Its he End of Time, when some one is dead !
How long one can live? If you are reading here, you could be 10, 15, 20 years old or more..... so how long will you live... 90, 80, 70, 50, 30, 15, 10 years or 1 year, few month, days or just few moments from now there could be End of your Time .... what happens to others it does not matter... if you are not there....
So if its limited time available here ...
What have we prepared for the Next unlimited time ?
The Holy Prophet Muhammad(pbuh) has prophesied about several events that will occur just before the advent of the day of judgment. Among these, Prophet Muhammad (pbuh) has foretold the return of Jesus(pbuh), which will materialize when a one eyed claimant to divinity (Antichrist) will attempt to misguide the humanity into worshipping him. Messiah will descend in Damascus, pray behind Imam Mahdi (guided), pursue and kill the Antichrist, destroy the savage and unbelieving armies of Gog and Magog, and bring peace and brotherhood to the world. Christians will recognize the truth and accept him only as a Messenger of God; the religion of God (Islam) will justly prevail in the world.
There will be no oppression and no need to fight oppressors (war will be abolished) and no need to collect Jizyah (since there will be no non-Muslim people of the Book to collect this pol tax from). Every human being will be well-off and no one will accept charity, peace will prevail on earth for 40 years. His death will signal the beginning of the last days.
In Judaism, the term "end of days" makes reference to the Messianic Age, and includes an in-gathering of the exiled Jewish diaspora, the coming of the Messiah, the resurrection of the righteous and the world to come. Some sects of Christianity depict the end time as a period of tribulation that precedes the second coming of Christ, who will face the Antichrist along with his power structure and usher in the Kingdom of God. However, other Christians believe that the end time represents the personal tribulation experienced before they become enlightened with the Word of God.
The Bible describes in a vivid language the corruption, destruction, and death typifying the end of times. We see the godly forces confronting the evil of Satan, the Antichrist, and Gog and Magog. We learn that the cataclysmic events will take place in the Middle East. But still the picture needs to be completed. Unanswered questions need to be answered. Who are Gog and Magog? Where will Jesus return? Where in the Middle East will Jesus confront the evil military forces? What nation(s) will supply the forces? Where will the 'Antichrist be slain?
Keep reading >>>
http://islamicweb.com/history/ww3.htm
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَO (المومنون، 23 : 115)
’’سو تم نے یہ خیال کرلیا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍO وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِO (الرحمن، 55 : 26، 27)
’’ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے اور آپ کے رب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحب عظمت وجلال اور صاحب انعام واکرام ہے‘‘۔
إِنَّ السَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىO (طه، 20 : 15)
’’بے شک قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر جان کو اس عمل کا بدلہ دیا جائے جس کے لئے وہ کوشاں ہے‘‘۔
اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَO (الانبياء، 21 : 1)
’’لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘۔
إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَO (المومن، 40 : 59)
’’بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اکثر لوگ یقین نہیں رکھتے‘‘۔
وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَO (يٰسن، 36 : 48)
’’اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ (قیامت) کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو‘‘۔
وَمَا يَنظُرُ هَؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍO (ص، 38 : 15)
’’اور یہ سب لوگ ایک نہایت سخت آواز (چنگھاڑ) کا انتطار کر رہے ہیں جس میں کچھ بھی توقف نہ ہوگا‘‘۔
اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌO (الشوريٰ، 42 : 17)
’’اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل وانصاف کا ترازو بھی اتارا اور آپ کو کس نے خبردار کیا، شاید قیامت قریب ہی ہو‘‘۔
ایک حدیث کے مطابق علامات قیامت یہ ہیں: حذیفہ بن اسید غفاری بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے ہم اس وقت مذاکرہ کر رہے تھے‘ آپ نے پوچھا تم کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟ صحابہ نے کہا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں‘ آپ نے فرمایا :
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس علامتیں نہ دیکھ لو پھر آپ نے دخان (دھوئیں) دجال‘ دابۃ الارض‘ سورج کا مغرب سے طلوع‘ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول‘ یاجوج ماجوج‘ تین بار زمین کا دھنسنا (مشرق میں دھنسنا‘ مغرب میں دھنسنا‘ جزیرۃ العرب میں دھنسنا) اور اس کی آخری علامت آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔(لنک )
ایک حدیث کے مطابق علامات قیامت یہ ہیں: حذیفہ بن اسید غفاری بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے ہم اس وقت مذاکرہ کر رہے تھے‘ آپ نے پوچھا تم کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟ صحابہ نے کہا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں‘ آپ نے فرمایا :
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس علامتیں نہ دیکھ لو پھر آپ نے دخان (دھوئیں) دجال‘ دابۃ الارض‘ سورج کا مغرب سے طلوع‘ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول‘ یاجوج ماجوج‘ تین بار زمین کا دھنسنا (مشرق میں دھنسنا‘ مغرب میں دھنسنا‘ جزیرۃ العرب میں دھنسنا) اور اس کی آخری علامت آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔(لنک )
مزید پڑھیں: >>>>>
دُنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں کافی باتیں ہوتی رہیں۔ عیسائی علماء نے انجیل کے اپنے فہم کو بنیاد بنا کر نا صرف ایک تاریخ متعین کردی بلکہ اس سے انحراف کو دین سے انحراف بھی قرار دینا شروع کردیا۔ یہ نظریہ کچھ عرصہ تک تو مانا جاتا رہا لیکن پھر بہرحال سائنسی طریق سے زمین کی پیدائش کے متعلق اندازہ لگانے کا آغاز ہوا اور گزشتہ صدی کے دوران زمین کے اپنے اندر ملنے والے ثبوتوں سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ زمین کی عمر قریباَ ساڑھے چار ارب سال ہے۔ پڑھنے میں یہ یقیناَ چھوٹا سا ہندسہ ہے لیکن ایک انتہائی طویل مدت ہے۔ اگر ساڑھے پانچ ارب سال کو دو دنوںمیں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک سیکنڈ قریباَ چھبیس ہزار اکتالیس برس پر مشتمل ہوگا۔ یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام سے لیکر آج تک کا دور ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ یا اس سے بھی کم کا دورانیہ ہوگا۔ ساڑھے چار ارب سال کی اس مدت میں زمین پر ممالیہ جانوروں کی آمد صرف سولہ کروڑ سال قبل ہوئی جو زمین کی موجودہ عمر کے حساب سے دوسرے دن کے اختتام سے صرف ایک گھنٹہ اور قریباَ بیالیس منٹ پہلے کا عرصہ بنتا ہے۔ اس میں بھی ممالیہ جانوروں کا ارتقاء صرف پانچ کروڑ برس قبل ہوا جو زمین کی دو روزہ زندگی کے حساب سے قریباَ بتیس منٹ کا عرصہ بنتا ہے جب زمین ڈائنوسار سے خالی ہو گئی تھی۔ اور پھر ان پانچ کروڑ برس میں ممالیہ جانور زمین کے حکمران بن گئے۔ لیکن اگر دیکھا جائے توممالیہ جانوروں کی حکمرانی کا عرصہ بہت قلیل ہے۔ مثال کے طور پر ڈائنو سار نے زمین پر سولہ کروڑ برس حکومت کی یعنی ممالیہ جانوروں سے قریباَ تین گنا زیادہ عرصہ۔ ان پانچ کروڑ برس میں جب ممالیہ جانور زمین کی حکمرانی سنبھال رہے تھے انسان کی آمد آج سے قریباَ دو لاکھ برس قبل ہوئی۔ یعنی جب دُنیا اپنی موجودہ دو روزہ عمر کے وجود کے آخری گھنٹے کے بھی آخرمنٹ سے گزر رہی تھی۔ اور زمین کی عمر کے حساب سے پلک جھپکتے ہی یعنی صرف دو لاکھ برس کے اندر جو زمین کی دو روزہ عمر کا آٹھ سیکنڈسے بھی کم عرصہ بنتا ہے، انسان اس زمین کا مالک بن گیا یعنی قرآن کے الفاظ میں زمین پر اللہ کا خلیفہ بن گیا-
........................................
غیب سے متعلق معاملے پر تفصیل سے بحث اور گفتگو نہیں کرنا۔ ایسی گفتگوجو مابعد الطبیعات (Metaphysics یا دنیا کی حقیقت سے پرے) پر کی جائے جو محسوس حقیقت سے پرے ہو، اس پر بحث کرنا، اور یہ دعویٰ کرنا کہ کسی کی رائے دوسروں سے بہتر ہے، جس کے لئے بہت قمتی وقت لگایا گیا ہو، یہ مسلمانوں کے سب سے اہم اور ضروری مسئلے سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا دیتا ہے، جس کے لئے مسلمانوں کو کام کرنا ضروری ہے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) نے ایسی ایک بحث کی مثال جو اہل کتاب (یہود اور نصاریٰ)غارمیں پناہ لینے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں کرتے تھے، ''تو اب لوگ کہیں گے، وہ تین ہیں اور ان کاکتا چوتھا، اور کچھ کہیں گے، وہ پانچ ہیں اور ان کا کتا چھٹا، بل کو ل اندھی اٹکل، اور کچھ کہیں گے، وہ سات ہیں اور ان کا کتاآٹھواں’’، کہہ دیجیے، ''میرا رب ان کی تعداد کو اچھی طرح جانتا ہے ان میں سے کوئی نہیں جانتا مگر بہت کم۔ اس لیے ان کے بارے میں کوئی بحث نہ کرو، سوائے اسکے کہ کیا ہوا ہے، اور اہل کتاب سے ان کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھو۔ (ترجمہ معانیٗ قرآن مجیدالکہف):
....................................................
اردو لنکس:
دُنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں کافی باتیں ہوتی رہیں۔ عیسائی علماء نے انجیل کے اپنے فہم کو بنیاد بنا کر نا صرف ایک تاریخ متعین کردی بلکہ اس سے انحراف کو دین سے انحراف بھی قرار دینا شروع کردیا۔ یہ نظریہ کچھ عرصہ تک تو مانا جاتا رہا لیکن پھر بہرحال سائنسی طریق سے زمین کی پیدائش کے متعلق اندازہ لگانے کا آغاز ہوا اور گزشتہ صدی کے دوران زمین کے اپنے اندر ملنے والے ثبوتوں سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ زمین کی عمر قریباَ ساڑھے چار ارب سال ہے۔ پڑھنے میں یہ یقیناَ چھوٹا سا ہندسہ ہے لیکن ایک انتہائی طویل مدت ہے۔ اگر ساڑھے پانچ ارب سال کو دو دنوںمیں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک سیکنڈ قریباَ چھبیس ہزار اکتالیس برس پر مشتمل ہوگا۔ یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام سے لیکر آج تک کا دور ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ یا اس سے بھی کم کا دورانیہ ہوگا۔ ساڑھے چار ارب سال کی اس مدت میں زمین پر ممالیہ جانوروں کی آمد صرف سولہ کروڑ سال قبل ہوئی جو زمین کی موجودہ عمر کے حساب سے دوسرے دن کے اختتام سے صرف ایک گھنٹہ اور قریباَ بیالیس منٹ پہلے کا عرصہ بنتا ہے۔ اس میں بھی ممالیہ جانوروں کا ارتقاء صرف پانچ کروڑ برس قبل ہوا جو زمین کی دو روزہ زندگی کے حساب سے قریباَ بتیس منٹ کا عرصہ بنتا ہے جب زمین ڈائنوسار سے خالی ہو گئی تھی۔ اور پھر ان پانچ کروڑ برس میں ممالیہ جانور زمین کے حکمران بن گئے۔ لیکن اگر دیکھا جائے توممالیہ جانوروں کی حکمرانی کا عرصہ بہت قلیل ہے۔ مثال کے طور پر ڈائنو سار نے زمین پر سولہ کروڑ برس حکومت کی یعنی ممالیہ جانوروں سے قریباَ تین گنا زیادہ عرصہ۔ ان پانچ کروڑ برس میں جب ممالیہ جانور زمین کی حکمرانی سنبھال رہے تھے انسان کی آمد آج سے قریباَ دو لاکھ برس قبل ہوئی۔ یعنی جب دُنیا اپنی موجودہ دو روزہ عمر کے وجود کے آخری گھنٹے کے بھی آخرمنٹ سے گزر رہی تھی۔ اور زمین کی عمر کے حساب سے پلک جھپکتے ہی یعنی صرف دو لاکھ برس کے اندر جو زمین کی دو روزہ عمر کا آٹھ سیکنڈسے بھی کم عرصہ بنتا ہے، انسان اس زمین کا مالک بن گیا یعنی قرآن کے الفاظ میں زمین پر اللہ کا خلیفہ بن گیا-
........................................
غیب سے متعلق معاملے پر تفصیل سے بحث اور گفتگو نہیں کرنا۔ ایسی گفتگوجو مابعد الطبیعات (Metaphysics یا دنیا کی حقیقت سے پرے) پر کی جائے جو محسوس حقیقت سے پرے ہو، اس پر بحث کرنا، اور یہ دعویٰ کرنا کہ کسی کی رائے دوسروں سے بہتر ہے، جس کے لئے بہت قمتی وقت لگایا گیا ہو، یہ مسلمانوں کے سب سے اہم اور ضروری مسئلے سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا دیتا ہے، جس کے لئے مسلمانوں کو کام کرنا ضروری ہے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) نے ایسی ایک بحث کی مثال جو اہل کتاب (یہود اور نصاریٰ)غارمیں پناہ لینے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں کرتے تھے، ''تو اب لوگ کہیں گے، وہ تین ہیں اور ان کاکتا چوتھا، اور کچھ کہیں گے، وہ پانچ ہیں اور ان کا کتا چھٹا، بل کو ل اندھی اٹکل، اور کچھ کہیں گے، وہ سات ہیں اور ان کا کتاآٹھواں’’، کہہ دیجیے، ''میرا رب ان کی تعداد کو اچھی طرح جانتا ہے ان میں سے کوئی نہیں جانتا مگر بہت کم۔ اس لیے ان کے بارے میں کوئی بحث نہ کرو، سوائے اسکے کہ کیا ہوا ہے، اور اہل کتاب سے ان کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھو۔ (ترجمہ معانیٗ قرآن مجیدالکہف):
....................................................
English Links:
اردو لنکس:
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول قرآن و حدیث کی روشنی میں:
- http://alasirchannel.blogspot.com/2012/06/blog-post_573.html
- http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/1582
- http://algazali.org/index.php?threads/4132
- http://khilafate-rashida.blogspot.com/2016/03/blog-post.html
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:
Also Related:
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits
No comments:
Post a Comment