باب - 8
قرآن - ابدی نشانی (معجزہ)
قدیم دور میں، اللہ تعالیٰ نےاپنے رسولوں کو ان کی رسالت کے ثبوت کے طور پرمعجزات عطا کیا کرتا تھا، بہت سے لوگ ان پر یقین رکھتے مگر کئی لوگ ان کا انکار کرتے- معجزہ کو انسانی منطق اوردلیل پرسبقت حاصل تھی۔ عام تعریف معجزہ کی یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو عام زندگی کے بر خلاف ہو اور جس کی انسان کے پاس کوئی تشریح نہیں ہوتی۔ بعض جاہل لوگ نبیوں سے عجیب و غریب مطالبات کرتے: "نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ایسی ہی باتیں اِن سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تہے اِن سب (اگلے پچھلے گمراہوں) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں یقین لانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں" ( قرآن2:118)
الله نے آدم سے لیے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک انسانوں کی ہدایت کے لیئے پیغمبر بھیجے جوصرف اپنی قوم کی رہنمائی کے لیئے تھے اور ان کا پیغام خاص زمانے اور علاقے کےلحاظ سے محدود تھا-اسی وجہ سے ان رسولوں اور انبیاء کو اللہ کی طرف سے ان کی رسالت و نبووت کے ثبوت کے طور پر ان حالات کے مطابق معجزات عطا کیئے جاتے رہے، مگرلوگوں کی شدید جہالت اورگمراہی کی وجہ سے ان کے اثرات دیر پا نہ تھے - کچھ لوگوں نے معجزات کو جادو کہہ کر مسترد کر دیا-
حضرت موسی علیہ السلام اسرائیلیوں کو مصر سے محیرالعقول معجزات اور عجائبات کے بعد نکال کر لائے، لیکن مصیبت سے نجات کے فورا بعد ہی اسرائیلی نافرمان ہو گئے اور بچھڑے کی پرستش میں ملوث ہو گئے-اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الله کی طاقت سے بہت معجزات دیکھائےمگر یہودیوں نے آپ کا انکار کیا-
الله کا ارشاد ہے: "اور ہم نے اس لیےمعجزات بھیجنے موقوف کر دیےکہ پہلوں نے انہیں جھٹلایا تھا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی کا کھلا ہوا معجزہ دیا تھا پھر بھی انہوں نے اس پر ظلم کیا اور یہ معجزات تو ہم محض ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں"( قرآن17:59)-
الله کا طریقه ہے کہ اگر لوگ ثبوت کے طور پر معجزات کا مطالبہ کریں، اور جب معجزات ظہور پزیر ہونے کے بعد،ایمان لانے سے انکار کریں تو وہ الله کی طرف سے سزا اور عذاب کے مستحق ہوتے ہیں، ان پر مختلف طرح سے عذاب نازل ہوتا ہے-
مگر بائبل (انجیل) میں معجزات کو سچائی کے ثبوت سے مستثنیٰ قرار دیا. حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : "کئی جھو ٹے نبی آکر بہت سے لوگوں کو فریب دینگے۔(متی24:11)؛ "خدا کے منتخب لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے ممکن ہے جھوٹے مسیح اورجھوٹے نبی آئینگےاورمعجزےظاہر کرینگے۔ان وجوہات کی بناء پر باخبر رہو۔ ان تمام باتوں کے واقع ہو نے سے پہلے ان تمام کے بارے میں تم کو انتباہ کرتا ہوں۔"(مرقس 13:22،23) "تیرے ہی نام سے ہم نےبد رُوحوں کو چھڑایا ہے اور مختلف غیر معمولی کا موں کو انجام دیا ہے۔ لیکن میں صاف طور پر ان سے کہہ دوں گاکہ اے بد کار لوگو!مجھ سے دور ہو جاؤمیں نے تمہیں کبھی نہیں جا نا ؟"( متی 7:22،23)-
قدیم زمانے میں نبیوں کے معجزات، جن کو اس دور کے لوگوں نے دیکھا، دلیل اور حجت بن سکتے تھے مگر آج کے زمانہ میں ان کو ثابت نہیں کیا جاسکتا- موجودہ دور کے بہت سے عیسائی اور یہودی، بائبل کےانبیاء کی طرف سےمعجزات پر یقین نہیں رکھتے، وہ ان کو دیومالائی داستانیں اور قصے سمجھتے ہیں، کچھ لوگ عقلی اورسائنسی دلائل کے ذریعے معجزات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) الله کے آخری پیغمبر تھے، ان کو پوری بنی نوع انسانی کی ابدی ہدایت کے لیئے بھیجا گیا: "اے محمدؐ، کہو کہ "اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے"(قرآن 7:158)
آخری پیغمبرکے لیئے معجزہ بھی ایسا ہونا چاہیئے جو ابدی، ہر زمانہ کے لیئے- اسلامی تاریخ اور روایات میں درج ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے کئی معجزات ظہور پزیر ہوئے،جن پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں- مگر الله تعالی نے حکمت الہی سے اپنے آخری رسول اور نبی کے ذریعے ہمیشہ رہنے والی نشانی (معجزہ) قرآن نازل فرمایا جسے کہیں بھی کوئ شخص خود پڑھ کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ قرآن، اللہ کا سچا کلام ہے جوابدی دنیا تک انسانیت کے لئے رہنمائی، روشنی اور حکمت کی آخری کتاب ہے:
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں، (برائی سے ) بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔ )قرآن (2:2;
"اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں"(قرآن6:19)؛ "اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس آتا ہے۔ یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی جانب سے دانش وبصیرت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے""(قرآن 7:203)
اسلام استدلال، مباحثے اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے-
قرآن کائنات کے مقصد، تخلیق اور وجود کی وجہ، اساس اور منطقی دلائل فراہم کرتا ہے- یہ خدا کی ابدی نشانی اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سچائی کا کھلا ثبوت ہے:
"اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے"(قرآن ؛ 16:125)
الله فرماتا ہے:"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم نےتمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے سو جو لوگ الله پر ایمان لائے اور انھوں نے الله کومظبوط پکڑا انہیں الله اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ دکھائے گا"(قرآن 4:174، 175)
قرآن پاک میں چھ ہزارسے زائد آیات ( نشانیاں) ہیں، قرآن کی ہرآیت ہمارے رب کی طرف سے ایک نشانی ہے ، جو اس کے موجد کی عظمت کی شہادت ہے-
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) 'امی' (ناخواندہ) تھے:
"وہ لوگ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں اور جو نبی امی ہے جسے اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اوران کے لیے سب پاک چیزیں حلا ل کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں اتارتا ہے جو ان پر تھیں سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت کی اور اسے مدد دی اور اس کے نور کے تابع ہو ئے جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے یہی لوگ نجات پانے والے ہیں"( قرآن 7:157)
قرآن وحی ہے جو عربی میں نازل ہوا، اس کی بلاغت اور خوبصورتی بے مثال ہے،جو ایک ان پڑھ کے منہ سے نکلا (29:12 یسعیاہ)یہ ایک معجزہ ہے-
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت اور 'قرآن'(لوگوں سے وہی کہے گا جو میرا حکم ہو گا) کی پیشنگوئی کا ذکر بائبل میں موجود ہے: "میں تمہا ری طرح ایک نبی اُن کے لئے بھیج دوں گا وہ نبی انہی لوگوں میں سے کو ئی ایک ہو گا۔ میں اسے وہ سب بتا ؤں گا جو اسے کہنا ہو گا اور وہ لوگوں سے وہی کہے گا جو میرا حکم ہو گا۔ یہ نبی میرے نام پر بولے گا اور جب وہ کچھ کہے گا تب اگر کو ئی شخص میرے احکام کو سننے سے انکار کرے گا تو میں اس شخص کو سزا دو ں گا۔" (استثنا18:18,19)
قرآن کا عالمگیر چیلنج کہ؛'ایک بھی آیت قرآن کی طرح پیدا کرکہ دکھاؤ ، ابھی تک لا جواب ہے اور لاجواب رہے گا (قرآن؛ 2: 23)
قرآن پاک دنیاکی واحد مقدس کتاب ہےجو اپنی اصل نازل شدہ حالت میں بنی نوع انسانیت کی رہنمائی کے لئے دستیاب ہے اورہمیشہ دستیاب رہے گی کیونکہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خد اٹھا رکھی ہے:
"بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں" (قرآن ;15:9)-
قرآن ہی صرف ایک ایسی مقدس کتاب الہی ہے جس کوچودہ سو سال سے ہر عمر، قومیت، رنگ، نسل اور مختلف پیشہ ورمسلمان کثیر تعداد میں (ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان،طالب علم، مزدور، علماء اور عام لوگ)تمام دنیا میں حفظ کرتے ہیں- اس وجہ سے قرآن درست طریقے سے نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آیا ہے - اگر تمام دنیا کی کتابیں ختم ہو جایئں تو قرآن وہ واحد کتاب ہے جس کو بیک وقت تمام دنیا کے ہر علاقہ میں فوری طور پر دوبارہ اصل حالت میں لکھا جا سکتا ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہر گاؤں، شہر میں حفاظ قرآن موجود ہوتے ہیں، جو مل کر قرآن کو دوبارہ پیش کر سکتے ہیں- اگرچہ مسیحی تعداد میں زیادہ ہیں مگر قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے. پیو ریسرچ سینٹر (Pew Research Centre) کی رپورٹ کے مطابق اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے۔ اگر اس کی موجودہ ترقی کی شرح 2050 کے بعد بھی برقرار رہی تو 2070 تک دنیا میں سب سے زیادہ لوگ مسلم کمیونٹی کے ہوں گے، جن کی کل تعداد 2.8 ارب ہوگی-
قرآن اور سائنس ایک طویل موضوع ہے جس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں- قرآن الله کا کلام ہے جو وحی کے زریعہ نازل ہوا- اس کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے کسی ترقی پزیر سائنسی علم کی مدد لینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے- ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے اس لئے سائنس سے متعلق قرآنی آیات کو سمجھنے لئے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ سائنسی طور پرغیرثابت شدہ، قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے لا حاصل بحث سے گریز بہتر ہے- قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق گزشتہ چند صدیوں کے دوران آشکار ہوئے- سائنس ایک ترقی پزیر علم ہے، علمی معلومات میں اضافہ قیامت تک جاری رہے گا- اب تک سائینس کا علم اس درجہ انتہا تک نہیں پہنچا کہ وہ قرآن میں سائینس کے متعلق بیان کردہ تمام معلومات کی تصدیق کر سکے-
ممتاز سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق اگرفرض کریں کہ قرآن میں جو سائینس کے متعلق ذکر کیا گیا ہےاس کا 80 فی صد 100 فیصد درست ثابت ہو چکا ہے ،جبکہ بقیہ 20 فی صد کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کھا جا سکتا کیونکہ ابھی تک سائینس کا علم اس درجہ تک نہیں پہنچ سکا کہ وہ باقی 20 فیصد پر کچھ کہہ سکے - آج تک معلوم محدود سائینسی علم کی بنیاد پر کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس بقیہ 20 کا صرف ایک فیصد یا قرآن کی کوئی ایک آیت غلط ہے- لہٰذا, اگر 80 فیصد قرآن 100 فیصد درست ثابت ہو چکا اور بقیہ 20 فی صد غلط ثابت نہیں ہو سکا تو منطقی طور پر یہ کھا جا سکتا ہے کہ باقی فی صد بھی درست ہی ہو گا-
قرآن 'سائنس' کی کتاب نہیں بلکہ (signs) 'نشانیوں' (آیات) کی کتاب ہے- قرآن میں ایک ہزار سے زائد ایسی آیات موجود ہیں جو سائنس کے مختلف موضوعات،مثلا فلکیات، طبیعیات، جغرافیہ، ارضیات، حیاتیات، نباتیات، حیوانیات، طب، فزیالوجی،رویان شناسی، سمندری علوم اور جنرل سائنس وغیرہ سے متعلق ہیں-ان آیات میں بیان کردہ حقائق حیرت انگیز طور پر جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں- چودہ سوسال قبل جب وحی کا نزول ہورہا تھا انسانوں کا علم ان موضوعات پرعنقا یا بہت محدود تھا, اللہ نے فرمایا : "ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔"
( 41:53قرآن)
فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نا م ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ ماڈل میں ایک خیال ہے جس کے مطابق ابتداء میں شاید یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ منظم کہکشائوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشا ئیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنا ت کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔ قرآن پاک درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنا ت کے متعلق بتایا گیا ہے:
’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا(Big Bang) ، اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘(قرآن 21:30)
"پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا "وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو" دونوں نے کہا "ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح"(قرآن41:11)
’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘(قرآن 47:51)
"جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا" (قرآن 87:2)
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے"
(قرآن49:13)
بچے کا حمل سے پیدائش تک پیچیدہ عمل ترتیب کےساتھ حال ہی میں دریافت ہوا ہے جو درست طریقے سے قرآن میں بیان کیا گیا- (قرآن ;23:13-14)
سوال اٹھتا ہے کہ؛ کس طرح 1400 سال قبل ایک ان پڑھ شخص جس کی پرورش تہذیب اور علم کے مراکز سے بہت دورپسماندہ عرب صحرائی علاقہ میں ہوئی ہو، ایسی درست سائینسی معلومات مہیا کرے جو دورحاضر میں دریافت ہوئی ہوں؟ یہ صرف الله ، واحد خالق کائنات ہے جودرست سائینسی معلومات مہیا کر سکتا ہے- لہٰذا اگرقرآن میں سائینسی معلومات کا تذکرہ درست ہے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن میں موجود غیر طبیعاتی،غیبی اور روحانی معلومات مثلآ ؛ الله کا وجود، فرشتے، ايمان بالآخرة (حیات بعد ازموت،انصاف، فیصلے، جنت، جہنم، روح اور انسانوں کی حتمی تقدیر) بھی درست ہیں- ( https://goo.gl/z0jlXa)
انسان قرآن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر وہ اس پر غور و فکر کریں ( قرآن 38:29)- الله فرماتا ہے: " کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی"( قرآن 4:82)
قرآن کی بہت سی پیشنگوئیاں پوری ہوئیں جن کی صداقت تاریخی روایات ، تازہ ترین تحقیق اور آثار قدیمہ سے حاصل ثبوتوں سے ثابت ہوئی-
قرآن میں ربط حیرت انگیز ہےجو اس کے کلام الہی ہونے کو ثابت کرتا ہے- قرآن میں موجود بے شمار'اندرونی شواہد' ثبوت فراہم کرتا ہے، ایک مثال پیش ہے:
قرآن ایک مختصر جملے میں عیسائیوں کو آدم کے متعلق یاد دلاتا ہے:جس کا نہ باپ تھا نہ ماں، اس طرح آدم خدا کا بیٹا نہیں بن جاتا، اس طرح سے آدم اور عیسیٰ میں مماثلت ہے کہ وہ کچھ نہیں سےکچھ، یعنی الله کے غلام بن گئے-(قرآن ;3:59)-
عیسی اور آدم علیہ السلام میں ایک مساوات قائم کی گئی جس کے لیئے عربی لفظ (مثل) استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب کے 'مماثلت'- کھا گیا کہ عیسی اور آدم برابر ہیں- قرآن میں انڈیکس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نام 'عیسیٰ' قرآن میں 25 مرتبہ آیا ہے اس طرح سے نام 'آدم' بھی 25 مرتبہ آیا ہے- ڈاکٹرگیری ملر اپنی کتاب (' 'Amazing Quran) میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ اگر اس طریقه کو مزید بڑھائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں 8 جگہ قرآن کی آیات میں ذکر ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں کی طرح ہے، اس مماثلت (مثل) پر مزید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک کا ذکر 110 مرتبہ ہے تو اس کے مماثلت چیز یا بات کا ذکر بھی 110مرتبہ پایا جاتا ہے- اس طرح سے سکرپٹ میں 'ربط' پیدا کرنا آج کے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں بھی خاصہ مشکل ہے، مگر 1400سال قبل اس کا تصور بھی محال ہے کہ ایک ان پڑھ شخص 23 سال کے طویل عرصہ میں مختلف جگہوں، مقامات اور مختلف حالات میں چھوٹے اور بڑے ٹکروں میں کتاب لکھوا رہا ہو، جب اچانک مومنین یا کفارکے سوالات کے جواب میں وحی نازل ہو رہی ہو! یہ حیرت انگیز ہے، کوئی شک نہیں کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے جو خالق واحد، الله کے وجود کا کھلا ثبوت ہے-
قرآن خدا کی واحدنیت کی طرف مدلل طریقه سے توجہ مبذول کراتا ہے- کچھ آیات یہاں پیش ہیں:
الله پر بغیر دیکھے ایمان : (7:143 قرآن)
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿2:3﴾
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس مںل کوئی شک نہںَ ہدایت ہےبرائی سے بچنے والے لوگوں کے لے (2) جو غیب پر ایمان لاتے ہں ، نماز قائم کرتے ہں ، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس مںْ سے خرچ کرتے ہںے (2:3قرآن)
کاینات کا خالق الله تعالی ہے :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿١١٧﴾
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ "ہو جا" اور وہ ہو جاتی ہے (2:117قرآن ،مزید:3:47,3:59,6:73,16:40,19:35,36:82,40:68)
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ﴿٣٥﴾أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ ﴿٣٦﴾
کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟ (35) یا زمین اور آسمانوں کو اِنہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے (52:36)
یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے (2:20 قرآن)
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾
جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے واﻻ ہے (67:2 قرآن )
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٨﴾
تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ( قرآن 2:28)
وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿١١٥﴾
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے (2:115قرآن)
وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا ﴿١٢٦﴾
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے (4:126 قرآن)
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٩٣﴾
اِن سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لو گے، اور تیرا رب بے خبر نہیں ہے اُن اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو ( قرآن27:93)
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
﴿٥٣﴾
ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ برحق ہے اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے (41:53 قرآن)
أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ﴿٢٠﴾
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ اِس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب (قرآن 31:20)
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (30:30 قرآن )
انڈکس
برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt
..............................................................
No comments:
Post a Comment