باب-1
تعارف
قُلِ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿ ١٦الرعد﴾
" کہہ دو کہ خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ یکتا (اور) زبردست ہے" (قرآن 13:16)
"اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے"(قرآن:255)
" کہہ دووہ الله ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے " (قرآن 112:1,2,3,4)
"تب یسوع نے کہا، “سب سے اہم حکم یہ ہے اے بنی اسرائیلیو سنو، خداوند ہمارا خدا ہی صرف ایک خداوند ہے"۔ (بائبل مرقس 12:29,استثناء :6:4)
"خداوند میرے آقا اس لئے تو بہت عظیم ہے تیرے جیسا کو ئی نہیں ، کو ئی خدا نہیں سوائے" (2 سموئیل 7:22)
“نیکی کی بابت تو مجھ سے کیوں پو چھتا ہے ؟ خداوند خدا ہی نیک اور مقدس ہے۔ اگر تو ہمیشگی کی زندگی کو پانا چاہتے ہو تو حکموں پر عمل کر"-( متّی; 19:17)
ایک عظیم طاقت کا تصورہمیشہ شروع سے انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے- وہ عظیم طاقت جو تمام کائنات، آسمان اور زمین کی خالق اور حاکم ہے، جو کہ پہلا سبب ہے ہر چیزکے وجود اور وقوع پزیر ہونے کا- خدا پر اعتقاد کے بعد مختلف ثقافتوں میں اس کی عبادت کی گئی- ابتدائی طور پر اس عظیم قوت کی کوئی تصاویرنہیں تھیں اورنہ ہی کوئی کاہن کسی مندر میں اس کی خدمت پر مامورتہے- وہ عظیم طاقت ایک محدود انسانی تصوریا مذہب سے بہت بلند تھا ۔ اسی لیےپہلے ایک قدیم قسم کے تصور توحید کی ابتدا ہوئی پھر بہت دیربعد لوگوں نے دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد کی عبادت شروع کر دی- جب لوگوں نے بہت سے معاونین معبودوں کی تصا ویر اور بت بنا لئےتو بتدریج وہ عظیم ہستی لوگوں کے شعور سے دھندلا گیئ اور یہ شرک کا آغاز تھا- اس الٰہی، سپریم خالق اور پروردگارکا عربی میں نام الله، اردو میں خدا اور انگریزی میں گاڈ God ہے ۔
پرانے افریقی قبائل اب بھی ایک ایسے عظیم معبود پر ایمان رکھتےہیں جس نے کائینات کو تخلیق کیا اور اس پر حکمرانی کرتا ہے- انسانوں کے گروہوں کے خدا یا دیوتاؤں یا جس کسی کو بھی وہ مقدس، مافوقِ الفطرت طاقت و ہستی سمجھتے ہوں ، کے ساتھ تعلق کو مذہب کے طور پر جانا جاتا ہے- لہٰذا مذہب وہ راستہ ہے جو اس پر چلنے والوں کو مشترکہ معبود کی عبادت اور رسومات کے زریعے باندھتا ہے- مذہب ایک ترتیب وار طرز زندگی ہے، جس سے معاشرے میں انسان ایک روحانی زندگی بسر کرتاہے اور مغفرت پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
مختلف مذاہب اپنے اصولوں، عقائد، رسومات اوربنیادی اعتقادات میں اختلاف رکھتے ہیں جن میں مذہبی فضیلت مخصوص تصور خدا اور خدا کی مرضی پراعتماد اور قبول کرنا شامل ہیں- اسلام ایک ہمہ گیراصطلاح "دین" استعمال کرتا ہے مذھب 'دین' کا ایک حصہ ہے- عربی میں دین کے معنی، اطاعت اور جزا کے ہیں- دین اسلام، عقائد ، عبادات کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے ، جس میں اخلاقیات، معاشرتی نظام ، معاشی نظام، قانون اور تمام شعبہ جات زندگی شامل ہیں- قرآن دینی اتفاق پر زور دیتا ہے:
"اور بے شک یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو- پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہونے والے ہیں" (23:52,53 قرآن)
