فہم و تدبر قرآن



بسم الله الرحمن الرحيم

لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اسی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) اجمعین پر. جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا.


فہم و تدبر قرآن میں علماء کی اہمیت :
قرآن انسانیت کے لیے ابدی ہدایت ہے، قرآن خود کہتا ہے کہ اسے آسان بنا دیا گیا ہے، لہٰذا کچھ  لوگ سمجھتے ہیں کہ علماء ، شیخ، مولوی ، مفسر قرآن  سےقرآن اور اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، خود ہی قرآن کوپڑھ کر صحیح اسلام پر عمل کیا جاسکتا ہے- (پوسٹ آخر میں موجود)
ایسی سوچ نہ صرف عام فہم (commonsense) کے خلاف ہے بلکہ قرآن و سنت کے بھی خلاف ہے- قرآن صرف ایک ہے عربی میں ، تراجم لاکھوں ہیں ، جو قرآن فہمی میں مدد تو کر سکتے ہیں مگر قرآن کا بدل نہیں ہو سکتے، کیونکہ وہ انسانی کوشش ہے جس میں غلطی کا احتمال رہتا ہے- قرآن میں بہت معاملات میں تفصیلات ہیں اور کئی جگہ صرف بنیادی اصول ہیں تفصیلات نہیں ، نماز ، زکات کا ذکر ہے مگر تفصیل نہیں- مکمل اسلام  قرآن و سنت پر ایمان اور عمل کا نام ہے،  اس کا انکار گمراہی اور جہالت کا راستہ ہے جو دنیا و عاقبت کی تباہی ہے-  قرآن و سنت سے حصول علم دین کے لیے علماء کی ضرورت اور اہمیت بلکل واضح ہے مگر دعوی کے جواب میں دلائل درج زائل ہیں:
[Short link to this post: https://goo.gl/Uv2eHN ]
قرآن :
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (٩:١٢٢ التوبة)
اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں۔ تو اسے (جہالت بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں۔ (٩:١٢٢ التوبة)
قرآن"  اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ (سنّت) اور "علماء و فقہاء" کی پیروی کا ان الفاظ میں حکم دیتا ہے:
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا (4:59)
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.(سورہ-النساء:٥٩)
اس آیات میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے: اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے، اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماع_فقہاء" کہتے ہیں.(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک"مجتہد" کے اجتہاد و استنباط کو "قیاس شرعی" کہتے ہیں.
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧ سورة الفاتحة﴾
ہم کو سیدھے رستے چلا (6) ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے (سورة الفاتحة7)

تدبر و تذکر
قرآن کے (تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ) اور (تَفْصِیْل کُلِّ شَیءٍ) ہونے کے باوجود اس کی تفسیر کی ضرورت اس لیے نہیں کہ قرآن مبہم کلام ہے بلکہ اس لیے کہ قرآن خود تدبر و تذکر کا حکم دیتا ہے۔ مطالعہ قرآن کے دو مقاصد ہیں:
۱۔تدبر
۲۔تذکر
اِرشاد خداوندی ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَاُولُوا اْلاَلْبَابِ۔ (ص، ۳۸:۲۹)
’’(یہ قرآن) برکت والی کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمائی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقل مند لوگ نصیحت قبول کریں۔‘‘
تذکر کے حوالے سے قرآن یوں گویا ہوتا ہے
وَلَقَدْ یَسَّرنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکِرْ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ۔ (القمر، ۵۴:۱۷)
’’اور بے شک ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے قرآن کو آسان کیا، تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا‘‘
اﷲ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
اَفَلَم یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَاءَ ہُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ آبَاءَ ہُمُ الاَوَّلِینَO اَمْ لَمْ یَعْرِِفُوْا رَسُوْلَہُمْ فَہُمْ لَہُ مُنْکِرُوْنَO اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَاءَ ہُمْ بِالْحَقِّ وَ اَکْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ کَارِہُوْنَO
(المؤمنون، ۲۳:۶۸۔۷۰)
’’سو کیا انہوں نے اس فرمان (الٰہی) میں غور و خوض نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی یا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا سو (اس لئے) وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) کو جنون (لاحق) ہو گیا ہے (ایسا ہرگز نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر تشریف لائے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
مذکورہ بالا قرآنی ارشادات کی روشنی میں تفکر و تدبر کا لازمی تقاضا ہی ضرورتِ تفسیر کا جواز فراہم کرتا ہے۔

اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم
ہر شخص کی ذہنی سطح برابر نہیں ہوتی، قرآن حکیم کے مخاطبین جملہ طبقاتِ انسانی ہیں۔ طبقات انسانی کی علمی و فکری استعدادکے اعتبار سے تین اقسام ہیں:
۱۔ ادنیٰ ذہنی سطح رکھنے والے۔
۲۔اوسط ذ ہنی سطح رکھنے والے
۳۔ اعلیٰ ذہنی سطح رکھنے والے
اس لحاظ سے قرآن میں مختلف مقامات پر مختلف مضامین کے حوالے سے روئے خطاب کہیں کسی سطح کے انسانی طبقہ کے لئے اور کہیں کسی اور سطح کے انسانی طبقوں سے ہے۔ سادہ اور عام فہم آیات سمجھنے کے لئے ادنیٰ و اوسط سطح کے علم و فکر رکھنے والے آدمی کو کوئی دقت نہیں ہو گی مگر اعلیٰ اور اونچی سطح کی قرآنی بات سمجھنے کے لئے اپنے سے زیادہ وسیع علم رکھنے والے شخص کی طرف ادنیٰ و اوسط ذہنیت کے حامل احباب کا رجوع ناگزیر ہوجائے گا۔ اس ناگزیریت کے حوالے سے قرآن خود لوگوں کو صاحبان علم کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَسْءَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَO
’’سو تم اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمھیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔‘‘ (النحل، ۱۲:۴۳)
یعنی جو قرآنی علوم و معارف کے بارے میں زیادہ جانتے ہوں ان سے پوچھو۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلآی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۔ (النساء،۴:۸۳)
’’اور اگر وہ( بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول اور اپنے میں سے صاحبان امر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی ) بات کا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں اِس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ادنیٰ و اوسط ذہنی سطح کے حامل افراد کے لئے علم تفسیر کی ضرورت ناگزیر ہے۔

مزید دلائل:
١. الله تعالی نے قرآن رسول الله صلی الله و علیہ و سلم پر عربی میں  نازل فرمایا- الله چاہتا تو قرآن کو کتاب کی شکل میں ایک وقت بھی نازل فرما سکتے تھے.
٢.  رسول الله صلی الله و علیہ و سلم قرآن پر عمل کا نمونہ تھے، اور وہ قرآن کی تفصیل عمل اور الفاظ سے سمجھاتے تھے - اسی لیے اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے-
حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"بعد كتاب الله عزوجل سنن رسول صلي الله عليه وسلم فهي المبنية لمراد الله عزوجل من مجملات كتابه والدالة علي حدوده والمفسرة له....الخ
یعنی " اللہ عزوجل کی کتاب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن ہیں جو کتاب اللہ کے مجملات سے اللہ عزوجل کی مراد بیان کرتی ہیں، اس کی حدود پر دلالت کرتی اور اس کی تفسیر و توضیح کرتی ہیں"
امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "فكانت السنة بمنزلة التفسير والشرح لمعاني أحكام الكتاب" - "سنت کتاب اللہ کے احکام کے معانی کے لیے تفسیر و تشریح کا درجہ رکھتی ہے"
"مرقاۃ" میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آں رحمہ اللہ نے فرمایا: "جن چیزوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے وہ سب آپ کے فہم قرآن سے ماخود ہیں جیسا کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے: "إني لا أحل إلا ماأحل الله في كتابه ولا أحرم إلا ماحرم الله في كتابه" (یعنی میں حلال نہیں کرتا مگر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا ہے اور نہ حرام کرتا ہوں مگر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا ہے)-
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: "جميع ما تقوله الأئمة شرح للسنة وجميع السنة شرح للقرآن" ( یعنی آئمہ جو تمام چیزیں بیان کرتے ہیں وہ سنت کی شرح ہیں اور تمام سنت قرآن کی شرح ہے)"
امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک اور قول ہے: "مانزل بأحد من الدين نازلة إلا وهي في كتاب الله تعالى"
علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "لا خلاف في وجوب أفعاله صلي الله عليه وسلم التي هي لبيان مجمل الكتاب"-
یعنی "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال جو کہ مکملات قرآن کے بیان سے عبارت ہیں، کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے"

رسول الله صلی الله و علیہ و سلم کے بعد ، الله سبحان تعالیٰ نے مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کی ذمہ دای خاص طور پر علماء اسلام کی جماعت پر ڈالی اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر قرآن کا وارث قرار دیا.
(١) (٩:١٢٢ التوبة،  آل عمران 3:104، 32:35 فاطر)
 وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
(٩:١٢٢ التوبة)
اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں۔ تو اسے (جہالت بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں۔ (٩:١٢٢ التوبة)

٣.قرآن میں نماز اور زکات کا بہت ذکر ہے مگر تفصیل قرآن میں  موجود نہیں- تفسیر میں علماء نے تفصیل لکھ دی ہیں- نماز کس طرح ، کب کب پڑھنی ہے، رکعتیں کتنی ہیں- اسی طرح زکات کی تفصیل بھی سنت سے معلوم کرکہ لکھ دی ہے، رہنمائی کے لیے-

٤.  کچھ علماء کا تفصیلات میں جزوی اختلاف ہے، اس کا حل ہے کہ کسی ایک فقه پر عمل کریں-

٥.قرآن کو سمجھنے کے لیے الله نے آسان بنا دیا ، مگر قرانی عربی کا علم سب سے پہلے ضروری ہے- قرانی عربی ١٤٠٠ پہلے والی تو کس علم والے عا لم سے سیکھنا پڑے گی، خود بخود تو نہیں آ جائے گی- کیا آج غیر عرب، عام مسلمان کے لیے یہ ممکن ہے؟   کیا ایسا ایک عام مسلمان(٨٠ % ان پڑھ لوگ) کے لیے ایسا ممکن ہے؟

٦ . عام غیر عرب مسلمان کیا کرے؟ وہ کسی اچھے عالم کا انتخاب کرے-جس پر اکثریت کو ١٤٠٠ سو سال میں اعتماد ہے- اگر ہم بیمار ہوں تو کسی اچھے سپیشلسٹ ڈاکٹر کا انتخاب کرتے ہیں علاج کے لیے، پھر دوسری راہے کے لیے کسی اور ڈاکٹر سے بھی مشورہ کرتے ہیں-  ترجمہ قرآن نہیں ، ترجمہ انسانی کوشش ہے، الله کا کلام قرآن عربی میں ہے- ترجمہ قرآن کا بدل نہیں، تماز میں عربی قرآن پرھتے ہیں . ترجمہ نہیں. ترجمہ، تفسیر ، قرآن کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں-

٧. ١٤٠٠ سال میں اسلام کے بنیادی اصول اور تفصیلات مکمل واضح موجود ہیں تفسیر کی کتب میں- اب صرف جدید دور میں نیے معملات میں اجتہاد کی ضرورت ہے جو علماء کر رہے ہیں- اجتہاد علماء کا کام ہے عام مسلمانوں کا نہیں-

٩. اگر کوئی عام مسلمان جو عالم نہیں  اپنی طرف سے قرآن کے مطلب نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ  غلطی کر کہ گمراہ ہو سکتا ہے ، اور دوسروں کو بھی گمراہی کے راستے پر لے جائے گا جس کا گناہ اس پر ہے- تاریخ ایسے مسلمہ کذاب، مرزا قادیانوں ، گوھر شاہی اور جھوٹے مہدیوں، جھوٹے مسیحوں سے بھری پڑی ہے اور ان کا انجام بھی برا ہوا-
اللہ کےواضح احکامات کے باوجود اسلام میں فرقہ واریت کا زہر کیسے داخل ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئیے مختصر جائزہ ضروری ہے >>> https://goo.gl/8ANxZ6

١٠ تمام مسلمانوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ صرف اور صرف جید ، مستند علماء سے قرآن اور اسلام کی تعلیم حاصل کریں- تمام جید ائمہ کرام کو اپنا، اسلام کا امام، عالم سمجھیں۔ تمام نیک نام غیرمتنازعہ شیوخ، علماء کی عزت کریں-
١١ . جس امام کو بہترسمجھیں اس کے فقہ  پرعمل کرتے رہیں لیکن دوسرے ائمہ کرام اور ان کے مقلدین یا غیر مقلدین کی تضحیک نہ کریں برابری میں عزت کریں-

١٢.کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ آج کے جدید دور میں قرآن، سنت، احادیث اور تمام اسلامی علوم باآسانی عام مسلمان کی دسترس میں ہیں، لہٰذا کسی امام، عالم، شیخ یا مخصوص فقه پر عمل کی ضرورت نہیں، خود ہی تحققیق کر کہ صحیح اسلام پر عمل کیا جاسکتا ہے-(کیا ایسا ایک عام مسلمان ٨٠ % انپڑھ لوگ کر سکتے ہیں؟) اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے اور کر سکتا ہے تو یہ اس کا اپنا چوائس ، اپنا فیصلہ ہے جس کی ذمہ داری اس پر ہے- مگر ان کے لیے مناسب نہیں کہ دوسرے مسلمان جو اتنا علم نہیں رکھتے اور تحقیق نہیں کر سکتے ان کوان کے چوائس کے امام یا آئمہ کی (قرآن و سنت کی حدود میں) تقلید کرنے پر تنقید کا نشانہ  بنائیں- یہی بات مقلدین کے لیے بھی ہے کہ وہ غیر مقلدین کی تنقید نہ کریں- صرف قرآن سے سنت کے بغیر مکمل اسلام کی تعلیم ممکن نہیں، یہ قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے-

١٣ . مسلمان ایک دوسرے کومہذب اور پر امن طریقه سے "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کی دعوت وتبلیغ کریں مگراس کی آڑمیں زبردستی اپنا نقطہ نظر دوسروں پر ٹھونسنے سے احتراز کریں- یاد رکھیں الله منصف اعلی ہے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ  قیامت کے دن کرے گا-  شدت پسندی اور دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں-

١٤. مسلمانو ! اکثریت کے ساتھ مل جا ؤ، فرقہ بازی نہ کرو ، دین کے ٹکڑے نہ کرو-
آپ (صلى الله عليہ وسلم) کا ارشاد ہے: "عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)
ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔
نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے: "فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ"۔ (مسندِاحمد، حدیث نمبر۳۶۰۰)
ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔
ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"(مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔
ایک جگہ ارشاد ہے: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً"۔ (مصنف عبدالرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:۳۷۷۹)
ترجمہ:جو جماعت سے الگ ہوجائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔
یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہوسکتا ہے اور جب ایسا ہو تو اجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے.

١٥ پکے راستے صراط مستقیم پر چلیں ( یعنی کہ اپنا اپنا نیا راستہ خود نہ بنا):

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧ سورة الفاتحة﴾
ترجمے مختلف ہیں، ترجمہ قرآن نہیں ، ترجمہ انسانی کوشش ہے، الله کا کلام قرآن عربی میں ہے- ترجمہ قرآن کا بدل نہیں، تماز میں عربی قرآن پرھتے ہیں . ترجمہ نہیں. ترجمہ، تفسیر ، قرآن کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں-
ترجمہ جالندھری :  ہم کو سیدھے رستے چلا (6) ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے (سورة الفاتحة7)

ترجمہ مودودی :  ہمیں سیدھا راستہ دکھا (6) اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں (سورة الفاتحة7)

ترجمہ احمد رضا خان بریلوی : ہم کو سیدھا راستہ چلا، (6) راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا، نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا  (سورة الفاتحة7)

ترجمہ جوناگڑھی : ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا (6) ان لوگوں کی راه جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا (یعنی وه لوگ جنہوں نے حق کو پہچانا، مگر اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے) اور نہ گمراہوں کی (یعنی وه لوگ جو جہالت کے سبب راه حق سے برگشتہ ہوگئے)  (سورة الفاتحة7)

وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا(النساء:115)
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور(کسی دوسرے) راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(النساء:115)

خود ساختہ مذہبی نیم حکیموں سے دور رہیں اپنی زندگی اور عاقبت کی حفاظت کریں ، بربادی سے خود بچیں اور لوگوں کو بچائیں-

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا  (قرآن ;4:85)
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٦﴾
آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے (القصص 28:56)

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾
آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں (7:199 الأعراف)

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
تحقیقی مواد :

علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم ، ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لئے جاتے ہیں،نیز ان معانی کا تکملہ: ناسخ ومنسوخ، شان نزول اور مبہم قصوں کی توضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے-
اس تعریف کی روشنی میں علم تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے:
(۱)   الفاظ کی ادئیگی کے طریقے کہ الفاظ قرآن کو کس کس طریقے سے پڑھا جاسکتا ہے ،اسی کو ایک مستقل فن کی صورت بھی دی گئی جسے ’’علم قرأت‘‘ سے موسوم کیا گیا۔
(۲) الفاظ قرآنی کے مفہوم ومعانی ، یعنی ان کا لغوی معنی کیا ہے؟
(۳)  الفاظ کے انفرادی احکام کہ اس کا مادہ کیا ہے ، موجودہ صورت میں کس طرح آیا ہے ؟ اس کا وزن کیا ہے ؟ اور اس وزن کے معانی وخواص کیا ہیں؟یعنی لفظ سے متعلق صرفی مباحث۔
(۴)  الفاظ کے ترکیبی احکام کہ ان الفاظ کی باہمی ترکیب سے کونسامعنی پیدا ہورہا ہے؟ اور ان الفاظ کے حرف آخر پر کونسا اعراب کیوں آیا ہے ؟ یعنی نحوی قواعد کی روشنی میں ترکیبی حالت پر غور۔
(۵)  ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی کہ سیاق وسباق کے لحاظ سے پوری آیت کیا معنی دے رہی ہے؟ اس کے لئے علم ادب وعلم بلاغت سے مدد لی جاتی ہے ، بسا اوقات علم حدیث اور علم اصول فقہ سے بھی مدد لی جاتی ہے ۔
(۶)معانی کے تکملے ۔ یعنی آیات قرآنی کے پس منظر کا بیان یا اس کے مجمل کی تفصیل ۔ اس کے لئے عام طور پر علم حدیث سے مدد لی جاتی ہے ، لیکن اس کے علاوہ دیگر علوم سے بھی اس میں مدد لی جاتی ہے ، بلکہ مجمل کی تفصیل کا میدان اتنا وسیع ہے کہ تمام ہی علوم وفنون کی مدد لینی پڑتی ہے ۔
اسی لئے محققین علماء نے لکھا ہے کہ تفسیر کرنے کے لئے یہ ضروری ہے مفسر تمام علوم کا جامع ہو، بالخصوص پندرہ اسلامی علوم سےاس کا واقف ہونا ضروری ہے ۔
(۱)علم لغت
(۲) علم نحو
(۳)علم صرف
(۴)علم اشتقاق
(۵)علم معانی
(۶)علم بیان
(۷)علم بدیع
(۸)علم قرأت
(۹)علم اصول الدین (عقائد)
(۱۰) علم الاحادیث والسنن والآثار اور احادیث نبویہ کی حفظ وروایت سے متعلقہ علوم ۔ جیسے علم اصول حدیث، علم الجرح والتعدیل وغیرہ
(۱۱)علم اصول فقہ
(۱۲)علم فقہ
(۱۳)علم اسباب النزول
(۱۴)علم القصص والاخبار۔ اسی طرح علم السیر بالحضوص نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا علم ، ادیان سماویہ کی تاریخ کا علم  وغیرہ۔
(۱۵)علم الناسخ والمنسوخ۔
اس سے اندازہ لگتا ہے کہ علم تفسیر کس قدر اہم اور وسیع علم ہے ، اور مفسرین نے کتاب الہی کی خدمت کے لئے کتنی محنت وجانفشانی سے ان علوم کو حاصل کرکے تفسیری کارناموں کو انجام دیا ہے۔


قرآن حکیم اپنے قاری سے تعقل، تفکر اور تدبر کا تقاضا کرتا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۔
’’تو کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں۔‘‘ (محمد، ۴۷: ۲۴)
قرآن حکیم سے غور و فکر کا یہ تعلق ہی اس سے ہدایت خیزی کا باعث بن سکتا ہے۔
قرآن حکیم کی صفات میں سے ایک صفت (تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ) (النحل، ۱۶:۸۹) اور (وَ تَفْصِیْل کُلِّ شَیءٍ) (یوسف ۱۲:۱۱۱)کے الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے قرآن ایسی کتاب ہے جو ہر چیز کو تفصیل کے ساتھ خود بیان کرتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن خود واضح اور ہر اَمر کی وضاحت کرنے والی کتاب ہے تو پھر تفسیر کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

اس سوال کے مختلف جوابات ہیں جن میں سے چند ایک ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں
۱۔ تدبر و تذکر
قرآن کے (تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ) اور (تَفْصِیْل کُلِّ شَیءٍ) ہونے کے باوجود اس کی تفسیر کی ضرورت اس لیے نہیں کہ قرآن مبہم کلام ہے بلکہ اس لیے کہ قرآن خود تدبر و تذکر کا حکم دیتا ہے۔ مطالعہ قرآن کے دو مقاصد ہیں۔ ۱۔تدبر ۲۔تذکر
اِرشاد خداوندی ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَاُولُوا اْلاَلْبَابِ۔ (ص، ۳۸:۲۹)
’’(یہ قرآن) برکت والی کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمائی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقل مند لوگ نصیحت قبول کریں۔‘‘
تذکر کے حوالے سے قرآن یوں گویا ہوتا ہے
وَلَقَدْ یَسَّرنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکِرْ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ۔ (القمر، ۵۴:۱۷)
’’اور بے شک ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے قرآن کو آسان کیا، تو ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا‘‘
اﷲ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
اَفَلَم یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَاءَ ہُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ آبَاءَ ہُمُ الاَوَّلِینَO اَمْ لَمْ یَعْرِِفُوْا رَسُوْلَہُمْ فَہُمْ لَہُ مُنْکِرُوْنَO اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَاءَ ہُمْ بِالْحَقِّ وَ اَکْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ کَارِہُوْنَO
(المؤمنون، ۲۳:۶۸۔۷۰)
’’سو کیا انہوں نے اس فرمان (الٰہی) میں غور و خوض نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی یا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا سو (اس لئے) وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) کو جنون (لاحق) ہو گیا ہے (ایسا ہرگز نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر تشریف لائے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
مذکورہ بالا قرآنی ارشادات کی روشنی میں تفکر و تدبر کا لازمی تقاضا ہی ضرورتِ تفسیر کا جواز فراہم کرتا ہے۔
۲۔ اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم
ہر شخص کی ذہنی سطح برابر نہیں ہوتی، قرآن حکیم کے مخاطبین جملہ طبقاتِ انسانی ہیں۔ طبقات انسانی کی علمی و فکری استعدادکے اعتبار سے تین اقسام ہیں:
۱۔ ادنیٰ ذہنی سطح رکھنے والے۔
۲۔اوسط ذ ہنی سطح رکھنے والے
۳۔ اعلیٰ ذہنی سطح رکھنے والے
اس لحاظ سے قرآن میں مختلف مقامات پر مختلف مضامین کے حوالے سے روئے خطاب کہیں کسی سطح کے انسانی طبقہ کے لئے اور کہیں کسی اور سطح کے انسانی طبقوں سے ہے۔ سادہ اور عام فہم آیات سمجھنے کے لئے ادنیٰ و اوسط سطح کے علم و فکر رکھنے والے آدمی کو کوئی دقت نہیں ہو گی مگر اعلیٰ اور اونچی سطح کی قرآنی بات سمجھنے کے لئے اپنے سے زیادہ وسیع علم رکھنے والے شخص کی طرف ادنیٰ و اوسط ذہنیت کے حامل احباب کا رجوع ناگزیر ہوجائے گا۔ اس ناگزیریت کے حوالے سے قرآن خود لوگوں کو صاحبان علم کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَسْءَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَO
’’سو تم اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمھیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔‘‘ (النحل، ۱۲:۴۳)
یعنی جو قرآنی علوم و معارف کے بارے میں زیادہ جانتے ہوں ان سے پوچھو۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلآی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۔ (النساء،۴:۸۳)
’’اور اگر وہ( بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول اور اپنے میں سے صاحبان امر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی ) بات کا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں اِس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ادنیٰ و اوسط ذہنی سطح کے حامل افراد کے لئے علم تفسیر کی ضرورت ناگزیر ہے۔
۳۔ اَصح المطالب کی دریافت
قرآن حکیم کا یہ اعجاز بھی ہے کہ اس کے ہر لفظ کے کئی مفاہیم ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ قرآن حکیم تین حروف پر نازل کیا گیا، بعض روایات میں چار، بعض میں سات اور بعض روایات میں دس حروف کا ذکر ہے:
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا
أنزل القرآن علی ثلاثۃ أحرف۔
(حاکم، المستدرک، ۲:۲۴۳، رقم: ۲۸۸۴)
’’قرآن حکیم تین حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں:
أنزل القرآن علی أربعۃ أحرف: حلال وحرام، لا یعذر أحد بالجہالۃ بہ، وتفسیر تفسرہ العرب، وتفسیر تفسرہ العلماء، ومتشابہ لا یعلمہ إلا اﷲ، ومن ادعی علمہ سوی اﷲ فھو کاذب۔(طبرانی، المعجم الکبیر، ۷:۲۰۶، رقم: ۶۸۵۳)
’’قرآن کو چار حروف پر نازل کیا گیا: حلال اور حرام، جن کے نہ جاننے میں کسی کو معذور نہیں مانا جائے گا اور ایسی تفسیر جو صرف عرب ہی کر سکتے ہیں اور ایسی تفسیر جو فقط علماء کر سکتے ہیں اور متشابہ آیات جن کو سوائے اﷲ کے کوئی نہیں جانتا اور جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اﷲ کے سوا ان آیات کو جانتا ہے وہ جھوٹا ہے۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن مسعود ص روایت کرتے ہیں:
أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف: لکل حرف منھا ظھر وبطن (بخاری، الصحیح، ۴:۱۹۰۹، رقم: ۴۷۰۶)
’’قرآن پاک سات حروف پر نازل کیا گیا اور ہر حرف کا ظاہری معنی ہے اور باطنی معنی ہے۔‘‘
حضرت علی ص روایت کرتے ہیں:
أنزل القرآن علی عشرۃ أحرف: بشیر ونذیر، وناسخ ومنسوخ، وعظۃ و مثل، ومحکم ومتشابہ، وحلال وحرام (ہندی، کنز العمال، ۲:۱۶، رقم: ۲۹۵۶)
’’قرآن دس حروف پر نازل کیا گیا: خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا، نسخ کرنے والا، منسوخ ہونے والا، نصیحت، امثال، احکام و متشابہات اور حلال و حرام۔‘‘
اسی لیے امام ابو نعیم اور دیگر ائمہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے:
القرآن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علی أحسن وجوھہ (آلوسی، روح المعانی۱:۵)
’’قرآن نرم اور ذو وجوہ ہے (یعنی اس کے متعدد محامل ہیں) سو اس کو سب سے بہتر محمل پر محمول کرو۔‘‘
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ اس حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قول بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ لِعَلِیٍّ ص: ھَلْ عِنْدَ کُمْ کِتَابٌ قَالَ: لَا اِلاَّ کِتَابُ اﷲِ اَوْ فَھْمٌ اُعْطِیَہٗ رَجُلٌ مُّسْلِمٌ۔
(بخاری ، الصحیح، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم،۱:۵۳، رقم: ۱۱۱)
’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا: کیا آپ کے پاس کوئی کتاب ہے؟ فرمایا: نہیں ماسوائے اللہ کی کتاب کے یا وہ فہم جو مسلمان آدمی کو عطا کی جاتی ہے۔‘‘
پس ان اصح المطالب تک پہنچنے اور اُن سے اپنے ایمان و اسلام کو منور کرنے کے لئے ایسی تفسیر کی ضرورت ہوتی ہے جو ان آیات ربانی میں پنہاں معانی و مفاہیم تک دورِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق رسائی کو ممکن بناسکے۔
۴۔ نبوت کے فرائض منصبی
قرآن حکیم نبوت کے چہارگانہ فرائض منصبی یوں بیان کرتا ہے:
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وِ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔(آل عمران،۳:۱۶۴)
’’جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
یہ کلمات واضح کرتے ہیں کہ قرآن کا ہر مخاطب مضامینِ قرآن کو سمجھنے پر قادر نہیں۔ اس لئے اللہ کے نبی کو اس امر پر مامور کیا گیاہے کہ لوگوں کو قرآنی احکام کے معانی اور اسرار و رموز سمجھائیں اور حکمت کی باتیں بتائیں۔ حکمت کے حوالے سے قرآن پاک فرماتا ہے:
وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا۔
’’اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی۔‘‘ (البقرہ، ۲:۲۶۹)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما حکمت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
المعرفۃ القرآن ناسخہ ومنسوخہ ومحکمہ ومتشابھہ ومقدمہ موخرہ وحلالہ وحرامہ وأمثالہ۔
(آلوسی، روح المعانی، ۱:۵)

تفسیر قرآن کی ضرورت اور تقاضے
از : حافظ ظہیر احمد الاسنادی

’’قرآن کے ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، مقدم و موخر ، حلال و حرام اور اَمثال کی معرفت کو حکمت کہتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالامعنی میں حکمت کو جاننا گویا تفسیر قرآن کے بنیادی علوم کو جاننا ہے اور جن کو حکمت کی دولت عطا کی جاتی ہے ان کو قرآن کی تفسیر کاملکہ بھی عطا کر دیا جاتاہے جیسے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نےحضرتعبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے حق میں دعا فرمائی۔
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا:
ضمنی رسول اﷲ ، صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم إلیہ وقال: اللھم علمہ الحکمۃ وتأویل الکتاب۔
(ابن ماجہ، السنن، المقدمہ،باب فضل ابن عباس رضی اﷲ عنہما ، ۱ :۵۸، رقم: ۱۶۶)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے سینے سے لپٹا کر فرمایا: اے اللہ اسے دانائی اور قرآن کے مطالب سکھا دے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمرص نے ابن عباس رضی اﷲ عنہما کو اپنے پاس بلایا اور انہیں اپنے قریب کیا اور فرمایا:
انی رأیتُ رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) دعاک یوما فمسح رأسک وقال: اللھم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل۔
(ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ۱:۱۷۰)
’’ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے ایک دن آپ کو بلایا پھر آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: اے اللہ! اِس کو دین کی فقہ عطا فرما اور اس کو تاویل کا علم عطا فرما۔‘‘
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے ایک اور روایت مروی ہے کہ حضرت عمرص نے عبداللہ بن عباسص کو اپنے قریب بلایا اور انہیں فرمایا:
أنی رأیت رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) دعاک یوما فمسح رأسک وتفل فی فمک وقال: اللھم فقہہ فی الدین وعلمہ التأویل۔ (ذھبی، سیر اعلام النبلاء، ۳:۳۳۷)
’’ میں نے دیکھا کہ ایک دن حضور نبی اکرم نے آپ کو بلایا اور آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر آپ کے منہ میں لعاب دہن ڈالا اور کہا: اے اللہ! اِسے دین میں فقہ عطا فرما اور اِسے تاویل کا علم سکھا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کو حکمت و دانائی کی ایسی وافر دولت نصیب ہوئی کہ وہ تاریخ اسلام میں سید المفسرین کے لقب سے شہرت دوام پا گئے۔ جن ہستیوں کو قرآن کایہ علم عطا کیا گیا انہیں مبداء فیض نے حکمت کے خزینے سے نوازا اور علم و حکمت کی بنیاد پر جب بصائر و معارف قرآن جاننے کی طرح ڈالی گئی تو علم و حکمت کی تعلیم گویا تفسیرِ قرآن کی تعلیم قرار پائی۔
۵۔ اَمثالِ قرآن
قرآن پاک میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلْنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَO (العنکبوت، ۲۹:۴۳)
’’اور یہ مثالیں ہیں ہم انہیں لوگوں (کے سمجھانے ) کے لیے بیان کرتے ہیں اور انہیں اہل علم کے سواکوئی نہیں سمجھتا۔‘‘
عام طور پر کسی بات کی وضاحت یا توضیح کے لئے مثال بیان کی جاتی ہے کہ بات آسانی سے سمجھی جاسکے۔ مذکورہ آیت میں بیان کیا جارہا ہے کہ ان قرآنی امثال کو سمجھنے والے صرف علماء ہیں اور وہی اپنی عقل و بصیرت سے ان کی حقیقت کوسمجھ سکتے ہیں اور دوسرے لوگ اسے جاننے کے لئے ان علماء کے محتاج ہوں گے۔ یہی چیزضرورتِ تفسیر کا سبب بنی۔ اہم بات یہ ہے کہ مثال بیان کرنے کا مقصد کسی چیز کو آسان انداز میں سمجھانا ہوتا ہے اگر کسی عام فہم بات کو مثال کے ذریعے سمجھانے میں علماء کا دست نگر ہونا پڑتا ہے تو پھر مشکل مقامات کی تشریح و توضیح کے لئے تفسیر کی ضرورت بدرجہ اولیٰ ہوئی۔
۶۔ تفسیر قرآن۔ سنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور صحابہ کرامث کے لئے صاحب زبان ہونے کی وجہ سے ظاہری احکام کو جان لینا زیادہ آسان تھا مگر پھر بھی احکام قرآنی کے باطنی اسرار و حکم اور مصالح و حقائق سب پر منکشف نہ تھے۔ غورو فکر اور تامل و تفکر کے باوجود انہیں حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے استفسار کرنا پڑتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ استفسار کے بغیر حقائق قرآن کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
اس نکتے کی تفہیم کے لئے ذیل میں دو واقعات پیش کئے جا رہے ہیں:
۱۔ امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ جب قرآن حکیم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ اَلَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ۔
’’جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم کے ساتھ نہیں ملایا۔‘‘ (الانعام، ۶:۸۲)
صحابہ کرام ص نے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے دریافت کیا ’’وأینا لا یظلم نفسہ‘‘ (اور ہم میں سے کون ہے جس نے اپنی جان پرظلم نہیں کیا) اس پر حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ظلم کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد شرک ہے اور اس آیت سے استدلال فرمایا: (اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) (لقمان: ۳۱:۱۳) ’’اور بے شک شرک ظلمِ عظیم ہے‘‘۔
(ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب التفسیر القرآن، باب: ومن سورۃ الأنعام، ۵: ۲۶۲، رقم: ۳۰۶۷ )
معلوم ہوا کہ قرآن کی تفسیر کرنا سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہے۔ اسی طرح جب قرآن حکیم کی یہ آیت اتری:
وَکُلُوْا وَا شْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِO
’’اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہوکر) نمایاں ہو جائے۔‘‘ (البقرۃ، ۲:۱۸۷)
مذکورہ بالا آیت کی وضاحت طلبی جامع الترمذی کی درج ذیل روایت سے ضرورتِ تفسیر کو مزید واضح کر دے گی:
عن عدی بن حاتم ص قال: سالت رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) عن الصوم فقال: حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود قال: فأخذت عقالین أحدھما أبیض والأخر أسود فجعلت أنظر إلیھما فقال لي رسول اﷲA: إنما ہو اللیل والنھار۔
(ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب التفسیر القرآن، باب: ومن سورۃ البقرۃ، ۵:۲۱۱، رقم: ۲۹۷۱)
’’حضرت عدی بن حاتم ص سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے روزہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے یہ آیت کریمہ پڑھی (حَتیّٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الخَیْطُ الْاَ بْیضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ) تو میں نے سفید اور سیاہ دو دھاگے لئے اور انہیں دیکھنے لگا پس حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے مجھ سے فرمایا: اِس سے دن اور رات مراد ہیں۔‘‘
اگر اہل زبان صحابہ کرام ث کو فیضان صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور مشاہدۂ نزول قرآن سے بہرہ ور ہونے کے باوجود قرآن کی تفسیر کی ضرورت تھی تو پھر ہمیں جو اہل زبان نہیں اور اسرار و معارف قرآن سے کماحقہٗ آگاہ بھی نہیں فہم قرآن کے لئے علم تفسیر کی ضرورت کیوں نہ ہو گی۔
حضور اکرم اور صحابہ کرام سے منقول تفسیری روایات کا علم! کلام کا اصل مفہوم و مراداولاً خود صاحب کلام سے سُن کر سمجھ میں آتا ہے۔
کلام کا اصل مفہوم و مراد اولاً خود صاحبِ کلام سے سن کر سمجھ میں آتا ہے جیسے حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے لئے ممکن تھا لیکن ہمارے لئے یہ ممکن نہیں۔ ثانیاً سننے والے صاحب قرآن کی زبان سے براہ راست سن کر کلام کا مرادی مفہوم سمجھ لیتے جیسے صحابہ کرام ص کے لئے یہ ممکن تھا لیکن ہمارے لئے یہ ممکن نہیں۔
لہٰذا قرآن کو سمجھنے کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور صحابہ کرامؓ سے منقول تفسیری روایات کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ان منقول روایات کو جانچنے پرکھنے کا علم، علم تفسیر کا متقاضی ہے۔
……………………………………………………………...

علماء یا ائمہ کی تقلید کی حقیقت
اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی؛ اس لیے واجب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے احکامِ الٰہی کی ترجمانی فرمائی ہے،کون سی چیز حلال ہے؟ کون سی چیز حرام؟ کیا جائز ہے؟ کیا ناجائز؟ ان تمام معاملات میں خالصةً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی ہے، اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو اور اس کو مستقل بالذات مُطاع سمجھتا ہو، وہ یقینا دائرہٴ اسلام سے خارج ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کے احکام کی اطاعت کرے۔
لیکن قرآن و سنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں کہ جنھیں ہر معمولی لکھا پڑھا آدمی سمجھ سکتا ہے، ان میں کوئی اِجمال (اختصار)، اِبہام (غیر واضح) یا تعارض (مخالفت، باہمی ضد) نہیں ہے؛ بلکہ جو شخص بھی انھیں پڑھے گا وہ کسی اُلجھن کے بغیر اُن کا مطلب سمجھ لے گا۔ (ص:۷)
جیسے: پانچ نمازیں، زکوٰة، روزے اور حج وغیرہ کی فرضیت، اور زنا، لواطت، شراب نوشی، چوری اور قتل وغیرہ کی حرمت۔ قرآن و سنت کے ان متفقہ اور قطعی احکام میں کسی اجتہاد و تقلید کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہی جائز ہے؛ کیونکہ اس میں کوئی پیچیدگی اور اشتباہ نہیں۔
اس کے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی اِبہام یا اِجمال پایا جاتا ہے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے ہیں۔ (ص:۸) جیسے: عبادات اور معاملات وغیرہ کے فروعی مسائل، جن میں اجتہاد کیا جاتا ہے اور علماء کا اختلاف ہوتا ہے۔
اب قرآن و حدیث سے احکام کے مستنبط کرنے کی دو صورتیں ہیں:
ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف نے کیا سمجھا ہے؟ چنانچہ قرونِ اولیٰ کے جن بزرگوں کو ہم علومِ قرآن و سنت کا زیادہ ماہر پائیں، ان کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں اور انھوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔ (ص:۹،۱۰)
ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت خاصی خطرناک ہے، اور دوسری صورت بہت محتاط۔ (چند وجوہات ذکر کرنے کے بعد فرمایا) ان تمام باتوں کا لحاذ کرتے ہوئے اگر ہم اپنی فہم پر اعتماد کرنے کے بجائے قرآن و سنت کے مختلف التعبیر پیچیدہ احکام میں اس مطلب کو اختیار کر لیں جو ہمارے اسلاف میں سے کسی عالم نے سمجھا ہے، تو کہا جائے گا کہ ”ہم نے فلاں عالم کی تقلید کی ہے“؛ یہ ہے تقلید کی حقیقت۔ (ص:۱۰)
یہ بات واضح ہو گئی کہ: کسی امام یا مجتہد کی تقلید صرف اس موقع پر کی جاتی ہے جہاں قرآن و سنت سے کسی حکم کے سمجھنے میں کوئی دُشواری ہو۔ (ص:۱۰)

کسی امام یا مجتہد کی تقلید کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اُسے بذاتِ خود واجب الاطاعت سمجھ کر اتباع کی جا رہی ہے، یا اُسے شارع (شریعت بنانے والا، قانون ساز) کا درجہ دے کر اس کی ہر بات کو واجب الاتباع سمجھا جا رہا ہے؛ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پیروی تو قرآن و سنت کی مقصود ہے؛ لیکن قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنے کے لیے بحیثیت شارحِ قانون اُن کی بیان کی ہوئی تشریح و تعبیر پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کے قطعی احکام میں کسی امام یا مجتہد کی تقلید ضروری نہیں سمجھی گئی؛ کیونکہ وہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اصل مقصد اس کے بغیر بآسانی حاصل ہو جاتا ہے۔ (ص:۱۳،۱۴)
مقلد اپنے امام کے قول کو مآخذِ شریعت نہیں سمجھتا؛ کیونکہ مآخذِ شریعت صرف قرآن و سنت (اور انہی کے ذیل میں اجماع و قیاس) ہیں؛ البتہ یہ سمجھ کر اس کے قول پر عمل کرتا ہے کہ چونکہ وہ قرآن و سنت کے علوم میں پوری بصیرت کا حامل ہے؛ اس لیے اس نے قرآن و سنت سے جو مطلب سمجھا ہے وہ میرے لیے زیادہ قابلِ اعتماد ہے (اور اسی اعتماد کا نام ”تقلید“ ہے)۔
اب آپ بہ نظرِ انصاف غور فرمائیے کہ اس عمل میں کون سی بات ایسی ہے جسے ’گناہ“ یا ”شرک“ کہا جا سکے؟ یاد رکھیے! جس طرح تقلید کی مخالفت اور شرعی مسائل میں خود رائی قابلِ ملامت ہے، اسی طرح تقلید میں جمود اور غلو بھی قابلِ مذمت ہے۔ (ص:۱۴،۱۵۶)
تقلید کی دو صورتیں
ایک یہ ہے کہ تقلید کے لیے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے؛ بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کر لی جائے، اس کو ”تقلیدِ مطلق“ یا ”تقلیدِ عام“ یا ”تقلیدِ غیر شخصی“ کہا جاتا ہے۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لیے کسی ایک مجتہد عالم (کے مکتبِ فکر) کو اختیار کیا جائے، اور ہر ایک مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اُسے ”تقلیدِ شخصی“ کہا جاتا ہے۔
               تقلید کی ان دونوں قسموں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک شخص براہِ راست قرآن و سنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ جس مجتہد کو قرآن و سنت کے علوم کا ماہر سمجھتا ہے اس کی فہم و بصیرت اور اس کے تفقہ پر اعتماد کر کے اس کی تشریحات کے مطابق عمل کرتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کا جواز؛ بلکہ وجوب قرآن و سنت کے بہت سے دلائل سے ثابت ہے۔ (ص:۱۵)
               چنانچہ صحابہٴ کرام میں سے جو حضرات اپنے آپ کو اہلِ استنباط و اجتہاد نہیں سمجھتے تھے، وہ فقہاءِ صحابہ سے رجوع کرتے وقت اُن سے دلائل کی تحقیق نہیں فرماتے تھے؛ بلکہ اُن کے بتائے ہوئے مسائل پر اعتماد کر کے عمل فرماتے تھے۔ (ص:۳۴)
               قرآن و سنت سے چند دلائل اور عہدِ صحابہ و تابعین میں تقلیدِ مطلق و تقلیدِ شخصی پر عمل کی چند مثالیں پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ: غرض مندرجہ بالا روایات سے یہ بات پایہٴ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ تقلید کی دونوں قسموں (شخصی اور غیر شخصی) پر صحابہٴ کرام کے عہدِ مبارک میں عمل ہوتا رہا ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ جو شخص قرآن و سنت سے براہِ راست احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اصل کے اعتبار سے اس کے لیے تقلید کی دونوں قسمیں جائز اور درست تھیں۔ (ص:۵۹)
”تقلیدِ شخصی“ کی ضرورت
               تقلید پر عمل کرنے کے لیے ”تقلیدِ مطلق“ یا ”تقلیدِ شخصی“ میں سے جس صورت پر بھی عمل کر لیا جائے، اصلاً جائز ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائے ہمارے بعد کے فقہاء پر جو اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تھے اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات پر نگاہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی تھی، انھوں نے بعد میں ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت تقلید کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف ”تقلیدِ شخصی“ کو عمل کے لیے اختیار فرما لیا، اور یہ فتویٰ دے دیا کہ
               اب لوگوں کو صرف تقلیدِ شخصی پر عمل کرنا چاہیے اور کبھی کسی امام کی تقلید کے بجائے کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو متعین کر کے اسی کے مذہب کی پیروی کرنی چاہیے! (ص:۶۰،۶۱)
               وہ زبر دست ”انتظامی مصلحت“ کیا تھی؟ بطورِ تمہید پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ ”خواہش پرستی“ وہ زبردست گمراہی ہے جو بسا اوقات انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے؛ اسی لیے قرآن و حدیث میں بے شمار مقامات پر خواہش پرستی کی مذمت اور اس سے دامن بچانے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ خواہش پرستی کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ انسان بُرے کام کو بُرا اور گناہ کو گناہ سمجھے؛ مگر اپنے نفس کی خواہشات سے مجبور ہو کر اس میں مبتلا ہو جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کی غلامی میں اس حد تک پہنچ جائے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر ڈالے اور دین و شریعت کو کھلونا بنا دے۔
               یہ دوسری صورت پہلی سے زیادہ سنگین، خطرناک اور تباہ کن ہے؛ کیونکہ پہلی صورت میں جرم پر نادم ہو کر توبہ کرنے کی اُمید رہتی ہے، اس کے برعکس دوسری صورت میں ایسا نہیں ہے۔
               فقہاءِ کرام نے محسوس فرمایا کہ لوگوں میں دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے، احتیاط اور تقویٰ اُٹھتے جا رہے ہیں، ایسی صورت میں اگر تقلیدِ مطلق کا دروازہ چوپٹ کھلا رہا تو بہت سے لوگ جان بوجھ کر اور بہت سے غیر شعوری طور پر خواہش پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
               مثلاً: ایک شخص کے سردی کے موسم میں خون نکل آیا، تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وضو ٹوٹ گیا، اور امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں ٹوٹا، وہ اپنی تن آسانی کی وجہ سے اس وقت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقلید کر کے بلا وضو نماز پڑھ لے گا۔ پھر اُس کے تھوڑی دیر بعد اگر اس نے کسی عورت کو چُھو لیا، تو امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا وضو جاتا رہا، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برقرار ہے، اس کی تن آسانی اس موقع پر اُسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقلید کا سبق دے گی، اور پھر وہ بلا وضو نماز کے لیے کھڑا ہو جائے گا۔
               غرض جس امام کے قول میں اُسے آرام اور فائدہ نظر آئے گا اسے اختیار کرے گا، اور جس قول میں کوئی مضرت نظر آئے یا خواہشات کی قربانی دینی پڑے اُسے چھوڑ دے گا، اور ایسا بھی ہو گا کہ اس کا نفس اسی قول کی صحت کی دلیلیں سُجھائے گا جو اُس کے لیے زیادہ آسان ہے اور وہ بالکل غیر شعوری طور پر خواہش پرستی میں مبتلا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ احکامِ شرعیہ نفسانی خواہشات کا ایک کھلونا بن کر رہ جائیں گے، اور یہ وہ چیز ہے جس کے حرامِ قطعی ہونے میں آج تک کسی مسلمان کا اختلاف نہیں ہوا۔ (ص:۶۱،۶۲)
               اپنی خواہشاتِ نفس کے تابع ہو کر ایک چیز کو کبھی حلال اور کبھی حرام کرلینا اور جس مذہب میں نفسانی فائدہ نظر آئے اُسے اختیار کر لینا اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ کسی کے نزدیک جائز نہیں۔ اس موضوع پر قرآن و حدیث کی نصوص اور علماءِ اُمت کی تصریحات بے شمار ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ یہ تسلیم فرماتے ہیں کہ اپنی خواہشات کے تابع ہو کر کبھی کسی کا اور کبھی کسی کا مذہب اختیار کرلینا بہ اجماعِ اُمت ناجائز ہے۔
               صحابہ و تابعین کے زمانے میں؛ چونکہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کا غلبہ تھا؛ اس لیے اُس دَور میں ”تقلیدِ مطلق“ سے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ لوگ اپنی خواہشات کے تابع ہو کبھی کسی مجتہد کا اور کبھی کسی مجتہد کا قول اختیار کریں گے؛ اس لیے اُس دَور میں ”تقلیدِ مطلق“ پر بے روک ٹوک عمل ہوتا رہا اور اُس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی گئی؛ لیکن بعد کے فقہاء نے جب یہ دیکھا کہ دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے اور لوگوں پر نفسانیت غالب آتی جا رہی ہے تو اس وقت انھوں نے مذکورہ بالا انتظامی مصلحت سے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں کو صرف تقلیدِ شخصی پر عمل کرنا چاہیے اور ”تقلیدِ مطلق“ کا طریقہ ترک کر دینا چاہیے، یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا؛بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا۔ (ص:۶۵)
               مختلف مذاہب سے آسانیاں تلاش کر کے اُن پر عمل کرنا کیوں ناجائز ہے؟ اس سے کیا کیا مفاسد پیدا ہوتے ہیں؟ اور تقلیدِ شخصی کے رواج کے اسباب کیا ہیں؟ تفصیل کتاب ھذا میں دیکھئے۔ (ص:۶۹،۷۰)
               اگر تقلیدِ مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس مسئلے میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جس کا بانی نفس اور شیطان ہو گا، اور دین کو اس طرح خواہشات کا کھلونا بنا لینا کسی کے مذہب میں جائز نہیں ہے۔ اسی بناء پر بعد کے فقہاء نے یہ فرمایا کہ اب تقلیدِ شخصی کی پابندی ضروری ہے اور کسی ایک مجتہد (کے مکتبِ فکر) کو معین کر کے ہر مسئلے میں اسی کی پیروی کی جائے تاکہ نفسِ انسانی کو حلال و حرام کے مسائل میں شرارت کا موقع نہ مل سکے۔ (ص:۶۸)
               خلاصہ یہ ہے کہ صحابہٴ کراماور تابعین کے دَور میں دیانت عام تھی، جس پر اعتماد کیا جا سکتا تھا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت سے اُن کی نفسانیت اس قدر مغلوب تھی کہ خاص طور سے شریعت کے احکام میں انھیں خواہشات کی پیروی کا خطرہ نہیں تھا؛ اس لیے ان حضرات کے دَور میں تقلیدِ مطلق اور تقلیدِ شخصی دونوں پر عمل ہوتا رہا، بعد میں جب یہ زبردست خطرہ سامنے آیا تو تقلید کو ”تقلیدِ شخصی“میں محصور کر دیا گیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو احکامِ شریعت کے معاملہ میں جو افراتفری برپا ہوتی، اس کا تصور ہم مشکل ہی سے کر سکتے ہیں۔ (ص:۷۱)
چند شبہات کا ازالہ
               تقلیدِ شخصی کی حقیقت و ضرورت واضح ہو جانے کے بعد دو مشہور شبہات کے جواب ملاحظہ ہوں:
               (۱)․․․․جو چیز عہدِ صحابہ و تابعین میں ضروری نہ تھی، بعد میں کیسے ضروری قرار دے دی گئی؟
               جواب: حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ”تقلیدِ شخصی“ کے معاملے کی ایک واضح نظیر ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُمت کی جس اجتماعی مصلحت کی بناء پر ایسا کیا، وہی صورتِ حال تقلید کے معاملے میں بھی پیش آئی، لہٰذا اس عمل کو بدعت نہیں کہا جا سکتا۔
               حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اُمت کو کسی مقصد کے حصول کے لیے متعدد امور کا اختیار ملا ہو تو وہ زمانے کے فساد کے پیشِ نظر ان میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کر کے باقی طریقوں کو چھوڑ سکتی ہے، اور تقلیدِ شخصی کے معاملے میں اس سے زائد کچھ نہیں ہوا۔ (ص:۷۸)
               (۲)․․․․․اگر کسی بھی ایک امام کو معین کر کے اس کی تقلید کرنا ٹھہرا، تو پھر صرف ان چار اماموں کی کیا خصوصیت ہے؟ اُمت کے دوسرے مجتہدین کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟
               جواب:ان حضرات کے فقہی مذاہب مدوّن شکل میں محفوظ نہیں رہ سکے، اگر ان حضرات کے مذاہب بھی اس طرح مدوّن ہوتے جس طرح ائمہ اربعہ کے مذاہب مدوّن ہیں تو بلاشبہ ان میں سے کسی کو بھی تقلید کے لیے اختیار کیا جا سکتا تھا؛ لیکن نہ تو ان حضرات کے مذاہب کی مفصل کتابیں مدوّن ہیں، نہ ان مذاہب کے علماء پائے جاتے ہیں، اس لیے اب ان کی تقلید کی کوئی صورت نہیں ہے۔ (ص:۷۹)
تقلید کے درجات اور اُن کے احکام
               تقلید کرنے والے کے لحاظ سے تقلید کے چار مختلف درجات اور اُن کے احکام ہیں۔ ان درجات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور غیر مقلدین کے بیشتر اعتراضات اسی فرقِ مراتب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ان چار درجات کا سمجھنا بہت ضروری ہے، وہ بالترتیب یہ ہیں:
               (۱)عوام کی تقلید (۲)متبحر عالم کی تقلید
               (۳)مجتہد فی المذب کی تقلید (۴)مجتہد مطلق کی تقلید۔
(۱)عوام کی تقلید:
               ”عوام“ سے ہماری مراد مندرجہٴ ذیل اقسام کے حضرات ہیں:
               (۱)۔وہ حضرات جو عربی زبان اور اسلامی علوم سے بالکل ناواقف ہوں، خواہ وہ دوسرے فنون میں وہ کتنے ہی تعلیم یافتہ اور ماہر و محقق ہوں۔
               (۲)۔وہ حضرات جو عربی زبان جانتے اور عربی کتابیں سمجھ سکتے ہوں؛ لیکن انھوں نے تفسیر، حدیث، فقہ اور متعلقہ دینی علوم کو باقاعدہ اساتذہ سے نہ پڑھا ہو۔
               (۳)۔وہ حضرات جو رسمی طور پر اسلامی علوم سے فارغ التحصیل ہوں؛ لیکن تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصولوں میں اچھی استعداد اور بصیرت پیدا نہ ہوئی ہو۔
               یہ تینوں قسم کے حضرات تقلید کے معاملے میں ”عوام“ ہی کی صف میں شمار ہوں گے، اور تینوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس قسم کے عوام کو ”تقلید محض“ کے سوا چارہ نہیں؛ کیونکہ ان میں اتنی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ براہِ راست کتاب و سنت کو سمجھ سکیں، یا اس کے متعارض دلائل میں تطبیق و ترجیح کا فیصلہ کر سکیں۔ لہٰذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ کسی مجتہد کا دامن پکڑیں اور اس سے مسائلِ شریعت معلوم کریں۔ (ص:۸۵،۸۶)
               اس درجے کے مقلد کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ دلائل کی بحث میں اُلجھے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کون سے فقیہ و مجتہد کی دلیل زیادہ راجح ہے؟ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی مجتہد کو متعین کر کے ہر معاملے میں اسی قول کے پر اعتماد کرتا رہے؛ کیونکہ اس کے اندر اتنی استعداد موجود نہیں ہے کہ وہ دلائل کے راجح و مرجوح ہونے کا فیصلہ کر سکے؛ بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آ جائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو ، تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے، اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا، یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اُس کے معارض کوئی قوی دلیل ہو گی۔
               ․․․․․․ اور اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا؛ اس لیے کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط ایک ایسا وسیع و عمیق فن ہے کہ اس میں عمریں کھپا کر بھی ہر شخص اس پر عبور حاصل نہیں کر سکتا۔ (ص:۸۷)
               ایسی احادیث بیسیوں ہیں، جن کو قرآن و سنت کے علوم میں کافی مہارت کے بغیر انسان دیکھے گا تو لامحالہ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو گا۔ اسی بناء پر علماء نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے علمِ دین باقاعدہ حاصل نہ کیا ہو، اُسے قرآن و حدیث کا مطالعہ ماہر استاذ کی مدد کے بغیر نہیں کرنا چاہیے۔ (ص:۹۱)
               ہمارے فقہاء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ عوام کو براہِ راست قرآن و حدیث سے احکامِ شریعت معلوم کرنے کے بجائے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہیے؛ بلکہ فقہاء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی عام آدمی کو کوئی مفتی غلط فتویٰ دے دے تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا، عام آدمی کو معذور سمجھا جائے گا؛ لیکن اگر عام آدمی کوئی حدیث دیکھ کر اس کا مطلب غلط سمجھے اور اس پر عمل کر لے، تو وہ معذور نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا کام کسی مفتی کی طرف رجوع کرنا تھا، خود قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط اس کا کام نہ تھا۔ (ص:۹۲،۹۳)
(۲)متبحر عالم کی تقلید:
               ”متبحر عالم“ سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچا ہو؛ لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس و تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کے زیرِ نگرانی عرصہٴ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں، اور وہ کسی مسئلے کی تحقیق میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اُٹھا سکتا ہو، اور ان کے طرزِ تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ ایسے شخص کو ”متبحر فی المذہب“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایسا شخص بھی اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مقلد ہی ہوتا ہے؛ لیکن وہ اپنے مذہب کا مفتی بن سکتا ہے، ایسے شخص کی تقلید عوام کی تقلید سے کچھ امور میں مختلف ہوتی ہے۔ (ص:۹۴،۹۵)
               ایک متبحر عالم کن شرائط کے ساتھ حدیث ِصحیح کی بنیاد پر اپنے امام مجتہد کے قول کو چھوڑ سکتا ہے؟ علمائے اُصولِ فقہ کی کتب سے اُن شرائط کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ علمائے اُصول کی مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں ایک متبحر عالم اگر کسی مسئلے کے تمام پہلووٴں اور ان کے دلائل کا احاطہ کرنے کے بعد کم از کم اُس مسئلہ میں اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گیا ہو (خواہ وہ پوری شریعت میں مجتہد نہ ہو) تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میرے امام مجتہد کا مسلک فلاں حدیث ِصحیح کے خلاف ہے۔ ایسے موقع پر اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرے۔ (ص:۱۰۴)
               لیکن اس طرح جزوی طور پر اپنے امام سے اختلاف کرنے کے باوجود مجموعی طور پر اُسے مقلد ہی کہا اور سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ بہت سے فقہاءِ حنفیہ نے اسی بناء پر امام ابو حنیفہ کے قول کو ترک کر کے دوسرے ائمہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔ (ص:۱۰۷)
               تنبیہ: البتہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے؛ اس لیے اس میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، اور ہر شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو متبحر علماء کی صف میں شمار کر کے اس منصب پر فائز ہو جائے، اور اُوپر جو شرائط بیان کی گئی ہوں اُن کی رعایت رکھے بغیر احکامِ شرعیہ میں تصرف شروع کر دے۔ (ص:۱۰۸)
(۳)مجتہد فی المذہب کی تقلید:
               ”مجتہد فی المذہب“ اُن حضرات کو کہتے ہیں جو استدلال و استنباط کے بنیادی اُصولوں میں کسی مجتہد مطلق کے طریقے کے پابند ہوتے ہیں؛ لیکن اُن اصول و قواعد کے تحت جزوی مسائل کو براہِ راست قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ وغیرہ سے مستنبط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؛ چنانچہ ایسے حضرات اپنے مجتہد مطلق سے بہت سے فروعی احکام میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن اصول کے لحاظ سے اس کے مقلد کہلاتے ہیں۔ مثلاً: فقہ حنفی میں امام ابو یوسف اور امام محمد، فقہ شافعی میں امام مزنی اور امام ابو ثور، فقہ مالکی میں سحنون اور ابن القاسم، اور فقہ حنبلی میں ابراہیم الحربی اور ابو بکر الاثرم (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ لہٰذا مجتہد فی المذہب اصول کے لحاظ سے مقلد اور فروع کے لحاظ سے مجتہد ہوتا ہے۔ (ص:۱۰۸،۱۰۹)
(۴)مجتہد مطلق کی تقلید:
               ”مجتہد مطلق“ وہ شخص ہے جس میں تمام شرائط اجتہاد پائی جاتی ہوں اور وہ اپنے علم و فہم کے ذریعہ اصولِ استدلال بھی خود قرآن و سنت سے وضع کرنے پر قادر ہواور ان اصول کے تحت تمام احکامِ شریعت کو قرآنِ کریم سے مستنبط بھی کر سکتا ہو، جیسے: امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد وغیرہ (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ یہ حضرات اگرچہ اصول اور فروع دونوں میں مجتہد ہوتے ہیں؛ لیکن ایک طرح کی تقلید ان کو بھی کرنی پڑتی ہے، اور وہ اس طرح کہ جن مسائل میں قرآنِ کریم یا سنت ِصحیحہ میں کوئی تصریح نہیں ہوتی، وہاں یہ حضرات اکثر و بیشتر اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ خالصةً اپنی رائے اور قیاس سے فیصلہ کرنے کے بجائے صحابہ و تابعین میں سے کسی کا کوئی قول یا فعل مل جائے؛ چنانچہ اگر ایسا کوئی قول و فعل مل جاتا ہے تو یہ حضرات بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔ (ص:۱۰۹،۱۱۰)
               تمام ائمہ مجتہدین نے اجتہاد کی شرائط کو پورا کر کے قرآن و حدیث کی صحیح مراد معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؛ اس لیے سب کے مذاہب برحق ہیں، اور اگر کسی سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے نزدیک وہ نہ صرف معاف ہے؛ بلکہ اپنی کوشش صرف کرنے کی وجہ سے مجتہد کو ثواب ہو گا، جس کی تصریح احادیث میں موجود ہے؛ البتہ ایک مقلد یہ اعتقاد رکھ سکتا ہے کہ میرے امام کا مسلک صحیح ہے؛ مگر اس میں خطا کا بھی احتمال ہے، اور دوسرے مذاہب میں ائمہ سے اجتہادی خطا ہوئی ہے؛ لیکن ان میں صحت کا بھی احتمال ہے۔ (ص:۱۵۷)
               فرقہٴ ناجیہ اہل السنة و الجماعة کی اتباع ہی میں نجات ہے:
               امامِ ربّانی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ (م۱۰۲۴ھ) فرماتے ہیں کہ
               ”ان بزرگانِ دین کی اتباع کے بغیر نجات حاصل ہونا محال ہے، اور اگر بال برابر بھی ان کی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے، یہ بات صحیح کشف اور صریح الہام کے ساتھ بھی یقین کے درجہ کو پہنچ چکی ہے، اس میں کسی قسم کے اختلاف کا شبہ و گنجائش نہیں ہے۔
               پس اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کو ان کی پیروی کی توفیق حاصل ہوئی اور ان کی تقلید سے مشرف ہوا اور اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس نے ان کی مخالفت کی اور ان سے منحرف ہو گیا اور ان کے اُصولوں سے رُوگردانی کی اور ان کے گروہ سے نکل گیا۔ لہٰذا وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا“۔ (مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی:۱/۱۹۱، دفتر اوّل، مکتوب:۵۹)
               دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس کی اتباع کی توفیق بخشے، باطل کو باطل قرار دینے اور اس سے اجتناب کی ہمت عطا کرے، اور ہم آپس کی خانہ جنگیوں کے بجائے دین کے بلند مقاصد کے لیے اپنی زندگیاں خرچ کر سکیں، آمین ثم آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
………………………………………………………………..
یہ پیج درج ذیل پوسٹ کے جواب میں پبلش کیا گیا
.................................................


[If removed later or exists its up to the owner of page]
Text is as follows:
جن لوگوں کا ماننا هے کہ آیاتِ قرآنی کو سمجهنے کیلئے مولویوں اور مفتیوں سے مدَد لینا ضروری هے وه اسکی کوئی الہٰی سند پیش کریں.!
قرآن کریم قطعی طور پر ایک مکمل و با ضابطہ کتابچہ هے، لہذا اسکی بابت اتمامِ حجّت کیلئے چند الہٰی احکام اور کلمات پیش خدمت هیں.!
اور یہ برکت والی کتاب همیں نے اتاری هے، پس اسی کا اتبّع کرو اور مقام خدا سے ڈرو تا کہ تم پر رحم کیا جا سکے؛ (القرآن)
جو تم پر تمہارے پروردگار کی جانب سے نازل هوئی هے صرف اسی کی پیروی کرو اور اسکے سوا دیگر ولیوں کے پیروکار نہ بنو؛ (القرآن)
بیشک یہ قرآن وه راستہ هے کہ جو مومنوں اور صالح عمل کرتے والوں کو بشارت دینے والا هے کہ انکے لئے بہت بڑا اجر هے؛ (القرآن)
اور هم نے اس قرآن میں سب باتیں تمام تر مثالیں دیکر بیان کر دی هیں، مگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسکو قبول نہیں کرتی اور اس بات سے انکاری هے؛ (القرآن)
اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تم پر نازل کی گئی هے بس اسے پڑهتے رها کرو بیشک اسکی باتوں کا کوئی متبادل نہیں هے؛ (القرآن)
اور قرآن میں انسانوں کے سمجهنے کیلئے تمام تفصیلات طرح طرح کی مثالیں پیش کر کے بیان کر دی گئیں هیں مگر انسانوں کی ایک کثیر تعداد هر شئے میں جهگڑتی هی رهتی هے؛ القرآن)
اور هم نے قرآن کو عربی میں اسطرح نازل کیا هے کہ اس میں طرح طرح کی تنبیہیں هیں تا کہ لوگ اتقاء کریں اور ان باتوں سے انکے لئے عبرت پیدا هو سکے؛ (القرآن)
اور کفار کہتے هیں کہ اس پر قرآن ایک هی دفعہ اکٹها کیوں نازل نہیں هوا، اسے اس طرح آہستہ آہستہ اسلئے اتارا گیا هے کہ اس سے تمہارے قلب کو قائم رکهیں، اور اس واسطے هم اسکو ٹهہر ٹهہر کر پڑهتے هیں، اور یہ لوگ جو تمہارے پاس اعتراضات والی باتیں لاتے هیں هم تمہارے پاس اسکا برحق جواب اور بہترین تفسیر بهیج دیتے هیں؛ (القرآن)
اور وه کہ جب انکو پروردگار کی آیات بتائی جاتی هیں تو وه ان پر اندهے اور بہرے هو کر گر نہیں پڑتے؛ (القرآن)
اور هم نے لوگوں کے سمجهنانے کیلئے اس قرآن میں تمام باتفصیل مثالیں بیان کر دی هیں؛ (القرآن)
یہ کتاب جو هم نے تم پر نازل کی هے بہت بابرکت هے تا کہ لوگ اسکی آیات پر تدبر کریں اور اهل عقل و علم نصیحت پکڑ سکیں؛ (القرآن)
اور هم نے لوگوں کیلئے اس قرآن میں باتفصیل هر طرح کی مثالیں بیان کر رکهی هیں تا کہ لوگ نصیحت حاصل کر سکیں،یہ قرآن عربی میں هے جس میں کسی قسم کی کوئی نقص و کمی نہیں تا کہ وه ڈریں سکیں؛ (القرآن)
اور هم نے قرآن کو سمجهنے کیلئے بیحد آسان کر دیا هے پس کوئی هے کہ جو غور و فکر کرے؛ (القرآن)


.............................................................

FB Post for comments and discussion




مزید :

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہاٹس اپپ"یا SMS کریں   

No comments: