ترکی کا معاملہ صرف ایک ملک کا داخلی ایشو نہیں۔ ترکی میں طیب اردوان کا گورننس ماڈل دنیا بھر میں ایک کامیاب اسلامسٹ ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسلامسٹ حلقے خاص طور سے ترکی کے ماڈل سے متاثر رہے ہیں، ہر جگہ اس تجربے کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ان پر کی جانے والی تنقید پر ایسے لوگوں کاناخوش ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ مگر ضروری ہے کہ اس تنقید کا پس منظر سمجھا جائے اور پاکستان کے اسلام پسند حلقے اپنی جذباتیت سے باہر آ کر معاملات کو معروضی انداز میں دیکھنا اور سمجھنا سیکھیں۔
اس ایشو کے تین حصے ہیں
پہلا جناب طیب اردوان کی شخصیت اور ان کا طرز حکمرانی ہے
ہمارے ہاں زیادہ بحث اس ناکام بغاوت کے بعد کے تناظر میں کی جا رہی ہے ، مگر میرے جیسے لوگ جو طیب اردوان سے ہمدردی رکھنے اور ماضی میں ان کی مدح میں متعدد کالم لکھ چکنے کے باوجود اب انہیں ہدف تنقید بنا رہے ہیں، وہ ایسا اس بغاوت سے کئی ماہ بلکہ دو تین سال پہلے سے کر رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جناب طیب اردوان اپنی تمام تر مسحور کن کامیابیوں کے باوجود راہ راست سے ہٹ چکے ہیں، اختیارات اپنے اندر سمیٹنے اور اپنی ذات کو نمایاں رکھنے کی بے جاخواہش ان سے غلطیاں کرا رہی ہے۔ وہ عملاً ایک سول ڈکٹیٹر بن چکے ہیں۔ پچھلے تین چار برسوں میں اس کے متعدد مظاہر سامنے آ چکے ہیں، ہم دانستہ آنکھیں بند کرنا چاہیں تو الگ بات ہے۔ اس ناکام بغاوت کے بعد انہیں اپنی آمریت کا سکہ جمانے کا بھرپور موقعہ ملا ہے، جسے وہ نہایت بے دردی اور بے رحمانہ انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔
ترکی میں جناب طیب اردوان کی بے مثال کامیابیاں بحث سے بالاتر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذات اور اپنی کرشماتی شخصیت کے خود ہی اسیر ہوتے گئے ہیں۔ اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے ہوئے انہوں نے پارٹی کو مضبوط کرنے ، نئی لیڈرشپ پیدا کرنے کے بجائے ون مین شو کو اہمیت دی ۔ وزیراعظم کے طور پر ایک شاندار اننگ کھیلنے کے بعد انہیں صدر بننے اور پھر ترکی کے آئین کو بدلتے ہوئے تمام تر اختیارات صدر کے عہدے میں مرتکز کرنے کا خواب دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کسی بڑے لیڈر کا طرز عمل نہیں بلکہ اقتدار کے خواہاں اورعہدے سے تادیر چمٹے رہنے والے سیاستدان کی سوچ ہے۔ ان کی ذات پر کرپشن کے الزامات لگنا بھی افسوسناک امر تھا۔ ایک دینی مزاج رکھنے والے لیڈر کے طور پر انہیں زیادہ شفاف ہونا چاہیے ،اقرباپروری کے بے پناہ الزامات اس پر مستزاد تھے۔ طیب اردوان اور ان کے بیٹے کے مابین مالی معاملات کی مبینہ گفتگو کی آڈیو سامنے آئی، جسے دبانے کے لئے اردوان صاحب نے یوٹیوب، ٹوئٹر وغیرہ پر ہی پابندی لگا دی۔ یہ بات بڑی عجیب تھی ۔ ہمارے جیسے ترکی سے باہر کے لوگوں کے لئے بھی یہ دلیل ہضم کرنا مشکل تھا کہ پابندی اس لئے لگائی کہیں لوگ گمراہ نہ ہوجائیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ اگر کوئی آڈیو ٹیپ غلط بنی تو لوگ سنتے ہی اسے مسترد کر دیتے ۔ جو چیزیں چھپائی جاتی ہیں، شکوک ان کے بارے میں بڑھتے ہیں، کم نہیں ہوتے۔اردوان صاحب نے دو ڈھائی سال پہلے بھی ایک خفیہ سازش کا مبینہ الزام لگا کر ترک پولیس، پراسیکیوشن اور عدلیہ کے بہت سے لوگ نکال دئیے تھے ۔ کہا گیا تھا کہ یہ لوگ حکومت کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ نکالے جانے والوں میں زیادہ لوگ فتح اللہ گولن کے مداحین یا ان کی سوچ سے متاثر لوگ تھے۔ گولن اور طیب اردوان کا اختلاف بنیادی طور پر کرپشن سکینڈلز کے حوالے سے شروع ہوا۔ چھوٹے موٹے اختلافات تو پہلے چل رہے تھے، مگر جب حکومتی پارٹی پر بدعنوانی کے الزامات لگے تو گولن صاحب اور ان کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ان الزامات کی تحقیق ہونی چاہیے ، جس پر ان کے خلاف کریک ڈائون شروع ہوگیا۔ جناب اردوان کی افتاد طبع ان کے اپنے پارٹی لیڈروں اور دیرینہ ساتھیوں کو بھی برداشت نہیں کر پائی۔ عبداللہ گل پارٹی کے بانی ، اردوان کے پرانے ساتھی اور ترکی کے صدر تھے۔ اردوان نے انہیں بھی ایک کونے میں پھینک دیا۔ ابھی دو ڈھائی ماہ پہلے ترک وزیراعظم احمد اوگلو نے بھی استعفا دے دیا، وجہ یہی تھی کہ اردوان صاحب ہر معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا چاہ رہے تھے، وزیراعظم ان کے نزدیک کٹھ پتلی ہونا چاہیے۔ احمد اوگلو مستعفی ہوگئے ۔پچھلے سال تیرہ جون کو طیب اردوان کے طرز حکومت پر میں نے ایک بہت سخت کالم لکھا تھا ، جس میں کہا کہ میں شرمندہ ہوں کہ طیب ا ردوان صاحب کو ہیرو کے طور پر پیش کرتا رہا، مگر وہ آخری تجزیے میں ترازو میں ہلکے نکلے ۔ اس لئے میرے جیسے لوگ ناکام فوجی بغاوت کے بعد کے واقعات کو دیکھ کر عجلت میں تنقید نہیں کر رہے، اس کا اپنا ایک پس منظر اور دلائل موجود ہیں۔
فتح اللہ گولن کے خفیہ نیٹ ورک کی اصطلاح پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کیا تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہسپتال بنانا، چیریٹی ادارے بنانا، پڑھے لکھے پروفیشنلز میں دعوت کا کام کرنا، مختلف شعبوں میں اثرورسوخ بڑھانا غلط کام اور کوئی خفیہ نیٹ ورک یا خدانخواستہ فری میسن طرز کی تنظیم بنانا ہے؟ ایسی سوچ مضحکہ خیز ہے۔
دنیا بھر میں اسلامی تحریکیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون نے مختلف شعبوں میں دعوت وتعلیم کا کام کیا۔ مزدوروں سے کا شتکاروں، ٹیچروں سے انجینئرز، ڈاکٹرز ،اور طلبہ سے لے کر سرکاری ملازمین تک اپنا پیغام لے کر جانا ، ان میں دینی ذوق پیدا کرنا، خیر پھیلانا، اللہ کے دین کی طرف مائل کرنا ہر اعتبار سے درست بات ہے۔یہی سید حسن البنا شہید نے مصر میں اور سید مودودی نے پاکستان میں کیا، سوڈان میں حسن ترابی صاحب، تیونس میں راشدالغنوشی کی النہضہ کا بھی ملتا جلتا کام رہا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان میں کیا ایسا نہیں کیا؟تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ، ریلوے مزدوروں میں پریم یونین، پی آئی اے میں پیاسی، ڈاکٹروں کے لئے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن وغیرہ،چیریٹی کاموں کے لئے الخدمت جیسا شاندار نیٹ ورک، غزالی ٹرسٹ سکول ، جسارت ، فرائیڈے سپیشل وغیرہ یہ سب کیا ہیں؟ ترکی میں فتح اللہ گولن نے بھی یہی کام کیا۔ بچوں کے لئے سکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال، چیریٹی ادارے ، بزنس کارپوریشنز، میڈیا ہائوسز ، ڈاکٹرز، انجینئرز ، رائٹرز ایسوسی ایشنز وغیرہ بنائیں۔ گولن کی حذمت تحریک اس لحاظ سے البتہ مختلف رہی کہ اس نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے برعکس اپنے نیٹ ورک کو مکمل طور پر غیر سیاسی رکھاتاکہ سیاسی کشمکش یا حکومتیں بدلنے سے اس پر اثر نہ پڑے اور اصل مقصد معاشرے میں تبدیلی لانا بنایا۔ یہ اور بات کہ اردوان صاحب اپنے ذاتی ایجنڈے کی خاطر اس سب کچھ کو تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔
ناکام فوجی بغاوت کے بعدجس غیر معمولی عجلت اور تیزی سے ترک صدر نے گولن تحریک کو کچلنے کے اقدامات کئے ، ان سے ہر کوئی حیران رہ گیا۔ بغاوت کی ناکامی نے ترک عوام کو ہیرو بنا دیاتھا۔ طیب اردوان ایک مسیحا نظر آئے ، ان کے قد میں اضافہ ہوا، مگر ان کے جارحانہ اور واضح طور پر انتقامی پالیسیوں نے اس پورے منظرنامے کو دھندلا کر رکھ دیا۔دو دن پہلے ترکی میں پچھلے ڈیڑھ ماہ سے مقیم ایک پاکستانی صحافی سے واٹس اپ پر میں نے پوچھا کہ ترک اپوزیشن کیوں خاموش ہے۔ اس کا جواب تھا،'' یہاں ہر کوئی اس وقت خوفزدہ ہے کہ کہیں ہمارے اوپر الزام نہ لگا دیا جائے ۔ حکومت کے پاس اس وقت لائسنس ٹو کِل آ چکا ہے، اس لئے ہر کوئی تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس حکومتی سوچ کو مگر ہر کوئی ناپسند کر رہا ہے۔ ‘‘ترکی میں پچھلے ایک ہفتے کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ لوگ معطل ، برطرف یا گرفتا ر کئے جا چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تین جج بھی پکڑ لئے گئے، جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس نے شکوک بہت زیادہ بڑھا دئیے۔ فوجی بغاوت سے ٹیچروں، یونیورسٹی پروفیسروں، ڈین، ڈاکٹروں، ججوں اور دیگر سرکاری ملازمین کا کیا لینا دینا ہوسکتا ہے؟ صاف نظر آ رہا ہے کہ انہوں نے پہلے سے فہرستیں بنا رکھی تھیں اور ہر اس شخص کو پکڑا جا رہا ہے، جو ان کا سیاسی مخالف یا ان پر تنقید کرنے کا گناہگار تھا۔ ہمارے اسلامسٹ دوست اس پر آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں یا کچھ لوگ طیب اردوان کو رعایت دینا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کا حق ہے ، مگر ہمارے جیسے لوگ اپنے نقطہ نظر کا اظہار کر رہے ہیں، جس کا ہمیں بھی حق حاصل ہے۔( عامر ہاشم خاکوانی)
See more at:
http://m.dunya.com.pk/index.php/author/amir-khakwani/2016-07-28/16268/18580711#sthash.AD9J1VQe.dpuf
............................
ترکی میں سیاسی طاقت کی کشمکش اور ہمارا رویہ
Read in English << here>>>
پاکستان کے عوام کا ترکی کے عوام سے تاریخی، مذھبی اور روحانی تعلق ہے جو ترکی کی اندرونی باہمی سیاسی کشمکش سے بالا تر ہے- وہاں فوجی ڈکٹیٹر شپ ہو یا جمہوری، پاکستانی عوام ترکی کے عوام ساتھ ہوتےہیں- خلافت موومنٹ میں مسلمانان ہند نے ترکی کا ساتھ دیا پھرجب کمال اتا ترک نے خلافت کو ختم کیاتو ترک عوام سے تعلق نہ توڑا- آج کل ترکی میں سیاسی قوت کی رسہ کشی عروج پر ہے- ایک طرف جمہوری منتخب صدر طیب اردگان ہیں اور دوسری طرف ان کے مخالفین جن میں سیکولراسٹیبلشمنٹ، لبرل سیاست دا ن ، اوراردگان کے سابقہ مدد گاراسلامی مفکر سماجی فلاح کار فتح اللہ گولن.
فتح اللہ گولن ٢٠١٣تک اردگان کے مدد گارتھے- وہ اسلامی دانشور، مذہبی سکالر اورغیر سیاسی "حزمت" (خدمت) سماجی بہبود کی تحریک کے روح رواں ہیں جو جدید سائنسی تعلیم، سماجی کاموں،انسانیت، اخلاقیات سے ترک اور مسلمانوں کو ترقی یافتہ اقوام میں دیکھنا چاہتے ہیں- وہ برداشت، عدم تشدد اور دوسرے مذاہب کے ساتھ امن سے رہنے کے مبلّغ ہیں- وہ انقلاب کی بجایے طویل، سست طریقه سے سماجی تبدیلی کے خواہش مند ہیں-
طیب اردگان ایک کامیاب سیاست دن ہیں جو ١٣ سال سے حکومت میں ہیں انہوں نہیں ترکی کو ترقی کی راہ پر ڈالا اس لیے عوام میں مقبول ہیں- مگر کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ تا حیات حکمران رہیں؟ کیا وہ جارج واشنگٹنن اور چارلس ڈیگال سےبھی بڑے لیڈر ہیں؟ کیا وہ اور ان کی فیملی قانون سے بالا تر ہیں؟ کرپشن کرنے کو آزاد ہیں؟ ١٠٠٠ کمروں کے محل میں ساری زندی گزارنی ہے؟ سیاست دان اپنی پارٹی اور ذات کے فایدہ کو ترجیح دیتا ہے- اب وہ طاقت کے نشے میں مدہوش ہو کر صدارتی طرز کے نظام کے لیے کام کر رہے ہیں-اردگان اپنے ایک بیان کے مطابق :"جمہوریت کو منزل تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جب منزل ا جائے تو ٹرین سے اترنا ہوتا ہے"- اسی لیے ان کو سلطنت عثمانیہ کا نیا سلطان (ڈکٹیٹر) بھی کھا جاتاہے-
اردگان اور فتح اللہ گولن دونوں معتدل ااسلام پسند ہیں، ترکی کے اسلامی عالم بدیع الزمان نورسی (١٨٧٨-١٩٦٠)" سے متاثر ہیں، ترکی کے سیکولر کمال ازم کے ساتھ مل کر ترکی کو آگے لیجانا چاہتے ہیں- دونوں اسلام کے نام پر شدت پسندی اور دہشت گردی کے مخالف ہیں- ٢٠٠٢ سے اردگان گولن کو ساتھ لیے کر چلے تاکہ اسٹیبلشمنٹ میں سیکولرکمالسٹ کے زور کو کم کیا جا سکے- گولن اورحزمت تحریک نے اپنے تعلیمی، سماجی نظام سے مطلوبہ ہیومن ریسورس مہیا کیا- ٢٠١٣ میں پولیس اور ججز نے اردگان اور وزیروں کی کرپشن کو پکڑا تو گولن اور حزمت سے راستے الگ ہو گیے- کل کے ساتھی آج کے دشمن ٹھہرے-جولائی کی بغاوت کا گولن اور حزمت قرار پاے اور فوری طور پر ہزاروں لوگ گرفتار ہوے-
اس "بغاوت" پر بہت سوال اٹھ رہے ہیں-(دیکھیں لنک) فوری طور پر ہزاروں لوگ جن میں فوج، سول پولیس، جج ، تعلیمی اداروں کے ٹیچر، پروفیسرز اور بیوروکرسی ، میڈیا اور دوسرے لوگوں کی معطلی اور گرفتاری بغیر تفتیش کے- کیا پہلے سے لسٹیں موجود تھیں؟ اردگان کا یہ کہنا کہ :"یہ مخالفین سے چھٹکارہ پانے کا نادر موقع ہے" اس کا جواب ہے-
اردگان اور اس کی پارٹی کی طرف سے گولن "اسامہ بن لادن" اور "ابو بکر بغدادی" سے بڑا داہشت گرد قرار پایا- (اردگان حکومت پر"داعش"کی مدد، تیل کی تجارت کے الزام ہیں ) واہ رے واہ! اچانک کیا ہو گیا؟ انتقام اور طاقت کے نشے میں انسان اندھا ہو جاتا ہے مگر دوسرے تو اندھے نہیں؟ کہاں" القاعدہ" اور "داعش" جو ہزاروں معصوم لوگوں( اکثریت مسلمان)کے خون، قتل، تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں اور کہاں گولن کی "حزمت"
(خدمت) تحریک جودنیا میں لاکھوں، ہزاروں لوگوں کو جدید تعلیم اور تربیت سے آراستہ کر رہی ہے، لوگوں کی سماجی خدمت کر رہی ہیں- جو خدمت اور پرامن برداشت کے ساتھ اسلام کا صحیح پر امن چہرہ پیش کر رہی ہے- جہالت کے اندھیروں کو دور کرکہ جدیدعلم کی روشنی پھیلا رہی ہے- صرف اپنی اندھی طاقت کو دوام بخشنے کے لیے ان کو دہشت گرد کہنا بذات خود ایک بہت بڑی دہشت گردی ہے- "حزمت" کو مظبوط کرنے کی ضرورت ہے، اگر کوئی کمی ہو تو اس کی اصلاح اور مدد کی جائے نہ کہ مخلفت برایے مخالفت-
اردگان صاحب اپنی سیاسی لڑائی کو پاکستان لے آیے ہے، یہاں حزمت کے "پاک-ترک تعلیمی اداروں" کوجن میں ہزاروں پاکستان طلباء عمدہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، بند کرنا چاہتے ہیں- بہتر ہے کہ حکومت پاکستان ترکی کی اندرونی سیاست اور کشمکش سے دور رہے- اگرچہ حکمرانوں کے ترکی (اردگان) سے مخصوص تجارتی رابطے ہی- ماضی میں راولپنڈی- پشاور موٹروے کے ٹھیکے، ترک بحری جہاز پر رینٹل پاور پلانٹ کی کہانیاں اور سپریم کورٹ کے فیصلے تاریخ کا حصہ ہیں -اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے- دوستی کی آڑمیں قومی مفاد پر سودا نہ کیا جائے-
آزاد انکوائری سے چیک کریں کہ " پاک-ترک تعلیمی ادارے"کسی غیر قانونی کام میں ملوث تو نہیں، اگر نہیں تو آزادی سے ان کو اپنا نیک کام کرنے دیں-
گولن نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اس بغاوت میں ملوث نہیں، بلکہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتا ہے، "ایک آزاد بین القوامی انکوائری اگر اسے مجرم، ملوث قرار دے تو وہ سولی پر چڑھنے کو تیار ہے"- جلد بازی میں نتائج اخذ کرنے کی بجایے انتظار کیا جائے جب تک حقیقت کھل کر سامنے نہ اجائے-
آپ سیاست اور ذاتی پسند نا پسند سے بالا ہو کر ایک سوال کا جواب دیں:
مسلمانوں کو اقوام عا لم میں اعلی مقام حاصل کرنے کے لیے اہم فیصلہ کرنا ہے کہ کس قسم کی تنظیموں اور تحریکوں کو اسلام کی نمائندگی کا حق دار ہونا چاہئے؟
1# : ایسی تنظیمیں اورتحریکیں جو معتدل اسلامی اقدارکی تبلیغ کے مشن کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی تعلیم، سماجی بہبود، امن، بقائے باہمی، رواداری،برداشت، اعتدال، انسانیت کی خدمت، عدم تشدد، انصاف اورجمہوریت کے زریعے بتدریج پرامن ترقی پر یقین رکھتے ہوے مشنری جذبہ و خلوص سے اسلام کی نمائندگی، تبلیغ اور جدوجہد کریں- دنیا میں لا تعداد افراد اور ادرے یہ مقدس کام کر رہے ہیں پاکستان میں بھی بہت تنظیمیں اورسماجی بہبود کے ادارےیہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن میں الخدمت. ایدھی, تبلیغی جماع نمایاں ہیں- جدید ترک عالم دین فتح اللہ گولن کی "حزمت" (خد مت) بین الاقوامی تحریک نمایاں ہے دنیا بھر بشامل امریکہ ، برطانیہ، افریقی ممالک میں ان کے تعلیمی ادارے خاص طور پر کامیابی سے نہ صرف اعلی میعار کی تعلیم مہیا کر رہے ہیں بلکہ اسلام کے امن و سلامتی کے امیج کوبھی نمایاں کر رہے ہیں-
2 # پرتشدد تکفیری نقلی جہادی تنظیمیں اور مسلح گروہ جو مقدس کتب کی باطل تاویلوں کےبہانے مسلمان اور غیر مسلمان مخالفین کو قتل و غارت اور دہشت گردی، خودکش بمباروں اور دوسرے حرام طریقوں سے برباد کرتے ہیں، انسانیت کے خلاف ہر قسم کے جرائم کرنے پرفخر کرتے ہیں- عدم برداشت، ظلم و بربریت، جدید تعلیم و ترقی کی مخالفت ان درندہ صفت لوگوں کی خصوصیات ہیں- معاشرہ کی تباہی، سماجی بربادی، فساد فی الا رض اور امت مسلمہ کی تباہی ان کا مشن ہے- ان کی دہشت گردی کی وجہ سے اقوام عالم میں مسلمانوں کو نفرت اور تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے- ان کی مثالیں القاعدہ ، داعیش، بوکو حرام، تکفیری طالبان اور ان جیسی دوسری تنظیمیں ہیں، جن کی فکر، نظریات اوراعمال کےغیراسلامی ہونے پر تمام علماء اور امت مسلمہ کا اجماع ہے-
...................................................
References, Sources & more information:
More- Turkey Today:The Magazine, updated periofically: http://flip.it/X0JbQ
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Gülen_movement
Closer look at empire of cleric accused in Turkey coup attempt:
ASTONISHING QUESTIONS ABOUT THE FAILED COUP ATTEMPT IN TURKEY
A reality check on the Middle East from America’s spy chief;
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of
Overall near 3 Million visits/hits
No comments:
Post a Comment