، سنت اور اجماع، چوتھی بنیاد قیاس ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہیں؛ اگرغور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان تمام اصولوں کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے (اصول السرخسی:۱/۲۷۹) اور اجماع امت اور قیاس بھی آپﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے معتبر ہیں توجب دین کی بنیاد رسول اللہﷺکی ذاتِ گرامی ٹھہری تو پھر عبادت واطاعت کے معاملہ میں حدیث وقرآن میں فرق کرنا بے بنیاد ہے؛ کیونکہ یہ دونوں اطاعت میں برابر ہیں؛ البتہ حجت دین کے بارے میں دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔
 شاذ حدیث
کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید، سنت متواترہ اور دیگر صحیح احادیث سے متضاد مفہوم پیش نہ کر رہی ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس حدیث کو "شاذ" کہا جاتا ہے اور اس خصوصیت کو "شذوذ" کہتے ہیں۔
          یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم قرآن مجید یا اپنی ہی فرمائی ہوئی بات کے متضاد کوئی بات ارشاد فرمائیں۔ بظاہر ایسا نظر آنے کی وجہ یہی ممکن ہے کہ کسی راوی نے بات کو سمجھنے یا بیان کرنے میں کوئی غلطی کر دی ہو۔
اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے خطیب بغدادی ابن خزیمہ کا قول نقل کرتے ہیں:
لا أعرف انه روى عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حديثان بإسنادين صحيحين متضادان فمن كان عنده فليأت به حتى اؤلف بينهما۔
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی ایسی کوئی دو احادیث کا علم نہیں ہے جو آپس میں باہم متضاد ہوں۔ اگر کسی شخص کو ایسی دو احادیث ملیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان میں مطابقت پیدا کرے۔ (الکفایۃ فی اصول الروایۃ باب141)
ایسے موقع پر درست رویہ یہ نہیں ہے کہ احادیث کو فوراً متضاد قرار دے کر انہیں مسترد کر دیا جائے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ ایک طالب علم احادیث میں موافقت کے اسباب تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ عام طور پر اسی حدیث کی دیگر روایتوں کے مطالعے سے ان میں موافقت پیدا ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں کوئی تضاد سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے اور محض موقع محل یا سیاق و سباق کا علم نہ ہونے کے باعث کسی کو بظاہر تضاد نظر آ رہا ہوتا ہے۔
 ایسا راوی جو اکثر اوقات شاذ احادیث بیان کرتا ہو، اس کی دیگر روایات کو بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب الکفایۃ کے باب 45 کا یہی موضوع رکھا ہے اور اس ضمن میں بہت سے محدثین کی آراء نقل کی ہیں۔
 حدیث کی تعریف
حضرت رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرامؓ، و تابعینؒ کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں
حدیث کی تقسیم:حدیث دو قسم پر ھے
1. خبرمتواتر
2.خبر واحد
( ۱) خَبرِ مُتَوَاتِر
ھو ما نقلہ جماعۃ کثیرون تحیل العادۃ تواطوھم وتوافقھم علی الکذب عن جماعۃ کذالک
وہ حدیث ہے کہ جسکے روایت کرنے والے ہر زمانہ میں اس قدر کثٖیر ہوں کہ ان سب کے جھوٹ پر اتفاق کرلینے کو عقلِ سلیم مُحال سمجھے
خبر  متواتر کی اقسام:خبر متواتر کی دو اقسام ھیں
1. تواتر لفظی
2.تواتر معنوی
المتواتر اللفظی:
ھو     ما تواتر لفظہ و معناہ عن النبی ﷺ۔
جو نبی ﷺ سے لفظا ومعنا متواتر ھو
مثال:
من کذب علی متعمدا فلیتبو    ا مقعدہ من النار۔ (البخاری)
اس حدیث کو ستر سے زائد صحابہ نے نقل کیا ھے
المتواتر المعنوی:
ما تواتر  معناہ دون لفظہ۔
وہ حدیث جو صرف معنا متواتر ہو (لفظا متواتر نہ ہو
مثال:
وہ احادیث جن میں نبی ﷺ سے دعا کے دوران ھاتھ اٹھانا منقول ھے۔
(۲) خَبرِ وَاحِد
ھو ما نقلہ واحد عن واحد
وقیل:
ھوکل خبر یرویہ الواحد اوالاثنان فصاعدا ولاعبرۃ للعدد فیہ بعد ان یکون دون المشہور والمتواتر
وہ حدیث کہ جسکے راوی اس قدر کثیر نہ ہوں(جیسے کہ خبر متواتر میں کثیر تھے) یعنی ایک دو حضرات نے روایت کی ھو
مثال:
اذا استیقظ احدکم من منامہ فلا یغمسن یدہ فی الاناء حتی یغسلھا ثلثا فانہ لا یدری این باتت یدہ (صحیحین
خبرواحد کا حکم:
یہ علم نظری کا فائدہ دیتی ھے  یعنی اس علم کا جو نظر واستدلال پر موقوف ھو۔
عند البعض خبر واحد قطعیت کا فائدہ دیتی ھے و عندھم دلائل کثیرۃ
خبر  واحد کی اقسام:
خبر واحد کی کئی اقسام ہیں۔ ذیل میں خبر واحد کی پانچ تقسیمات دی جا رھی ھیں
خبر واحد کی پانچ تقسیمیں
(۱) باعتبار منتہی
تین اقسام: مرفوع, موقوف, مقطوع
(۲) باعتبار عددِ رواۃ
تین اقسام
مشہور ؍ مستفیض, عزیز, غریب
(۳) راویوں کی صفات کے اعتبار سے
(سولہ اقسام)
صحیح لذاتہ,حسن لذاتہ, ضعیف, صحیح لغیرہ, حسن لغیرہ, موضوع, متروک, شاذ, محفوظ, مُنکَر, معروف, معلَّل, مضطرب, مقلوب, مصحَّف ؍ مُحَرَّف, مُدرَج
(۴) باعتبار سقوط راوی وعدم سقوط راوی
(سات اقسام)
مُتَّصِل, مُسنَد, منقطع, مُعَلّق, مُعضَل, مرسل, مدلس
(۵) باعتبار صِیغ
دو اقسام:مُعَنعَن ؍ عَن عَن
مُسَلسَل
تفصیل
خبر واحد کی اقسام  باعتبار منتہی
(۱) مَرفُوع:
ماانتھی الی النبی ﷺ
وہ حدیث ھے جس میں نبیﷺ کے قول یا فعل یا تقریر کا ذکر ھو(منسوب کرنے والا راوی خواہ صحابی ہو یا کم تر، سند خواہ متصل ہو یا منقطع خبر
مرفوع کی اقسام:اسکی چار اقسام ھیں :
مرفوع قولی, مرفوع فعلی, مرفوع تقریری, مرفوع وصفی
(۲) مَوقُوف:
ھو المروی عن الصحابۃ قولالھم او فعلا اوتقریرا متصلا کان او منقطعا
وہ حدیث ھے جس میں صحابیؓ کے قول یا فعل یا تقریر کا ذکر ھو
امثلہ:
موقوف قولی:
راوی کا یہ قول کہ حضرت علیؓ نے فرمایا:
حدثواالناس بمایعرفون اتریدون ان یکذب         اللہ ورسولہ(بخاری، کتاب العلم)

لوگوں کو وہ احادیث بیان کرو جووہ جانتے ھیں کیا تم چاہتے ہو کہ لوگ اللہ اور اسکے رسول کو جھٹلائیں
موقوف فعلی:
امام بخاریؒ کا قول:
واَمَّ ابن عباس وھومتیمم (بخاری
حضرت ابن عباسؓ نے امامت کروائی  اس حال میں کہ وہ متیمم تھے
موقوف تقریری:
کوئی تابعی ؒ یہ روایت کرے کہ میں نے فلاں صحابیؓ کے سامنے یہ عمل کیا اور انہوں نے انکار نہیں کیا۔
خبر موقوف کی حیثیت:
یہ صحیح، حسن، ضعیف ہو سکتی ہے (و  فیہ تفصیل، انظر علوم الحدیث لابن صلاح

(۳) مَقطُوع:
ھوالموقوف علی التابعیؒ قولالہ او فعلا لہ(اوتقریرا لہ) ، وھو غیرالمنقطع
وہ حدیث ھے جس میں تابعیؒ کے قول یا فعل یا تقریر کا ذکر ھو
امثلہ:
مقطوع قولی:
حضرت حسن بصریؒ بدعتی کی اقتداء میں نماز کے متعلق فرماتے ہیں
صَلّ  وعلیہ بدعتہ
نماز پڑھواور اسکی بدعت کا وبال اسی پر ہے (بخاری)
مقطوع فعلی:
ابراھیم بن محمد بن منتشر کا قول:
حضرت مسروقؒ اپنے اور اپنے اھل وعیال کے درمیان پردہ ڈال دیتے اور نماز میں مشغول ہوجاتے، خود خلوت اختیار کرلیتے اور انکو دنیا میں چھوڑ دیتے (حلیۃالاولیا، طبقات الاصفیاء
مقطوع کی حیثیت:
احکام شرعیہ میں مقطوع سے استدلال جائز نہیں اگرچہ قائل تک اسکی سند صحیح ثابت ہوجائے(وفیہ تفصیل ایضا) لیکن اگر کوئی ایسا قرینہ ہو جو اسکے مرفوع ہونے پر دلالت کرتا ہو تو اسکا حکم ’’مرفوع مرسل‘‘ کی طرح ہوگا

خبر واحد کی اقسام  باعتبار عددِ رواۃ

(۱)مَشہُور؍مُستَفِیض:
ھوما رواہ عدد محصور فوق الاثنین و یقال لہ المستفیض ایضا
وہ حدیث جس کے راوی ھر زمانہ میں تین سے کم نہ ھوں(لیکن راویوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہو کہ حد تواتر میں داخل ہوجائے
مثال:
ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذالم یبق عالمااتخذالناس روسا جُھّالا         فسئلوافافتوابغیرعلم فضلواواضلوا۔(بخاری،مسلم

خبر مشہور کی حیثیت

عندالمحدثین خبر مشہور کو قبول کیا جائے گا ،عند الفقہااسکے ذریعہ قرآن مجید کے مطلق کو مقید کیا جا سکتا ہے اور اسکا منکر بدعتی ہے
(۲) عَزِیز:
وھو مارواہ اثنان ولو فی طبقۃ، سمی بذلک اِمَّا لندرتہ او لکونہ عِزّاَی قوی لمجیئہ من طریق آخر
وہ حدیث جس کے راوی ھر زمانہ میں دو سے کم نہ ھوں
مثال: لا  یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین (متفق علیہ

(۳)غَرِیب:
وھو  ما رواہ راو واحد ویسمی غریبا لانفراد راویہ عن غیرہ
وہ حدیث جس کا راوی کہیں نہ کہیں ایک ھو(خواہ تمام طبقات سند میں یا چند طبقات میں۔ اگر ایک طبقہ میں بھی ایسا ھوگا تو روایت غر یب کہلائے گی ، دیگر طبقات میں راویوں کی زیادتی اسکی صفتِ غربت پر اثر انداز نہ ہوگی کیونکہ عنوان اقل پر دیا جاتا ہے
خبر غریب کی اقسام
فرد مطلق ؍ غریبِ مطلق:
وہ روایت کہ جسکی سند کے اس حصہ میں تفرد پایا جاتا ہو جو سند کا معیار اور اسکی اصل ہو
مثال:
انما الاعمال بالنیات
اس روایت کی اصل میں غرابت موجود ہے کیونکہ یہ حدیث حضر ت عمرؓ بن الخطاب سے منقول ھے اب یہ روایت کی اصل ہیں  صرف یہ تنہا اس روایت کو نقل کرتے ہیں، اگرچہ  ان سے بہت سے راویوں نے نقل کی ہے۔
غریب النسبی ؍فرد النسبی:
ایسی روایت کہ جسکی سند کے درمیان تفردپایاجاتاہو
مثال:
ان النبی ﷺ دخل مکۃ وعلی راسہ المغفر
اس روایت میں مالک نے زھری سے تفرد کیا ہے
خبر واحد کی اقسام ، راویوں کی صفات کے اعتبار سے
(۱) صحیح لِذَاتِہ:
ھومااتصل سندہ بالعدل الضابط عن مثلہ الی منتھا ولا یکون شاذا ولا معللا بعلۃ قادحۃ
وہ حدیث کہ
جس کے کل راوی عادل کامل الضبط ہوں،
اسکی سند متصل ہو،
معلَّل و شاذ ہونے سے محفوظ ہو
خبر واحد کے صحیح ھونے کی  پانچ شرائط ہیں
(۱) عدالت راوی
(۲) ضبط راوی
(۳) اتصال سند
(۴) عدم علت
(۵) عدم شذوذ
مثال:
سمعت رسول اللہ ﷺ قرافی المغرب بالطور (بخاری
میں نے نبیﷺ کو سنا آپ نے مغرب کی نماز میں سورۃ طور پڑھی
یہ روایت خبر صحیح ہے کیونکہ اس میں تمام شرائط پائی جارھی ہیں

حکم:
آئمہ حدیث کے اجماع کے مطابق اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ اصولیین اور فقہا کی رائے کے مطابق خبر صحیح مصادر شرعیہ میں  سے ھے ،  اسکے ترک کی گنجائش نہیں
(۲) حَسَن لِذَاتہ:
خبر   متصل قَلَّ ضبط راویہ العدل
وہ حدیث جسکے راوی میں صرف ضبط ناقص ہو، باقی تمام شر ائط صحیح لذاتہ کی اس میں موجود ہوں
مثال:
قال رسول اللہ ﷺ ان ابواب الجنۃ تحت ظلال السیوف (ترمذی
حکم:
حسن لذاتہ قوت میں کم ہونے کے باوجود استدلال کے اعتبار سے صحیح کے برابر ہے اسی لئے تمام فقہا نے اس سے استدلال بھی کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔
(۳) ضعیف:
قالالامام ذھبی فی الکتاب الموقظۃ : الضعیف ما نقص عن درجۃ الحسن قلیلا و اخر مراتب الحسن ھی اول مراتب الضعیف
قال البعض: ھوما لم یجمع صفۃ الحسن او الصحیح
وقیل: کل   حدیث لم تجتمع فیہ صفات القبول
وہ حدیث جسکے راوی میں حدیثِ صحیح و حَسَن کی شرائط نہ پائی جائیں
مثال:
من اتی حائضا او امراۃ فی دبرھا او کاہنا فقد کفر بما انزل علی محمد (ترمذی
امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ مذکورہ سند کے سوا یہ حدیث کسی سند سے منقول نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ اسکی سند میں ضعف ہے۔
مراتبِ ضعیف:
ضعیف
ضعیف تر
واھی
منکر
موضوع (یہ ضعیف کا بدترین درجہ ہے)
حکم:
عند المحدثین احادیث ِموضوعہ کے سوا تمام ضعیف احادیث کو ضعف و نقصِ سند کی صراحت کے بغیر روایت کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ روایت عقائد دینیہ سے متعلق نہ ہو
احکاماتِ شرعیہ بیان کرنے والی نہ ہو
واضح رہے کہ اس قسم کی روایت کرتے ھوئے سند کو حذف کرکے یہ نہ کہنا چاہیئے کہ نبی ﷺ نے فرمایا بلکہ
موضوع روایت کو نقل کرنا ناجائز ہے الا یہ کہ اس بات کی صراحت کی جائے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل کی شرائط
(۱) اس عمل کو سنت نہ سمجھا جائے۔(عمل کرتے وقت حدیث کے ثبوت کا اعتقاد نہ ہو بلکہ احتیاط کے طور پر عمل کرلے
(۲) روایتِ ضعیفہ سے کوئی حکم شرعی ثابت نہ کیا جائے (اعتقادِفضیلت ،حکمِ شرعی ہے البتہ خیالِ فضیلت، حکمِ شرعی نہیں
(۳) روایت میں ضعف شدید نہ ہو
(۴) اصول و کلیاتِ شرع کے خلاف نہ ھو
ضعیف حدیث پر عمل کرنا
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔یاد رھے کہ یہ حکم عام نہیں بلکہ اسکے لئے بہت سی قیود وشرائط ہیں
( احسن الفتاوی جلد۸ میں ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کی قیودوشروط اس زمانہ میں مفقود ہیں لہذا   اب فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں۔۔۔۔۔ لوگ ضعیف حدیث پر عمل کو سنت سمجھتے ہیں ، فضائل سے متعلق اکثر روایات صرف ضعیفہ شدیدہ ہی نہیں بلکہ موضوعہ ہیں ، ان کے رواۃ وضاع، روافض اور صوفیہ ہیں، چوتھی صدی تک ان روایات کا وجود نہیں ملتا کتب متقدمین میں کسی حدیث کا وجود نہ ملنا اسکے موضوع ہونے کی دلیل ہے
ملحوظہ
اصول ہے کہ روایاتِ ضعیفہ کے تعدد سے قوت آجاتی ھے لیکن یاد رھے کہ بیشتر رواۃ ایسے ہیں کہ ان جیسوں کا عدد ہزار سے بھی بڑھ جائے تو بھی ان پر اعتماد کرنا جائز نہیں ، الخبیث لا یزید الا خبثا
ملحوظہ
ضعیف حدیث کی پہچان کیلئے جو علامات بیان کی گئی ہیں ان میں سے دو یہ ہیں
(۱) تیسری صدی کے بعد شائع ہونے والی احادیث
(۲) وہ احادیث جن میں عمل قلیل پر اجر عظیم کی بشارات ہوں
قباحت:
ضعیف روایات میں قباحت کے اعتبار سے روایات کی ترتیب ابن حجر ؒ نے یہ بیان کی ہے
(۱ ) موضوع
(۲) متروک
(۳)منکر
(۴) معلل
(۵) مدرج
(۶)مقلوب
(۷)مضطرب
(۴)صَحِیح لِغَیرِہ:
ھو ما کانت شروطہ اخف من شروط الصحیح لذاتہ
ایسی حسن لذاتہ حدیث کہ جسکی سندیں متعدد ہوں
مثال:
قالرسول اللہ ﷺ لو لا ان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک عند کل صلوۃ (ترمذی
مرتبہ و مقام:
صحیح لغیرہ کا مرتبہ حسن لذاتہ سے اعلی ہے لیکن صحیح لذاتہ سے کم ہے۔
(۵) حَسَن لِغَیرِہ

ھوالجزء المتوقف عن قبولہ الا اذا قامت قرینۃ ترجح جانب القبول مایتوقف فیہ بان یاتی من طریق آخر
ایسی ضعیف حدیث کہ جسکی سندیں متعدد ہوں
مثال:
ان امراۃ من بنی فزارۃ تزوجت علی نعلین فقال رسول اللہ ﷺ ارضیت من نفسک ومالکِ بنعلین؟ قالت نعم     ،فاجاز (ترمذی باب النکاح

بنو فزارہ کی ایک عورت نے جوتوں کی ایک جوڑی پر نکاح کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت کیا : کیا تو اپنی  ذات کیلئے اس پر راضی ہے ۔ وہ بولی ھاں، چناچہ آپ ﷺ نے اسکے نکاح کو جائز قرار دے دیا
اس حدیث میں ایک راوی عاصم اپنے سو ء حفظ کی بناء پر ضعیف ہیں لیکن چونکہ دوسری سندوں سے اسکی تائید ہوتی ہے اس وجہ سے یہ  حدیث حسن لغیرہ ہے (یعنی غیر کی وجہ سے اس میں حسن آگیا
حکم:
یہ حدیثِ مقبول کی قسم سے ہے ، اس سے استدلال جائز ہے۔
(۶) مَوضُوع
ھوالمختلق المصنوع علی رسول اللہ ﷺ وتحرم روایتہ مع العلم بہ فی ای معنی کان الا مقرونا ببیان وضعہ
وہ حدیث کہ جسکے راوی پر حدیث نبویﷺ میں جھوٹ بولنے کا طعن موجود ہو
امثلہ:
علیؓ شہر ِعلم کا دروازہ ہیں۔۔۔
سراج امتی ابوحنیفۃ   موضوع (تذکرۃ الموضوعات لملاعلی القاری ص ۱۱۱
من زارنی وزار ابی ابراھیم فی عام واحد ضمنت لہ الجنۃ۔
قال ابن تیمیہ والنووی انہ موضوع لا اصل لھا کذا نقل السیوطی فی الزیلعی عنہما
کنت نبیا وادم بین الماء والطین وکنت نبیا ولاادم ولا ماء ولا طین، قال ابن تیمیہ موضوع (الزیلعی ص ۸۶۔ ان الفاظ سے موضوع ہے
انا احمد بلا میم
انا عربی بلا عین
حکم:
موضوع روایت کو نقل کرنا ناجائز ہے الا یہ کہ اس بات کی صراحت کی جائے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔
(۷) مَترُوک
ھو   الحدیث الذی رد بسبب تھمۃ راویہ الکذب
وہ حدیث کہ جسکا راوی مُتَّھَّم   بالکِذب ہو یا وہ روایت  قواعد معلومہ فی الدین  کے مخالف ہو
مثال:
کان النبی ﷺ یقنت فی الفجر و یکبر یوم عرفۃ من صلوۃ الغراۃ ویقطع صلوۃ العصر آخر ایام التشریق
نبی ﷺ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھتے اور یوم عرفہ کی فجر سے ایام تشریق کے افتتاحی دن عصر کی نماز تک تکبیر پڑھتے۔
اس حدیث کی سند میں عمرو بن شمر جعفی کوفی شیعہ ہے۔ امام نسا ئی ؒ ، دارقطنی اور دیگر محدثین فرماتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے۔
الزام  کے اسباب:
کسی راوی پر جھوٹ کے الزام کے دو اسباب ہیں
(۱) راوی ایک سند کے سوا کسی دوسری سند سے روایت نقل نہ کر رھا ہو، اور قواعد معلومہ کی مخالفت کر رہا ہو
(۲) عام عادت میں اسکا جھوٹا ہونا معروف ہو اگرچہ حدیث کی نقل میں اسکا جھوٹ ثابت نہ ہو۔
(۸)  شَاذ
ھو ما روی الثقۃ مخالفا لروایۃ الناس، لا ان یروی ما لا یروی غیرہ
وہ روایت کہ جسکا راوی خود ثقہ ہو لیکن ایسی جماعت کثیرہ کی مخالفت کرتا ہو جو اس سے زیادہ ثقہ ہیں
مقاماتِ   شذوذ:
سند میں
متن میں
(۹) مَحفُوظ
ھو مارواہ الا وثق مخالفا لروایۃ الثقۃ فھو یقابل الشاذ
وہ حدیث جو شاذ کے مخالف ہو
(۱۰) مُنکَر
ھو ما رواہ الضعیف مخالفا للثقۃ، و بینہ و بین الشاذ عموم و خصوص من وجہ، یجتمعان فی اشتراط المخالفۃو  یفترقان  فی  اَنَّ الشاذ راویہ ثقۃ او صدوق، والمنکر راویہ ضعیف
وہ حدیث کہ جسکا راوی ضعیف ہونے کے باوجود جماعت ثقات کے مخالف روایت کرے
مثال:
کلواالبلح بالتمر فان ابن آدم اذا اکلہ غضب الشیطان
سبز کھجوریں تر کھجوروں کے ساتھ کھائو کیونکہ ابن آدم جب اسکو کھاتا ہے تو شیطان کو غصہ آتا ہے۔
امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔
مرتبہ:
متروک کے بعد شدتِ ضعف میں منکر کا درجہ ہے کیونکہ اسکا راوی کثرت اغلاط، کثرت غفلت یا فسق میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ ثقہ کی مخالفت کے ساتھ روایت نقل کرتا ہے۔
(۱۱) مَعرُوف
مارواہ الثقۃ مخالفا لما رواہ الضعیف
وہ حدیث جو منکَر کے مقابل ہو
مثال:
من اقام الصلوۃ و اتی الزکوۃ وحج البیت و صام و قری الضیف دخل الجنۃ
(۱۲) مُعَلَّل
ھو ما فیہ علۃ خفیۃ قادحۃ فی صحۃ الخبر
وہ حدیث جس میں کوئی ایسی خفیہ علت ہوجو صحت حدیث میں نقصان دیتی ہو  (اسکو معلوم کرنا ماھرِ فن ہی کا کام ہے، ہر شخص کا نہیں
(۱۳) مُضطَرَب
ھوالذی یروی علی اوجہ مختلفۃ متضاربۃ، فان رُجِّعَت احدی الروایتین نحفظ راویھا، او کثرۃ صحبتہ      للمروی عنہ او غیر     ذلک فالحکم للراجحۃ ولا یکون مضطربا
وہ حدیث جسکی سند یا متن میں ایسا اختلاف واقع ہو کہ اس میں ترجیح یا تطبیق نہ ہو سکے
حکم:
والاضطراب یوجب ضعف الحدیث ۔ الاضطراب یقع تارۃ فی الاسناد و تارۃ فی المتن
مضطرب السند کی مثال:
(عن   ابی بکر)  یا رسول اللہ ﷺ اراک شبت قال شَیَّبَتنِی ھود و اخوتھا (ترمذی)
اے اللہ کے رسول ﷺ میں دیکھ رھا ہوں کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ہود اور اس قسم کی سورتوں نے بوڑھا کر دیا
امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے کیونکہ اسے ابو اسحاق کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا
مضطرب     المتن کی مثال:
سئل رسول اللہ ﷺ عن الزکوۃقال ان فی المال لحقا سوی الزکوۃ (ترمذی
آپ ﷺ سے زکوۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔
عراقی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے کہ جسکی تاویل ممکن نہیں۔
وجوہ اضطراب:
حدیث کو مضطرب اس وقت کہا جا ئے گا جب
(۱) حدیث میں الفاظ اس قدر مختلف ہوں کہ ان میں تطبیق ممکن نہ ہو
(۲) قوت و سند کے اعتبار سے تمام روایات برابر ہوں اس بنا پر ان میں سے کسی کو ترجیح نہ دی جاسکتی ہو
فائدہ:
مضطرب کے ضعیف ہونے کا سبب یہ ہے کہ اضطراب سے راوی کے عدم ضبط کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
(۱۴) مَقلُوب
ما انقلب بعض لفظہ علی راو  فتغیر معناہ
وہ حدیث جس میں بھول سے متن یا سند کے اندر تقدیم وتاخیر واقع ہو گئی ہو
یعنی لفظِ مقدَم کو موخَر اور موخَر کو مقدَم کر دیا گیا ہو یابھول کر ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی رکھا گیا ہو
مقلوب  کی اقسام:
1.مقلوب السند
2. مقلوب المتن
ان میں سے ہر ایک کی دو  دو صورتیں ہیں
اسباب  قلب:
روایتِ حدیث میں جدت و امتیاز پیدا کرنا
محدثین کے حافظہ و ضبط کا امتحان لینا
غیر ارادی طور پر غلطی ہو جانا
حکم:
اسباب کے پیش نظر اسکے حکم بھی تین ہیں:
اگر جدت پیدا کرنے کیلئے قلب ہو تو ناجائز ہے کیونکہ یہ تغیر فی الحدیث ہے۔
امتحان کی غرض سے ہو تو جائز ہے مگر مجلس کے اختتام سے قبل اسکو درست کرنا ضروری ھے
اگر خطا  سے ایسا ہو تو راوی معذور ہے ۔ لیکن اگر کثرت سے ایسا ہوتا ہو تو یہ موجبِ ضعف ہے۔
(۱۵) مُصَحَّف ؍ مُحَرَّف:
ھو ما غیر فیہ الشکل مع بقاء حروفہ کسَلیم و سُلیم
وہ حدیث ہے کہ جس میں باوجود صورت خطی باقی رھنے کے، لفظوں حرکتوں وسکونوں کے تغیر کی وجہ سے تلفظ میں غلطی واقع ہو جائے
مثال:
ان النبی ﷺ احتجر فی المسجد (اصل میں یوں ہے احتجم       فی المسجد
اھمیت:
یہ بھی معلل کی طرح ایک فن ہے اسکی اھمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ان غلطیوں کا انکشاف کیا جائے جو رواۃ سےہوئی ہیں۔
(۱۶) مُدرَج
ھو ان یکون الراوی عقب حدیث النبی ﷺ کلاما لنفسہ او لغیرہ فیرویہ من بعدہ متصلا فیتوھم انہ من الحدیث
وہ حدیث جس میں کسی جگہ راوی اپنا کلام درج کرے یا  وہ لفظ جو ظاھرا حدیثِ مرفوع کا حصہ معلوم ہو اور درحقیقت کلامِ نبوت میں سے نہ ہو۔
مدرج   کی اقسام:
مدرج الاسناد
مدرج المتن
ادراجکے مقاصد:
کسی شرعی حکم کو بیان کرنا
کسی شرعی حکم کو حدیث ختم کرنے سے پہلے مستنبط کرنا
حدیث میں موجود کسی نئے لفظ کی تشریح کرنا
ادراج  کی پہچان:
کسی دوسری روایت کو دیکھ لیا جائے
بعض گہری نظر رکھنے والے آئمہ حدیث کی تصریح
راوی کا اپنا اقرار کہ اس نے ادراج کیا ہے
کلام ایسا ہو کہ جسکا نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرنا محال ہو
فائدہ :
اکثر فاسد و فضول ادراجات شیعہ کرتے ہیں
خبر واحد کی اقسام  باعتبار سقوط راوی وعدم سقوط راوی
(۱) مُتَّصِل
و ھوما اتصل اسنادہ مرفوعا کان او موقوفا علی من کان
وہ حدیث کہ جسکی سند میں راوی پورے مذکور ھوں
متصل مرفوع کی مثال:
مالک عن ابن شہاب عن سالم بن عبداللہ عن ابیہ عن رسول اللہ ﷺانہ قال کذا