جرمن ماہر الہیات، فلسفی، اور مذہبی تاریخ دان، رودلف اوٹو (1986-1937) نے'نومنووس' (numinous ،مافوق الفطرت، اسطورہ یا روحانی) کی اصطلاح وضح کی تاکہ مذہبی تجربہ کے غیر منطقی عنصر کو تفویض کیا جائے، جس میں الہٰی کے تصور سے 'خوف، توجہ اور خوشی کا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے- وہ سمجھتا تھا کہ مذہب، سائنس سے آگے اور اس سے الگ دنیا کی تفہیم فراہم کرتا ہے- انہوں نے کہا کہ ' مذہب کا سب سے اہم حصہ الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مذہب کا (بظاہر) ناقابل فہم حصہ ہے- مذہب کا مستحکم حصہ نظریاتی حصہ ہے جو بہت اہم ہے- لیکن ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا بہت کچھ ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا-
ہر مذہب میں عام طور پر مشترکہ عقائد کا اپنا مجموعہ ہوتا ہےجن پرکمیونٹی مشترکہ طور پر عمل کرتی ہےاور وہ ان کی ثقافت، اقدارکا اظہار حکایاتِ، عقائد اور رسومات کے ذریعے کرتے ہیں- عبادت شاید مذہب کا سب سے بنیادی عنصر ہے، مگرعملی اخلاق، صحیح عقیدہ اور مذہبی اداروں کی شرکت بھی مذہبی زندگی کے عناصر ہیں ۔
مذہب انسانی دماغ میں اٹھنے والے بنیادی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے، جیسے: خدا کا وجود، کائنات اور انسانیت کی تخلیق، انسانی دکھ درد، بدی، موت اوربعد از موت وغیرہ-
عظیم ابراہیمی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام ظاہری (بیرونی) مرکوزہیں، ان کے رسول اور پیغمبر خدا کی طرف سےبذریعہ وحی موصول آسمانی علم کے ذریعے انسانی ذہن میں اٹھنے والے بنیادی سوالات کے جوابات سے ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
دوسری طرف باطنی مرکوز مذاہب مثلاً 'جین اور بدھ مت حقیقت کی اصلیت کے تصورکے احساس کا استعمال کرتے ہیں-
جب تینوں ابراہیم سے منسلک مذاہب میں 'خدا' اور 'تخلیق' کے بارے میں فلاسفی، الہیات اور سائنسی پہلوؤں کی تاریخی ترقی کا جایزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ:
"ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ سب سے بے تعلق ہو کر ایک (خدا) کے ہو رہے تھے اور اسی کے فرماں بردار تھے اور مشرکوں میں نہ تھے " (3:67 قرآن)
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ( حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے) حضرت یعقوب علیہ السلام اور لیاہ کے چو تھے بیٹے کا نام یہودہ تھا، ان کےقبیلہ کے نام پریہودہ سلطنت قائم ہوئی ، بعد میں تمام بنی اسرائیل 'یہودی' کے نام سے مشہور ہو گئے- عیسائیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہےجو در اصل پال (صاؤل) کے ایجاد کردہ مذہب کے ماننے والے ہیں- حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم علیہ السلام کے بیٹے تھے جو کنواری ماں بنی تھیں ان کا سلسلہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے ،حضرت اسحاق علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک ملتا ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب جو خالص توحید تھا نسل در نسل اتنا بگاڑ دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کی تثلیث میں تیسرا اور خدا کا بیٹا بنا دیا گیا جو سراسر شرک اور دین ابراہیمی کی نفی ہے:
"یہودیوں نے کہا ، “ہما را باپ ابراہیم ہے۔” یسوع نے کہا ، “اگر تم حقیقت میں ابراہیم کے بیٹے ہو تو وہی کروگے جو ابرا ہیم نے کیا۔" (یوحنا 8:39)
"صحیفہ بھی یہی سب کچھ ابرا ہیم کے بارے میں کہتا ہے۔“ابرا ہیم نے خدا پر ایمان لا یا اور اس کے معاوضہ میں خدا نے اسے قبول کیا اور وہ خدا کے نزدیک راستباز ہوا۔”تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہا ابراہیم کے سچے لڑ کے وہی لوگ ہیں جو ایمان وا لے ہیں۔ (گلتیوں7 ، (3:6
چودہ سو سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے حضرت محمد ﷺ نے اصل دین توحید ، دین ابراہیمی کو اس کی اصل روح میں وحی ،عقل و دلیل کی روشنی کے ساتھ بحال کیا- توحید کو پراسرار،لا یعنی مشرک عقائد سے پاک کیا جوانسانی عقل اوراصل سچائیوں پرجذباتی جہالت کے سا یئے ڈال دیتے ہیں- اس طرح جدید مذہبی ترقی کو نمائندگی ملی- عام تصورہے کہ حضرت محمد ﷺ ایک نیئے مذہب کےبانی تھے مگرحقیققت اس کے برعکس ہے ، اسلام، ابراہیم علیہ السلام کے اصل ورثہ کے طور پرظہور پزیر ہوا جوایک ملت حنیفیہ یا ملت ابراہیمی جسے دین ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے۔ حنیف؛ عقیدہ کا سچا اور پختہ، حق پرست، باطل کی ضد، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لقب تھا جس سے مذہب اسلام کو منسوب کیا جاتا ہے۔ آپکی ملت " ملت حنیفیہ " کہلائی جس کی اتباع و پیروی کا حکم حضرت محمد ﷺ - کو بھی دیا گیا:
ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا
'پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی اختیار کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تہے اور مشرکوں میں سے نہ تہے'. (النحل :16:123)
بنیادی عقائد:
مختلف عقاید جن میں خدا کے وجود پر ایمان رکھنا یا اس کے مخالف (جن میں درمیانی راستہ بھی شامل ہے) کے نتیجے میں مختلف اقسام کے نظریات وجود میں آ گئے جیسے کہ خدا پرستی (Theism)، توحید پرستی (Monotheism-موحد، ایک خدا پرست)، تھیوڈسی (Theodicy- خدا کی لامحدود طاقت کا برائی کی موجودگی میں دفاع)، دی ازم (Deism- مذہب فطرت ، اخلاقیات پر زورکیونکہ اس نظریہ کے مطابق خدا کائنات اور قوانین بنا کر مداخلت نہیں کرتا)، اگناسٹک (Agnosticism-خدا کےہونے یا نہ ہونے کے متعلق لا تعلق)، دہریت، الحاد ( Atheism- خدا کے وجود کا انکار) وغیرہ -
دی ازم (Theism) : اس نظریہ کے مطابق؛ تمام قابل مشاہدہ مظاہرایک سپریم طاقت پر منحصر ہے لیکن وہ اس عظیم طاقت سے علیحدہ ہیں- ان کے خیال میں خدا انسانی تصور سے ماوراہے، وہ اعلی ہے ، اور بے نیاز ہے مگر وہ ایک مخصوص طر یقہ سے کائینات اور اس کے معاملات میں دخل انداز ہے-
دیسٹ (Theists) نقطہ نظر کی حمایت میں عقلی دلائل اور تجربہ کرنے کی درخواست پر انحصار کرتے ہیں- دی ازم (Theism) کے لئے ایک مرکزی مسئلہ شر کے وجود کے ساتھ ایک ایسے خدا کا ملاپ کرنا رہا ہے جو عام طور پر مقتدر اور کامل سمجھا جاتا ہے .
توحید (Monotheism) ؛ ایک خدا کے وجود پر ایمان ہےجو اس شرک سے مبرا ہے. توحید یہودیت، عیسائیت(کسی حد تک ) اور اسلام کی خصوصیت ہے، جن کے مطابق خدا دنیا کا خالق ہےاورنگران بھی جو انسانی واقعات میں مداخلت کرتا ہے- خدا رحمان اور مقدس ہے جوتمام نیکیوں اوراچھائیوں کا منبع ہے-
تاریخی طور پرزیادہ تر دوسرے مذاہب مشرکانہ نظریات رکھتے ہیں جس میں لا تعداد دیوتاؤوں کے اوپرایک عظیم خدا کا تصور یا طاقتوردیوتاؤوں کے چھوٹے گروپ کے وجود کا اظہار ہے -
وہ توحید جو یہودیت عقائد میں شامل ہے قدیم اسرائیل میں شروع ہوئی، اس میں خدا (یاویح)Yahweh کوعبادت کا واحد مرکزمان کر، دیگر قبائل اور قوموں کے دیوتاؤں کو ابتدائی طور پر ان کے وجود کا انکار کیئے بغیر رد کیا گیا-
اسلام کےاقرار ایک، ابدی،غیرتخلیق شدہ خدا ، الله پر یقین بالکل واضح ہے جس کےنہ کوئی برابر ، نہ ہی کوئی شریک، مسیحیت میں ایک خدا ، پاک تثلیث کے تین افراد پرمشتمل ہے جو شرک کی ایک شکل ہے، اگرچہ مسیحی اس کو توحید کہتے ہیں-
تھیوڈسی (Theodicy) : اس نظریہ کی بنیاد خدا کی لامحدود طاقت کا برائی کی موجودگی میں دفاع کرنے پر ہے- اچھائی اور برائی کے قابل مشاہدہ حقائق کے ساتھ انصاف اور دنیا میں دکھ کے ساتھ تعلق کا جواز پیش کرنے کے لئے ایک دلیل ہے ۔ بیشتر ایسے دلائل تھیوڈسی theism کا ایک ضروری جزو ہیں.
شرک polytheism میں اچھائی اور برائی کے قابل مشاہدہ حقائق کےمسئلہ کودیوتاوں کے درمیان مرضی کے ٹکراؤ سے منسوب کرکہ حل کیا جاتا ہے.
اس مسئلہ کا حل توحید میں اتنا سادہ نہیں، اور اس کی کئی شکلیں ہیں کچھ نقطہ نظر میں، خدا کی طرف سے پیدا کردہ کامل دنیا کو انسانی نافرمانی یا گناہوں سے خراب کیا گیا - دوسرے نظریہ کے مطابق خدا دنیا کی تخلیق کے بعد دنیا کے معاملات میں دخل اندازی سے دستبردار ہوگیا اس لیے دنیا انحطاط پزیر ہو گئی-
دی ازم Deism : وحی یا کسی مخصوص مذہب کی تعلیم کی بنیاد کی بجائےصرف عقلی دلائل کی بنیاد پر خدا واحد پرایمان (Deism) ہے- یہ ایک قسم کا فطرتی مذہب ہے جو انگلینڈ میں سترھویں صدی کے آغاز میں آرتھوڈوکس (روایتی) عیسائیت کو رد کرنے پر وجود پزیر ہوا- اس کے پیروکاروں کا موقف ہے کہ محض انسانی عقل سے فطرت میں خدا کے وجود کے ثبوت حاصل کئیے جا سکتے ہیں اور خدا نے کائنات تخلیق کر کہ اس کو اپنے بنا ئے ہوئے قوانین فطرت کے مطابق کام پر لگا دیا- فلسفی ایڈورڈ ہربرٹ (1583-1648)نے حقیقت خدا پر' اپنا سچ' کا نظریہ تخلیق کیا- اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر سے دی ازم Deism یورپ کے تعلیم یافتہ طبقوں کا غالب مذہبی رویہ تھا ۔ اسے اسی دورکے بہت سے اپر کلاس امریکیوں سمیت پہلے تین امریکی صدور نے قبول کر لیا تھا-
اگناسٹک ازم ((Agnosticism : ان تعلیمات کے مطابق کسی بھی وجود کو مظاہر کے تجربے کے بغیر معلوم نہیں کیا جا سکتا- یہ عام طور پرمذہبی تشکیک (religious skepticism) کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛ اور خاص طور پرروایتی عیسائی عقائد کے جدید سائنسی سوچ سے استرداد کے ساتھ مقبول ہے ۔ ان کا خیک ہے کہ خدا کے وجود یا غیر وجود کو عقلی طور ثابت کرنا ممکن نہیں- ٹی ایچ ہکسلے(T. H. Huxley) نے اگناسٹک کی اصطلاح پیش کرنے کے بعد فلسفیانہ اگناسٹک ازم (روحانیت سے مخالف) کو 1869میں مقبول عام کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ؛ ایسے لوگ جو روائیتی 'عیسائی-یہودی' دی ازم (Theism) کو نہیں قبول کرتے مگرنظریاتی ملحد بھی نہیں- اگناسٹک ازم Agnosticism کا سادہ مطلب ناکافی ثبوت کی بنا پر فیصلے کی معطلی ہو سکتا ہے یا پھر اس کو روایتی عیسائی تعلیمات کا استدرار (مسترد ) کہ سکتے ہیں-
الحاد (Atheism) :
الحاد خدا اور روحانی عقائد کی تنقید اورمکمل انکار ہے. اگناسٹک ازم کے برعکس جو خدا کے وجود یا عدم وجود کے سوال کو کھلا چھوڑ دیتا ہے، الحاد (Atheism) مکمل طورپر خدا کے وجود سے انکاری ہے- اس کی جڑیں فلسفیانہ نظام میں پیوستہ ہیں- قدیم یونانی فلسفیوں Democritus اور Epicurus نے مادہ پرستی کے تناظر میں اس کے لئے دلیل دی.
اٹھارویں صدی میں ڈیوڈ ہیوم اور کانٹ (David Hume and Immanuel Kant) اگرچہ ملحد نہ تھے مگر انہوں نے خدا کے وجود کے لئے روایتی ثبوتوں کی مخالفت میں دلائل دیئے اورخدا پرعقیدہ کوصرف ایمان کی حد تک محدود کردیا- لڈوگ فیورباچ (Ludwig Feuerbach) جیسے ملحد کا نظریہ کہ؛ خدا انسانی نظریات کا تجویز کردہ خیالی عکس ہے اوراس افسانہ نے خود اآگاہی کو ممکن بنایا۔
مارکسزم : کارل مارکس (1818-1883)نے کہا تھا کہ ایک خوشحال معاشرے میں جمہوری دور کے بعد سوشلزم کا دور ہو گا اور اس کے بعد ایک ایسا دور جس میں طبقاتی فرق مٹ جائے گا۔ سویت یونین اور چین میں یہ تجربات کافی حد تک ناکام رہے لیکن مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں مارکس کی ہی تعلیمات کا ایک پرتو ہیں۔ اقبال نے طبقاتی اور سرمایہ داری نظام کا پول کھولا؛
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟
رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کر ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے ہے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
چارلس ڈارون کی ”تھیوری آف ایوولیوشن (Theory of Evolution) اور مذہب :
1859ء میں چارلس ڈارون نے ”تھیوری آف ایوولیوشن“(Theory of Evolution) 'نظریہ ارتقاء' پیش کیا کہ: "ماحول کے مطابق حیاتی اجسام میں مسلسل تبدیلی اپنی بقاءکے لیے ہوتی ہے "۔ ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شئے پہ لاگو ہوتا ہے بشمول بنی نوع انسان کے- ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں –
ڈارون نے نظریۂ ارتقاء پیش کرکے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس سے کئی سو سال پہلے ابن مسکویہ(930-1030 C.E)، ابن جہیز (776-868 C.E) ، صوفی مولانا رومی (1207-1273 C.E) نے حیاتیاتی نظریۂ ارتقاء پیش کردیا تھا ۔ ان کا نظریہ تھا کہ نباتی زندگی اپنے ارتقا کی اعلیٰ سطح تک بڑھنے کے لیے عمدہ زرخیز زمین اور مناسب موسم کا تقاضہ کرتی ہے، جو تنے، پتے اور پھل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، پھر بیچ کی شکل میں دوبارہ یہی ترقی کا دور چلتا رہتا ہے۔ حواس کی آفرینش سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے، جب کہ کیڑوں ، رینگنے والی جانوروں، چیونٹیوں اور مکھیوں میں حیوانی زندگی کی تکمیل چوپائیوں میں گھوڑے اور پرندوں میں عقاب کی صورت میں ہوتی اور آخر میں حیوانی زندگی کا ارتقاء بوزنوں اور بن مانسوں کی صورت میں ہوتا ہے، جو انسان کے درجہ سے نیچے ہوتے ہیں۔ ارتقاء کی عضویاتی سطح پر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، انسان کی قوتِ تمیز اور روحانی قوتیں ترقی کرتی ہیں۔ (خطباتِ اقبال) – ڈاکٹر حمید الله نے کھجور کے درخت کو اس کی عمدہ مثال کہا -
نظریہ ارتقاء کے مطابق، انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ خود بیسویں صدی کے تمام عظیم سائنسدانوں نے جن میں برٹرنڈرسل اور آئین سٹائین شامل ہیں، اعتراف کیا کہ ’’انسان‘‘ قدرت کا عظیم شاہکار ہے اور انسانی ’’ذہن‘‘ کی کرشمہ سازیاں کسی اور ’’نوع‘‘ میں نہیں پائی جاتیں اور یہی ایک ایسا وصف ہے جو ڈارون کے نظریہ کی تردید کے لیے کافی ہے۔
قرآن و حدیث سے یہ واضح ہے کہ زمین پر آج تک رہنے والے تمام انسان حضرت آدمؑ اور حوا کی اولاد ہیں آدم ؑ مٹی سے تخلیق کئے گئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آدم ؑ کو بغیر والدین کے وسیلے کے پیدا کیا۔ کتاب اللہ واضح طور پر آدم اور حواعلیہما السلام کے بنفس نفیس اور براہِ راست وجود میں آنے کی گواہی دے رہی ہے۔آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک معجزہ تھی، ایک ایسی اٹل حقیقت جس کی، بذریعہ سائنسی ذرائع ، نہ تائید کی جا سکتی ہے اور نہ تردید۔ایمان بالغیب یہی ہے- قرآن میں بیان کردہ وا قعات، معجزات اپنے اثبات کے واسطے بشری ذرائع کے محتاج نہیں؛کہ محدود انسانی عقل و علم اسکا محاصرہ کرنے سے قاصر ہے۔ وقت کے ساتھ انسانی علم میں اضافہ قرانی آیات کو مزید سمجھنے میں مدد گار ہوتا آیا ہے- نصوص سے البتہ یہی ظاہر ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق اپنی ذات میں ایک منفرد ترین واقعہ تھا، اور کائناتی عمل میں ایک یکتا قسم کی چیز۔ الله اگر چاہے تو اپنے حکم پر فوری عمل کروادے یا کسی طویل پراسیس کے ذریعے – کچھ مسلم فلا سفہ اور علماء اسلامی ماخذوں سے ”تھیوری آف ایوولیوشن“(Theory of Evolution) ' کی حمایت یا مخالفت میں دلائل دیتے ہیں – (اس ٹا پک ا کا احاطہ دوسری کتاب "Creation" "تخلیق" میں تفصیل سے کیا گیا ہے )-
’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے؛ (39:62 ( ;"اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی"‘ 21:30(
یہ ایک عام مغالطہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کو ماننے سے خدا کی نفی لازم آتی ہے۔ حالانکہ نظریۂ ارتقا جانداروں کے وجود میں آنے کا بتدریج طریقہ بتاتا ہے- یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ؛ ”تھیوری آف ایوولیوشن“(Theory of Evolution) ' ابھی تک صرف ایک تھیوری ہے ، سائنٹفک فیکٹ نہیں ، بہت سے (missing links) ہیں. خدا کے وجود کا ثبوت یا عدم کا ثبوت نظریۂ ارتقا کا موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ تو ایک سائنسی موضوع ہے جس میں مادی اسباب کے تحت مختلف جانداروں کے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے- اس سے خدا کی ذات کی نفی ہرگز ہرگز لازم نہیں آتی۔مذہب اور خصوصاً الہامی کتابوں کے علماء کو بھی اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہر بات کو کسی بھی طور سے سائنس سے ہم آہنگ بنانے کی کوششیں کرے یا کوئی سائنسی نظریہ جو مذہب سے بظاہر متصادم نظر آتا ہو اسی غلط ثابت کرنے پر اپنی توانائی خرچ کرے۔ اس کی وجہ مذہب کا موضوع ہے جو سائنسی نظریات سے کسی طرح متاثر نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے معاملات میں سائنس کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اور مذہب کو اپنا ۔ سائنس کا موضوع کبھی بھی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب کا موضوع سائنس۔
فریڈرک نطشے، (1844-1900 ،Friedrich Nietzsche) آزادانہ الحاد (existentialist atheism) خدا کے انتقال کا دعوی کرتےہوئے انسانی آزادی کا اعلان کرتا ہے تاکہ وہ اپنی قدر اور معنی کا تعین کرے- آزادانہ الحاد (existentialist atheism) ایک فلسفیانہ نظریہ یا نقطہ نظر ہےجو انفرادی طور پر انسان کو آزاد اور ذمہ دارنمائندہ سمجھتا ہے جو اپنی مرضی کی کارروائیوں کے ذریعے اپنی ترقی کا تعین کرتا ہے- منطقی مثبتیت (Logical positivism) کے مطابق خدا کے وجود یا عدم کی تجویز نامعقول یا بے معنی ہے-
ایک خدا کا تصور انسانی فطرت کا حصہ ہے:
حقیقت، وجود اور ذات کا مطالعہ (Ontology) میں کیا جاتا ہے،اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کا ہر ماننے والا اور ہر منکر چونکہ خدا کی ہستی کا تصور کرسکتا ہے، جو سب سے بلند و اعلیٰ ہے، چنانچہ یہ تصور ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خارج میں بھی موجود ہے ۔ مجموعی طور پر فلسفیوں نے اس دلیل کا انکار کیا ہے جن میں ہیوم اور کانٹ شامل ہیں۔
قرآن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں آنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا کیا اور ان کو اپنے حضور جمع کر کے ان سے اپنے رب ہونے کا عہد لیا جسے 'میثاق الست' کہا جاتا ہے :
میثاق الست :
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى ١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَۙo اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ١ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ o وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ"(قرآن 174-7:172)
"اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ”کیا میں تمارا رب نہیں ہوں؟“ انہوں نے کہا” ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں “۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ”ہم اس بات سے بے خبر تھے“، یا یہ نہ کہنے لگو کہ ”شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصُور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔“ دیکھو، اِس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔"(قرآن 174-7:172)
یہ معاملہ تخلیق آدم کےموقع پر پیش آیا تھا ۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کریا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اُسی طرح پوری نسلِ آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے (روحانی طور پر ) حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔
للہ تعالیٰ نے فی الواقع اُن تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اُس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اُس کی بندگی و فرماں برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعدی از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے، ورنہ حقیقت میں تو نسلِ انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب ازامکان ہے ، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی قریب از امکان ہے۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحبِ عقل و شعور اور صاحب ِ تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار (Oath of allegiance ) لے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں ، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا ۔ (تفہیم القرآن)
اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا ۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی ناممکن ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں ، حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ ایک اور اسی طرح کی حدیث میں اضافہ ہے ، اس کے راوی حضرت حسن فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے (ابن جریر)-
حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا ، صورتیں دیں ، بولنے کی طاقت دی، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں ، ساتوں زمینوں اور حضرت آدم کو گواہ بنایا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں ۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا اب جو حضرت آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے ۔
اس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے ۔ اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
اس کے بعد قرآن بیان کرتا ہے کہ اسی عہد کی بنیاد پر قیامت کے دن انسانوں کے لیے لاعلمی اور ماحول کا اثر کوئی عذر نہیں بن سکے گا۔ اس آیت سے جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا وجود انسانوں کی فطرت میں ہے۔ کوئی خارجی قرینہ نہ ہو تب بھی ایک خالق و مالک کا تصور فطرت انسانی کی پکار ہے۔ افریقی اور آسٹریلیا کے قدیم قبائل میں ایک خدا کا تصور اسی بات کی تصدیق کرتا معلوم ہوتا ہے- اس کے برعکس کسی خدا کا نہ ہونا یا بہت سی ہستیوں کا خدا ہونا انسانی فطرت کے لیے ایک اجنبی چیز ہے۔ چنانچہ خارجی تصورات سے بلند ہو کر داخلی تصور کی بنیاد پر انسانی فطرت کو ایک خدا، کئی خدا یا خدا کے نہ ہونے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو گا تو ایک خدا کا تصور اس کا فطری انتخاب ہو گا۔ پیغمبر، انبیاء اوراب مبلغین اس پیغام، عہد کو تازہ کرتے ہیں-
انڈکس
.......................................
No comments:
Post a Comment