جنگ عین جالوت 3 ستمبر 1260ء (658ھ) میں مملوک افواج اورمنگولوں کے درمیان تاریخ کی مشہور ترین جنگ جس میں مملوک شاہسیف الدین قطز اور اس کے مشہور جرنیل رکن الدین بیبرس نے منگول افواج کو بدترین شکست دی۔ یہ جنگ فلسطین کے مقام عین جالوت پر لڑی گئی۔ اس فتح کے نتیجے میں مصر، شام اور یورپ منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچ گئے۔ جنگ میں ایل خانی حکومت کے منگول بانی ہلاکو خان کا سپہ سالار کتبغا مارا گیا۔
مختصر تفصیل:goo.gl/ejxAUt
تاتاریوں کا نظام احتساب: https://goo.gl/c1hQbX
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مختصر تفصیل:goo.gl/ejxAUt
تاتاریوں کا نظام احتساب: https://goo.gl/c1hQbX
1260ء کے موسم بہار میں جب قاہرہ کے شہری روزمرہ کی زندگی میں مصروف تھے تو مملوک سلطان مظفر سیف الدین قطز کو اک ایسے خطرے کا سامنا تھا، جس سے اس وقت کے حاکم تھر تھر کانپتے تھے، منگول!!
مملوک سلطان اور اس کے جرنیلوں کے سامنے منگول حکمران ہلاکو خان کے چار ایلچی کھڑے تھے۔ انہوں نے قطز کو ایک خط دیا، جس میں سفارتی آداب کی قطعاً کوئی پروا نہ کی گئی تھی اور یہ اس لہجے میں نہیں لکھا گیا تھا جو کسی سلطنت کا حاکم اپنے کسی ہم منصب کو بھیجتا تھا:
مشرق و مغرب کے بادشاہوں کے بادشاہ خانِ خانان کی طرف سے قطز مملوکی کے لیے، جو ہماری تلواروں کی دستبرد سے بچ نکلا۔ تمہیں سوچنا چاہیے تھا کہ ہم نے دیگر ملکوں کے ساتھ کیا کیا ۔۔۔ اور اس کو دیکھتے ہوئے ہمارے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا چاہیے تھا۔ تم نے سنا ہوگا کہ ہم نے کس طرح پے در پے فتوحات کے ذریعے اک عظیم سلطنت بنائی ہے اور دنیا کو ان تمام نافرمانیوں سے پاک کیا ہے جس نے اس کے چہرے کو داغدار کر دیا تھا۔ ہم نے وسیع علاقوں کو فتح کیا ہے، وہاں کے لوگوں کا قتل عام کیا ہے۔ تم ہماری افواج کی دہشت ناک قوت سے راہِ فرار نہیں اختیار کر سکتے۔ تم بھاگ کر آخر کہاں جاؤ گے؟ تمہیں ہمارے سامنے فرار کی کون سی راہ نظر آتی ہے؟ ہمارے گھوڑے برق رفتار ہیں، ہمارے تیر تیز، ہماری تلواریں بجلی کی کوند، ہمارے دل چٹانوں کی طرح سخت اور ہمارے فوجی اتنے کثیر التعداد جتنی کہ ریت۔ قلعے ہمیں نہیں روک سکتے اور نہ ہی کوئی بازو ہمیں روکنے کی قوت رکھتا ہے۔ خدا سے تمہاری دعائیں ہمارے خلاف کچھ کام نہ آئیں گی۔ نہ ہی ہمیں آنسو کچھ اثر کرتے ہیں اور نہ آہ و فغاں۔ صرف وہی محفوظ رہے گا جو گڑگڑا کر ہماری حفاظت طلب کرے گا۔ جواب دینے میں جلدی کرو اس سے قبل کہ جنگ کا الاؤ جل اٹھے ۔۔۔ اور جان لو کہ اگر مزاحمت کی تو عبرت ناک حالات کا سامنا کرو گے۔ ہم تمہاری مسجدوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور تمہارے خدا کی کمزوری دنیا پر عیاں کر دیں گے۔ اور تمہارے بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہ چھوڑیں گے اور انہیں تہہ تیغ کریں گے۔ اس وقت صرف تم ہی وہ دشمن ہو جس کے خلاف ہم پیش قدمی کر رہے ہیں۔
قطز نےاپنے جرنیلوں سے فوری طور پر جنگی مشاورت طلب کی۔
سات سال قبل، 1253ء میں، ہلاکو خان، خانِ خانان مونگ کے خان کا بھائی اور چنگیز خان کا پوتا، نے اپنی افواج کو جمع کر کے شام کی جانب “مصر کی سرحدوں تک” جانے کا حکم دیا تھا۔ ان کا ہدف چنگیز خان کے خواب یعنی ‘عالمی منگول اقتدار’ کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ایک قدم مزید آگے بڑھنا تھا، یعنی ان علاقوں کو فتح کر کے منگول اقتدار کا حصہ بنانا۔
محققین ہلاکو کی افواج کی درست تعداد پر اختلاف رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنے وقت کے حساب سے بہت بڑی تعداد تھی۔ اس کا لشکر تقریباً تین لاکھ جنگجوؤں پر مشتمل تھا، جو بلا کے شہسوار اور تیر انداز تھے۔ ان کی تربیت، نظم و ضبط، مشاہدہ، نقل و حرکت اور رابطہ کسی بھی ہم عصر فوج سے کہیں زیادہ زبردست تھا۔ ان کی برق رفتاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ وہ ایک دن میں 100 میل کا سفر بھی کر لیتے تھے۔ خواتین، بچوں اور دیگر غیر عسکری اراکین کو بھی ملایا جائے تو ان کی کل تعداد تقریباً 20 لاکھ بنتی تھی۔
منگول 1256ء میں فارس میں وارد ہوئے، دہشت و ہیبت کی علامت حشاشین کے خاتمے کے لیے، جنہوں نے خانِ خانان تک کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ اس دھمکی کا بدلہ انہوں نے دو سال میں شمالی ایران، شام اور ایران میں حشاشین کے 200 قلعوں کو فتح کر کے لیا۔ الموت کے مرکزی قلعے کی طرز پر یہ قلعے پہاڑوں کی چٹانوں پر بنائے جاتے اور ناقابل تسخیر شمار ہوتے تھے لیکن منگولوں نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ وہ شمال مشرقی ایران کے کوہ البرز سے نمودار ہوئے اور کمال ہوشیاری سے قلعے پر قلعے فتح کرتے چلے گئے۔ چینی انجینئر محاصرے کے لیے ہتھیار تیار کرتے اور “شاہینوں کے یہ قلعے” گرتے چلے گئے اور حشاشین کی کمر ٹوٹ گئی۔
پھر ہلاکو نے اپنی توجہ مابین النہرین (موجودہ عراق) اور خلافت عباسیہ کے دارالحکومت بغداد کی جانب مبذول کی۔ گو کہ وہ اس وقت بلادِ اسلامیہ کا سیاسی مرکز نہیں تھا، جو قاہرہ منتقل ہو چکا تھا، لیکن پھر بھی دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے اسلام کا قلب تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کو تہس نہس کر دیا گیا: فروری 1258ء میں اسے اپنے عہد کی بدترین فتوحات میں کچل ڈالا گیا۔ اسلامی دنیا کو منگولوں کی دیگر تمام حرکات سے کہیں زیادہ سقوطِ بغداد نے ہلا کر رکھ دیا۔ ہلاکو تبریز جا کر ٹھہرا، جہاں مقامی حاکموں کے علاوہ دیگر منگول سردار بھی اس کے پاس اطاعت کا دم بھرنے کے لیے آئے۔
ان میں اتحاد کی پیشکش کرنے والے آرمینیہ کے عیسائی بادشاہ ہیتون بھی تھے۔ ہیتون نے منگول جارحیت کو بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزادکرانے کے لیے نئی صلیبی جنگ تصور کیا۔ مسلمانوں نے حال ہی میں، 1244ء میں، عیسائیوں سے شہر واپس چھینا تھا۔ اس کے عمل کو ہلاکو کے سپہ سالار کتبغا کی حوصلہ افزائی ملی جو خود بھی عیسائی تھا۔ ہلاکو خان سے ملنے کے بعد ہیتون نے اپنے عیسائی پڑوسیوں کو پیغامات بھیجے کہ ہلاکو عیسائیت قبول کرنے والا ہے، اور سب سے مطالبہ کیا کہ سب خود کو نئی قوت کے ساتھ منسلک کر لیں اور اس نادر موقع کو ایک صلیبی جنگ میں بدل دیں۔
ستمبر 1259ء میں ہلاکو نے ایک مرتبہ پھر اپنی افواج کو حرکت دی، اور دریائے دجلہ کے مشرق میں پورے بین النہرین کو مطیع کر ڈالا۔ پھر اس نے فرات پار کیا اور شام میں داخل ہو گیا۔ شام کے ایوبی سلطان الملک الناصر نے اطاعت چاہی، لیکن پیشکش بری طرح ٹھکرا دی گئی۔ انہوں نے پہلے حلب کے دفاع کا انتظام کیا، لیکن پھر پسپائی اختیار کرتے ہوئے دمشق کو بچانے کی لاحاصل کوشش کی۔ 3 لاکھ کے منگول ٹڈی دل نے 13 جنوری 1260ء کو حلب کا محاصرہ کیا اور چند ہی دنوں میں شہر ان کی جھولی میں تھا۔ حلب کا نصیب بھی بغداد جیساقرار پایا۔ اس صورتحال میں دمشق کے شہریوں نے ناصر کو غیر مشروط اطاعت قبول کرنے کے لیے پیغام بھیجنے پر مجبور کر دیا۔ یوں ہلاکو شہر میں کتبغا، ہیتون اور انطاکیہ کے صلیبی شہزادے بوہیمنڈ چہارم کے ساتھ فاتحانہ انداز میں داخل ہوا۔ الناصر مصر کی جانب بھاگا، لیکن غزہ کے قریب منگول فوجیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا اور زنجیروں میں جکڑ کر ہلاکو کے سامنے لایا گیا۔
یہی وہ وقت تھا جب ہلاکو نے قاہرہ کے مملوک سلطان کو ڈرانے کے لیے اپنے ایلچی بھیجے۔
قطز ایک مملوک تھا، جو بحیثیت ایک جنگجو ہی پروان چڑھا تھا۔ لیکن وہ ایک حقیقت پسند بھی تھا۔ اس نے اپنے جرنیلوں کے سامنے اقرار کیا کہ مملوکوں کے پاس منگولوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس کے سالاروں نے تائید کی اور تجویز پیش کی کہ اطاعت قبول کر لی جائے۔
لیکن قطز کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ وہ بغیر جنگ کے ہتھیار ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔ قطز نے اپنے محافظوں کو حکم دیا کہ ایلچیوں کو قتل کر دیا جائے، اور جرنیلوں کو حکم دیا کہ وہ شہر کا دفاع کرنے کی تیاری کریں۔
ہلاکو کی عظیم فوج مصر کی جانب پیشقدمی کی منتظر تھی۔ تعداد میں وہ 20 ہزار مملوک فوج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی، یعنی 15 منگولوں کے مقابلے میں ایک مملوک ۔ قاہرہ کی بقا، اور شاید تہذیب اسلامی کی تقدیر، اب مملوک افواج کے ہاتھ میں تھی۔
پھر مسلمانوں کی خوش قسمتی رنگ لے آئی۔
یک قاصد ہلاکو کے پاس پیغام لے کر حاضر ہوا کہ خانِ خانان مونگ کے قراقرم میں چل بسے ہیں اور منگول روایات کے پیش نظر ہلاکو سمیت تمام شہزادوں کو اس کے جانشیں کے انتخاب کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ ہلاکو نے اپنی افواج کو واپس مراغہ میں بلایا اور فتح کے یقین کے باعث کتبغا کو حکم دیا کہ مصر پر دباؤ رکھنے کے لیے 20 ہزار افراد کے ساتھ شام میں مقیم رہے۔
کچھ ہفتے بعد قطز کو مخالف مملوک گروپ کے سربراہ بیبرس کی صورت میں ایک اتحادی ملا۔ بیبرس اور اس کے ساتھی شام میں مقیم تھے، جہاں سے وہ مصر پر حملے کرتے لیکن بیبرس نے اس صورتحال میں یہ جانا کہ قطز کی شکست اس کی آرزوؤں کا بھی خاتمہ کر سکتی ہے، اس لیے جب دمشق کا سقوط ہوا، بیبرس نے قطز کو مدد کی پیشکش کی۔
دوسری جانب کتبغا نے ایک حملہ آور دستہ فلسطین بھیجا، جس نے نابلوس سے غزہ تک کے علاقے کو تاخت و تاراج کا نشانہ بنایا، لیکن ساحل کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی زیر قبضہ مختصر پٹی کو کچھ نہ کہا۔ منگول افواج کے مقابلے میں کسی قابل ذکر مزاحمت کے قابل نہ ہونے کے باعث صلیبی اب مزید پریشان ہو گئے کہ وہ ان حملہ آوروں کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔ کتبغا یہی سمجھتا رہا کہ ان کے علاقوں پر حملے نہ کرنا منگولوں کے حق میں جائے گا، لیکن وہ غلط تھا۔