اس سند سے کوئی بھی روایت منقول ھو تو وہ متصل ہوگی کیونکہ اسکی سند میں اول تا آخر کوئی انقطاع نہیں ہے
متصل موقوف کی مثال:
مالک عن نافع ، یہ اگر ابن عمرؓ کا کوئی قول نقل کریں  اسکی سند میں بھی کوئی انقطاع نہیں
(۲) مُسنَد
ھو    ما اتصل سندہ الی النبی ﷺ
وہ حدیث کہ جسکی سند رسول اللہ ﷺ تک متصل  ھو
مثال   :
قا ل رسول اللہ ﷺ اذا شرب الکلب فی اناء احدکم فلیغسلہ سبعا
امام بخاری نے اس روایت کو نقل کیا ہے سند یہ ہے
عن عبداللہ بن یوسف عن مالک عن ابی زناد عن اعرج عن ابی ھریرۃ
(۳) مُنقَطِع
ھوما لم یتصل اسنادہ علی ای وجہ کان انقطاعہ
وہ حدیث کہ جسکی سند متصل نہ ھو، بلکہ کہیں نہ کہیں سے راوی گرا ھوا ہو
مثال:
حاکم کی روایت ہے،
عن عبدالرزاق عن ثوری عن ابی اسحاق عن زید بن یشیع عن حذیفۃ
ان  ولیتموھا ابا بکر فقوی امین
اگر تم خلافت کو ابوبکر کے سپرد کرو گے تو اسے قوی اور امین پائو گے
اس سند کے وسط میں ابو اسحاق اور ثوری کے درمیان’’ شریک‘‘ راوی ساقط ھیں کیونکہ ثوری نے ابواسحاق سے براہ راست سماع نہیں کیا
حکم:
علماء کا اتفاق ہے کہ راوی محذوف کا حال معلوم نہ ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
(۴)مُعَلَّق
ھو ما حذف من مبداسندہ راو  فاکثر
وہ حدیث کہ جسکی سند کے شروع میں ایک راوی یا کثیر گرے ھوئے ہوں
مثال:
امام بخاری ترجمۃ الباب میں ران کے ستر ھونے پر ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں صحابی تک کی سند کا ذکر نہیں ۔ یہ روایت معلق ہے
وقال ابوموسی غطی النبی ﷺ رکبتیہ حین دخل عثمان
ابو موسی کہتے ہیں کہ جب عثمان ؓ تشریف لائے تو آپﷺ نے گھٹنوں کو ڈھانپ لیا۔
حکم:
معلق کے مردود ہونے کا حکم عمومی ہے وفیہ تفصیل
(۵) مُعضَل
ھو ما سقط من اسنادہ اثنان فاکثر
وہ حدیث کہ جسکی سند کے درمیان سے کوئی راوی گرا ہوا ہو یا اسکی سند میں سے ایک سے زئد راوی پے در پے گرے ہوں
مثال:
قول مالک بلغنی عن ابی ھریرۃ للمملوک طعامہ وکسوتہ بالمعروف ولا یکلف العمل الا ما یطاق
غلام کا حق یہ ہے کہ اسے طعام و لباس ، معروف اور عمدہ طور پر دیا جائے اور اس سے وہی کام لیا جائے جو وہ کر سکتا ہے۔
امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ مالک سے معضل ہے کیونکہ اس میں مالک اور ابوھریرۃ کے درمیان دو واسطے ذکر نہیں۔ اصل سند یوں ہے
مالک   عن محمد بن عجلان عن ابیہ عن ابی ھریرۃ
حکم:
معضل حدیث ضعیف ہے حجت ہونے میں مرسل اور منقطع سے بھی کم درجہ کی ہے
(۶) مُرسَل
ھوما سقط من آخر السندبعد التابعی فھو مرسل
وہ حدیث کہ جسکی سند کے آخر سے کوئی راوی گرا ہوا ہو تابعی کے بعد
محدثین کے نزدیک مرسل کی یہ صورت ہے کہ کوئی تابعی ، صحابی کا نام لئے بغیر نبی کریم ﷺ سے منسوب کوئی قول یا فعل یا تقریر نقل کردے
مثال:
محمدبن رافع عن جحین عن لیث عن عقیل عن ابن شہاب عن سعید بن المسیب ان رسول اللہ ﷺ نھی عن المزابنۃ
نبیﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا
اس میں سعید بن المسیب تابعی کسی صحابی کا نام لئے بغیر نبی کریم ﷺ سے روایت کر رھے ہیں
(۷) مُدَلَّس
وہ حدیث کہ جسکے راوی کی یہ عادت ہو کہ وہ اپنے شیخ یا شیخ کے شیخ کا نام چھپا لیتا ہو
سند کے عیب کو چھپانا اور اسکے حسن کو ظاھر کرنا
راوی اپنے ایسے شیخ سے جس سے اسکا سماع ثابت ھو ایسی روایت نقل کرے جو اس سے نہ سنی ہو اور اس با ت کی صراحت نہ کرے کہ میں نے یہ روایت اپنے شیخ سے نہیں سنی
اقسام:
سند میں تدلیس
شیوخ کی تدلیس
خبر واحد کی اقسام  باعتبار صِیغ
(۱) مُعَنعَن ؍ عَن عَن
وہ حدیث کہ جسکی  سند میں عَن ھو
(۲)مُسَلسَل
وہ حدیث کہ جسکی سند میں (۱) صِیَغِ ادا کے  یا (۲) راویوں کے، صفات یا حالات ایک ہی طرح کے ہوں.
حدیث کی اہمیت سے انکار نہیں مگر یاد رہے قرآن کی ہر  آیت کی صرف ایک قسم ہے ، نمبر ایک ، اللہ کا خالص کلام جس میں کوئی شک نہیں:
١ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢
 یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے  (قرآن، البقرہ، 2:2)
--------------------------------------------------------
جماعت کا اتباع
ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115)
اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس اسی کی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔
یہ آیت اجماع امت پر عمل کرنے کی دلیل ہے۔
مجتہد کا اتباع
واتبع سبيل من اناب الي (لقمان: 15)
راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف
سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ
حضرت عرباضؓ سے ایک روایت ہےجس میں آپ ﷺ کی وصیت ہے کہ میرے بعد بہت سے اختلافات پیدا ہوں گے اس کے بعد ارشاد فرمایا:
عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمات، صحیح)
تم پر لاز م ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں مضبوط پکڑنا۔
حضرت علیؓ کی ایک روایت ہے:
جلد النبي صلى الله عليه وسلم اربعين وابو بكر اربعين وعمر ثمانين وكل سنة وهذا احب الي (الحدیث)(صحیح مسلم کتاب الحدود)
رسول اللہ ﷺ نے (شرابی کو) چالیس (کوڑے) لگوائے اور ابوبکرؓ نے بھی چالیس (کوڑے لگوائے) اور عمرؓ نے اسی (کوڑے لگوائے) اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے اور مجھے یہ (یعنی اسی کوڑے) زیادہ پسند ہیں۔
فائدہ:
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کے فیصلے سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔
حدیث 1
عن ابي وائل قال جلست مع شيبة على الكرسي في الكعبة فقال لقد جلس هذا المجلس عمر رضي الله عنه فقال لقد هممت ان لا ادع فيها صفراء ولا بيضاء الا قسمته قلت ان صاحبيك لم يفعلا قال هما المرءان اقتدي بهما۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالسنۃ)
ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (رسول اللہ ﷺاور ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا)۔
· سیدنا عمرؓ نے اپنے عمل کی بنیاد رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے عمل پر رکھی یعنی ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی طرح نافذ ہوسکتا ہے۔
سنت اور حدیث میں فرق
· سنت دائمی عمل کو کہتے ہیں۔ ثبوت سنت کے لئے غیرلازم چیز پر مواظبت (ہمیشگی) ضروری ہے۔ سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج طریق ہے جو خواہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو یا آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے ثابت ہو۔ اس کی دلیل آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے: 
تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اور سے دانتوں سے (یعنی مضبوطی سے) تھام لو۔
· علیکم بسنتی (صحیح البخاری) علیکم بحدیثی نہیں آیا۔
· صرف فعل سے دوام اور عمل کا سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاپ فرمانے کا ذکر ہے۔
فبال قائما (صحیح البخاری)
لیکن یہ سنت نہیں۔سنت بیٹھ کر پیشاپ کرنا ہے۔ قبلہ رخ ہوکر رفع حاجت کرنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ یا مثلا یہ روایت ہے کہ ابوبکرؓ جماعت کروا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ کے پہلو میں تشریف فرما ہوگئے اب ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ ابوبکرؓ کی۔ یہ حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں۔ سنت وہی ہے کہ ایک جماعت کا ایک ہی امام ہوگا۔ اس لیے کہ امت نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا کہ ایک جماعت کے دو امام ہوں۔
· یا مثلا رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ جوتا پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
کان یصلی فی نعلیہ (صحیح البخاری)
جب کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ بغیر جوتوں کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن امت کا عملی تواتر پہلی حدیث کے بجائے دوسری حدیث پر ہے۔ ساری امت کا اتفاق ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا آپ ﷺ کا نادر عمل ہے۔




Links:
~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

Also Related:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace

No comments: