قرآن پڑھنا، ہاتھ لگانا اور وضو Touching, reciting Quran and Wadu



قرآن پاک اللہ کا کلام ہے جو رسول اللہ نبی اخرزما ن محمد ﷺ پر ۲۳ سال میں نازل ہوا. اس کو فوری طور پر لکھا گیا اور زبانی یاد کرلیا گیا- قرآن تمام بنی نوع انسانی کے لیے تا قیامت ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ ہے- کلام اللہ کی حثیت سے اس الہامی کتاب کی عزت و تکریم اور احترام سب پر اور خاص طور پر مسلمانوں  پر لازم ہے- اسی احترام میں مسلمان قرآن کو پاکیزہ حالت میں ہی تلاوت کرتے یا ہاتھ لگاتے ہیں- اکثر مسلمان وضو [جیسے کہ نماز (صلاہ) کے لیے لازم ہے]  کا اہتمام کرتے ہیں- یہ ایک احسن عمل ہے- مگر دیکھنا ہے کہ اس کی مذہبی حثیت کیا ہے؟ کیوں کہ عام مسلمانوں کے لیے اکثر با وضو ہونا ممکن نہیں تو اس پابندی کی وجہ سے وہ قرآن کی تلاوت یا قرآن سے دور ہو جاتے ہیں.



The Holy Qur’an has directed the believers to be in the state of `wudu' when they pray. They are not asked to be in that condition for any other purpose, although it encourages its readers to remember Allah as much as is possible. We cannot, therefore, escape from concluding that the condition of `wudu' as a binding necessity is applicable only for prayers and not for other forms of remembering Allah, including recitation of the Holy Qur’an. Keep reading >>>> 

احترام میں قرآن پاک کو گھر، دفتر، دوکان میں کسی بلند جگہ پر غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے برکت کے لیے- کیا قرآن صرف اس مقصد کے لیے اللہ نے نازل کیا تھا؟
اپنی لا علمی یا کوتاہی کی وجہ سے مسلمان قرآن سے دور ہو گیے- آج ہم صرف نام کے مسلمان ہیں عمل سے دور قرآن سے دور- کیا ایسا ممکن ہے کہ قرآن کو سمجھیں ، غور کریں تدبر کریں جیسا کہ خود قرآن بار بارکہتا ہے- اس کے لیے قرآن سے قریبی تعلق پیدا کرنا ہو گا-

[Understanding، pondering Quran قرآن پر تدبُّر تفکر]


کچھ علماء سمجھتے ہیں کہ قرآن پڑھنا اور اس کو ہاتھ لگانا ہر حال میں جائز ہے خواہ  آدمی بے وضو ہو، یا جنابت کی حالت میں ہو، یا عورت حیض کی حالت میں ہو۔ ابن حزم نے المحلّٰی (جلد اول، صفحہ 77 تس 84) میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جس میں انہوں نے اس مسلک کی صحت کے دلائل دیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ فقہاء نے قرآن پڑھنے اور اس کو ہاتھ لگانے کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے۔

 سورہ الواقعہ 56 کی آیت 79 کو سیاق و ثبات  out of context پیش کر کہ مطلب نکالا جاتا ہے:
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ﴿٧٧﴾ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ﴿٧٨﴾ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ﴿٧٩﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٨٠﴾ أَفَبِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ ﴿٨١﴾ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ ﴿٨٢﴾

کہ یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے (77) ایک محفوظ کتاب میں ثبت(78) جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا (79) یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے (80) پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے ہو (81) اور اِس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اِسے جھٹلاتے ہو؟ (56:82)
یہ تردید ہے کفار کے ان الزامات کی جو وہ قرآن پر لگایا کرتے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کاہن قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کلام آپ پر جن اور شیاطین اِلقا کرتے ہیں۔ اس کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ شعراء میں ارشاد ہوا ہے وَمَا تَنَزَّ لَتْ بِہِ الشَّیٰطِیْنُ، وَمَا یَنْمبْغِیْ لَھُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ، اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۔ ’’اِس کے لے کر شیاطین نہیں اترے ہیں، نہ یہ کلام ان کو سجتا ہے اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں۔ وہ تو اس کی سماعت تک سے دور کھے گئے ہیں‘‘(آیات۔210 تا 212)۔ اسی مضمون کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ اسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔،‘‘ یعنی شیاطین کا سے لانا، یا اس کے نزول کے وقت اس میں دخل انداز ہونا تو در کنار، جس وقت یہ لوح محفوظ سے نبی پر نازل کیا جاتا ہے اس وقت مُطَہرین، یعنی پاک فرشتوں کے سوا کوئی قریب پھٹک بھی نہیں سکتا۔ فرشتوں کے لیے مطہرین کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قسم کے ناپاک جذبات اور خواہشات سے پاک رکھا ہے۔ 
اس آیت کی یہی تفسیر انس بن مالک، ابن عباسؓ، سعید بن جبیر، عکرمہ، مجاہد، قتادہ، ابوالعالیہ، سُدی، ضحاک اور ابن زید نے بیان کی ہے، اور نظم کلام کے ساتھ بھی یہی مناسبت رکھتی ہے۔ کیونکہ سلسلہ کلام خود یہ بتا رہا ہے کہ توحید اور آخرت کے متعلق کفار مکہ کے غلط تصورات کی تردید کرنے کے بعد اب قرآن مجید کے بارے میں ان کے جھوٹے گمانوں کی تردید کی جا رہی ہے اور مواقع نجوم کی قسم کھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے، اللہ تعالیٰ کے محفوظ نوشتے میں ثبت ہے جس میں کسی مخلوق کی در اندازی کا کوئی امکان نہیں، اور نبی پر یہ ایسے طریقے سے نازل ہوتی ہے کہ پاکیزہ فرشتوں کے سوا کوئی اسے چھو تک نہیں سکتا۔ 
بعض مفسرین نے اس آیت میں لا کو نہی کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’کوئی ایسا شخص اسے نہ چھوئے جو پاک نہ ہو ‘‘، یا ‘’کسی ایسے شخص کو اسے نہ چھونا چاہیے جو نا پاک ہو‘‘۔ اور بعض دوسرے مفسرین اگر چہ لا کو نفی کے معنی میں لیتے ہیں اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس کتاب کو مطہرین کے سوا کوئی نہیں چھوتا‘‘، مگر ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ نفی اسی طرح نہی کے معنی میں ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ المسلم اَخُو المصلم لا یظلمہٗ (مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا)۔ اس میں اگر چہ خبر دی گئی ہے کہ مسلمان مسلمان پر ظلم نہیں کرتا، لیکن در اصل اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ مسلمان مسلمان پر ظلم نہ کرے اسی طرح اس آیت میں اگرچہ فرمایا یہ گیا ہے کہ پاک لوگوں کے سوا قرآن کو کوئی نہیں چھوتا، مگر اس سے حکم یہ نکلتا ہے کہ جب تک کوئی شخص پاک نہ ہو، وہ اس کو نہ چھوئے۔ 
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تفسیر آیت کے سیاق و ساق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے تو اس کے الفاظ سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے، مگر جس سلسلہ کلام میں یہ وارد ہوئی ہے  اس میں رکھ کر اسے دیکھا جائے تو یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع نظر نہیں آتا کہ ’’ اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہ چھوٹے ‘‘۔ کیونکہ یہاں تو کفار مخاطب ہیں اور ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے، اس کے بارے میں تمہارا یہ گمان قطعی غلط ہے کہ اسے شیاطین نبی پر القا کرتے ہیں۔ اس جگہ یہ شرعی حکم بیان کرنے کا آخرت کیا موقع ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص طہارت کے بغیر اس کو ہاتھ نہ لگائے؟ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ آیت یہ حکم دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے۔ مگر فحوائے کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کتاب کو صرف مطہرین ہی چھو سکتے ہیں، اسی طرح دنیا میں بھی کم از کم وہ لوگ جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، اسے نا پاکی کی حالت میں چھونے سے اجتناب کریں۔
اس مسئلے میں جو روایات ملتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
(1)امام مالکؒ نے مؤطا میں عبداللہ بن ابی بکر محمد بن عمرو بن حزم کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و سلم نے جو تحریری احکام عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو لکھ کر بھیجے تھے ان میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ لا یمسُّ القرآن الا طاہرٌ (کوئی شخص قرآن کو نہ چھوئے مگر طاہر ) یہی بات ابو داؤد نے مراسیل میں امام زہری سے نقل کی ہے کہ انہوں نے ابو بکر محمد بن عمروبن حزم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جو تحریر دیکھی تھی اس میں یہ حکم بھی تھا۔ 
(2) حضرت علیؓ کی روایت، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ  ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لم یکن یحجزہ عن القراٰن شئ لیس الجنا بۃ۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی چیز قرآن کی تلاوت سے نہ روکتی تھی سوائے جنابت کے ‘‘۔ (ابو داؤد، نسائی، ترمذی)۔ 
(3) ابن عمرؓ کی روایت، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا تقرأ الحائضالجنب شیئاً من القراٰن۔ ’’ حائضہ اور جنبی قرآن کا کوئی حصہ نہ پڑھے ‘‘۔ (ابوداؤد۔ ترمزی)
(4) بخاری کی روایت، جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیصر روم ہرقُل کو جو نامہ مبارک بھیجا تھا اس میں قرآن مجید کی یہ آیت بھی لکھی ہوئی تھی کہ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِتَعَا لَوْا اِلیٰ کِلِمَۃٍ سَوَآءٌ بَیْنَنَاوَبَیْنَکُمْ …………    
صحابہؓ و تابعین سے اس مسئلے میں جو مسالک منقول ہیں وہ یہ ہیں: 
حضرت سَلْمان فارسیؓ وضو کے بغیر قرآن پڑھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، مگر ان کے نزدیک اس حالت میں قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہ تھا۔  یہی مسلک حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہؓ بن عمر کا بھی تھا۔  اور حضرت حسن بصری اور ابراہیم نخعی بھی وضو کے بغیر مصحف کو ہاتھ لگانا مکروہ سمجھتے تھے (احکام القرآن للجصاص)۔ عطاع اور طاؤس اور شعبی اور قاسم بن محمد سے بھی یہی بات منقول ہے (المغنی لا بن قدامہ)۔ البتہ قرآن کو ہاتھ لگا ئے بغیر اس میں دیکھ کر پڑھنا، یا اس کو یاد سے پڑھنا اس سب کے نزدیک بے وضو بھی جائز تھا۔ 
جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن پڑھنا حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت حسن بصری، حضرت ابراہیم نخعی اور امام زہری کے نزدیک مکروہ تھا۔ مگر ابن عباسؓ کے رائے یہ تھی اور اسی پر ان کا عمل بھی تھا کہ قرآن کا جو حصہ پڑھنا آدمی کا معمول ہو وہ اسے یاد سے پڑھ سکتا ہے۔ حضرت سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر سے اس مسئلے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، کیا قرآن اس کے حافظہ میں محفوظ نہیں ہے؟ پھر اس کے پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ (المغنی۔ اور المھلّٰی لا بن حزم)۔ 
فقہاء کے مسالک اس مسئلے میں حسب ذیل ہیں: 
مسلک حنفی کی تشریح امام علاء الدین الکاشا نی نے بدائع الصنائع میں یوں کی ہے : ‘‘ جس طرح بے وضو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح قرآن مجید کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر وہ غلاف کے اندر ہو تو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے۔ غلاف سے مراد بعض فقہاء کے نزدیک جلد ہے اور بعض کے نزدیک وہ خریطہ یا  لفافہ یا جزدان ہے جس کے اندر قرآن رکھا جاتا ہے اور اس میں سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔ اسی طرح تفسیر کی کتابوں کو بھی بے وضو ہاتھ نہ لگانا چاہیے، ’’کسی ایسی چیز کو جس میں قرآن کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو۔ البتہ فقہ کی کتابوں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ ان کو بھی نے وضو ہاتھ نہ لگایا جائے، کیونکہ ان میں بھی آیات قرآنی بطور استدلال درج ہوتی ہیں۔ بعض فقہائے حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ مصحف کے صرف اس حصے کو بے وضو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے جہاں قرآن کی عبارت لکھی ہوئی ہو، باقی رہے حواشی تو خواہ وہ سادہ ہوں یا ان میں بطور تشریح کچھ لکھا ہو ہو، ان کو ہاتھ لگانے میں مضائقہ نہیں۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ حواشی بھی مصحف ہی کا ایک حصہ ہیں اور ان کو ہاتھ لگانا مصحف ہی کو ہاتھ لگانا ہے۔ رہا قرآن پڑھنا، تو وہ وضو کے بغیر جائز ہے ‘‘ فتاویٰ عالمگیری میں بچوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم کے لیے قرآن مجید بچوں کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے خواہ وہ وضو سے ہوں یا بے وضو۔ 
مسلک شافعیؓ کو امام جودی نے المنہاج میں اس طرح بیان کیا ہے، ’’نماز اور طواف کی طرح مصحف کو ہاتھ لگانا اور اس کے کسی ورق کو چھونا بھی وضو کے بغیر حرام ہے۔ اسی طرح قرآن کی جلد کو چھونا بھی ممنوع ہے۔ اور اگر قرآن کسی خریطے، غلاف یا صندوق میں ہو، یا درس قرآن  کے لیے اس کا کوئی حصہ تختی پر لکھا ہوا ہو تو اس کو بھی ہاتھ لگانا جائز نہیں۔ البتہ قرآن کسی کے سامان میں رکھا ہو، یا تفسیر کی کتابوں میں لکھا ہوا ہو، یا کسی سکہ میں اس کا کوئی حصہ درج ہو تو اسے ہاتھ لگانا حلال ہے۔  بچہ اگر بے وضو ہو تو وہ بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اور بے وضو آدمی اگر قرآن پڑھے تو لکڑی  یا کسی اور چیز سے وہ اسو کا ورق پلٹ سکتا ہے۔‘‘
مالکیہ کا مسلک جو الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے ساتھ وہ اس امر میں متفق ہیں کہ مصحف کو ہاتھ لگانے کے لیے وضو شرط ہے۔ لیکن قرآن کی تعلیم کے لیے وہ استاد اور شاگرد دونوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں۔ بلکہ حائضہ عورت کے لیے بھی وہ بغرض تعلیم مصحف کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیتے ہیں۔ ابن قدامہ نے المغنی میں امام مالکؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جنابت کی حالت میں تو قرآن پڑھنا ممنوع ہے، مگر حیض کی حالت میں عورت کو قرآن پڑھنے کی اجازت ہے، کیونکہ ایک طویل مدت تک اگر ہم اسے قرآن پڑھنے سے روکیں گے تو وہ بھول جائے گی۔ 
حنبلی مذہب کے احکام جو ابن قدامہ نے نقل کیے ہیں یہ ہیں کہ۔ ’’جنابت کی حالت میں اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن یا اس کی کسی پوری آیت کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ بسم اللہ، الحمد للہ وغیرہ کہنا جائز ہے، کیونکہ اگر چہ یہ بھی کسی نہ کسی آیت کے اجزاء ہیں، مگر ان سے تلاوت قرآن مقصود نہیں ہوتی۔ رہا قرآن کو ہاتھ لگانا، تو وہ کسی حال میں وضو کے بغیر جائز نہیں، البتہ قرآن کی کوئی آیت کسی خط یا فقہ کی کسی کتاب، کا کسی اور تحریر کے سلسلے میں درج ہو تو اسے ہاتھ لگانا ممنوع نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن اگر کسی چیز میں رکھا ہوا ہو تو اسے وضو کے بغیر اٹھایا جا سکتا ہے۔ تفسیر کی کتابوں کو ہاتھ لگانے کے لیے بھی وضو شرط نہیں ہے۔ نیز بے وضو آدمی کو اگر کسی فوری ضرورت کے لیے قرآن کو ہاتھ لگانا پڑے تو وہ تیمم کر سکتا ہے۔‘‘ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں مسلک حنبلی کا یہ مسئلہ بھی درج ہے کہ بچوں کے لیے تعلیم کی غرض سے بھی وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے اور یہ ان کے سرپرستوں کا فرض ہے کہ وہ قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے پہلے انہیں وضو کرائیں۔

 داود الظاہری اور ابن حزم کے  مطابق قرآن پڑھنا اور اس کو ہاتھ لگانا ہر حال میں جائز ہے خواہ  آدمی نے وضو ہو، یا جنابت کی حالت میں ہو، یا عورت حیض کی حالت میں ہو۔ ابن حزم نے المحلّٰی (جلد اول، صفحہ 77 تس 84) میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جس میں انہوں نے اس کی صحت کے دلائل دیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ فقہاء نے قرآن پڑھنے اور اس کو ہاتھ لگانے کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن)
اب سمارٹ فون اور ٹیبلٹ میں ڈیجیٹل قرآن ڈونلوڈ کیا جاتا ہے، اس  کو چھونے یا تلاوت کے متعلق کچھ علماء کے مطابق وضو کی کوئی پابندی نہیں کیوں کہ وہ اس کو محصف نہیں سمجھتے، جبکہ کچھ علماء اس کو بھی محصف سمجھتے ہیں-
اس تمام بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر مختلف آراء اور دلائل موجود ہیں- قرآن میں نماز کے لیے وضو واضح ہے- جبکہ "ذکر" (جس میں تلاوت قرآن شامل ہے) کے لیے ایسا حکم نہیں ملتا- مسلمانوں کو قرآن سے قربت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس پر غور و فکر اور تدبر کریں اور عمل بھی- ترجمہ کے ساتھ پڑھیں-

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿ سورة الأنفال٢٢﴾

یقیناًاللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22
سورة الأنفال)

واللہ تعالیٰ اعلم 
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall near 3 Million visits/hits

No comments: