دو اسلام - ڈاکٹر غلام جیلانی برق



Read in English <<here>>
میں مسلسل چودہ برس تک   حصول علم کے لئے مختلف علماء و صوفیا کے ہاں رہا۔ درس نظامی کی تکمیل کی۔ سینکڑوں واعظین کے وعظ سنے۔ بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں۔ اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ما حاصل یہ ہے:
1۔ فرائض خمسہ یعنی توحید کا اقرار اور صلٰوۃ ، زکوٰۃ، صوم اور حج کی بجا آوری۔
2۔ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا۔
3۔ مختلف رسوم مثلاً جمعرات، چہلم، گیارہویں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا۔
4۔ قرآن کی عبارت پڑھنا۔
5۔ اللہ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا۔
6۔ قرآن اور درود کے ختم کرانا۔
7۔ اُچھل اُچھل کر حق ہو کے ورد کرنا۔
8۔  نجات کے لئے کسی مرشد کی بیعت کرنا۔
9۔ مردوں سے مرادیں مانگنا۔
10۔ مزاروں پر سجدے کرنا۔
11۔ غلیظ لباس کو پیغمبری لباس سمجھنا۔
12۔ سڑکوں اور بازاروں میں سب کے سامنے ڈھیلا کرنا۔
13۔ تعویذوں اور منتروں کو مشکل کشا سمجھنا۔
14۔ آنحضرت کو عالم الغیب نیز حاضر و ناظر قرار دینا۔
15۔ کسی بیماری یا مصیبت سے نجات  حاصل کرنے کے لئے مولوی جی کی ضیافت کرنا۔
16۔ گناہ بخشوانے کے لئے قوالی سننا۔
17۔ غیر مسلم کو ناپاک و نجس سمجھنا۔
18۔ امام ابو حنیفہ کی فقہ پر ایمان لانا۔
19۔ صحاح ستہ کو وحی سمجھنا۔
20۔ تمام علوم جدیدہ مثلاً طبعیات ، ریاضیات، اقتصادیات ، تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا۔
21۔غور و فکر اور اجتہاد  و استنباط کو گناہ قرار دینا۔
22۔ صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانا۔
23۔ ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت  سے نہیں بلکہ دعاؤں سے کرنا مثلاً سوتے وقت یہ دعا پڑھو ۔ اللھم باسمک اموت و احیی خواب میں خواجہ خضر کی زیارت ہو گی۔ جاگو تو بسم اللہ الذی احیانی بعد ما  اماتنی کا ورد کرو  حوریں تمھارا منہ چاٹیں گی سبحان اللہ و بحمد ہ کا جملہ منہ سے نکالو تو  ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ وضو میں منہ دھوتے وقت جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ
کا ورد کرو تو تمھیں حضرت آدم علیہ السلام کے دس لاکھ حج کا ثواب ملے گا۔ نماز کے بعد  لاحول و لاقوۃ پڑھو تو سات آسمانوں اور سات زمینوں جتنا ثواب حاصل ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبردار! "دو اسلام" کتاب پر شدید اعتراضات ہوے سینکڑوں تنقیدی  تبصرے اور کتابیں لکھی گییں. سب سے مشہور مولانا مسعود احمد بی۔ایس۔سی  کی  "تفہیم اسلام بجواب دو اسلام" ہوئی۔ کھا جاتا ہے کہ اس کتاب  کو پڑھ کر غلام جیلانی برق صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور کتاب "تاریخ حدیث" لکھی۔ یہاں تینوں کتب مہیا کر دی گیئ ہیں تاکہ اہل علم اور سچائی کے متلاشی، کھلے دماغ کے لوگ  ساری کتابوں سےاستفادہ کر کہ اپنی آزادانہ راے قایم کر سکیں. تنگ نظر، فرقہ پرست، اندھی تقلید کے شکار لوگ ان کتابوں کو پڑھنے سے گریز کریں. یہ ان کے لیے نہیں.
یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22 قرآن) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب علمائے کرام کے فیض سے میں تعلیمات اسلامی پر پوری طرح حاوی ہو گیا تو  یہ حقیقت بھی مجھ پر واضح ہو  گئی کہ خدا ہمارا، رسول ہمارا، فرشتے ہمارے، جنت ہماری، حوریں ہماری، زمین ہماری، آسمان ہمارا، الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے کے لئے آئی ہیں۔ ان کی دولت ، عیش اور تنعم محض چند روزہ ہے۔ وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دئیے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر  سرمدی بہاروں میں حوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانہ گزرتا گیا  ۔انگریزی  پڑھنے کے بعد علوم جدیدہ کا مطالعہ کیا۔ قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ اقوام و ملل کی تاریخ پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی 128 سلطنتیں مٹ چکی ہیں۔ حیرت ہوئی کہ جب اللہ ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافت عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا۔ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پہ فرونیاں کو کیوں بٹھایا۔ مغلیہ کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا۔ بلغاریہ، ہنگری، رومانیہ سرویہ، پولینڈ، کریمیا، یوکرائین، یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دئیے۔ فرانس سے بیک بینی دو گوش ہمیں کیوں نکالا۔ ٹیونس، مراکو، الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رفع حیرت کے لئے مختلف علماء کے ہاں گیا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے اس مسئلے پر  پانچ سات برس  تک غور و فکر کیا۔ لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ بدقسمتی سے یہ وہ دور تھا جب میں اسلام سے سخت دلبرداشتہ ہو چکا تھا اور سالہاسال سے تلاوت کلام اللہ ترک کر رکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن سحر کو بیدار ہوا۔ اوپر طاق میں قرآن شریف رکھا تھا۔ شغلاً اٹھایا ، کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی۔

 أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ ﴿سورة الأنعام ٦﴾
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا (Qur’an, 6:6)

میری آنکھیں کھل گئیں۔ اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں۔ اور اللہ کی سنت جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا ہوا دیکھا کہ یہ دنیا دار العمل ہے۔ یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں۔ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے۔ جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا۔
لیس للانسان الا ماسعی  ۔ یہاں صرف اپنی کوششیں ہی کام آتی ہیں۔ (القرآن)
میں سارا قرآن پڑھ گیا، اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صلہ نہ دیکھا۔ کہیں بھی زبانی خوشامد کا اجر زمردیں محلات ۔ حوروں اور حجوں کی شکل میں نہ پایا۔ یہاں میرے کانوں نے صرف تلوار کی جھنکار سنی اور  میری آنکھوں نے غازیوں کے وہ جھرمٹ دیکھے جو  شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لئے جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں کود رہے تھے۔ وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا علم ہاتھ میں لئے معانی حیات کی طرف  باانداز طوفان بڑھ رہے تھے۔ اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمالِ جاں افروز پہ رہ رہ کے قربان ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ حدیث و قرآن کی بتائی ہوئی راہوں میں اتنا فرق کیوں ہے۔ احادیث کی تاریخ پڑھی تو منکشف ہوا کہ کہیں تو اعدائے اسلام نے توہین اسلام کے لئے اور کہیں ہمارے ملا نے  قرآن کے تیغ و سناں والے اسلام سے بچنے کی خاطر  تقریباً چودہ لاکھ احادیث وضع کر رکھی ہیں۔ جہاں ایک ایک دعا کا صلہ لاکھ لاکھ محل دیا ہوا ہے۔
اس انکشاف کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ مسلمان ہر جگہ محض اسی لئے ذلیل ہو رہا ہے کہ اس نے قرآن کے عمل، محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کر رکھا ہے۔ وہ اوراد  و اوعیہ کے نشے میں مست ہے۔ اور اس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس۔
اور ساتھ ہی یقین ہو گیا کہ اسلام دو ہیں۔ ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے۔ اور دوسرا وضعی حدیث کا اسلام جس کی تبلیغ پر ہمارے اسی لاکھ مُلا قلم اور پھیپھڑوں کا سارا زور صرف کر رہے ہیں۔
آئیے ذرا اس "حدیثی اسلام" پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں۔
برق
کیمبل پور۔25 ستمبر 1949ء
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
حدیث میں تحریف؟
جب پہاڑ کے دامن سے کوئی چشمہ پھوٹتا ہے تو  اس کا پانی صاف شفاف ہوتا ہے۔ لیکن جوں جوں وہ میدانوں کی طرف  پڑھتا ہے ، خس و خاشاک اور  خاک و غبار کی کی وجہ سے گدلا ہو جاتا ہے۔ یہی حال مذہب کا ہے۔ آج سے 1368 برس پہلے اسلام کا چشمہ دامن فاران سے پھوٹا اور کئی دھاروں میں بٹ کر  مشرق و مغرب کی طرف بڑھا۔ مررورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف الانواع کثافتیں شامل ہوتی گئیں۔ کہیں عیسائیوں کی رہبانیت  اس میں آملی اور کہیں آریوں کا نظریہ حلول و وحدت الوجود، راہ میں کئی تصوف کی دلدلیں آ گئیں اور کہیں کلام و اعتزال کے خاکستان۔ ان مختلف گزر گاہوں سے ہوتا  اور اس طویل راہ گرد کی آلودگیوں کو سمیٹتا ہوا  جب یہ چشمہ ہم تک پہنچا  تو ہم فیصلہ نہ کر سکے کہ یہ الہامی بلندیوں کا مقطر آب تھا یا کسی بدرو کا مکدر پانی۔ اہل نظر لرزے ، اور متلاشیان حق بے تابانہ منبع کی طرف بڑھے۔ تاکہ ان مقامات کا کھوج لگائیں۔ جہاں سے کثافت اس چشمے میں شامل ہو رہی تھی ، سفر لمبا تھا  منزل کٹھن ، راہبر ناپید، خانہ ساز عقائد کی گھٹائیں محیط اور راہ تاریک ماحول میں گُم۔
 ظلمات بعضھا فوق بعض     (ظلمت تہ بر تہ)
بیسیوں جی ہار کر بیٹھ گئے اور کچھ ان ستاروں کی مدھم روشنی میں آگے بڑھتے گئے جو گھٹاؤں کی چلمن سے ان راہ نوردوں کا تماشہ دیکھ رہے۔ جوں جوں وہ بڑھتے گئے۔ گھٹائیں چھٹتی گئیں، ظلمت سرکتی گئی۔ پردے اٹھتے گئے۔ یہاں تک کہ وہ ایسے خطوں میں جا پہنچے جہاں آفتاب الہام کی تجلیوں سے نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں اور دل و دماغ منور۔ ہر حقیقت وہاں عیاں تھی اور ہر راز بے حجاب ، انھوں نے ملت کو بلند آواز سے پکارا اور کچھ کہا۔ یہ آواز چند کانوں سے ٹکرائی اور پھر گونج بن کر دشت کی پنہائیوں میں گم ہو گئی۔

جانتے ہو انھوں نے کیا کہا تھا؟ یہی کہ ہمارے شکم پرست اور خود بین سامریوں نے حرم حقیقت میں سینکڑوں بت بنا رکھے ہیں۔ جن میں ایک کا نام "وضعی احادیث" ہے۔ یعنی وہ اقوال جو لوگوں نے تراش کر حضورؐ کی طرف منسوب  کر دئیے تھے اور آج وہ اقوال رسولؐ کے ساتھ یوں غلط ملط ہو چکے ہیں کہ حق کو باطل سے علیحدہ کرنا ناممکن ہو رہا ہے۔

اس میں کلام نہیں کہ ہمارے بعض علماء نے سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ راویوں کا سراغ لگایا، ان کے حالات جمع کئے بہ اندازہ ہمت تحقیق کی۔ لیکن معاملہ اس قدر الجھ چکا تھا کہ اسے سلجھانا انسانی دسترس سے باہر تھا۔ وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ علم کم تھا ، لکھنے والے محدود اور ذخائر علم معدوم۔ صحابہ کی تمام تر توجہ قیام سلطنت ، نشر اسلام اور  تعمیر ملت پر صرف ہو رہی تھی۔ ان کے پاس خود رسولؐ موجود تھے اور رسولؐ کے بعد آپ کا دیا ہوا مکمل و اتم ضابطہ حیات یعنی قرآن۔

انھیں کیا خبر تھی کہ ڈیڑھ سو سال بعد  لوگ قرآن کو چھوڑ کر احادیث پہ جھک پڑیں گے۔ احادیث کا ذخیرہ بڑھتے بڑھتے چودہ لاکھ تک پہنچ جائے گا۔ ہزارہا اہل غرض لاکھوں احادیث گھڑ کر اس مقدس ذخیرے میں شامل کر دیں گے اور اس وقت مسلمانوں کو صحیح و غلط میں امتیاز کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر انھیں یہ معلوم ہوتا  تو ممکن تھا کہ وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال جمع کر جاتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا۔ اس کی بڑی بڑی وجوہ دو تھیں۔

اول: وہ قرآن کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ جب رحلت سے پہلے حضور نے فرمایا کہ

ایتونی بکتاب و قرطاس اکتب لکم شیاءً لن نضلوا بعدی

لاؤ قلم دوات اور کاغذ میں تمھیں ایک ایسی چیز لکھ کر دے جاؤں کہ میرے بعد تمھاری گمراہی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
تو حضرت عمر ؓ بن خطاب جھٹ بول اٹھے ہمیں مزید کسی تحریر کی ضرورت نہیں ، اس لئے کہ;
حسبنا کتاب اللہ
ہمارے پاس کتاب الٰہی  موجود ہے جس میں انسانی فلاح و نجات کے مکمل گُر درج ہیں ، اور یہ کتاب ہمارے لئے کافی ہے ۔ حضرت فاروق کا یہ جملہ رسالت پناہ کے حضور میں جسارت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ مجبور تھے اس لئے کہ کچھ عرصہ پیشتر  قرآن کی یہ آیت نازل ہو چکی تھی;

الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی

آج میں نے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تمھیں پوری طرح عطا کر دی ہے۔

اس آیت کی رو سے نسل انسانی کی یہ کتاب ہر طرح مکمل اور پوری ہو چکی تھی۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے کسی مزید ہدایت کا انتظار بےکار تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ایمان کا امتحان لے رہے ہوں۔ اس لئے حضرت فاروقؓ کا یہ جواب نہایت برمحل معلوم ہوتا ہے۔

دوم: حضور نے حدیث لکھنے سے روک دیا تھا۔

عن ابی سعید الحذری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تکتبوا عنی و من کتب عنی شیئاً غیر القرآن فلیمحہ (صحیح مسلم)

ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کے بغیر میرا کوئی اور قول قلمبند نہ کرو۔ اور اگر کوئی شخص ایسا قول لکھ چکا ہو تو  اسے مٹا دے۔ 
اور اس کی دو وجہیں تھیں۔

اول: کہ کہیں غلطی سے احادیث قرآن کے متن میں شامل نہ ہو جائیں۔ بعض گذشتہ انبیا کے الہامی صحائف  میں ان کی احادیث بھی شامل ہو گئی تھیں اور کتاب الٰہی  کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔

 دوم: خود رسول کریم صلعم کی زندگی  میں ان کے اقوال محترف ہو چکے تھے اور یہ ہے بھی ایک فطری چیز۔ آدمی کو اپنی کہی ہوئی بات  تک یاد نہیں رہتی ، وہ دوسرے کی کیا یاد رکھ سکتا ہے۔ فرض کرو کہ ایک محفل میں چھ آدمی گھنٹہ بھر گفتگو کرتے رہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اختتام مجلس پر تمام گفتگو بالفاظہ دہرا سکیں ؟ نا ممکن ہے۔ اسی طرح فرض کرو کہ ایک واقعے کو پچاس آدمی دیکھتے ہیں۔ اگر آپ ان کے پاس علیحدہ علیحدہ جا کر اس واقعے کی تفصیل قلمبند کریں، تو  آپ کو ان تفاصیل میں کافی اختلاف  نظر آئیں گے۔ اور اگر  چھ ماہ یا سال بعد  انھی لوگوں کے پاس  جا کر اسی واقعے کی تفصیل دوبارہ قلمبند کریں تو یہ اختلاف اور نمایاں ہو گا۔ اور مرُور زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ تفاصیل یوں بدلتی جائیں گی کہ ان کا تعلق حقیقت سے منقطع ہو جائے گا۔

حضور علیہ السلام انسان کی اس فطری کمزوری سے آگاہ تھے۔ اس لئے آپ نے حکم دے دیا تھا کہ میری حدیث قید کتابت میں مت لاؤ۔ ممکن ہے کہ آپ یہ کہیں کہ انسان اپنے یا اپنے ساتھی کی بات تو بھول سکتا ہے لیکن وہ اپنے رہبر اور محبوب پیمبر کی بات نہیں بھول سکتا۔ میں عرض کروں گا کہ آپ یہاں بھی غلطی پر ہیں۔ آپ میں سے لاکھوں نے اپنے محبوب و محترم  لیڈر حضرت قائد اعظمؒ کی بیسیوں تقاریر سنی ہوں گی۔ جنھیں بعد میں پاکستان ریڈیو نے بھی بارہا دہرایا۔ لیکن آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جنھیں آج ان تقاریر کے تین فقرے بھی یاد ہوں۔ انسان ہے ہی فراموش کا ر ، وہ سنتا ہے اور بھول جاتا ہے۔

 آپ کو تاریخ کا ایک اہم واقعہ یاد ہو گا کہ حضرت فاروقؓ کے زمانے میں عراق کا  قرآن حجاز سے مختلف ہو گیا تھا۔ کیوں؟ اس لئے نہیں کہ کوئی بد نیت تحریف قرآن پہ تل  گیا تھا۔ بلکہ اس لئے کہ ان کے سامنے قرآن کا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا۔ اس لئے بعض آیات حافظہ سے اتر گئیں۔ اور بعض میں کچھ رد و بدل ہو گیا تھا۔ حضرت فاروقؓ نے اس کا علاج یہ کیا کہ قرآن کے کافی نسخے لکھوا کر قلمرو کے مختلف حصوں میں بھیج دئیے اور قرآن تحریف سے محفوظ ہو گیا۔

ابن حزم لکھتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم کی رحلت کے وقت  قرآن شریف کے ایک لاکھ نسخے تیار ہو چکے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ صحابہ کرام عشق خدا میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور ان کا یہ محکم عقیدہ تھا کہ کسی آیت کو غلط پڑھنا اگر کفر نہیں تو فسق یقیناً ہے۔ اگر ان عشاقان خدا کو قرآن کی آیات بھول گئیں تھیں تو حدیث کے بھولنے پہ انھیں کون ملامت کر سکتا تھا۔

آنحضرت صلعم نے کتاب حدیث سے منع فرما دیا تھا۔ اور جو چیز لکھی نہ جائے وہ لازماً پہلے بگڑتی ہے اور بلا آخر مٹ جاتی ہے۔ حضورؐ کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرآن کریم کے بغیر کوئی اور کتاب ہدایت باقی نہ رہے۔ اس لئے حضورؐ اور ان کے صحابہؓ قرآن کو ایک مکمل ضابطہ حیات تصور فرماتے تھے۔ اور اس کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی قطعاً ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ورنہ اگر صحابہ کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال آتا کہ قرآن کی تفصیل، تکمیل، تفسیر یا امت کی رہبری کے لئے حدیث کا زندہ رہنا ضروری ہے تو ان کے لئے حدیث کی تدوین نہایت آسان تھی۔
 جو عمرؓ قرآن کے ایک لاکھ نسخے لکھوا سکتا تھا وہ پانچ چھ ہزار احادیث کا  ایک مجموعہ بھی تیار کرا سکتا تھا۔ تمام صحابہ زندہ تھے ان کی بیشتر تعداد مدینہ میں موجود تھی۔ اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضرت انس بن مالکؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس احادیث کی کافی تعداد لکھی ہوئی بھی تھی۔ راویوں کا لمبا چوڑا جھمیلا بھی نہیں تھا۔ ان حالات میں اگر حضرت صدیقؓ یا فاروقؓ چاہتے تو صرف ایک مہینے میں سرور عالمؐ کے تمام اقوال جمع ہو سکتے تھے۔
لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا۔ کیوں ؟ کیا انھیں اقوال رسولؓ سے معاندت تھی؟ عیاذاً باللہ!  کیا انھیں اسلام سے محبت نہ تھی ؟ استغفراللہ ! بات یہی تھی کہ اقوال رسول میں تحریف ہو چکی تھی۔ نیز رسول اکرم صلعم کا حکم تھا کہ احادیث مت لکھو۔  مزید برآں  انھیں اس حقیقت پر بھی محکم ایمان تھا کہ قرآن ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اس لئے انھوں نے احادیث کو در خور اعتنا نہ سمجھا۔
.................................
 ترکی میں احادیث کی جدید تحقیق اور ترتیب: 
...........................................

علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ پاکستان کے قومی شاعر، جدید مسلم فلاسفر، مفکر، دانشور اور قانون دان کےعلاوہ بانیان پاکستان میں بھی شامل ہیں. ان کی شا عری بہت مشہور ہے مگر مسلمانوں کی فکری تجد ید پر ان کے سات لیکچروں [ Reconstruction of Religious Thought in Islam]  "اسلام میں تفکر کا انداز جدید" پر بہت کم توجہ دی گیئ.  ان لیکچروں کو سمجھنے ،غور و فکر، تجزیہ ،پھہلا ؤ اور بتدریج  عملی اقدام کی ضرورت ہے تاکہ  امت  مسلمہ صدیوں  کے   جمود  سے نکل کر  جدید  دنیا  میں اپنا   حقیقی  مثبت  کردار ادا کر سکے -  علامہ اقبال نے یہ لیکچر مدراس، حیدر آباد، اور علی گڑھ (انڈیا)  میں دیے جو کہ ١٩٣٠ میں کتابی شکل میں شا یع ہوے- تمام لیکچرز انگریزی اور اردو  زبان میں اور ویڈیو لیکچرز  کی شکل میں مہیا کر دی ہیں-
علامہ اقبال کا لیکچر نمبر 6 "اسلام کی تعمیر میں اصول حرکت"; در اصل "اسلام میں تفکر کا انداز جدید" کے تمام لیکچروں میں سب سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ اقبال کا "اسلامی تفکر جدید" کا تصور اسی موضوع کے گرد گھومتا ہے جو کہ "اجتہاد" یعنی قانونی معاملات پر آزادانہ رایے قائم کرنا- قرآن سے ماخوز قانونی اصول، بدلتے  زمانہ اور حالات کے مطابق پھیلاؤ اور ترقی کی صلاحیت رکھتے ہیں-  حضرت عمر رضی اللہ نے حالات کے مطابق اجتہاد کیا. چہار فقہی مکاتب کے بعد اسلامی فقہ جمود کا شکار ہو گیا  کیونکہ مختف وجوہ کی بنا پر اجتہاد کے دروازے بند کر دیے گیۓ. اس سے مسلم امت کو کچھ فائدے مگر نقصانات زیادہ ہوے. ابن تیمیہ ر ح پھر عبد الوہاب ر ح نے جمود کو توڑنے کی کوشش کی .
شاہ ولی اللہ کے مطابق (بنیادی عقاید کے علاوہ) عام شریعیت اس وقت کے معاشرہ کی ضروریات کے مد نظر تھیں اور ان پر عمل ہمیشہ کے لیے حتمی نہیں کہ مستقبل کی نسلوں پرمکمل طور اسی طرح  پر نافذ کیا جا سکے. اس لیے امام ابو حنیفہ نے "استحسان" اختیار کیا- اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ آج کے مسلمان موجودہ حالات کے مطابق اپنی معاشرتی زندگی کی 'تعمیر نو' اسلام کے بنیادی اصولوں کی روح کے مطابق کریں-
 <<چھٹا خطبہ>> اس پر روشنی ڈالتا ہے.مکمل کتاب، لیکچر اردو، انگریزی اور  ویڈیوز << یہاں>> حاصل کریں- تخلیص و ترجمہ : خطبات اقبال - ڈاکٹر خللیفہ حکیم 
...........................................
خبردار! 

دو اسلام" کتاب پر شدید اعتراضات ہوے سینکڑوں تنقیدی  تبصرے اور کتابیں لکھی گییں. مولانا مسعود احمد بی۔ایس۔سی  کی  "تفہیم اسلام"  بجواب" دو اسلام" مشہور ہوئی۔ کھا جاتا ہے کہ غلام جیلانی برق صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور کتاب "تاریخ حدیث" لکھی (٢٠٠٩)-  جس میں تاریخ تدوین  حدیث    کی مختصر  تاریخ  ہے ، مگر صرف  سات سو  غیر  متنازعہ احادیث  جو،  ان  کے  پرانے نقطہ نظر  (قرآن سے مطابقت رکھنے پر مشروط )  بیان  کیں ۔مگر   "حرف  ثانی" کے  مطابق،  ١٩٥٦ تک وہ اپنے نقطہ نظر پر قایم نظر آتے ہیں –(واللہ  عالم) درج ذیل لنک  پر  کتب اور ریفرنس  مہیا کر دی گے ہیں تاکہ اہل علم اور سچائی کے متلاشی، کھلے دماغ کے لوگ  علمی زخیرہ  سےاستفادہ کر کہ اپنی آزادانہ راے قایم کر سکیں. تنگ نظر، فرقہ پرست، اندھی تقلید کے شکار لوگ ان کتابوں کو پڑھنے سے گریز کریں. یہ ان کے لیے نہیں.

یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22 قرآن) 
  • دو اسلام - ڈاکٹر غلام جیلانی برق 
  • تفہیم اسلام جواب، دو اسلام" مولانا مسعود احمد بی۔ایس۔" 
  • تاریخ حدیث - ڈاکٹر غلام جیلانی برق
کتابیں یہاں پڑھیں یا داؤن لوڈ کریں :
حوالہ جات References /Links 

     تبصرے، تنقید  اور خیالات - Controversies & Discussion
    This book created a lot  of controversies, hundreds of books and articles were written, some links can be found below. 
    دو اسلام کے جواب میں سینکڑوں کتب تحریر کی گئیں۔ جن میں سے مولانا سرفراز خان صفدر نے صرف ایک اسلام، مفتی احمد یا خان نعیمی نے ایک اسلام، حافظ محمد گوندلوی نے دوامِ حدیث، مولانا مسعود احمد بی۔ایس۔سی نے تفہیم اسلام بجواب دو اسلام اس کتاب میں مسعود احمد صاحب نے "دو اسلام" کے ایک ایک پیرا کا علیحدہ علیحدہ جواب لکھا ہے۔ کھا جاتا ہے کہ اس کتاب (تفہیم اسلام بجواب دو اسلام) کو پڑھ کر غلام جیلانی برق صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور کتاب تاریخ تدوین حدیث لکھی۔
    غلام جیلانی برق نے اپنی پہلی تین کتب، ایک اسلام، د واسلام، اور دو قرآن سے رجوع کر لیا تھا یا نہیں، اس پر ان کی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی بحث جاری ہے۔ رجوع کے حامی ان کے کچھ مکتوبات جو جیلانی برق کی حیات میں مختلف کتب میں شائع ہوئے، جن میں انھوں نے اپنی کتب کے مندرجات سے رجوع کیا ہے۔اور دیگر کتب میں ان کتب میں پیش کردہ نظریات کے برخلاف دوسرا نقطہ نظر پیش کیا، جیسے تدیون حدیث، اور محدثین کی زندگی پر کتاب لکھ کر۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں دو معروف کالم نویسوں جاوید چودھری ، اوریا مقبول جان کے درمیان بھی یہ بحث جاری ہے:
    1.  http://www.urduweb.org/mehfil/threads/دو-اسلام-از-ڈاکٹر-غلام-جیلانی-برق.89899/page-2 
    2. Controversy: http://javedch.com/javed-chaudhry-urdu-columns/2015/04/28/41732
    3. http://urdu.alarabiya.net/ur/politics/2015/04/26/-دو-اسلام-.html
    4. http://www.urduweb.org/mehfil/threads/برقیائی-گئی-پانچ-اسلامی-و-تاریخی-کتب-۔.30424/page-3
    5. http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/DoIslam.html
    6. دو اسلام از ڈاکٹر غلام جیلانی برق - 1 http://awarafikar.blogspot.com/2016/05/1.html 
    7. https://www.facebook.com/Quddusia/posts/665511020221231 
    8. https://ur.wikipedia.org/wiki/غلام_جیلانی_برق
    9. http://baazauq.blogspot.com/2010/12/inkaar-e-hadees-se-taarikhe-hadees-tak.html
    10. تاریخ حدیث-  ڈاکٹر مرتضیٰ مطھری: http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/Tarikh2.html
    11. تفہیم اسلام  بجواب دو اسلام  http://ia600503.us.archive.org/35/items/Tafheem-e-Islam/Tafheem-e-Islam.pdf  
    12. Dual Islam- English version: http://freebookpark.blogspot.com/2016/05/dual-islam.html

    ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
    بسم الله الرحمن الرحيم
     لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
    شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر. جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا.
    مزید پڑھیں:
    ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
    Humanity, ReligionCultureSciencePeace
     A Project of 
    Peace Forum Network
    Peace Forum Network Mags
    BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
    Overall 2 Million visits/hits

    No comments: