Good deeds, sins, charity and Mercy اعمال ، گناہ، صدقات، اور بخشش


وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿009:102﴾
And (there are) others who have acknowledged their sins, they have mixed a deed that was righteous with another that was evil. Perhaps Allah will turn unto them in forgiveness. Surely, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.)


‏ ‏ اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جُلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔





ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے۔
بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں " میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہے۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگذر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا۔ " امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿009:103﴾ ‏ان کے مال میں سے(صَدَقَةً) زکوۃ قبول کرلو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اور خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے۔ ‏
صدقہ مال کا تزکیہ ہے اللہ تعالٰی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ "آپ ان کے مالوں کا صدقہ لیا کریں۔ تاکہ اس وجہ سے انہیں پاکی اور ستھرائی حاصل ہو۔ " اس کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی نیکیوں کے ساتھ کچھ برائیاں بھی کرلیں تھیں۔ لیکن حکم اس کا عام ہے۔

صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو حسب عادت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ آل ابی اوفی پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اسی طرح جب آپ کے پاس کسی قسم کا صدقہ آتا تو آپ ان کے لئے دعا فرماتے۔ ایک عورت نے آپ سے آ کر درخواست کی کہ یا رسول اللہ میرے لئے اور میرے خاوند کے لئے دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا صلی اللہ علیک وعلی زوجک صلواتک کی اور قرأات صلواتک ہے۔ پہلی قرأت مفرد کی ہے دوسری جمع کی ہے۔ فرماتا ہے کہ تیری دعا ان کے لئے اللہ کی رحمت کا باعث ہے۔ اور ان کے وقار وعزت کا سبب ہے۔ اللہ تعالٰی تیری دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور اسے بھی وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون ان دعاؤں کا مستحق ہے اور کون اس کا اہل ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے دعا کرتے تو اسے اور اسکی اولاد کو اور اس کی اولاد کی اولاد کو پہنچتی تھی۔ پھر فرمایا۔ کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمانے والا ہے؟ اور وہی ان کے صدقات لیتا ہے؟

اس نے بندوں کو توبہ اور صدقے کی طرف بہت زیادہ رغبت دلائی ہے۔ یہ دونوں چیزیں گناہوں کو دور کردینے والی، انہیں معاف کرانے والی اور انکو مٹا دینے والی ہیں۔ توبہ کرنے والوں کی توبہ اللہ عزوجل قبول فرماتا ہے اور حلال کمائی سے صدقہ دینے والوں کا صدقہ اللہ تعالٰی اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر صدقہ کرنے والے کے لئے اسے پالتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کو احد کے پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔
چنانچہ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی صدقہ قبول فرماتا ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لیتا ہے اور جس طرح تم اپنے کو پالتے ہو اسی طرح اللہ تعالٰی اسے بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک ایک کھجور احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ عزوجل کی کتاب میں بھی موجود ہے پھر اسی آیت کا یہی جملہ آپ نے تلاوت فرمایا۔
اور اللہ تعالٰی کا یہ فرمان بھی۔( یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات) یعنی سود کو اللہ تعالٰی گھٹاتا ہے اور صدقے کو بڑھاتا ہے۔ صدقہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں جاتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ سائل کے ہاتھ میں جاۓ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

ابن عساکر میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں نے جہاد کیا جس میں ان پر حضرت عبدالرحمن بن خالد امام تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے مال غنیمت میں سے ایک سو رومی دینار چرا لئے جب لشکر وہاں سے لوٹ کر واپس آ گیا تو اسے سخت ندامت ہوئی وہ ان دیناروں کو لے کر امام کے پاس آیا لیکن انہوں نے ان سے لینے سے انکار کر دیا کہ میں اب لے کر کیا کروں؟ لشکر تو متفرق ہوگیا کیسے بانٹ سکتا ہوں؟ اب تو تو اسے اپنے پاس ہی رہنے دے۔ قیامت کے دن اللہ تعالٰی کے پاس ہی لانا۔ اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے پوچھنا شروع کیا لیکن ہر ایک یہی جواب دیتا رہا۔ یہ مسکین ان دیناروں کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس لایا اور ہر چند کہا کہ آپ انہیں لے لیجئے لیکن آپ نے بھی نہ لئے۔ اب تو یہ روتا پیٹتا وہاں سے نکلا۔ راستے میں اسے حضرت عبداللہ بن شاعر سکسکی رحمۃ اللہ علیہ ملے۔ یہ مشہور دمشقی ہیں اور اصل میں حمص کے ہیں۔ یہ بہت بڑے فقیہ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ اس شخص نے اپنا تمام واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا جو میں کہوں گا وہ کرو گے بھی؟ اس نے کہا یقینا۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور خمس تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے آؤ۔ یعنی بیس دینار۔ اور باقی کے اسی دینار اللہ کی راہ میں اس پورے لشکر کی طرف سے خیرات کردو۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے نام اور مکان جانتا ہے اور وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اس شخص نے یہی کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا و اللہ مجھے اگر یہ مسئلہ سوجھ جاتا اور میں اسے یہ فتویٰ دے دیتا تو مجھے اس ساری سلطنت اور ملکیت سے زیادہ محبوب تھا۔ اس نے نہایت اچھا فتویٰ دیا۔


أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
﴿009:104﴾

‏‏ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا اور صدقات (وخیرات) لیتا ہے؟ اور بیشک خدا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ ‏

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
﴿009:105﴾

‏ ‏ اور (ان سے) کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (خدائے واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو (سب) تم کو بتائے گا۔ ‏


اپنے اعمال سے ہوشیار رہو۔ جو لوگ اللہ تعالٰی کے احکامات کے خلاف کرتے ہیں انہیں اللہ تعالٰی ڈرا رہا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے سامنے ہیں۔ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے سامنے قیامت کے دن کھلنے والے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا اور پوشیدہ سے پوشیدہ عمل بھی اس دن سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ تمام اسرار کھل جائیں گے دلوں کے بھید ظاہر ہو جائیں گے-
صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تجھے کسی شخص کے نیک اعمال بہت اچھے لگیں تو تو کہہ دے کہ اچھا ہے عمل کئے چلے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مومن تمہارے اعمال عنقریب دیکھ لیں گے۔ ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی آئی ہے اس میں ہے کسی کے اعمال پر خوش نہ ہو جاؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کا خاتمہ کس پر ہوتا ہے؟ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک زمانہ دراز تک نیک عمل کرتا رہتا ہے کہ اگر وہ اس وقت مرتا تو قطعاً جنتی ہو جاتا۔ لیکن پھر اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ بداعمالیوں میں پھنس جاتا ہے۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک لمبی مدت تک برائیاں کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی حالت میں مرے تو جہنم میں ہی جائے لیکن پھر اس کا حال بدل جاتا ہے اور نیک عمل شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی جب کسی بندے کے ساتھ بھلا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے عامل بنا دیتا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم اس کا مطلب نہیں سمجھے آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اسے توفیق خیر عطا فرماتا ہے اور اس پر اسے موت آتی ہے۔

وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
﴿009:106﴾

‏‏ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا کام خدا کے حکم پر موقوف ہے۔ چاہے اُنکو عذاب دے اور چاہے معاف کر دے۔ اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔ ‏

یہاں فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے ارادے پر ہیں اگر چاہیں سزا دے اگر چاہیں معافی دے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سزا کے لائق کون ہے۔ اور مستحق معافی کون ہے؟ وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔ اس کے سوا نہ تو کوئی معبود نہ اس کے سوا کوئی مربی۔

(تفسیر ابن كثیر سے ماخوذ)

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ  (13:6 الراعد)
" اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے جلد خواستگار (یعنی طالب عذاب ہیں) حالانکہ ان سے پہلے عذاب (واقع) ہو چکے ہیں۔ اور تمہارا پروردگار لوگوں کو باوجود انکی بے انصافیوں کے معاف کرنے والا ہے اور بیشک تمہارا پروردگار سخت عذاب دینے والا ہے۔ ‏"  (13:6 الراعد)

ابن ابی حاتم میں ہے اس میں ہے اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالٰی کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بےپرواہی سے ظلم وزیادتی میں مشغول ہو جاتا.
(تفسیر ابن كثیر)




مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Enjoy Old age صحت مند بڑھاپا ؟

صحت مند بڑھاپا کیسے؟


Image result for enjoy old age
Old age is simply a 'state of mind' - and enjoying life to the full can keep you young People who perceive themselves as old are more likely to quit activities which could help keep them young Key examples include socialising and regular exercise
Age is nothing but a number, according to new research that suggests you're only as old as you let yourself feel. 

A study has shown that people who perceive themselves to be old and frail are more likely to give up activities which could help to keep them young – such as socialising and taking regular exercise.
By contrast, people with a positive attitude are more likely to continue taking part in these activities which helps them to stay fit and mentally alert.


People who perceive themselves to be old and frail are more likely to give up activities which could help to keep them young
People who perceive themselves to be old and frail are more likely to give up activities which could help to keep them young

People with a positive attitude are more likely to continue taking part in activities which help them to stay fit and mentally alert
People with a positive attitude are more likely to continue taking part in activities which help them to stay fit and mentally alert

Krystal Warmoth, from the University of Exeter, believes that older people who categorise themselves as elderly and decrepit are more likely to behave as though they are.
She interviewed 29 older people in the southwest of England and asked them about their experiences of aging and fragility.
She discovered that an elderly person’s attitude could lead to a loss of interest in participating in social and physical activities, poor health, and reduced quality of life. 
One respondent summed up the findings: ‘If people think that they are old and frail, they will act like they're old and frail,’ she said.
Forget popping pills - the best way to boost your brainpower is a crossword or sudoku
After Andrew Marr blames his stroke on overdoing it on the rowing machine at 53, how risky is high-intensity...
Ms Warmoth also discovered there can be a cycle of decline whereby perceiving oneself as frail can lead to a person disengaging from activities that could reduce the likelihood of frailty - such as physical exercise.
This, in turn, makes them more likely to become frail and to have a poor quality of life.
Ms Warmoth said: ‘This study gives an insight into the role of psychological factors in older adults’ health and activity levels.’
However, plenty of elderly people are clearly following Ms Warmoth’s advice.

A 2010 report from the Health Protection Agency found a rise in the number of people in their 50s, 60s, 70s and 80s xxxxx
The study also found that there had been an increase in all of the five main STDs in older age groups, with the age group 45 to 64 witnessing the biggest rise in syphilis, herpes, chlamydia and genital warts between 2000 and 2009.
Meanwhile, researchers at North Carolina State University found that elderly people who played video games had 'higher levels of well-being'.
They asked 140 people aged 63 and above how long they play games for, then put them through tests to asses their emotional and social well-being.
Sixty-one per cent of participants said they played video games 'at least occasionally', while 35 per cent said they played at least once per week.
The results of the study indicated that those who played games occasionally reported higher levels of well-being, whereas those that did not play reported 'negative emotions and a tendency toward higher levels of depression'.
Read more: http://www.dailymail.co.uk/health/article-2309944/Old-age-simply-state-mind--enjoying-life-young.html#ixzz4ZUz88bzQ
Follow us: @MailOnline on Twitter | DailyMail on Facebook
بڑھاپا ایک قدرتی عمل ہے، لیکن بعض افراد بہت جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ یہ افراد اپنے آپ کووقت سے پہلے بوڑھا سمجھنے لگتے ہیںاور کام کاج بند کر دیتے ہیں۔ ایسا بڑھاپا مختلف بیماریاں اپنے ساتھ لاتا ہے۔ مثبت سوچ، مفید مصروفیات، پرہیز، متوازن غذا اور حضورﷺ کی سنت کے مطابق زندگی گزارنے سے اس قیمتی وقت کو بہت زیادہ نفع بخش بنایا جاسکتا ہے۔ بڑھاپے سے ڈرنا نہیں چاہیے، اس لیے کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ صحت مندی رہے تو تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کے کام کرتے رہنا چاہیے۔ اگر آپ صحت سے بھرپور بڑھاپے کے خواہشمند ہیں تودرج ذیل طریقوں پر عمل کریں۔ ٭ہمیشہ مثبت سوچ رکھیں۔ چاق و چوبند رہیںاوردوسروں سے توقعات نہ رکھیں۔ ٭دین و دنیا کے لیے اچھے کام کرتے رہیں۔ ٭جواچھا کام آپ جوانی میں کرنا چاہتے تھے، لیکن مصروفیت کی وجہ سے نہ کرسکے، اسے اب کرنا شروع کردیں۔ پیدل چلنے کی عادت ڈالیں۔ تیز قدموں سے چلیں۔ تیز قدموں سے چلنا مفید صحت ہے۔ ٭جسم کو پاک صاف رکھیں۔ روزانہ غسل کرنے کی عادت ڈالیں۔ ٭خشک میووں میں اخروٹ بادام، انجیر، چلغوزے اور کاجو کھائیں۔ پھلوں میں انگور، آلو بخارا، آڑو اور سیب کھائیں۔ ٭مائیکرویو میں گرم کیے ہوئے کھانوں سے پرہیز کریں۔ ٭روزانہ ایک چمچہ زیتون کا تیل ضرور پئیں۔ ٭گھیکوار (ایلوویرا) کا رس پئیں۔یہ بڑھاپے کو روکتا ہے۔ ٭شہد، جو کا دلیا اور اسبغول ناشتے میں کھائیں۔ ٭8گھنٹے ضرور سوئیں۔ عشا کی نماز کے بعد جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد نبی اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آدھ گھنٹہ قیلولہ ضرور کریں۔ ٭پڑوسیوں کا احوال دریافت کرتے رہیں۔ ٭نماز مسجد میں پڑھیں ، تاکہ محلے کے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہے۔ ٭دوستوں اور رشتہ داروں سے ملتے رہیں۔ غم اور خوشی کے مواقع پر شرکت ضرور کریں۔ ٭اللہ تعالیٰ کے ناموں کا ورد کریں۔ روزانہ درود شریف، کلمہ طیبہ اورآیت الکرسی پڑھنے کی عادت ڈالیں، تاکہ گھر میںخیروبرکت اور عمر میں اضافہ ہو۔ ٭لڑائی جھگڑوں سے دور رہیں۔ جن سے آپ ناراض ہوں ان کے لیے بھی دعائے خیر کریں۔اگر ممکن ہو تو ان کو خود منالیں۔ اگر معافی بھی مانگنی پڑے تو مانگ لیں۔ معافی مانگنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے۔ ٭صبح و شام چہل قدمی اور ہلکی ورزش کریں۔ ٭روزانہ8 سے10 گلاس پانی پئیں۔ چائے اور کافی کم پئیں۔ سبز چائے زیادہ پئیں۔ پھلوں کارس پینے کے بجائے انہیں دانتوں سے کاٹ کر کھائیں۔ سرخ گوشت کم کھائیں۔ ٭فرصت کے اوقات میں بچوں کے ساتھ کھیلیں انہیں اپنی زندگی کے سبق آموز واقعات سنائیں۔ ٭بیماروں کی عیادت کریں۔ اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کریں۔ کوئی دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کریں۔ ٭بڑھاپا انسان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے، جسے آپ نے ساری عمر تعلیم اور تجربات کے حصول کے بعد پایا ہے۔ یہ قیمتی سرمایہ بہت سوچ سمجھ کرصرف کرنا چاہیے۔ ٭بڑھاپا اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کی تکمیل میں گزارنا چاہیے، جن میں اہم ترین کام اپنی ذات کی اصلاح اور مخلوق خدا کی بے لوث خدمت ہے۔
سعدیہ قمر
مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Masjid Quba مسجد قبا مدینه منورہ

 مسجد قبا, تاریخ اسلام کی پہلی مسجد ہے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود تعمیر کی یہ  مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستی قباء میں واقع ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق 8 ربیع الاول 13 نبوی بروز دو شنبہ بمطابق 23 ستمبر 622ء کومکہ سے ہجرت کر کہ یثرب کی اس بیرونی بستی میں پہنچے اور 14 روز یہاں قیام کیا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی جسے قرآن مجید نے بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایسی مسجد قرار دیا جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔
The Quba Mosque (مسجد قباء‎‎, Masjid Qubā’), in the outlying environs of Medina in Saudi Arabia, is one of the oldest mosques in the world. According to traditions, its first stones were positioned by Prophet Muhammad (pbuh) as soon as he arrived on his emigration from the city of Mecca to Medina and the mosque was completed by his companions.Prophet Muhammad (pbuh) spent 14 days in this mosque during the Hijra praying qasr (a short prayer) while waiting for Ali to arrive in Medina after the latter stayed behind in Mecca to carry out a couple of tasks entrusted to him by the Prophet (pbhu)
According to Islamic tradition, performing wudu in one's home then offering two rakaʿāt of nafl prayers in the Quba Mosque is equal to performing one Umrah.
Prophet Muhammad (pbuh) used to go there, riding or on foot, every Saturday and offer a two rakaʿāt prayer. He advised others to do the same, saying, "Whoever makes ablutions at home and then goes and prays in the Mosque of Quba, he will have a reward like that of an 'Umrah." This hadith is reported by Ahmad ibn HanbalAl-Nasa'iIbn Majah and Hakim al-Nishaburi. Keep reading >>>>
No automatic alt text available.

 لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ۔ (التوبہ9:108 ) 
 ”ایک ایسی مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقوی پر رکھی گئی ہو ، اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ (اے نبی!) آپ اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہوں۔ وہاں ایسے لوگ ہیں جو (اپنے جسم و روح کو ) پاک کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“
Image result for ‫مسجد قبا‬‎
مسجد قبا کی شان
قبا مدینہ منورہ کے جنوب میں بالائی علاقہ ہے۔ حضور اکرم ضلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو عمروبن عوف قبیلہ قبا میں آباد تھا۔ آپ نے تین دن اس جگہ پر قیام فرماکر اہلِ قبا کی درخواست پر مسجد قبا کی بنیاد ڈالی آپ نے اہلِ قبا کو حکم دیا کہ پتھر جمع کرو اور اپنی چھڑی سے قبلہ کے تعین کےلئے ایک خط کھینچا۔ اور اپنے دستِ مبارک سے ایک پتھر بنیاد میں رکھا۔ پھر صحابہ کرام کو حکم دیا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر ترتیب سے رکھے۔ آپ اس مسجد کی تعمیر کےلئے خود پتھر ڈھوتے تھے۔ قرآن کی یہ آیت ترجمہ ”البتہ مسجد وہ ہے جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی“ اسی مسجد قبا کی شان میں نازل ہوئی۔ اور بنی عمروبن عوف کے لئے یہ ایک ترجمہ” اس مسجد میں بہت سے مرد ہیں جو طہارت کو محبوب رکھتے ہیں اور اللہ طاہرین کو محبوب رکھتے ہیں“ نازل ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ”آپ نے فرمایا وہ مسجد جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے وہ اول دن سے مسجد قبا ہے“ صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ضلی اللہ علیہ وسلم قبا کی زیارت کےلئے کبھی سوار اور کبھی پیادہ پا تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ایک دوسری روایت میں ہے ”آنحضرت ضلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ سوار اور پیدل مسجد قبا تشریف لایا کرتے تھے“۔
Image may contain: one or more people and outdoor
خلفائے راشدین کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد قبا کی زیارت کو آئے کسی شخص کو وہاں نہ پایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے پیغمبر خدا کو اس حال میں دیکھا ہے کہ اپنے اصحاب کے ہمراہ اس مسجد کی تعمیر کےلئے پتھر ڈھوتے تھے۔ خدا کی قسم اگر یہ مسجد اطراف عالم کے کسی دور دراز گوشے میں بھی ہوتی تو ہم اپنے اونٹوں کے کلیجے اس کی طلب میں دفن کر دیتے۔“ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھجور کی سوکھی شاخوں سے جھاڑو بناکر مسجد کو صاف کیا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا”مسجد قبا میں دو رکعت ادا کرنا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ دو مرتبہ بیت المقدس کی زیارت کروں“ اور مزید فرمایا”اگر تم یہ جان لو کہ اس مسجد میں کیا بھید پوشیدہ ہیں تو اس کی زیارت کےلئے ہر امکانی کوشش کیا کرو“۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ”جس نے چار مسجدوں، مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ اور مسجد قبا میں نماز پڑھی اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے“۔ ترمذی شریف میں حدیث مبارکہ ہے کہ”مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرے کے برابر ہے“ قدیم دور سے یہ مسجد مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ شاہ فہد نے 8 صفر 1405ھ کو اس کی جدید تعمیرو توسیع کا بنیادی پتھر نصب کیا۔ اور ایک سال کے بعد اس کی تعمیر مکمل ہونے پر مسجد نمازیوں کےلئے کھول دی گئی۔ (ذوالقرنین کاش  [http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/2822 ]

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page