شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو عید الفطر اور ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو عید الاضحی یعنی قربانی کی عید منائی جاتی ہے۔ یہ دونوں دن اسلام میں خوشی کے دن ہیں، جن میں دودو رکعت نماز بطور شکر کے پڑھی جاتی ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں اہل مدینہ کے لیے دو دن خوشی کے مقرر تھے جن میں وہ لہو ولعب میں مشغول ہوتے تھے اور خوشیاں منایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک دن ’’نو روز‘‘کا تھا اور دوسرا دن ’’مہرجان ‘‘کا ۔ نو روز کے دن آفتاب برج حمل میں جاتا ہے اور مہر جان کے دن برج میزان میں داخل ہوتا ہے ۔ ان دونوں دنوں میں آب وہوا چونکہ معتدل ہوتی ہے اور رات دن برابر ہوتے ہیں، اس لیے ان دنوں کو لوگوں نے خوشی منانے کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ جب اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں ان دنوں سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان دنوں سے بہتر دن عنایت فرمائے ہیں ، تم عیدین کے ان بابرکت دنوں میں خوشی مناسکتے ہو۔
عید الاضحی یعنی قربانی کی عید کا فلسفہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے خواب کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے پر تیار ہوگئے ۔سورۂ صا فا ت میں ہے:
’’پس جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا اس نے کہا ،اے میرے بیٹے ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کررہا ہوں تو غور کر لو تمھاری کیا رائے ہے۔ اس نے جواب دیاکہ اے میرے باپ ، آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس کی تعمیل کیجیے۔آپ ان شاء اللہ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔پس جب دونوں نے اپنے تئیں اپنے رب کے حوالے کر دیا اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا اور ہم نے اس کو آواز دی:اے ابراہیم ،بس، تم نے خواب سچ کر دکھایا۔بے شک ہم خوب کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔بے شک یہ کھلا ہوا امتحان تھا اور ہم نے اس کی ملت پر پچھلوں میں ایک گروہ کو چھوڑا۔ سلامتی ہو ابراہیم پر اسی طرح ہم خوب کاروں کو صلہ دیتے ہیں۔‘‘ (۱۰۲ ۔ ۱۱۰)
حضرت ابراہیم کی اس امتحان میں کامیابی کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے ۔ اس کی تحسین اللہ تعالیٰ نے ’’قد صدقت الرؤیا‘‘ کے شان دار الفاظ سے کی۔ہم مسلمان اپنے جدامجد کی اپنے رب کے حضور تسلیم ورضا کی علامتی پیروی میں ہر سال اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کرتے ہیں ۔ اس موقع پر یہ لازم ہے کہ اپنے رب کے آگے تسلیم ورضا کے تجدیدعہد کے لیے ہم شعوری طور پر ایسا کریں۔
عید الفطر کے موقع پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے ، البتہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے بعد کچھ تناول فرماتے، کیونکہ غربا ومساکین کو گوشت تو قربانی کے بعد ملتا ہے ، اس لیے نبی کریم خود بھی کھانے پینے میں تاخیر کرتے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے پس ماندہ طبقے کی عزت و احترام اور دل جوئی اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ احادیث نبوی کی روشنی میں ہم نماز عیداور قربانی کے بارے میں ضروری باتیں یہاں درج کر رہے ہیں :
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدکے دن عید گاہ تشریف لے جاتے تو واپس دوسرے راستے سے آتے تھے۔‘‘ (دارمی)
عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں تکبیر یعنی ’اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر ، لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد‘ پڑھتے رہنا چاہیے۔
حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عبداللہ سے روایت ہے :
’’نہ عیدالفطر کی نماز کی اذان دی جاتی ہے اور نہ بقر عید کی نماز کی۔‘‘ (مسلم)
عیدین کی نماز دو رکعت ہے جس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا پہلی رکعت میں تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثنا پڑھ کر تین تکبیریں کہے ،تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ کر سورۂ فاتحہ اور کوئی دوسری سورہ پڑھے۔ دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیریں کہے اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور دوسری رکعت مکمل کر لے۔عیدین کی نماز میں خطبہ نماز کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو جمعہ اور عیدین کی نماز میں شریک ہونے کی بہت تلقین کی ہے اور کسی عذر کے لاحق ہونے کی صورت میں فرمایا کہ کم از کم خطبہ ہی سن لیا کرو ، اس طرح دین کے بارے میں آگہی پیدا ہوتی ہے۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں :
’’ میں عید کے دن حضور اکرم کے ہمراہ نماز میں شریک ہوا ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان وتکبیر کے بغیر خطبہ سے پہلے نماز شروع فرمائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو (خطبہ کے لیے) حضرت بلال کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وتسبیح بیان فرمائی ۔ لوگوں کو نصیحت کی اور انھیں عذاب وثواب (کے احکام ) یاد دلائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے کی ترغیب دلائی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے حضرت بلال بھی آپ کے ساتھ تھے ۔آپ نے عورتوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا،ان کو نصیحت کی اور انھیں عذاب وثواب (کے احکام )یاد دلائے۔ ‘‘ ( نسائی)
قربانی چونکہ خدا کے سامنے تسلیم ورضا اور اس کی اطاعت کا علامتی اظہار ہے ، اس لیے ان احساسات کو شعوری طور پر الفاظ میں بھی ادا کرنا چاہیے۔قرآن مجید میں ہے :
’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون ، بلکہ اس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (الحج۲۲: ۲۲۔۳۷)
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کے دن دودنبے ذبح کرنا چاہے ۔ آپ نے ان کا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ دعا پڑھی:
انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض علی ملۃ ابراھیم حنیفاً وما انا من المشرکین ان صلاتی ونسکی و محیای ومماتی للّٰہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت وانا من المسلمین اللھم منک ولک . (ابو داؤد)’’میں اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا،اس حال میں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں جو توحیدکو ماننے والے تھے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز،میری تمام عبادتیں، میری زندگی،اور میری موت (سب کچھ) اللہ ہی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا پروردگار ہے اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمان ہوں۔اے اللہ یہ قربانی تیری عطا سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لیے ہے۔‘‘
اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کے لیے بہترین جانور کا انتخاب کرنا چاہیے۔حضرت علی فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (قربانی کے جانورکی )آنکھ اور کان کو اچھی طرح دیکھ لیں(کہ ایسا کوئی عیب اور نقص نہ ہوجس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو)۔‘‘ (ترمذی)
عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانور کو نماز کی ادائیگی کے بعد ہی ذبح کرنا چاہیے، نماز سے پہلے جانور کوذبح کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس سلسلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت ہے:
’’حضرت جندب ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں عید قربان کے موقع پر نبی کریم کے ساتھ (عید گاہ ) حاضر ہوا ،ابھی آپ نمازاور خطبہ سے پوری طرح فارغ نہیں ہوئے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ قربانی کا گوشت رکھا ہے اور نماز پڑھنے سے پہلے ہی قربانی ہوگئی ہے ، آپ نے فرمایاکہ جس نے قبل اس کے کہ نمازپڑھے ،(جانور) ذبح کردیا ، اسے چاہیے کہ وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے۔‘‘ (مسلم)
عیدالاضحی کے موقع پر سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دیا جاسکتا ہے؟
قربانی کا گوشت معاشرے کے تمام غربا ،مساکین ،اور مستحق لوگوں کو دیا جاسکتا ہے ، چاہے وہ مسلم ہوںیا غیر مسلم کیونکہ غیر مسلم بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔قرآن مجید اور احادیث میں جہاں بھی صدقہ و خیرات کی ترغیب دی گئی ہے ، وہاں مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ۔سورۂ بقرہ میں ہے:
’’وہ اپنے مال ،اس کی محبت کے باوجود،قرابت مندوں،یتیموں،مسکینوں،مسافروں،سائلوں اور گردنیں چھڑانے یعنی (غلام آزاد )کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (۲: ۱۷۷)
جب ہم اس طرح کسی غیر مسلم کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں گے تو ان کے دل میں قربانی کے فلسفے کو جاننے اور اسلام کے پیغا م سمجھنے کی ترغیب پیدا ہو گی۔ اور یہ چیز اسلام کی طرف دعوت دینے کا محرک بھی بن سکتی ہے۔
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اگر قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بجائے اتنے ہی پیسے کسی غریب کو دے دیں تو اس میں کیا قباحت ہے ؟ اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے لیے پورا سال ہوتا ہے ،جب بھی کوئی ضرورت مند ہمارے سامنے آئے،ہمیں اپنے حالات ووسائل کے مطابق اس کی مددکرنی چاہیے۔اس کا اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے،قربانی تو در حقیقت حضرت ابراہیم کی سنت کی پیروی میں تجدید عہد ہے کہ ہم اپنے رب کی اطاعت اور تسلیم ورضا کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
کوکب شہزاد
_______
~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:
Also Related:
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits
No comments:
Post a Comment