دو صلیبی رہنماؤں جان آف بیروت اور جولین آف صیدون نے منگولوں کے نئے قبضہ شدہ علاقوں پر جوابی حملے شروع کر دیے۔ جس کے جواب میں کتبغا نے صیدون کے خلاف دستہ بھیجا، جس نے شہر کو ملیامیٹ کر کے اس کے شہریوں کا قتل عام کیا۔ منگول عیسائی تعلقات کی گرمجوشی یکدم ٹھنڈی پڑ گئی، اور جب پولینڈ پر منگولوں کے حملے کی خبریں ملیں تو گویا یہ معاملہ مکمل طور پر سرد ہو گیا۔
انہی ایام میں منگولوں کے لیے فرانسیسی صلیبی بادشاہ لوئی نہم کے سفیر ولیم آف روبرک منگولیا سے مکمل رپورٹ کے ساتھ واپس پہنچے۔ اسے پڑھنے کے بعد پوپ الیگزینڈر چہارم نے پورے ملکِ نصاریٰ میں یہ اعلان کر دیا کہ منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے والا کافر قرار دیا جائے گا۔ منگول کو اب عیسائیوں کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملنے والی تھی۔
جب ہلاکو کی قراقرم واپسی کی خبر قطز کو ملی، تو اس نےفوری طور پر اندازہ لگا لیا کہ عسکری لحاظ سے اب صورتحال اس کے حق میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس نے دفاع کی تیاریوں کو فوری طور پر روکنے اور منگول افواج کے خلاف پیشقدمی کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ ایک اور دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے قطز نے عکہ کے صلیبی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے محفوظ راستہ دیں اور رسد خریدنے کی اجازت بھی۔
فرنگیوں کے لیے یہ مطالبہ مخمصے میں ڈالنے والا تھا۔ انہيں اندازہ تھا کہ قطز کے ساتھ تعاون انہیں منگولوں کا صریح دشمن بنا دے گا، اور انہیں بدنام زمانہ منگول افواج کے رحم و کرم پر ڈال دے گا؛ لیکن دوسری جانب قطز خطے کو منگولوں سے چھٹکارہ دلانے کی آخری امید بھی تھا۔ طویل بحث مباحثے کے بعد انہوں نے قطز کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔
26 جولائی 1260ء کو مصری افواج نے شمال مشرق کی جانب پیشقدمی کا آغاز کیا۔ غزہ کے قریب بیبرس کے ہراول دستے نے گشت کرنے والے ایک منگول دستے کو شکست دی تو کتبغا نے بعلبک میں اپنے ٹھکانے سے قدم نکالا اور بحیرۂ طبریہ کے مشرقی کناروں کے ساتھ ساتھ جنوب کی جانب پیشقدمی کا آغاز کیا۔
عکہ کے قریب، جب عیسائیوں کے پریشان رہنما مملوک افواج کو شہر کے سامنے اپنے خیمے نصب کرتے دیکھ رہے تھے، قطز نے رسد خریدی اور اگلی چال کی منصوبہ بندی کی۔ جلد ہی اطلاع ملی کہ منگول اور جبری بھرتی کی گئی شامی فوج نے بحیرۂ طبریہ کو گھیر لیا ہے، اور وہ دریائے اردن کی جانب پہنچ رہے ہیں۔ قطز نے اپنی فوج کو جنوب مشرق کی جانب پیشقدمی کا حکم دیا تاکہ منگول افواج سے ٹکراؤ ہو جائے۔
3 ستمبر کو کتبغا نے مغرب کا رخ کیا اور مرج ابن عامر کی سطح مرتفع پر پہنچا۔ قطز نے اپنی پوزیشن ‘عین جالوت’ میں سنبھالی۔ یہاں سطح مرتفع صرف پانچ کلومیٹر کی رہ جاتی ہے، اور جنوب کی جانب ڈھلان اور شمال کی جانب کوہ جلیل کی وجہ سے مملوک دستوں کو حفاظت ملی۔ قطز نے مملوک رسالے کو قریبی پہاڑیوں پر تعینات کیا اور بیبرس اور ہراول دستے کو ایسے دشمن کی جانب پیشقدمی حکم دیا جس نے کبھی شکست کا ذائقہ نہ چکھا تھا۔
بیبرس جلد ہی کتبغا کی افواج سے جا ٹکرایا، جو عین جالوت کی طرف ہی آ رہی تھی۔ قطز کی توقع کے عین مطابق کتبغا نے غلطی سے اس لشکر کو پوری مملوک فوج سمجھ لیا، اور عام حملے کا حکم دے ڈالا اور اس حملے کی قیادت بھی خود کی۔ دونوں افواج ٹکرائیں اور ایک دوسرے کے زور بازو کا اندازہ لگانے کے لیے گھمسان کا رن پڑا؛ اور پھر منصوبے کے عین مطابق بیبرس نے اپنے لشکر کو پسپائی کا حکم دیا۔ منگول پورے اعتماد کے ساتھ اُن کے تعاقب میں دوڑے، فتح ان کو اپنی گرفت میں نظر آتی تھی۔
لیکن جب مقررہ مقام پر پہنچ کر بیبرس نے اپنی افواج کو پلٹ کر دشمن کا سامنا کرنے کا حکم دیا، تب کہیں جا کر منگولوں کو حقیقت کا علم ہوا کہ وہ آج خود اسی چال کا شکار ہو گئے جو وہ ہمیشہ آزماتے آئے ہیں، یعنی جھوٹ موٹ کی پسپائی اختیار کر کے دشمن کو اچانک گھیر لینا۔ جب بیبرس کے دستے دوبارہ منگول افواج پر حملہ آور ہوئے، قطز نے رسالے کو پہاڑی دامن سے نکل کر منگول افواج کے پہلوؤں پر حملہ کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
دوسری جانب کتبغا نے مملوک افواج کے بائیں پہلو پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ بہت خطرناک حملہ تھا، ایسا لگتا تھا کہ مملوک افواج کی صف بندی ٹوٹ جائے گی اور وہ کچل دیے جائیں گے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قطز خود اس مقام پر پہنچا، اپنا خود اٹھا کر پھینک دیا تاکہ پوری فوج اس کی شکل پہچان لے اور تین مرتبہ نعرہ لگایا “اے مسلمانو!”۔ فوج میں زبردست جوش و خروش پیدا ہو گیا اور منگول حملہ پسپا کر دیا گیا۔ صف بندی مستحکم ہونے کے بعد قطز نے جوابی حملہ کر کے منگولوں کو دھکیلنے کی ٹھانی۔
مملوک دباؤ کے باوجود کتبغا پیشقدمی جاری رکھے ہوئے تھا کہ اچانک ایک تیر اس کے گھوڑے کو آ لگا اور وہ زمین پر آ رہا۔ قریبی مملوک فوجیوں نے اسے گرفتار کر کے قطز کے روبرو پیش کیا اور قتل کر دیا گیا۔
سالار کے قتل کے بعد پسپا ہوتے منگولوں کا 12 کلومیٹر تک مملوک افواج نے تعاقب کیا۔ بچ جانے والی منگول فوج مشرق میں دریائے فرات کے پار تک چلی گئی۔ چند ہی دنوں میں قطز دمشق میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا، اور مملوک حلب اور شام کے دیگر اہم شہروں کو آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھے۔
مملوک اور منگول افواج کا عین جالوت میں ٹکراؤ عالمی تاریخ کی اہم ترین جنگوں میں شمار ہوتا ہے — جس کا تقابل میراتھن، سلامز، لپانٹو، کالونز اور طوغ – کی جنگوں سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس جنگ نے اسلامی و مغربی تہذیب کے مستقبل کا تعین کیا۔ اگر منگول مصر فتح کرنے میں کامیاب ہو جاتے، تو وہ بلاشبہ ہلاکو کی واپسی کے بعد مشرقی افریقہ میں آبنائے جبرالٹر تک پیش قدمی کرتے۔ یوں یورپ پولینڈ سے ہسپانیہ تک منگولوں کے گھیرے میں آ جاتا۔ ان حالات میں کیا یورپ میں نشاۃ ثانیہ واقع ہوتا؟ اگر ہوتا تو اس کی بنیادیں بلاشبہ کہیں زیادہ کمزور ہوتیں اور دنیا ممکنہ طور پر آج ایک کہیں مختلف مقام ہوتی۔
مملوکوں نے نہ صرف مغرب کی جانب منگول پیشقدمی کو روکا، بلکہ منگولوں کے ناقابل شکست ہونے کے بت کو بھی توڑا۔ منگول دوبارہ پھر کبھی ویسی خود اعتمادی کے حامل نہ رہے، اور یوں عین جالوت نے خطے میں منگول پیشقدمی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
قاہرہ کو بغداد جیسے حال سے بچانے کے بعد جنگ عین جالوت نے نسبتاً کمزور صلیبی ریاستوں کی قسمت کا بھی فیصلہ کر دیا۔ مملوک مصر اسلامی سیاسی، عسکری و ثقافتی قوت کے عروج پر پہنچ گیا، یہ مقام عثمانیوں کے ظہور تک اگلے 200 سال تک اس کے پاس رہا۔
لیکن قطز کے ہاتھوں سے اس فتح کے ثمرات جلد ہی چھین لیے گئے۔ حلب کو دوبارہ حاصل کرنے کے بعد بیبرس نے کہا کہ اس مہم میں خدمات کے پیش نظر اسے اس خطے کی کمان دی جائے۔ قطز نے انکار کر دیا اور جب قاہرہ میں فاتحانہ واپسی میں چند روز باقی تھے، قطز مارا گیا۔ یوں منگول خطرے کو ٹالنے کے لیے قاہرہ سے نکلنے والا تو قطز تھا لیکن فاتحانہ انداز سے داخل ہونے والا بیبرس تھا۔ جو ملک الظاہر رکن الدین بیبرس کے نام سے تختِ قاہرہ پر بیٹھا۔
یہ مضمون ڈیوڈ ڈبلیو شانز کا تحریر کردہ ہے، جنہوں نے تاریخ اور طب کے دو بالکل مختلف موضوعات میں تعلیم حاصل کی اور سعودی ارامکو میڈیکل سروسز سے منسلک ہیں۔ آپ عسکری تاریخ کے جریدے “Havoc!” کے ایڈیٹر ہیں اور عسکری تاریخ میں طب کی حیثیت پر خاص جریدے COMMAND کے لیے بھی مدیر کی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں
ان کا یہ مضمون سعودی ارامکو ورلڈ میگزین کے جولائی/اگست 2007ء شمارے میں شایع ہوا تھا، جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا گیا ہے
http://urdu.microiways.com/Islam_JEEM/battle-of-ain-jalut.aspx
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب شاندار فتح کی خبر دمشق اور گرد ونواح پہنچی تو مسلمان خوشی سے سرشار ہوگئے انہوں نے تاتاریوں پر حملے شروع کردیے اور اسی سال منگولوں کو حمص سے بھی بے دخل کردیا۔
ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر عظیم جارحیت کا ارتکاب کیا اور نتیجتاً مسلمانوں کا خلیفہ مستعصم باللہ ہلاک ہوگیا اور دارالحکومت بغداد سمیت مسلمانوں کی تین چوتھائی سرزمین تاتاریوں کے قبضہ میں چلی گئی۔
سقوط بغداد کے بعد خلافت عباسیہ کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا جس کے بعد مسلمانوں کو شکست در شکست کا سامنا کرناپڑا۔ منگولوں نے سارے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد شام کی سرزمیں پر جارحیت کا ارتکاب کیا اور یہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا کیونکہ اس علاقے کے لوگوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا تھا۔
سقوط دمشق کے بعد تاتار مصر اور مراکش کی طرف بڑھے جو مسلمانوں کے آخری مضبوط گڑھ رہ گئے تھے اور اگر یہ بھی منگولوں کے قبضے میں چلے جاتے تو تمام مسلم امہ تباہ ہوجاتی۔
جنگ عین جالوت میں شکست کے بعد تاتاریوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی حکومت مشرقی اسلامی سرزمین پر کمزور ہورہی ہے اور مسلمانوں نے اپنی قوت بحال کرلی ہے تو وہ اپنے وطن کی طرف بھاگے جس کی وجہ سے مملوکوں نے آسانی سے شام کو کچھ ہی ہفتوں میں آزاد کرانے میں کامیاب رہا۔
مزید:
https://goo.gl/yNqvdj
Download book, تاتاریوں کی یلغار۔ ولیم لیم
مزید پڑھیں:
Also Related:
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits
No comments:
Post a Comment