Salaam Forum سلام

Knowledge, Humanity, Religion, Culture, Tolerance, Peace

Pages

  • Home
  • Index-انڈکس
  • پہلا صفحہ
  • FAQ
  • خالق کائنات کون؟
  • خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید
  • فرقہ واریت کا خاتمہ : پہلا قدم
  • Quran قران - راہ ھدایت و نجات
  • کتابت حدیث
  • Free Books
  • Peace-Forum
  • Just1God
  • Faith Forum
  • Islamophobia
  • Pakistan Posts
  • YouTube
  • Video Channel
  • Muslim Only صرف مسلمان

Featured post

قرآن مضامین Quran: The Only One Book

Don't Discard Quran: Quran is the Only Last, Complete, Protected Divine Book of Guidance, without any doubt, all other books are human ...

عمرہ کا طریقہ Umra-Step by Step




مقررہ دنوں (یعنی اَیّامِ حج) کے علاوہ مخصوص عبادات کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنے کو عمرہ کہتے ہیں یعنی میقات سے احرام باندھنا، دو نفل نماز پڑھنا اور عمرہ کی نیت کے بعد تلبیہ، طواف، سعی اور حلق کرانا عمرہ کہلاتا ہے۔

Step by Step Guide to Holy Umrah/Umra from Tanveer Padder
عمرہ کے فرائض و واجبات
عمرہ کے دو فرائض ہیں:
1.حدودِ حرم کے باہر سے احرام باندھنا
2.طواف کرنا
یہ چھوٹ جائیں تو عمرہ باطل ہو جاتا ہے۔

عمرہ کے واجبات
1.صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا
2.حلق (سر کے بال منڈوانا) ہے یا قصر (سر کے بال کم کرنا)
یہ چھوٹ جائیں تو بکرا بطور دم دینا پڑتا ہے۔

احرام کا طریقہ
احرام باندھنے سے قبل جسم کی ظاہری صفائی کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے ناخن تراشیں، زیر ناف اور بغل کے بال صاف کریں، مونچھیں اور داڑھی درست کریں اس کے بعد جسم کو اچھی طرح مَل کر نہائیں۔ خوشبو لگائیں پھر مرد سلا ہوا کپڑا اتار کر بغیر سلی ہوئی ایک چادر کا تہہ بند ناف کے اوپر سے باندھیں اور ایک چادر کندھوں سے اوڑھ لیں، سر ننگا رکھیں اور دونوں بازو ڈھانپ لیں۔ خواتین اپنے کپڑوں میں ہی احرام کی نیت کریں۔
احرام کے مسائل 》》》

احرام کی نیت
احرام باندھنے کے بعد:
 دو رکعت نماز احرام کی نیت سے ادا کریں۔ سلام پھیر کر احرام کی نیت کرتے ہوئے اپنی زبان سے کہیں۔

اَللَّهُمَّ نَوَيْتُ الْعُمْرَة وَاحْرَمْتُ بِه فَتَقَبَّلْه‘ مِنِّیْ

”الہٰی میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں اور میں نے احرام باندھ لیا ہے اسے میری طرف سے قبول فرما۔“

عمرہ کی نیت
احرام کی نیت باندھنے کے فوراً بعد مرد سر ننگا کر کے اور عورتیں سر ڈھانپ کر نیت کریں۔ عمرہ کی نیت کے مسنون الفاظ یہ ہیں:

اَللَّهُمَّ اِنِّیْ اُرِيْدُ الْعُمْرَة فَيَسِّرْهَالِیْ وَتَقَبَّلْهَا مِنِّیْ وَاَعِنِّیْ عَلَيْهَا وَبَارِکْ لِیْ فِيْهَا نَوَيْتُ الْعُمْرَة وَاَحْرَمْتُ بِهَا ِﷲِ تَعَالٰی

”اے اﷲ میں نے عمرہ کا ارادہ کیا اس (کی ادائیگی) کو میرے لئے آسان فرما اور مجھ سے قبول کر لے اور اس کے ادا کرنے میں میری مدد فرما۔ اور اِس میں میرے لئے برکت عطا فرما۔ میں نے عمرہ کی نیت کی اور اس کے ساتھ اﷲتعالیٰ کے لئے احرام باندھا۔“

تلبیہ
نیت کرتے ہی مرد ذرا بلند آواز سے جبکہ خواتین آہستہ آواز سے تین بار تلبیہ پڑھیں، تلبیہ کے الفاظ یہ ہیں:

لَبَّيْکَ اَللَّهُمَّ لَبَّيْکَ،      لَبَّيْکَ لاَ شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ،   اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ،    لاَ شَرِيْکَ لَکَ-


Image result for ‫عمرہ کی دعائیں‬‎

”میں حاضر ہوں، یااﷲ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔“

دعا
تلبیہ کے بعد درود شریف پڑھیں
Image result for ‫درود ابراهیمی‬‎
 اور پھر یہ دعا مانگیں:

اَللّٰهُمَّ إنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّة وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ

”اے اﷲ میں آپ سے آپ کی رضا اور جنت مانگتا ہوں اور آپ کی ناراضگی اور جہنم سے آپ ہی کی پناہ چاہتا ہوں۔“

اس کے بعد اور جو دعائیں چاہیں مانگیں، اب آپ پر احرام کی پابندیاں شروع ہو گئی ہیں لہٰذا ہمہ وقت ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تلبیہ پڑھتے رہیں۔ سفرِ آخرت کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر دل سے تائب ہوں۔ اللہ کی محبت و خشیت کو دل میں اتارنے کی کوشش کریں۔
حرمِ مکہ میں داخل ہونے کی دعا
حرمِ مکہ میں نہایت ادب و احترام سے یہ دعا پڑھتے ہوئے داخل ہوں:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذَا حَرَمُکَ وَحَرَمَ رَسُوْلِکَ فَحَرِّمْ لَحْمِیْ وَدَمِیْ وَعَظَمِیْ عَلٰی النَّارِ اَللَّهُمَّ اٰمِنِّیْ مِنْ عَذَابِکَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ وَاجْعَلْنِی مِنْ اَوْلِيَآئِکَ وَاَهْلِ طَاعَتِکَ وَتُبْ عَلَّی اِنَّک اَنْتَ التَّوَابُ الرَّحِيْمُ-

”اے اﷲ یہ تیرا اور تیرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حرم ہے پس میرے گوشت، خون اور ہڈیوں کو آگ پر حرام کر دے۔ اے اﷲ ! مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ۔ جس روز تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا اور مجھے اپنے ولیوں اور اطاعت گزاروں میں شامل کردے اور مجھ پر نظرِ کرم فرما۔ بے شک تو توبہ قبول کرنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔“

مسجد حرام (حرم شریف) میں داخل ہونے سے قبل تازہ وضو کریں پھر بڑے ہی والہانہ عشق و محبت، ذوق و شوق اور عجز و انکساری کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے اور دعائیں مانگتے ہوئے پہلے سیدھا پاؤں اندر رکھیں اور یہ دعا پڑھیں:

بِسْمِ اﷲِ وَالصَّلٰوة وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ

پھر یہ نیت کریں کہ اے اﷲ! میں جتنی دیر اس مسجد میں رہوں اتنی دیر کے لئے اعتکاف کی نیت کرتا ہوں۔

بیت اﷲ پر پہلی نظر
مسجد حرام میں داخل ہونے کے بعد جونہی بیت اﷲ پر پہلی نظر پڑے تو یہ کہیں:

اَﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ- لَآ اِلَهٰ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ-

اس کے بعد آپ ربِّ کریم کے حضور ہاتھ اٹھا کر خوب دعائیں مانگیں کیونکہ یہ قبولیت کے خاص لمحات ہیں پھر آپ لبیک کہتے ہوئے کعبۃ اﷲ کی طرف قدم بڑھائیں اور حجرِ اسود کے بالکل سامنے آ کر طواف کی نیت کریں۔

طواف کی نیت
طواف سے قبل مرد حضرات (اضطباع کریں یعنی) اپنا سیدھا بازو چادر سے باہر نکال لیں اور حجر اسود یا اس کی سیدھ میں بنی ہوئی فرش کی کالی پٹی کے بائیں طرف کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ان الفاظ میں نیت کریں:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اُرِيْدَ طَوَافَ بَيْتِکَ الْحَرَامِ فَيَسِّرْهُ لِیْ وَتَقَبَّلْهُ مِنِّیْ سَبْعَة اَشْوَاطٍ ِﷲ تَعَالٰی عزّوجل-

”اے اﷲ میں تیرے مقدس گھر کا طواف کرنے کی نیت کرتا ہوں۔ پس تو اسے مجھ پر آسان فرما دے اور میری طرف سے سات چکروں کے (طواف) کو قبول فرما۔ جو محض تجھ یکتا عزوجل کی خوشنودی کے لئے (اختیار کرتا ہوں)۔

اِستِلام (حجرِ اسود کو بوسہ دینا یا اشارے سے چومنا)
طواف کی نیت کے بعد کالی پٹی کے اوپر آئیں اور حجر اسود کے مقابل ہو کر کانوں تک ہاتھ اس طرح اُٹھائیں کہ ہتھیلیاں حجر اسود کی طرف رہیں اور کہیں:

بِسْمِ اﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَاﷲُ اَکْبَرُ وَالصَّلٰوة وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ

اور ہاتھ چھوڑ دیں، ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دیں ورنہ ہاتھوں سے اس کی طرف اشارہ کرکے انہیں بوسہ دے لیں اور اَللَّہُمَّ اِیْمَانًا بِکَ وَاِتِّبَاعًا لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ کہتے ہوئے کعبہ تک بڑھیں۔

طواف کی دعا
اب کالی پٹی پر کھڑے کھڑے ہی اپنا رخ اس طرح تبدیل کریں کہ کعبۃ اﷲ آپ کے بائیں طرف ہو اور درج ذیل دعا پڑھنے کے بعد مرد رمل کرتا (اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئی) آگے بڑھے جبکہ عورتیں رمل نہیں کریں گی۔ دُعا یہ ہے۔

سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَلَآ اِلَهٰ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قَوَّة اِلاَّ بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِيْمِ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِک وَسَلِّمْ-

نوٹ: اگر طواف کی دعا یاد نہ ہو تو پھر سبحان اﷲ، الحمد اﷲ، اﷲ اکبر، استغفار یا کلمہ شہادت کا ورد جاری رکھیں۔
{طواف کے چکروں کی 《《دعائیں 》》}اس طرح چلتے چلتے جب آپ دوبارہ کالی پٹی پر پہنچیں گے تو ایک چکر مکمل ہو گا، تین چکر کے بعد رمل بند کر دیں اور باقی چار چکر اپنی عام رفتار سے چلیں۔

طواف اور اضطباع کا اختتام
سات چکر پورے ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر استلام یا استلام کا اشارہ کر کے طواف ختم کر دیں اور اضطباع بھی ختم کر دیں یعنی سیدھا کاندھا بھی ڈھک لیں۔

دو رکعت نماز
مقام ابراہیم پر یا جہاں آسانی سے جگہ مل سکے طواف کے بعد دو رکعت واجب نماز ادا کریں اور پھر دعا کریں۔

مقام ملتزم
اس کے بعد آپ مقام ملتزم (حجر اسود سے باب کعبہ تک کی 8 فٹ دیوار) پر جا کر (اگر جگہ مل جائے) دعا کریں، یہ دعا کی قبولیت کا خاص مقام ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں پر بڑی عاجزی سے دیوار سے لپٹ کر دعا مانگتے تھے۔

آب زم زم پینے کی دعا
مقام ملتزم سے فارغ ہونے کے بعد زم زم کے پاس آئیں کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے کھڑے کھڑے بسم اﷲ پڑھ کر تین سانسوں میں جتنا پانی پی سکیں پئیں پھر الحمد اﷲ کہیں اور یہ دعا مانگیں:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِزْقًا وَّاسِعًا وَّ عِلْمًا نَافِعًا وَّشِفآءَ مِّنْ کُلِّ دَآءٍ

”اے اﷲ میں تجھ سے وسیع رزق اور نفع رساں علم اور ہر ایک بیماری سے شفا کا طلب گار ہوں۔“

سعی کی نیت
آبِ زم زم پینے کے فوراً بعد یا پھر تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد صفا و مروہ میں سعی کے لئے پہلے حجر اسود پر آئیں اور حسبِ سابق استلام کے بعد باب صفا کی جانب روانہ ہوں، دل میں سعی کی نیت کریں اور زبان سے یہ دعا کریں:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اُرِيْدُ السَّعْیَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْ وَة سَبْعَة اَشْوَاطِ لِّوَجْهِکَ الْکَرِيْمِ فَيَسّرْهُ لِیْ وَتَقَبَّلْهُ مِنِّیْ-

”اے اﷲ! میں صفا اور مروہ کے درمیان محض تیری خوشنودی کے لئے سات چکروں سے سعی کرتا ہوں پس اِسے میرے لئے آسان کر دے اور مجھ سے وہ قبول فرما۔“

سعی (ہر چکر) شروع کرنے کی دعا
جب نیت اور دعا سے فارغ ہوجائیں تو پھر خانہ کعبہ کی طرف منہ کریں اور دونوں ہاتھ اٹھا کر ہر چکر کے شروع میں اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کریں۔

بِسْمِ اﷲِ اَﷲُ اَکْبَرُ وَ ِﷲِ الْحَمْدُ

”اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں اﷲ سب سے بڑا ہے اور سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں۔“

صفا و مروہ پر چڑھنے کی دعا
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَة مِنْ شَعَآئِرِ اﷲِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَاِنَّ اﷲَ شَاکِرٌ عَلِيْمٌO (القرآن)

”بے شک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اﷲ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقینًا اﷲ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبردار ہے۔“

صفا و مروہ سے اترنے کی دعا
جب آپ صفا یا مروہ سے اتریں تو اترتے وقت یہ دعا کرتے رہیں۔

اَللّٰهُمَّ اسْتَعْمِلُنْی بِسُنَّة نَبِيِّکَ صلی الله عليه وآله وسلم وَتَوَقَّنِیْ عَلٰی مِلَّتِه وَاَعِذْنِیْ مِنْ مُّضِلاَّتِ الْفِتَنِ بِرَحْمَتِکَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ-

”اے اﷲ! مجھے اپنے نبی کی سنت کا تابع بنا دے اور مجھے آپ کے دین پر موت عطا کر اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ دے۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔“

مروہ کی طرف چلتے ہوئے یہ دعا کریں
صفا کی سیڑھیوں سے اترتے ہی آپ کے سفر کا آغاز مروہ کی طرف شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مروہ کی طرف چلتے ہوئے یہ دعا کرتے رہیں۔

سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَلاَ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّة اِلاَّ بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ-

”اﷲ پاک ہے سب تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اﷲ سب سے بڑا ہے نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی طاقت نہیں، مگر اﷲ کی مدد سے، جو بہت بلند شان اور بڑی عظمت والا ہے۔“

اگر مذکورہ دعا آپ کو زبانی یاد نہ ہو تو پھر دیگر اذکار مثلاً سُبْحانَ اﷲَ، اَلْحَمْدُِﷲِ، اَﷲُاَکْبَرُ، اِسْتِغْفَار (اَسْتَغْفِرُ اﷲ) یا درود شریف کا ورد جاری رکھیں۔

صفا سے مروہ تک جانے کو ایک چکر اور مروہ سے صفا تک واپس آنے کو دوسرا چکر کہتے ہیں۔ اِس طرح ساتواں چکر مروہ پر آ کر ختم ہوتا ہے۔ ہر پھیرے میں جب صفا یا مروہ پہنچیں تو ہاتھ اُٹھا کر قبلہ رُخ ہو کر دُعا کریں۔ ساتویں پھیرے کے بعد اَب سعی ختم ہوگئی آخر میں قبلہ رُخ ہو کر ہاتھ اُٹھا کر دُعا کریں۔

حلق یا تقصیر اور تکمیل عمرہ
جب ساتویں سعی مروہ پر جاکر ختم ہوتی ہے تو عمرہ کے تمام افعال مکمل ہوجاتے ہیں۔ اب مسجدِ حرام سے باہر آئیں۔ مرد حضرات حلق (سارے بال منڈوانا) یا تقصیر (نشانی کے طور پر کچھ بال کتروانا) کرائیں اور خواتین سر کے پچھلے حصے سے صرف ایک پور کے برابر بال کاٹیں۔

اب الحمدﷲ آپ کا عمرہ مکمل ہو گیا، آپ پر احرام کی پابندی ختم ہو گئی اپنی رہائش گاہ پر جا کر احرام اتارا جا سکتا ہے۔


 عمرہ کی غلطیاں جن سے بچنا چاہئے:

  1. بیک آواز کئی لوگوں کا ایک ساتھ مل کر تلبیہ پکارنا اور دعائیں پڑھنا۔
  2. طواف مکمل کرلینے کے بعد بھی کندھا کھلا رکھنااور کندھا کھول کر صلاة پڑھنا۔
  3. حجر اسود کو چومنے یا رکن یمانی کو چھونے یا مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھنے کے لئے بھیڑ کرنایا رکن یمانی نہ چھوپانے کی صورت میں اس کی طرف اشارہ کرنا۔
  4. حجر اسود اور رکن یمانی کے سوا کعبہ کی دیواروں، حطیم اور مقام ابراہیم کو برکت حاصل کرنے کے لئے چھونا۔
  5. صفا اور مروہ کے دوران آنا جانا ملاکر ایک چکر سمجھنا۔
  6.  پورے بال کٹوانے کے بجائے ادھر ادھر سے چند بال کٹوانا۔
  7. عورتوں کا اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھناالبتہ نقاب جائز نہیں۔
  8. احرام کی نیت سے دو رکعت صلاة پڑھنا البتہ ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔
  9. غار حرا اور غار ثور وغیرہ جاکر نفلی صلاتیں پڑھنا۔
اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اسے اپنی عظیم بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
.........................................


 زیارت مسجد نبوی، روضۂ رسول  اور مدینہ کی اہم زیارات:

  1. مسجد نبوی کی ایک صلاة(نماز) دیگر مساجد کی ایک ہزار صلاتوں سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے کہ وہاں کی ایک صلاة مسجد نبوی کی سوصلاتوں سے افضل ہے۔  مسجد نبوی میں صلاة ادا کرنے کی نیت سے مدینہ کا سفر کرنا چاہئے-
  2. مسجد نبوی کی زیارت کے لئے سفر کرنا مسنون ہے لیکن اس کا عمرہ سے کوئی تعلق نہیں،  نہ یہ عمرہ کا حصہ ہے اور نہ اس کے لئے واجب یا شرط۔-
  3. جو شخص مسجد نبوی کے پاس پہنچے مسجد میں داخل ہونے کی دعاپڑھے پھر دایاں پیر آگے بڑھاکر مسجد میں داخل ہواور مسجد کے اندر دو رکعتیں تحیۃ المسجد پڑھے اور ان میں دنیا وآخرت کی بھلائی کے لئے جتنی چاہے دعائیں کرے۔
  4. تحیۃ المسجد کے بعد رسول  اور ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی قبروں کی زیارت کرے اور ان پر اس طرح سلام پڑھے: السلام علیک یا رسول اللہ ، السلام علیک یا أبابکر، السلام علیک یا عمر۔
  5. مدینہ طیبہ میں جب تک رہیں مسجد نبوی ہی میں پنجوقتہ صلاتوں کی پابندی کریں اور دیگر نوافل کا بھی اہتمام کریں۔
  6. ٨۔ حجرۂ مبارکہ کی دیواروں، کھڑکیوں یا جالیوں کو چھونا یا انھیں چومنا یا بوسہ دینا یا قبر کا طواف کرنا جائز نہیں-
  7. اﷲ سے دعا مانگیں ، نماز ادا کریں، ریاض الجنه میں موقع ملے تو صلاہ ادا کریں-
  8. درود شریف کا ورد جاری رکھیں
  9. جنت البقیع میں حاضر ہو کر دعا کریں
  10. مسجد قبا میں دو نفل ادا کریں اور ایک عمرہ کا ثواب حاصل کریں -
  11. مسجد قبلتین، مسجد جمعہ ، جبل احد (شهدا احد فاتحہ) اور دوسرے تاریخی مقدس مقامات کی زیارت کریں ایمان کو تازہ کریں-

 مختصر دعائیں

مناسک کی ادائیگی کے دوران ہر مقام کے لئے علیحدہ علیحدہ پڑھی جانے والی دعائیں اگر یاد نہ ہو سکیں تو کتاب سے دیکھ کر بھی یہ پڑھی جا سکتی ہیں، لیکن اگر کوئی حاجی نہ پڑھ سکے تو درج ذیل مختصر و مسنون دعائیں پڑھنا بھی باعثِ اجر و ثواب ہے :

اَﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰه اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ، وَِﷲِ الْحَمْدُ.

’’اﷲ سب سے بڑا ہے، اﷲ سب سے بڑا ہے، اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، اﷲ سب سے بڑا ہے، اﷲ سب سے بڑا ہے، اور تمام تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں۔‘‘

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo

(البقرة، 2 : 201)

’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ‘‘

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِينَآ اَوْ اَخْطَاْنَاط رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَينَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَه عَلَی الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَاج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهج وَاعْفُ عَنَّاوقفه وَاغْفِرْلَنَاوقفه وَارْحَمْنَاوقفه اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِينَo
(البقرة، 2 : 286)

’’اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ فرما، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا (بھی) بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہمارے (گناہوں) سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ پس ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرماo‘‘

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هدَيتَنَا وَهبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةًج اِنَّکً اَنْتَ الْوَهابُo
(آل عمران، 3 : 8)

’’(اور عرض کرتے ہیں) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے اور ہمیں خاص اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بے شک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہےo‘‘

رَبَّنَا ظَلَمْنَ۔آ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لََّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِينَo
(الاعراف، 7 : 23)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گےo‘‘

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يوْمَ يقُوْمُ الْحِسَابُo
(ابراھيم، 14 : 40-41)

’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہو گاo‘‘

رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًاo
(طٰه، 20 : 114)

’’اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دےo‘‘

لَآ اِلٰه اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِينَo
(الانبياء، 21 : 87)

’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے، بے شک میں ہی (اپنی جان پر) زیادتی کرنے والوں میں سے تھاo‘‘

رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيرُ الرّٰحِمِينَo
(المؤمنون، 23 : 109)

’’اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں، پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو (ہی) سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہےo‘‘

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَينِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّيتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لََّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَينَاج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُo
(البقرۃ، 2 : 128)

’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بے شک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہےo‘‘

رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَينَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِينَo
(البقرۃ، 2 : 250)

’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر میں وسعت ارزانی فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرماo‘‘

رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهدِينَo
(آل عمران، 3 : 53)

’’اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اور ہم نے اس رسول کی اتباع کی سو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لےo‘‘

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِينَo
(آل عمران، 3 : 147)

’’اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہم سے ہونے والی زیادتیوں سے درگزر فرما اور ہمیں (اپنی راہ میں) ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرماo‘‘

رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَينَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَo
(الأعراف، 7 : 126)

’’اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو (ثابت قدمی سے) مسلمان رہتے ہوئے (دنیا سے) اٹھا لےo‘‘

رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِيرًاo
(الإسراء، 17 : 80)

’’اے میرے رب! مجھے سچائی (خوشنودی) کے ساتھ داخل فرما (جہاں بھی داخل فرمانا ہو) اور مجھے سچائی (و خوشنودی) کے ساتھ باہر لے آ (جہاں سے بھی لانا ہو) اور مجھے اپنی جانب سے مدد گار غلبہ و قوت عطا فرما دےo‘‘

رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَيئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًاo
(الکھف، 18 : 10)


’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اسباب) مہیا فرماo‘‘

کچھ پریکٹیکل ٹپس:
کرنل تسنیم باری صاحب  نے جنوری ٢٠١٧ میں عمرہ کی سعادت حاصل کی- ان کے تجربات سے آپ کچھ  رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں:
  1. پا سپورٹ ، شناختی کارڈ، ہوٹل ووچر اور دوسرے کاغذات کی 4 یا 5 فوٹو کاپیاں پاس رکھیں- موبائل سم کی خریداری اور مختلف جگہ کام آیئں  گے-
  2. صابن ،سرف وغیرہ حسب ضرورت ، ہینڈ کیری نہ کریں، بکس میں رکھیں-
  3. جدہ ایئر پورٹ پر سب سے پہلے سم مقررہ دوکانسے لیں- سم دو قسم کی ہوتی ہیں- ٨٠ ، ٨٥ ریال والی میں انٹرنیٹ  1-G B ہوتا ہے کہیں بھی کل کر سکتے ہیں 
  4. 35 ریال کی سم صرف لوکل سعودیہ کے لیے ہے-اس پر انٹرنیٹ نہیں ہوتا-
  5.  یو فون Ufone کی سم دوسرے فون میں رکھیں یہ پاکستان سے sms فری وصول کر سکتی ہے- whattsapp بھی کام کرتا ہے جب وا ی فائی مہیا ہو-
  6. ایئر پورٹ پر اپنی نامزد ٹرانسپورٹ کمپنی" شرکه" کی بس ، گاڑی تلاش کریں، ادھر موجود ہوتی ہے-
  7. ہوٹل کا کارڈ، گاغذات حفاظت سے رکھیں ، آپ کا پاسپورٹ ہوٹل میں جمع ہو جایے گا-
  8. اب زمزم اکٹھا کرنے کی ضرورت نہیں صرف ہوٹل میں استمعال کے لیے لیے لیں- باقی فی فرد ایک بوتل ایئر پورٹ پر 9 ریال میں ملے گی-
  9. اپنے سامان کا خیال رکھیں ، چوری کاخطرہ رہتا ہے- عمرہ میں بیگ کمر پر نہیں آگے رکھیں- اسی طرح ہوٹل میں صفائی کے لینے چابیاں نہ دیں ، واپس جا کر صفائی اپنے سامنے کروایں -
  10. الیکٹرک ایکسٹینشن تار رکھ لیں- 

Image result for extension wire
Image result for electric percolator
ہیٹر یا پرکلیٹررکھ لیں- 

اس کے ساتھ خاص شو تین پن والا ، جو گول نہ ہوں بلکہ چو رس پن ہوں- 


9. چا یے ، پتی، چینی ، دواییں ساتھ رکھیں- 
10- قینچی ، چمچ، بکس میں رکھیں ، ہینڈ میں نہیں-
11 - نمکو ، خشک میوہ جات ، مونگ پھلی وغیرہ حسب ضرورت رخ لیں-
١٢. سامان پر نشانی کے لینے رنگ دار ربن باندھ لیں شناخت میں آسانی ہوتی ہے -
١٣. مزید عمرہ ادا کرنے کے لینے مسجد عایشہ تک ٹیکسی کو 5 ریال فی فرد یا 20 ریال سالم ٹیکسی کا  یک طرفہ کرایہ ہے - زیادہ مت ادا کریں-
14.زاید عینک ، سن گلاس، سلپر وغیرہ رکھ لیں-
.........................................................
موبائل فون :
یو فون Ufone نے حج اور عمرہ کے پیکج افر کر رکھے ہیں ، انٹرنیشنل رومنگ سروس بھی- آپ تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں- پاکستانی نمبراستمعال کر سکتے ہیں تفصیلات کے لینے ویب سائٹ یا فرینچاز وزٹ کریں :
https://www.ufone.com/International/roaming/prepaid/hajj-offer/
ممکن ہے کہ دوسروں نے بھی ایسی آفر دی ہوں - اپنے متعلقہ موبائل انکوائری سے رابطہ کریں-


.............................................

قرآنی آیات اور دعا ییں:http://islam4humanite.blogspot.com/2016/01/selected-quranic-verses-supplications.html


مزید پڑھیں >>>> حج و عمرہ کا بیان -مکہ مکرمہ اس پوری کائناتِ ارضی میں وہ بابرکت جگہ اور رحمتوں والا مقام ہے جسے .... نیت کرنے والا ہو یا عمرہ کی تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے اگر وہ فوت ہوگیا تو اسے جنت میں داخلہ نصیب ہو گا۔ ..... جیب, جَيْبٌ, جراب, جَوْرَبٌ .... خواتینکے لئے بند جوتا، کھلی چپل، جرابیں (احرام میں بند جوتا اور جرابیں پہننا منع نہیں ہے)۔
احرام وحرم - فتاویٰ جات
لام عليكم ورحمة الله وبركاته اجنبی مردوں کی موجودگی میں حج و عمرہ کرنے والی عورت کا چہرہ ... حالت احرام میں عورت کے لیے برقعہ اور
 نقاب پہننے کا کیا حکم ہے؟

حج وعمرہ اور احرام | اردو مجلس فورم

\› ... › اسلامی مہینے › ماہ ذی الحجہ اور حج




کٹر ساجد خاکوانی ) حج اور عمرہ ایک بہت بڑی سعادت ہے ج

عمرہ کا طریقہ اور مسجد نبوی کی زیارت کے آداب 

راسی لئے تیار کیا گیا ہے تاکہ نبی e کے عمرہ کا طریقہ معلوم ہوسکے اور مسلمان ... ہم پر یہ سفر آسانفرمادے، اور اس کی دوری کم کردے۔ ... رکاوٹ نے روک لیا تو میرے احرام ختم کرنے 

Search Results

حج و عمرہ کی دعائیں - Minhaj Books

www.minhajbooks.com/.../حج-و-عمرہ-کی-دعائیں-سلسلہ-تعلیمات-ا...

Translate this page
حج اور عمرہ کرنے والوں میں سے جس جس نے اس گھر کی تعظیم و تکریم کی اس کی ... ان چاروں رکنوں کی الگ الگ دعائیں ذکرکی جاتی ہیں، اگر ہو سکے تو انہیں ذہین ...

34744 - عمرہ میں دعاؤں کی جگہیں اوردعاؤں کے الفاظ Published Date

https://islamqa.info/ur/34744

Translate this page
May 15, 2011 - میں عمرہ کی ادائیگی کےلیے مکہ جارہی ہوں اورمجھے دعاؤں کا علم نہيں کیا آپ میرا تعاون کرسکتے ہیں.

Search Results

حج و عمرہ کی دعائیں -
حج اور عمرہ کرنے والوں میں سے جس جس نے اس گھر کی تعظیم و تکریم کی اس کی ... ان چاروں رکنوں کی الگ الگ دعائیں ذکرکی جاتی ہیں، اگر ہو سکے تو انہیں ذہین ...
 عمرہ میں دعاؤں کی جگہیں اوردعاؤں کے الفاظ
May 15, 2011 - میں عمرہ کی ادائیگی کےلیے مکہ جارہی ہوں اورمجھے دعاؤں کا علم نہيں کیا آپ میرا تعاون کرسکتے ہیں.
حج و عمرہ کی مسنون دعائیں t
... ہوتے وقت, ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ. ||طواف کی دعا, ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ. ہوم · متفرق · حج اور ذوالحجۃ کے احکام و مسائل حج و عمرہ کی مسنون دعائیں.
عمرہ کا طریقہ    Umra-Step by Step
Short Link: https://goo.gl/DSnP7U
.........................................

صلوٰۃ التسبیح ادا کرنے کا طریقہ:

حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا : چچا کیا میں آپ سے محبت کا حق ادا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو فائدہ نہ پہنچاؤں؟ کیا میں آپ سے صلہ رحمی نہ کروں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اﷲ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
  1. چار رکعت نماز پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھیں 
  2. جب قرات سے فارغ ہو جائیں تو رکوع سے قبل 15 بار سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَلَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَر کہیں،
  3. پھر رکوع کریں اور اس میں دس بار،
  4. پھر رکوع سے اٹھ کر دس بار، 
  5. پھر پہلے سجدہ میں دس بار، 
  6. پھر سجدے سے اٹھ کر دس بار،
  7. پھر دوسرے سجدہ میں دس بار،
  8. پھر دوسرے سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہونے سے قبل دس بار۔
  9. اس طرح ہر رکعت میں 75 بار ہوں گی اور چار رکعت میں 300 بار۔

اگر آپ کے گناہ ریت کے برابر بھی ہوں گے تو (اس نماز کے سبب) اﷲ انہیں معاف فرما دے گا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اسے روزانہ پڑھنے کی طاقت کون رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مہینہ میں ایک بار ورنہ سال میں ایک بار (پڑھ سکتے ہیں)۔
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی صلاة التسبيح، 1 : 172. 173، رقم : 1386
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔




مزید پڑھیں:
  1. خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam-  http://goo.gl/lqxYuw
  2. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : http://goo.gl/y2VWNE 
  3. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل
  4. پاکستان کی دلدل اور امن اور ترقی کا راستہ
  5. علماء اور دور جدید
  6. خاموش انقلاب مگرکیسے؟
  7. ظالم فاسق فاجر حکمران - علماء اور مسلمانوں کا رویہ
  8. ووٹ کی شرعی حیثیت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع
  9. نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع  - http://goo.gl/X9iI51
  10. التكفير الإرهاب داعیش طالبان :http://takfiritaliban.blogspot.com
  11. عمر ضائع کردی: http://goo.gl/3ZaTwQ
  12. http://Islam4Humanite.blogspot.com
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

More:
Frequently Asked Questions <<FAQ>>

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace 

Peace Forum Network
Visited by Millions
Frequently Asked Questions <<FAQ>>

  Follow @AftabKhanNet     
Facebook Page




No comments:
Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to FacebookShare to Pinterest
Labels: Islam, Umrah

(1) The Creator خالق کائنات کون؟



برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8
برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

انڈکس 
  1. تعارف
  2. خدا کا وجود 
  3. عقلی دلائل
  4. تنقید
  5. کوانٹم فزکس کے اسرار 
  6. توحید ,شرک اور بائبل   
  7. قرآن ایک دائمی معجزہ   
  8.  صرف ایک خدا 
  9. اختتامیہ

    ..............................................................


    باب-1
    تعارف
    قُلِ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿ ١٦الرعد﴾
    " کہہ دو کہ خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ یکتا (اور) زبردست ہے" (قرآن 13:16)
    "اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے"(قرآن:255)
    " کہہ دووہ الله ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے   نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے  اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے " (قرآن 112:1,2,3,4)
    "تب یسوع نے کہا، “سب سے اہم حکم یہ ہے اے بنی اسرائیلیو سنو، خداوند ہمارا خدا ہی صرف ایک خداوند ہے"۔ (بائبل مرقس 12:29,استثناء :6:4)
    "خداوند میرے آقا اس لئے تو بہت عظیم ہے تیرے جیسا کو ئی نہیں ، کو ئی خدا نہیں سوائے" (2 سموئیل 7:22)
    “نیکی کی بابت تو مجھ سے کیوں پو چھتا ہے ؟ خداوند خدا ہی نیک اور مقدس ہے۔ اگر تو ہمیشگی کی زندگی کو پانا چاہتے ہو تو حکموں پر عمل کر"-( متّی; 19:17)
    ایک عظیم طاقت کا تصورہمیشہ شروع سے انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے- وہ عظیم طاقت جو  تمام کائنات، آسمان اور زمین کی  خالق اور حاکم ہے، جو کہ پہلا سبب ہے ہر چیزکے وجود اور وقوع پزیر ہونے کا- خدا پر اعتقاد کے بعد مختلف ثقافتوں میں اس کی عبادت کی گئی- ابتدائی طور پر اس عظیم قوت کی کوئی تصاویرنہیں تھیں اورنہ ہی کوئی  کاہن کسی مندر میں اس کی خدمت پر مامورتہے- وہ عظیم طاقت ایک محدود انسانی تصوریا مذہب سے بہت بلند تھا ۔  اسی لیےپہلے ایک قدیم قسم کے تصور توحید کی ابتدا ہوئی پھر بہت دیربعد لوگوں نے دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد کی عبادت شروع کر دی- جب لوگوں نے بہت سے  معاونین معبودوں کی تصا ویر اور بت بنا لئےتو بتدریج وہ عظیم ہستی لوگوں کے شعور سے دھندلا گیئ اور یہ شرک کا آغاز تھا- اس الٰہی، سپریم خالق اور پروردگارکا عربی میں نام الله، اردو میں خدا اور انگریزی میں گاڈ  God ہے ۔
    پرانے افریقی قبائل اب بھی ایک ایسے عظیم معبود پر ایمان رکھتےہیں  جس نے کائینات کو تخلیق کیا اور اس پر حکمرانی کرتا ہے- انسانوں کے گروہوں کے خدا یا دیوتاؤں یا جس کسی کو بھی وہ مقدس، مافوقِ الفطرت طاقت و ہستی سمجھتے ہوں ، کے ساتھ  تعلق کو مذہب کے طور پر جانا جاتا ہے- لہٰذا مذہب وہ راستہ ہے جو اس پر چلنے والوں کو مشترکہ معبود کی عبادت اور رسومات کے زریعے باندھتا ہے- مذہب ایک ترتیب وار طرز زندگی ہے، جس سے معاشرے میں انسان  ایک روحانی زندگی بسر کرتاہے اور مغفرت پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
    مختلف مذاہب اپنے اصولوں، عقائد، رسومات اوربنیادی اعتقادات میں اختلاف رکھتے ہیں جن میں  مذہبی فضیلت مخصوص  تصور خدا اور خدا کی مرضی پراعتماد اور قبول کرنا شامل ہیں- اسلام ایک ہمہ گیراصطلاح "دین" استعمال کرتا ہے مذھب 'دین' کا ایک حصہ ہے- عربی میں دین کے معنی، اطاعت اور جزا کے ہیں- دین اسلام، عقائد ، عبادات کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے ، جس میں اخلاقیات، معاشرتی نظام ، معاشی نظام، قانون اور تمام شعبہ جات زندگی  شامل ہیں- قرآن دینی اتفاق پر زور دیتا ہے:
    "اور بے شک یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو- پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہونے والے ہیں" (23:52,53 قرآن)
    جرمن ماہر الہیات، فلسفی، اور مذہبی تاریخ دان، رودلف اوٹو (1986-1937) نے'نومنووس' (numinous ،مافوق الفطرت، اسطورہ یا روحانی) کی اصطلاح وضح کی تاکہ مذہبی تجربہ کے غیر منطقی عنصر کو تفویض کیا جائے، جس میں الہٰی کے تصور سے 'خوف، توجہ اور خوشی کا احساس  دل میں پیدا ہوتا ہے- وہ سمجھتا  تھا کہ مذہب، سائنس سے  آگے اور اس سے الگ دنیا کی تفہیم فراہم کرتا ہے- انہوں نے کہا کہ ' مذہب کا سب سے اہم حصہ الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مذہب کا  (بظاہر) ناقابل فہم حصہ ہے- مذہب کا مستحکم حصہ نظریاتی حصہ ہے جو بہت اہم ہے- لیکن ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا بہت کچھ ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا-
    ہر مذہب میں عام طور پر مشترکہ عقائد کا اپنا مجموعہ ہوتا ہےجن پرکمیونٹی مشترکہ طور پر عمل کرتی ہےاور وہ ان کی ثقافت، اقدارکا اظہار حکایاتِ، عقائد اور رسومات کے ذریعے کرتے ہیں- عبادت شاید مذہب کا سب سے بنیادی عنصر ہے، مگرعملی اخلاق، صحیح عقیدہ اور مذہبی اداروں کی شرکت بھی مذہبی زندگی کے عناصر ہیں ۔
    مذہب انسانی دماغ میں اٹھنے والے بنیادی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے، جیسے: خدا کا وجود، کائنات اور انسانیت کی تخلیق، انسانی دکھ درد، بدی، موت اوربعد از موت وغیرہ-
    عظیم ابراہیمی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام  ظاہری (بیرونی) مرکوزہیں، ان کے رسول اور پیغمبر خدا کی طرف سےبذریعہ وحی موصول آسمانی علم کے ذریعے انسانی ذہن میں اٹھنے والے بنیادی سوالات  کے جوابات سے ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
    دوسری  طرف باطنی مرکوز مذاہب مثلاً 'جین اور بدھ  مت  حقیقت کی اصلیت کے تصورکے  احساس کا استعمال کرتے ہیں-
    جب تینوں ابراہیم سے منسلک مذاہب میں 'خدا' اور 'تخلیق' کے بارے میں فلاسفی، الہیات اور  سائنسی پہلوؤں کی تاریخی ترقی  کا جایزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ:
    "ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ سب سے بے تعلق ہو کر ایک (خدا) کے ہو رہے تھے اور اسی کے فرماں بردار تھے اور مشرکوں میں نہ  تھے " (3:67 قرآن)
    یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ( حضرت اسحاق علیہ السلام  کے بیٹے) حضرت یعقوب علیہ السلام اور لیاہ کے چو تھے بیٹے کا نام  یہودہ  تھا، ان کےقبیلہ کے  نام پریہودہ سلطنت قائم ہوئی ، بعد میں تمام بنی اسرائیل 'یہودی' کے نام سے مشہور ہو گئے- عیسائیت  حضرت عیسیٰ علیہ السلام  سے منسوب ہےجو در اصل پال (صاؤل) کے ایجاد کردہ مذہب کے ماننے والے ہیں- حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم علیہ السلام کے بیٹے تھے جو کنواری ماں بنی تھیں ان کا سلسلہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے ،حضرت اسحاق علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک  ملتا ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب جو خالص توحید تھا نسل در نسل اتنا بگاڑ دیا گیا کہ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کی تثلیث میں تیسرا اور خدا کا بیٹا بنا دیا گیا جو سراسر شرک اور دین ابراہیمی کی نفی ہے:
    "یہودیوں نے کہا ، “ہما را باپ ابراہیم ہے۔” یسوع نے کہا ، “اگر تم حقیقت میں ابراہیم کے بیٹے ہو تو وہی کروگے جو ابرا ہیم نے کیا۔" (یوحنا 8:39)
    "صحیفہ بھی یہی سب کچھ ابرا ہیم کے بارے میں کہتا ہے۔“ابرا ہیم نے خدا پر ایمان لا یا اور اس کے معاوضہ میں خدا نے اسے قبول کیا اور وہ خدا کے نزدیک راستباز ہوا۔”تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہا ابراہیم کے سچے لڑ کے وہی لوگ ہیں جو ایمان وا لے ہیں۔ (گلتیوں7 ، (3:6
    چودہ سو سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے حضرت محمد ﷺ نے اصل دین توحید  ، دین ابراہیمی کو اس کی اصل روح میں وحی ،عقل و دلیل کی روشنی کے ساتھ بحال کیا- توحید کو پراسرار،لا یعنی مشرک عقائد سے پاک کیا جوانسانی عقل اوراصل سچائیوں پرجذباتی جہالت کے سا یئے ڈال دیتے ہیں- اس طرح جدید مذہبی ترقی کو نمائندگی ملی-  عام تصورہے کہ حضرت محمد  ﷺ ایک نیئے مذہب کےبانی تھے مگرحقیققت اس کے برعکس ہے ، اسلام، ابراہیم علیہ السلام کے اصل ورثہ  کے طور پرظہور پزیر ہوا جوایک ملت حنیفیہ یا ملت ابراہیمی جسے دین ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے۔ حنیف؛ عقیدہ کا سچا اور پختہ، حق پرست، باطل کی ضد، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لقب تھا جس سے مذہب اسلام کو منسوب کیا جاتا ہے۔ آپکی ملت " ملت حنیفیہ " کہلائی جس کی اتباع و پیروی کا حکم حضرت محمد  ﷺ - کو بھی دیا گیا:
    ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا
    'پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی اختیار کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تہے اور مشرکوں میں سے نہ تہے'. (النحل :16:123)
    بنیادی عقائد:
    مختلف عقاید جن میں خدا کے وجود پر ایمان رکھنا یا اس کے مخالف (جن میں درمیانی راستہ بھی شامل ہے) کے نتیجے میں مختلف اقسام کے نظریات وجود میں آ گئے جیسے کہ  خدا پرستی  (Theism)، توحید پرستی (Monotheism-موحد، ایک خدا پرست)، تھیوڈسی (Theodicy- خدا کی لامحدود طاقت کا برائی کی موجودگی میں دفاع)، دی ازم (Deism- مذہب فطرت ، اخلاقیات پر زورکیونکہ اس نظریہ کے مطابق خدا کائنات اور قوانین بنا کر مداخلت نہیں کرتا)، اگناسٹک (Agnosticism-خدا کےہونے یا نہ ہونے کے متعلق لا تعلق)، دہریت، الحاد ( Atheism- خدا کے وجود کا انکار) وغیرہ -
    دی ازم (Theism) : اس نظریہ کے مطابق؛ تمام قابل مشاہدہ مظاہرایک سپریم طاقت پر منحصر ہے لیکن وہ اس عظیم طاقت سے  علیحدہ ہیں- ان کے خیال میں خدا انسانی تصور سے ماوراہے، وہ اعلی ہے ، اور بے نیاز ہے  مگر وہ ایک مخصوص طر یقہ سے کائینات اور اس کے معاملات میں دخل انداز ہے-
    دیسٹ (Theists) نقطہ نظر کی حمایت میں عقلی دلائل اور تجربہ کرنے کی درخواست  پر انحصار کرتے ہیں- دی ازم (Theism) کے لئے ایک مرکزی مسئلہ شر کے وجود کے ساتھ ایک ایسے  خدا کا ملاپ کرنا رہا ہے جو عام طور پر مقتدر اور کامل سمجھا جاتا ہے  .
    توحید (Monotheism) ؛ ایک خدا کے وجود پر ایمان ہےجو اس شرک سے مبرا ہے. توحید یہودیت، عیسائیت(کسی حد تک ) اور اسلام کی خصوصیت  ہے، جن کے مطابق خدا دنیا کا خالق ہےاورنگران بھی جو انسانی واقعات میں مداخلت کرتا ہے-  خدا رحمان اور مقدس ہے جوتمام  نیکیوں اوراچھائیوں کا منبع ہے-
    تاریخی طور پرزیادہ تر دوسرے مذاہب مشرکانہ نظریات  رکھتے ہیں جس میں  لا تعداد دیوتاؤوں کے اوپرایک عظیم خدا کا تصور یا طاقتوردیوتاؤوں کے چھوٹے گروپ کے وجود کا اظہار ہے -
    وہ توحید جو یہودیت عقائد میں شامل ہے قدیم اسرائیل میں شروع ہوئی، اس میں خدا (یاویح)Yahweh کوعبادت کا واحد مرکزمان کر، دیگر قبائل اور قوموں کے دیوتاؤں کو ابتدائی طور پر ان کے وجود کا انکار کیئے بغیر رد کیا گیا-
    اسلام کےاقرار ایک، ابدی،غیرتخلیق  شدہ خدا ، الله پر یقین بالکل واضح ہے جس کےنہ کوئی برابر ، نہ ہی  کوئی شریک،  مسیحیت میں  ایک خدا ، پاک تثلیث کے تین افراد پرمشتمل ہے جو شرک کی ایک شکل ہے، اگرچہ مسیحی اس کو توحید کہتے ہیں-
    تھیوڈسی (Theodicy) : اس نظریہ کی بنیاد خدا کی لامحدود طاقت کا برائی کی موجودگی میں دفاع کرنے پر ہے-  اچھائی اور برائی کے قابل مشاہدہ حقائق کے ساتھ انصاف اور دنیا میں دکھ کے ساتھ تعلق کا جواز پیش کرنے کے لئے ایک دلیل ہے ۔ بیشتر ایسے دلائل   تھیوڈسی  theism کا ایک ضروری جزو ہیں.
    شرک polytheism  میں اچھائی اور برائی کے قابل مشاہدہ حقائق کےمسئلہ کودیوتاوں کے درمیان مرضی کے ٹکراؤ سے  منسوب کرکہ حل کیا جاتا ہے.
    اس  مسئلہ کا  حل توحید میں اتنا سادہ نہیں، اور اس کی  کئی شکلیں ہیں  کچھ نقطہ نظر میں، خدا کی طرف سے پیدا کردہ  کامل دنیا کو انسانی نافرمانی یا گناہوں سے خراب کیا گیا - دوسرے نظریہ کے مطابق خدا دنیا کی تخلیق کے بعد دنیا کے معاملات میں دخل اندازی سے دستبردار ہوگیا اس لیے دنیا  انحطاط پزیر ہو گئی-
    دی ازم Deism  : وحی یا کسی مخصوص مذہب کی تعلیم کی بنیاد کی بجائےصرف عقلی دلائل کی بنیاد پر  خدا واحد پرایمان (Deism)  ہے- یہ ایک قسم کا فطرتی مذہب ہے جو انگلینڈ میں سترھویں صدی کے آغاز میں  آرتھوڈوکس (روایتی) عیسائیت کو رد کرنے پر وجود پزیر ہوا- اس کے پیروکاروں  کا موقف ہے کہ محض انسانی  عقل سے فطرت میں خدا کے وجود کے ثبوت حاصل کئیے جا سکتے ہیں اور خدا نے کائنات تخلیق کر کہ اس کو اپنے بنا ئے ہوئے قوانین فطرت کے مطابق کام پر لگا دیا- فلسفی ایڈورڈ ہربرٹ (1583-1648)نے حقیقت خدا پر' اپنا سچ' کا نظریہ تخلیق کیا- اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر سے دی ازم Deism  یورپ کے تعلیم یافتہ طبقوں کا غالب مذہبی رویہ تھا ۔ اسے اسی دورکے بہت سے اپر کلاس امریکیوں سمیت پہلے تین امریکی صدور نے قبول کر لیا تھا-
    اگناسٹک ازم  ((Agnosticism : ان تعلیمات کے مطابق کسی بھی وجود کو مظاہر کے تجربے کے بغیر معلوم نہیں کیا جا سکتا- یہ عام طور پرمذہبی تشکیک (religious skepticism) کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛ اور خاص طور پرروایتی عیسائی عقائد کے جدید سائنسی سوچ سے  استرداد کے ساتھ مقبول ہے ۔ ان کا خیک ہے کہ خدا کے وجود یا غیر وجود کو عقلی طور  ثابت کرنا ممکن نہیں-  ٹی ایچ  ہکسلے(T. H. Huxley) نے اگناسٹک کی اصطلاح پیش کرنے کے بعد فلسفیانہ اگناسٹک ازم (روحانیت سے مخالف) کو 1869میں مقبول عام کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ؛ ایسے لوگ  جو روائیتی 'عیسائی-یہودی' دی ازم (Theism) کو نہیں قبول کرتے مگرنظریاتی ملحد بھی  نہیں- اگناسٹک ازم Agnosticism کا سادہ مطلب ناکافی ثبوت کی بنا پر فیصلے کی معطلی ہو سکتا ہے یا پھر اس کو روایتی عیسائی تعلیمات کا استدرار (مسترد ) کہ سکتے ہیں-
    الحاد (Atheism) :
     الحاد  خدا اور روحانی عقائد کی  تنقید اورمکمل انکار ہے. اگناسٹک ازم کے برعکس جو خدا کے وجود یا عدم وجود  کے سوال کو کھلا چھوڑ دیتا ہے، الحاد (Atheism) مکمل طورپر خدا کے وجود سے انکاری ہے- اس کی جڑیں فلسفیانہ نظام میں پیوستہ ہیں- قدیم یونانی فلسفیوں Democritus اور Epicurus نے مادہ پرستی کے تناظر میں اس کے لئے دلیل دی.
    اٹھارویں صدی میں ڈیوڈ ہیوم اور کانٹ (David Hume and Immanuel Kant) اگرچہ ملحد نہ تھے مگر انہوں نے خدا کے وجود کے لئے روایتی ثبوتوں کی مخالفت میں دلائل دیئے اورخدا پرعقیدہ کوصرف ایمان کی حد تک محدود کردیا-  لڈوگ فیورباچ (Ludwig Feuerbach) جیسے ملحد  کا نظریہ کہ؛ خدا انسانی نظریات کا تجویز کردہ خیالی عکس ہے اوراس افسانہ نے خود اآگاہی کو ممکن بنایا۔
    مارکسزم :    کارل مارکس (1818-1883)نے کہا تھا کہ ایک خوشحال معاشرے میں جمہوری دور کے بعد سوشلزم کا دور ہو گا اور اس کے بعد ایک ایسا دور جس میں طبقاتی فرق مٹ جائے گا۔ سویت یونین اور چین میں یہ تجربات کافی حد تک ناکام رہے لیکن مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں مارکس کی ہی تعلیمات کا ایک پرتو ہیں۔ اقبال نے طبقاتی اور سرمایہ داری نظام کا پول کھولا؛
    اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
    وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟
    رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کر ہیں بنکوں کی عمارات
    ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے ہے مرگ مفاجات
    یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
    تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات
    کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
    چارلس ڈارون کی ”تھیوری آف ایوولیوشن (Theory of Evolution) اور مذہب :
    1859ء میں چارلس ڈارون نے  ”تھیوری آف ایوولیوشن“(Theory of Evolution) 'نظریہ ارتقاء' پیش کیا کہ: "ماحول کے مطابق حیاتی اجسام میں مسلسل تبدیلی اپنی بقاءکے لیے ہوتی ہے "۔ ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شئے پہ لاگو ہوتا ہے بشمول بنی نوع انسان کے- ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے  ہیں –
    ڈارون نے نظریۂ ارتقاء پیش کرکے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس سے کئی سو سال پہلے ابن مسکویہ(930-1030 C.E)، ابن جہیز (776-868 C.E) ، صوفی مولانا رومی  (1207-1273 C.E) نے حیاتیاتی نظریۂ ارتقاء پیش کردیا تھا ۔ ان کا نظریہ تھا کہ نباتی زندگی اپنے ارتقا کی اعلیٰ سطح تک بڑھنے کے لیے عمدہ زرخیز زمین اور مناسب موسم کا تقاضہ کرتی ہے، جو تنے، پتے اور پھل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، پھر بیچ کی شکل میں دوبارہ یہی ترقی کا  دور چلتا رہتا ہے۔ حواس کی آفرینش سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے، جب کہ کیڑوں ، رینگنے والی جانوروں، چیونٹیوں اور مکھیوں میں حیوانی زندگی کی تکمیل چوپائیوں میں گھوڑے اور پرندوں میں عقاب کی صورت میں ہوتی اور آخر میں حیوانی زندگی کا ارتقاء بوزنوں اور بن مانسوں کی صورت میں ہوتا ہے، جو انسان کے درجہ سے نیچے ہوتے ہیں۔ ارتقاء کی عضویاتی سطح پر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، انسان کی قوتِ تمیز اور روحانی قوتیں ترقی کرتی ہیں۔ (خطباتِ اقبال) –  ڈاکٹر حمید الله نے کھجور کے درخت کو  اس کی عمدہ مثال کہا -
    نظریہ ارتقاء کے  مطابق، انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ خود بیسویں صدی کے تمام عظیم سائنسدانوں نے جن میں برٹرنڈرسل اور آئین سٹائین شامل ہیں، اعتراف کیا کہ ’’انسان‘‘ قدرت کا عظیم شاہکار ہے اور انسانی ’’ذہن‘‘ کی کرشمہ سازیاں کسی اور ’’نوع‘‘ میں نہیں پائی جاتیں اور یہی ایک ایسا وصف ہے جو ڈارون کے نظریہ کی تردید کے لیے کافی ہے۔
    قرآن و حدیث سے یہ  واضح ہے  کہ زمین پر آج تک رہنے والے تمام انسان حضرت آدمؑ اور حوا کی اولاد ہیں آدم ؑ مٹی سے تخلیق کئے گئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آدم ؑ کو بغیر والدین کے وسیلے کے پیدا کیا۔ کتاب اللہ واضح طور پر آدم اور حواعلیہما السلام کے بنفس نفیس اور براہِ راست وجود میں آنے کی گواہی دے رہی ہے۔آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک معجزہ تھی، ایک ایسی اٹل حقیقت جس کی، بذریعہ سائنسی ذرائع ، نہ تائید کی جا سکتی ہے اور نہ تردید۔ایمان بالغیب یہی ہے-  قرآن میں بیان کردہ وا قعات، معجزات اپنے اثبات کے واسطے بشری ذرائع کے محتاج نہیں؛کہ محدود انسانی عقل  و علم اسکا محاصرہ کرنے سے قاصر ہے۔ وقت کے ساتھ انسانی علم میں اضافہ قرانی آیات کو مزید سمجھنے میں مدد گار ہوتا آیا ہے-  نصوص سے البتہ یہی ظاہر ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک منفرد ترین واقعہ تھا، اور کائناتی عمل میں ایک یکتا قسم کی چیز۔ الله اگر چاہے تو اپنے حکم پر فوری عمل کروادے یا کسی طویل پراسیس کے ذریعے – کچھ مسلم  فلا سفہ اور علماء  اسلامی ماخذوں سے ”تھیوری آف ایوولیوشن“(Theory of Evolution) ' کی حمایت  یا  مخالفت میں دلائل دیتے ہیں – (اس  ٹا پک ا کا احاطہ دوسری کتاب "Creation" "تخلیق" میں تفصیل سے   کیا گیا ہے )-
    ’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے؛ (39:62 ( ;"اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی"‘ 21:30(
    یہ ایک عام مغالطہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کو ماننے سے خدا کی نفی لازم آتی ہے۔ حالانکہ نظریۂ ارتقا جانداروں کے وجود میں آنے کا بتدریج طریقہ بتاتا ہے-  یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ؛ ”تھیوری آف ایوولیوشن“(Theory of Evolution) '  ابھی تک صرف ایک تھیوری ہے ، سائنٹفک فیکٹ نہیں ، بہت سے (missing links)  ہیں. خدا کے وجود کا ثبوت یا عدم کا ثبوت نظریۂ ارتقا کا موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ تو ایک سائنسی موضوع ہے جس میں مادی اسباب کے تحت مختلف جانداروں کے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے-  اس سے خدا کی ذات کی نفی ہرگز ہرگز لازم نہیں آتی۔مذہب اور خصوصاً الہامی کتابوں کے علماء  کو بھی اس بات کی ضرورت نہیں کہ  ہر بات کو کسی بھی طور سے سائنس سے ہم آہنگ بنانے کی کوششیں کرے یا کوئی سائنسی نظریہ جو مذہب سے بظاہر متصادم نظر آتا ہو اسی غلط ثابت کرنے پر اپنی توانائی خرچ کرے۔ اس کی وجہ مذہب کا موضوع ہے جو سائنسی نظریات سے کسی طرح متاثر نہیں ہوتا۔  بہتر یہ ہے کہ ایسے معاملات  میں سائنس کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اور مذہب کو اپنا ۔ سائنس کا موضوع کبھی بھی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب کا موضوع سائنس۔
    فریڈرک  نطشے،  (1844-1900 ،Friedrich Nietzsche)    آزادانہ الحاد (existentialist atheism) خدا کے انتقال کا دعوی کرتےہوئے انسانی آزادی کا اعلان کرتا ہے تاکہ وہ اپنی قدر اور معنی کا تعین کرے- آزادانہ الحاد (existentialist atheism) ایک فلسفیانہ نظریہ یا نقطہ نظر ہےجو انفرادی طور پر انسان کو آزاد اور ذمہ دارنمائندہ سمجھتا ہے جو اپنی مرضی کی کارروائیوں کے ذریعے اپنی ترقی کا تعین کرتا ہے- منطقی مثبتیت (Logical positivism) کے مطابق خدا کے وجود یا عدم کی تجویز نامعقول یا بے معنی ہے-
    ایک خدا کا تصور انسانی فطرت کا حصہ ہے:
    حقیقت، وجود اور ذات کا مطالعہ (Ontology) میں کیا جاتا ہے،اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کا ہر ماننے والا اور ہر منکر چونکہ خدا کی ہستی کا تصور کرسکتا ہے، جو سب سے بلند و اعلیٰ ہے، چنانچہ یہ تصور ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خارج میں بھی موجود ہے ۔ مجموعی طور پر فلسفیوں نے اس دلیل کا انکار کیا ہے جن میں ہیوم اور کانٹ شامل ہیں۔
    قرآن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں آنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا کیا اور ان کو اپنے حضور جمع کر کے ان سے اپنے رب ہونے کا عہد لیا جسے 'میثاق الست'  کہا جاتا ہے :
    میثاق الست :
    وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى ١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَۙo اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ١ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ o وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ"(قرآن 174-7:172)
    "اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان  کے اوپر گواہ بناتے ہوئے  پوچھا تھا  ”کیا  میں تمارا رب نہیں ہوں؟“ انہوں نے کہا” ضرور آپ ہی ہمارے  رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں “۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز  یہ نہ کہہ دو کہ ”ہم اس بات سے بے خبر تھے“، یا یہ نہ کہنے لگو کہ ”شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں  اُس قصُور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔“ دیکھو، اِس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔  اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔"(قرآن 174-7:172)
    یہ معاملہ تخلیق آدم  کےموقع پر پیش آیا تھا ۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کریا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اُسی طرح پوری نسلِ آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے (روحانی طور پر )   حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔
    للہ تعالیٰ نے فی الواقع اُن تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اُس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی  اُس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعدی از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے، ورنہ حقیقت میں تو نسلِ انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب ازامکان ہے ، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی  قریب از امکان ہے۔  پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحبِ عقل و شعور اور صاحب ِ تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار (Oath of allegiance ) لے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں ، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا ۔ (تفہیم القرآن)
    اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا ۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی ناممکن ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں ، حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ ایک اور اسی طرح کی حدیث میں اضافہ ہے ،  اس کے راوی حضرت حسن فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے (ابن جریر)-
    حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا ، صورتیں دیں ، بولنے کی طاقت دی، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں ، ساتوں زمینوں اور حضرت آدم کو گواہ بنایا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں ۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا اب جو حضرت آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے ۔
    اس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے ۔ اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
    اس کے بعد قرآن بیان کرتا ہے کہ اسی عہد کی بنیاد پر قیامت کے دن انسانوں کے لیے لاعلمی اور ماحول کا اثر کوئی عذر نہیں بن سکے گا۔ اس آیت سے جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا وجود انسانوں کی فطرت میں ہے۔ کوئی خارجی قرینہ نہ ہو تب بھی ایک خالق و مالک کا تصور فطرت انسانی کی پکار ہے۔ افریقی اور آسٹریلیا کے قدیم قبائل میں ایک خدا کا تصور اسی بات کی تصدیق کرتا معلوم ہوتا ہے-  اس کے برعکس کسی خدا کا نہ ہونا یا بہت سی ہستیوں کا خدا ہونا انسانی فطرت کے لیے ایک اجنبی چیز ہے۔ چنانچہ خارجی تصورات سے بلند ہو کر داخلی تصور کی بنیاد پر انسانی فطرت کو ایک خدا، کئی خدا یا خدا کے نہ ہونے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو گا تو ایک خدا کا تصور اس کا فطری انتخاب ہو گا۔  پیغمبر، انبیاء اوراب مبلغین اس پیغام، عہد کو تازہ کرتے ہیں-

    انڈکس 
    1. تعارف
    2. خدا کا وجود 
    3. عقلی دلائل
    4. تنقید
    5. کوانٹم فزکس کے اسرار 
    6. توحید ,شرک اور بائبل   
    7. قرآن ایک دائمی معجزہ   
    8.  صرف ایک خدا 
    9. اختتامیہ
      برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8
      برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 
      ..............................................................

      No comments:
      Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to FacebookShare to Pinterest
      Labels: Allah, Bible, Creator, God, Quran
      Newer Posts Older Posts Home
      Subscribe to: Posts (Atom)

      Search This Blog

      Translate

      سلام میگزیں

      View my Flipboard Magazine.

      Popular Posts

      • وفات، میت ، نماز جنازہ ، تعزیت، ایصال ثواب ، مسائل
      • تراویح کی اہمیت اور قرآن کریم کے تیس پاروں کا مختصر خلاصہ
      • مضامین قرآن کا مکمل خلاصہ (30 پارے )
      • رمضان سے بھرپور فوائد کیسے حاصل کریں - ایک مختصر گائیڈ
      • عید مبارک
      • مسلمان کون؟ Who is real Muslim?
      • کیا تاریخی واقعات دین اسلام کی بنیاد ہو سکتے ہیں؟
      • سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق Sunnah and Hadith
      • Existence of God خدا کا وجود (2)
      • فرقہ واریت, 73 فرقوں والی حدیث

      Peace Forum Magazines

      Peace Forum Network

      Peace for Humanity

      Loading...

      SalamOne

      Tweets by @Peace_Forum

      Facebook

      Peace-Forum

      Loading...

      Blog Archive

      • ►  2022 (3)
        • ►  December (1)
        • ►  March (2)
      • ►  2019 (1)
        • ►  December (1)
      • ►  2018 (3)
        • ►  April (2)
        • ►  March (1)
      • ▼  2017 (68)
        • ►  November (3)
        • ►  October (6)
        • ►  September (2)
        • ►  August (7)
        • ►  July (2)
        • ►  June (6)
        • ►  May (10)
        • ►  April (10)
        • ►  March (11)
        • ►  February (6)
        • ▼  January (5)
          • عمرہ کا طریقہ Umra-Step by Step
          • (1) The Creator خالق کائنات کون؟
          • Don't Dictate ہمیں ڈکٹیٹ نہ کیجیے
          • Muslim - Non Muslim Relations - مسلمانوں اور غیر ...
          • Salafi and Terrorism سلافی نظریات اور دہست گردی
      • ►  2016 (85)
        • ►  December (6)
        • ►  November (14)
        • ►  October (19)
        • ►  September (7)
        • ►  August (6)
        • ►  July (8)
        • ►  June (9)
        • ►  May (4)
        • ►  April (5)
        • ►  March (6)
        • ►  February (1)
      • ►  2015 (2)
        • ►  August (2)
      • ►  2014 (40)
        • ►  July (1)
        • ►  May (1)
        • ►  April (19)
        • ►  March (19)

      Peace Forum Network

      Peace Forum Network
      Collectively over 2 Million visits

      وزٹ

      ویب سائٹس

      • الحاد جدید معرکہ
      • لائبریری
      • وکیپیڈیا -اسلام

      ویب سائٹ لسٹ

      • AHLESUNNAT.net - Alahazrat Imam Ahmed Raza Khan Barelvi Page
      • Al-Mawrid
      • Alexa - Top Sites by Category: Society/Religion and Spirituality/Islam
      • Darul Uloom Deoband - INDIA
      • Darul Uloom Naeemia
      • Dr. Abu Ameenah Bilal Philips
      • General Discussions Latest Topics
      • Jamia Farooqia - International Islamic University
      • Peace for Humanity
      • Shia Beliefs & Islam: شیعہ عقائد اور اسلام
      • اردو اسلامی کتب
      • جامعہ فاروقیہ کراچی ۔۔ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی
      • محدث فورم [Mohaddis Forum]
      • مفتی محمد تقی عثمانی
      Simple theme. Powered by Blogger.