میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو تاویلیں کیں،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔(علامہ محمد اقبال)
I extend my greetings, Salaam, to both the Sufis and Mullahs for their efforts in conveying the message of God to us. However, the manner in which they have interpreted these divine commands has left
Allah, Angel Gabriel, and Muhammad (peace be upon him) perplexed (Allama Muhammad Iqbal)
اقبال اور ملا کی تنگ نظری
====================
اسلام ٹائمز:
’’ملا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے، اس میں نمی نہیں۔ اس کے مکتب سے میں اس لیے نکل آیا ہوں کہ اس کے حجاز کی ریت میں کوئی زمزم نہیں ہے۔ منبر پر جب ہو تو اس کا کلام چبھن والا زہریلا ہوتا ہے جبکہ اس کے پاس سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں۔ میں نے شرم کے مارے تیرے سامنے یہ بات نہیں کہی کہ وہ اپنے آپ سے تو چھپا ہوا ہے لیکن ہمارے سامنے آشکار ہے۔‘‘
تحریر: سید ثاقب اکبر
ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں: ’’علامہ اقبال ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ اکثر پیشہ ور ملا عملاً اسلام کے منکر، اس کی شریعت سے منحرف اور مادہ پرست دہریہ ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ایک مقدمے کے سلسلے میں ایک مولوی صاحب میرے پاس اکثر آتے تھے۔ مقدمے کی باتوں کے ساتھ ساتھ ہر وقت یہ تلقین ضرور کرتے تھے کہ دیکھیے ڈاکٹر صاحب آپ بھی عالم دین ہیں اور اسلام کی بابت نہایت لطیف باتیں کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ آپ کی شکل مسلمانوں کی سی نہیں، آپ کے چہرے پر ڈاڑھی نہیں۔ میں اکثر ٹال کر کہہ دیتا کہ ہاں مولوی صاحب آپ سچ فرماتے ہیں۔ یہ ایک کوتاہی ہے، علاوہ اور کوتاہیوں کے۔ ایک روز مولوی صاحب نے تلقین میں ذرا شدت برتی تو میں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب آپ کے وعظ سے متاثر ہو کر ہم نے آج ایک فیصلہ کیا ہے۔ آپ میرے پاس اس مقدمے کے سلسلے میں آتے ہیں کہ آپ باپ کے ترکے میں سے اپنی بہن کو زمین کا حصہ نہیں دینا چاہتے اور کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں شریعت کے مطابق نہیں بلکہ رواج کے مطابق ترکہ تقسیم ہوتا ہے اور انگریزی عدالتوں نے اس کو تسلیم کر لیا ہے۔ میری بے ریشی کو بھی دینی کوتاہی سمجھ لیجیے لیکن رواج کے مقابلے میں شریعت کو بالائے طاق رکھ دینا اس سے کہیں زیادہ گناہگاری ہے۔ میں نے آج یہ عہد کیا ہے کہ آپ بہن کو شرعی حصہ دے دیں اور میں ڈاڑھی بڑھا لیتا ہوں۔ لائیے ہاتھ، آپ کی بدولت ہماری بھی آج اصلاح ہو جائے۔ اس پر مولوی صاحب دم بخود ہوگئے اور میری طرف ہاتھ نہ بڑھ سکا۔‘‘
علامہ اقبال نے ملا کی اس دو روئی کو یوں بیان کیا ہے:
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چوں بہ خلوت می روند آں کار دیگر می کنند
مشکلی دارم ز دانشمند محفل باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
’’واعظ لوگ جب محراب و منبر پر جلوہ فرما ہوتے ہیں، وہاں جو باتیں کرتے ہیں، خلوت میں جاکر ان کے برخلاف کام کرتے ہیں، میری ایک مشکل ہے، محفل کے دانشمند سے ایک دفع پھر پوچھ کر بتائیں کہ جو لوگ توبہ کرنے کا فرماتے ہیں، وہ خود کمتر توبہ کیوں کرتے ہیں‘‘ اقبال مجھے کئی دنوں سے یاد آرہے تھے، خاص طور پر ان دنوں سے جب مولویوں کے ایک گروہ کے متشدد فہم نے سارے پاکستان کو وحشت و کرب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ جب پاکستان میں ایک مطالبے پر جو اپنے مقام پر صحیح بھی ہوسکتا ہے، اس مذہبی طبقے نے عوامی راستوں کو بند کر رکھا تھا، ہر چیز کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنا رہے تھے، ہر مخالف کو یہودی یا یہودی ایجنٹ قرار دے رہے تھے، سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگا رہے تھے، یہاں تک کہ بہت سے افراد کو انھوں نے مار مار کر زخمی کر دیا اور بعض تو ان کے تشدد کی تاب نہ لا کر چل بسے۔
اس موقع پر ایسے مذہبی طبقے کی ترجیحات کے حوالے سے ہمارے ایک دوست نے لکھا: ’’سچ بتائیے آپ نے پاکستان میں مولوی صاحبان کی بڑی تعداد کو جان لینے اور دینے کے نعرے لگاتے لگواتے سُنا، کیا کبھی کسی انسانی مسئلے پر بھی اس طبقے نے آواز اٹھائی؟ آپ نے کبھی ناجائز ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، ملاوٹ جیسے مسائل پر مذہبی طبقے کو بات کرتے ہوئے سُنا؟ کیا آپ نے کرپٹ سیاسی نظام، بدتر عدالتی نظام، رشوت پر مبنی پولیس سسٹم کے خلاف کبھی مذہبی جماعتوں کو مظاہرے کی کال دیتے ہوئے سُنا؟ پاکستان میں مذہبی طبقہ صرف "توہین" کے نام پر ہی مرنے مارنے پر ابھارتا ہے، یہ لوگوں کو سیرت نبوی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جینا کیوں نہیں سکھاتا!‘‘ ملا اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ایسی ایسی تاویلیں اور حیلے تراش لیتا ہے کہ عقل انسانی کو حیرت ہوتی ہے، علامہ اقبال نے اس کی بھی نشاندہی کر رکھی ہے:
ز من بر صوفی و ملا سلامی
کہ پیغام خدا گفتند ما را
ولی تأویل شان در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفیٰ را
میری طرف سے صوفی و ملا پر سلام ہے کہ جو ہمیں اپنی طرف سے خدا کا پیغام سناتے ہیں، لیکن اس پیغام میں وہ ایسی تاویل کرتے ہیں کہ جس پر خدا، جبرئیل اور مصطفیؐ بھی حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔
ایک طرف جنھیں ہم کافر کہتے ہیں، انھیں دیکھیں اور دوسری طرف جنھیں ہم اپنا مذہبی راہنماء کہتے ہیں، انھیں دیکھیں تو علامہ اقبال کی یہ بات سچ دکھائی دیتی ہے:
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
اقبال نے ملا کے مزاج کو ایک اور مقام پر بہ انداز دگر بیان کیا ہے اور ان کے مطابق اس مزاج کا حامل شخص جنت کی فضا میں مطمئن نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ کہتے ہیں:
ميں بھی حاضر تھا وہاں، ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت
عرض کی ميں نے، الہی! مری تقصير معاف
خوش نہ آئيں گے اسے حور و شراب و لب کشت
نہيں فردوس مقام جدل و قال و اقول
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت ميں ن ہمیشہ ملا کی کم نظری، فرقہ پرستی، ظاہر بینی اور خود خواہی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ ملا کے بارے میں ان کا عمومی تاثر یہ ہے کہ اگر وہ مخلص بھی ہو تو دین کے چھلکے سے جڑا ہوتا ہے، حقیقت دین کی اس کو خبر نہیں ہوتی۔ الفاظ و اصطلاحات کے بڑے ذخیرے سے کام لے کر عامۃ الناس سے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
افسوس کہ یہ بات صرف مسلمانوں کے مذہبی پیشواؤں پر صادق نہیں آتی بلکہ دنیا بھر کے مذاہب پر ایسے ہی افراد کا قبضہ ہے۔ ایسے کئی واقعات سامنے آتے ہیں، جن کے مطابق بعض افراد کو مسلمان ہونا اس لیے مشکل ہوگیا کہ ملاؤں کے نزدیک ضروری تھا کہ وہ موجود فرقوں میں سے کسی میں شامل ہوں۔ علامہ اقبال نے بھی ایسے بعض واقعات کی نشاندہی کر رکھی ہے۔ دنیا میں جو تیز رفتار تبدیلیاں آئی ہیں اور آرہی ہیں، ملا عام طور پر اس سے نابلد ہیں۔ ان کے بہت سے مسلمات تحقیق کی دنیا میں پادر ہوا ہوچکے ہیں، لیکن وہ آج تک اسی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے صدیوں پرانے درسی نصاب پر عموماً نگاہ بازگشت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ عالمی حالات، حقائق اور واقعات ہی نہیں انسانیت کے دشمنوں کی تدبیریں اور طریقے بھی ان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ نئے حقائق کی شناسائی کی تمنا ان کے اندر پیدا ہی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے تئیں عقل کل ہی نہیں شیخ الکل فی الکل بھی سمجھتے ہیں، جبکہ ایسا عصر حاضر میں تو بالکل ممکن نہیں ہے۔
علامہ اقبال نے ملا کے بارے میں بہت کچھ کہہ رکھا ہے، ہمارے اس مضمون میں زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ قارئین کرام ایک تحقیقی نظر اس سلسلے میں علامہ اقبال کی شاعری کے علاوہ ان کے منثورات و مکتوبات پر بھی ڈالیں۔ ہم آخر میں ان کے چند اشعار پر اپنی بات تمام کرتے ہیں:
دل ملا گرفتار غمی نیست
نگاہی ہست، در چشمش نمی نیست
از آن بگریختم از مکتب او
کہ در ریگ حجازش زمزمی نیست
سر منبر کلامش نیش دار است
کہ او را صد کتاب اندر کنار است
حضور تو من از خجلت نہ گفتم
ز خود پنہان و بر ما آشکار است
’’ملا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے اس میں نمی نہیں۔ اس کے مکتب سے میں اس لیے نکل آیا ہوں کہ اس کے حجاز کی ریت میں کوئی زمزم نہیں ہے۔ منبر پر جب ہو تو اس کا کلام چبھن والا زہریلا ہوتا ہے جبکہ اس کے پاس سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں۔ میں نے شرم کے مارے تیرے سامنے یہ بات نہیں کہی کہ وہ اپنے آپ سے تو چھپا ہوا ہے لیکن ہمارے سامنے آشکار
No comments:
Post a Comment