اجتہاد کی تعریف
لفظ ” اجتہاد ” ، ” جہد ” سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ہیں : طاقت اور مشقت۔ لغوی اعتبار سے اجتہاد کے معنی ہیں کسی ایسے کام کی تحقیق میں کوشش کرنا جو مشقت اور کلفت کو مستلزم ہو۔[1]
( آمدی ، ج 3 ص 139 بحوالہ شاہ ولی اللہ اور اصول فقہ ، از ڈاکٹر مظہر بقا ، ص 532)
( آمدی ، ج 3 ص 139 بحوالہ شاہ ولی اللہ اور اصول فقہ ، از ڈاکٹر مظہر بقا ، ص 532)
اصلاح شریعت میں اجتہاد کتاب و سنت سے واضح نص کی عدم موجودگی کی صورت میں شرعی احکام اخذ کرنے کے لیے کی گئی سعی کا نام ہے۔
اجتہاد ، عہدِ رسالت میں
اجتہاد کی بنیاد خود رسول اللہ ﷺ نے رکھی۔ جہاں تک امورِ دینی کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ کا ہر فرمان ہی از خود نص کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن منصبِ رسالت سے باہر نبی کریم ﷺ نے اپنے اجتہاد کو بھی مشورے کی حیثیت سےپیش کیا۔ چنانچہ فرمانِ رسالت مآب ﷺ ہے :
” انما انا بشر اذا امرتکم بشئ من دینکم فخذوا به و اذا امرتکم بشئ من رائ فانما انا بشر۔”
” بلاشبہ میں انسان ہوں اگر میں دین میں کسی بات کا حکم دوں کو اسے مضبوطی سے تھام لو ، لیکن اگر اپنی رائے سے فیصلہ دوں تو میں انسان ہی ہوں۔”
[2] (صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
” انما ظننت ظنا و لا تواخذنی باظن و لکن اذا حدثتکم عن الله شیئاً فخذوا به فانی لم اکذب علی الله۔”
” میں نے ایک گمان کیا تھا ، اس لیے میرے گمان پر نہ جاؤ لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات کہوں تو اس کو لازم پکڑو کیونکہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتا۔”[3]( صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
حیات نبوی میں صحابہ کرام کو امور دینی میں کسی اجتہاد کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور ایسا ممکن بھی نہ ہو سکتا تھا کیونکہ ان کے درمیان نبی کریم ﷺ موجود تھے۔ ہر مسئلے کے لیے صحابہ نبی کریم ﷺ ہی کی طرف رجوع کرتے اور سنت سے براہ راست مستفید ہوتے۔ لیکن اس کے باوجود نبی کریم ﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے صحابہ کے ذوقِ اجتہاد کی پرورش ضرور کی۔ اس ضمن میں حضرت معاذ بن جبل کا قصہ بہت مشہور ہے جب انہیں نبی کریم ﷺ یمن کا گورنر بنا کر بھیج رہے تھے تو ان سے دریافت کیا کہ اے معاذ ! تم مقدمات کا فیصلہ کس طرح کرو گے ؟ جواب دیا : کتاب اللہ کے مطابق ۔ فرمایا : اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو ۔ جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ۔ فرمایا : اگر میری سنت میں بھی نہ پاؤ تو کیا کرو گے ؟ جواب دیا : ” اجتهد فیها برائ “ ایسے میں اپنی رائے سے اجتہاد ( کوشش ) کروں گا۔”
[4] (سنن ابی داود، کتاب القضایا ، باب اجتهاد الرئ فی القضا۔ سنن الدارمی ، کتاب المقدمة ، باب الفتیا و ما فیه من الشدة ۔ گو یہ حدیث مرسل ہے لیکن اصولاً و معناً درست ہے اور علمائے محققین اس سے استدلال کرتے ہیں۔)
[4] (سنن ابی داود، کتاب القضایا ، باب اجتهاد الرئ فی القضا۔ سنن الدارمی ، کتاب المقدمة ، باب الفتیا و ما فیه من الشدة ۔ گو یہ حدیث مرسل ہے لیکن اصولاً و معناً درست ہے اور علمائے محققین اس سے استدلال کرتے ہیں۔)
عہدِ صحابہ میں
رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں تو اصحاب کرام کو اجتہاد کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن ان کے بعد اجتہاد کی تمام تر ذمہ داری خلفائے راشدین اور جلیل القدر صحابہ پر عائد ہوئی اور انہوں نے اس ذمہ داری کو اپنے تمام تر ایمانی تقاضوں اور اخلاص کے ساتھ نبھایا۔
صحابہ کرام کا عہد نبی کریم ﷺ کے عہد سے متصل تھا عمومی طور پر تو حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں پیدا ہونی چاہیے تھی مگر خلفاء راشدین کے دور ہی میں فتوحات کی وسعت اور مختلف اقوام و قبائل کے ساتھ تہذیبی اشتراک نے نئے نئے مسائل کو جنم دیا جسے اجتہاد ہی کے ذریعے سے حل کیا جا سکتا تھا۔
حضرت ابوبکر کی انفرادیت
رسول اللہ ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بزرگ ہستی سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زندگی میں بارہا کئی مقامات پر لوگوں کو اپنے بعد ابوبکر صدیق سے رجوع کرنے کا کہا۔ اپنے مختصر سے دورِ خلافت میں انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ گویا کارِ نبوت کی تکمیل تھا۔ منکرین زکوٰۃ سے وصولی کا مسئلہ ہو یا فتنہ ارتداد سے نپٹنے کا معاملہ ہر جگہ صدیقی روح ذات رسالت میں فنا نظر آتی ہے۔ ان کے اجتہاد میں خطا کا احتمال نہیں تھا اور ایک طرح سے حضرت ابوبکر کے اجتہاد کو نص کی تائید حاصل تھی۔ خود زبان رسالت ﷺ نے اس امر کی گواہی ان الفاظ میں دی :
” ان الله یکره فوق سمائه ان یخطا ابوبکر۔”
[5] تاریخ الخلفاء میں یہ روایت طبرانی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔ ( 1/42)
[5] تاریخ الخلفاء میں یہ روایت طبرانی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔ ( 1/42)
” اللہ تعالیٰ آسمان پر اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ ابوبکر سے خطا ہو۔”
نصِ قرآنی کے مطابق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کی معیت میں داخل ہو چکے تھے۔ لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ
مَعَنَاۖ ( التوبۃ : 40 ) کہہ کر زبان رسالت ﷺ نے صدیق اکبر کو اللہ اور اپنی دائمی معیت کی سند عطا کر دی تھی پھر کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ صدیق ِ اکبر اپنے اجتہاد میں خطا کرتے ؟؟؟؟
حضرت ابوبکر کو جن مسائل میں اجتہاد کی ضرورت پیش آئی ان میں بیشتر کارِ نبوت کی تکمیل کے لیے تھے۔ وفات نبوی ﷺ کے وقت جس طرح صحابہ کے حواس معطل ہو گئے تھے اس وقت ابوبکر صدیق ہی تھے جنہوں نے مقام توحید کی رفعت پر پہنچ کر اس وقت کے شرعی تقاضے کی تکمیل کی۔ منکرین زکوٰۃ سے وصولیابی کا معاملہ در پیش ہوا تو اس وقت بھی حضرت صدیق اکبر نے وہی رویہ اختیار کیا جو بعد میں شریعت کی اساس بن گیا۔
اجتہاد ، عہدِ فاروقی میں
الغرض سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔ خلافت فاروقی میں فتوحات کی وسعت کے ساتھ ہی مختلف نوعیت کے سماجی و تہذیبی مسائل کا سامنا ہوا۔ اجتہاد کی نئی نئی شکلیں نکلیں اور اصول و قواعد متعین ہونے لگے۔ سیدنا فاروقِ اعظم کی مجتہدانہ بصیرت محتاجِ تعارف نہیں۔حضرت ابوبکر نے اپنے عہد میں حضرت عمر ، عثمان ، علی ، عبد الرحمٰن بن عوف ، معاذ بن جبل ، ابی بن کعب ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو فتویٰ دینے کی اجازت دی اور باقی کو منع کر دیا۔[6] (طبقات ابن سعد)
سیدنا عمر کا مقام و مرتبہ
[حضرت عمرنے اسلام کی دین و دنیا وی طور پر بہت خدمت کی ان کے دور خلافت میں اسلامی فتوحات بہت زیادہ ہوئیں- ملاحظہ : عظیم فا تح ﮐﻮﻥ ﺗﮭﺎ، ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﮐﺎﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ یا ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ عظیم سپوت ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ؟ ]
حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر کی شخصیت اور ان کے اجتہادات بھی امت میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر ہی کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ، ان کے علاوہ کسی بھی صحابی کا نام لے کر ان کی پیروی کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر کے اجتہاد کا مقام کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
” لو کان بعدی نبیا لکان عمر۔”
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔”
[7] ( یہ حدیث مسند احمد ، ترمذی اور حاکم میں روایت ہوئی ہے۔ حاکم کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے لیکن ان کے تساہلِ حدیث سے حدیث کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ ترمذی کے مطابق حسن غریب ہے ، البانی حسن قرار دیتے ہیں ، بعض نے حسن لذاتہ قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کے بعض راویوں کو منکر اور سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی ضعیف حدیث ہے جس کے شواہد و متابعات موجود ہیں جس کی وجہ سے ترمذی کی اصطلاح کے مطابق یہ حدیث حسن غریب اور عام اصطلاح کے مطابق حسن لذاتہ کے درجے تک پہنچتی ہے۔ مناقب میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔)
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔”
[7] ( یہ حدیث مسند احمد ، ترمذی اور حاکم میں روایت ہوئی ہے۔ حاکم کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے لیکن ان کے تساہلِ حدیث سے حدیث کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ ترمذی کے مطابق حسن غریب ہے ، البانی حسن قرار دیتے ہیں ، بعض نے حسن لذاتہ قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کے بعض راویوں کو منکر اور سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی ضعیف حدیث ہے جس کے شواہد و متابعات موجود ہیں جس کی وجہ سے ترمذی کی اصطلاح کے مطابق یہ حدیث حسن غریب اور عام اصطلاح کے مطابق حسن لذاتہ کے درجے تک پہنچتی ہے۔ مناقب میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔)
گو یہ روایت استنادی اعتبار سے بعض کے نزدیک ضعیف ہے تاہم اسے فضائل و مناقب کے باب میں روایت کیا جاتا ہے۔ ایک صحیح روایت میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
” لقد کان فیمن كان قبلکم من بني اسرائيل رجال ، یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن من امتی منهم احد فعمر۔”
” تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن سے ( پردہ غیب سے ) کلام ہوا کرتا تھا ، اگرچہ وہ نبی نہیں تھے اگر میری امت ایسا کوئی ہوا تو وہ عمر ہوں گے۔” [8] ( صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ)
” تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن سے ( پردہ غیب سے ) کلام ہوا کرتا تھا ، اگرچہ وہ نبی نہیں تھے اگر میری امت ایسا کوئی ہوا تو وہ عمر ہوں گے۔” [8] ( صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ)
سیدنا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اے(عمرؓ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کرلیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔ (ترمذی)
ایک روز رحمت دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہم راہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ و عمرؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)
حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔ (مشکوٰۃ)
صحیحین کی روایت کے مطابق حضرت عمر کو تعین کے ساتھ اس امت کا محدث و ملہم قرار دیا گیا ہے اس لیے اس امت میں جتنے بھی مجتہدین ہیں خود ان پر اور ان کے اجتہادات پر ما سوائے ابوبکر کے ، حضرت عمر کو فوقیت حاصل ہے۔ خود صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعینِ عظام بھی اس درجہ بندی کو سمجھتے تھے اور حضرت ابو بکر و حضرت عمر کے طرزِ عمل کو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے بعد ایک نظیر کے طور پر دیکھتے تھے۔ ایک بار حضرت عثمان غنی نے حضرت عمر سے مخاطب ہو کر فرمایا :
” اگر ہم آپ کی اتباع کریں تب بھی ہمارے لیے صحیح ہے اور اگر آپ کے پیش رو ( حضرت ابوبکر ) کی اتباع کریں تو زیادہ بہتر ہے۔”
[9] (فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر : 169)
[9] (فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر : 169)
سنن دارمی ہے کہ عمر بن عبد العزیز کے پاس ایک تابعی ابو سہیل آئے ، اس وقت ابن شہاب زہری بھی موجود تھے۔ ابو سہیل نے کہا کہ میری بیوی کے ذمہ مسجد حرام میں تین دن (نذر ) کا اعتکاف ہے، اور اس پر روزے بھی ہیں۔ ابن شہاب نے کہا : روزوں کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا۔ ان سے عمر بن عبد العزیز نے پوچھا کیا یہ نبی ﷺ سے منقول ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ پھر پوچھا : کیا یہ ابو بکر سے منقول ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں ۔ پھر دریافت کیا : کیا عثمان سے منقول ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں ۔ عمر بن عبد العزیز نے کہا : میرا خیال ہے کہ اس پر روزے نہیں ہیں ۔
[10] (سنن دارمی ، کتاب المقدمة ، باب الفتیا و ما فیه من الشدة)
[10] (سنن دارمی ، کتاب المقدمة ، باب الفتیا و ما فیه من الشدة)
صحابہ کرام اور ان کا طریقہ اجتہاد
عہد خلفائے راشدین اور بالخصوص عہد صدیقی و فاروقی میں ان عالی مرتبت خلفاء کا طریقہ اجتہاد یہی تھا کہ پہلے کتاب اللہ میں تلاش کرتے ، اگر نہ پاتے تو سنت کی طرف رجوع کرتے، اگر اس میں بھی نہ ملتا تو صحابہ سے پوچھتے کہ کیا مسئلہ ہذا سے متعلق کوئی نظیرِ سنت موجود ہے ؟ اگر پھر بھی نہ ملتا تو اجتہاد کرتے۔
صحابہ کرام عموماً چار طریقوں سے اجتہاد کیا کرتے تھے :
ظاہری نصوص سے احکام اخذ کرتے۔
نص کی مکمل تفہیم کے بعد کوئی علت اخذ کرتے اور اس نص کے مطابق فیصلہ کرتے۔
مصالح مرسلہ ، استحسان ، سد ذرائع وغیرہ کے ذریعے احکام کے فیصلے کرتے۔
اشباہ و نظائر کو تلاش کرتے اور پھر نئے مسائل کو انہی پر قیاس کرتے ہوئے فیصلے دیتے۔
مجتہدینِ صحابہ
صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے علاوہ متعدد اصحاب کرام ہیں جن کے اجتہادات امت کے لیے رحمت بنے۔ حضرت عثمان ، علی ، عبد الرحمٰن بن عوف ، معاذ بن جبل ، ابی بن کعب ، زید بن ثابت ، ام المومنین عائشہ ، عبد اللہ بن عمر ، عبد اللہ بن مسعود ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم مجتہد و فقیہ صحابہ تھے۔ ان میں سے بعض کا شمار ابن قیم نے کثیر الفتاویٰ صحابہ میں کیا ہے۔ اس مقام پر ان اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے اسلوب و مقام اجتہاد کا جائزہ لینا مقصود نہیں۔ صرف حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اسلوب و مقام اجتہاد کی ایک ہلکی سی جھلک دکھانا مقصود ہے۔
حضرت عمر کا اسلوب اجتہاد
حضرت عمر کا مقام و مرتبہ بیان کیا جا چکا ہے اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ان کے اصل مقام و مرتبے کی محض مختصر سی شبیہ ہے ورنہ بکثرت احادیث و آثار ہیں جن سے مناقب و فضائل فاروقی کے دفتر کھل سکتے ہیں۔
چونکہ حضرت عمر کو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ ﷺ سے غیر معمولی شغف تھا اس لیے ان کی نگاہِ دور رَس الفاظ کی گہرائیوں میں اتر کر مسائل کا استنباط فرماتی۔ یہی وجہ ہے کہ نصوص سے استنباط کی مثالیں بکثرت مل جاتی ہیں۔
حضرت عمر کے اسلوب اجتہاد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اس مکتوب گرامی کی طرف رجوع کیا جائے ، جو انہوں نے بصرہ کے گورنر صحابی رسول ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا، اس خط میں لکھتے ہیں :
” الفهم الفهم فیما یختلج فی صدرک مما لم یبلغک فی الکتاب او السنة ، اعرف الامثال و الاشباه ثم قس الامور عند ذٰلک ، فاعمد الی احبها عند الله ، و اشبهها بالحق فی ما تریَ”
” جن معاملات میں تم تک کتاب و سنت سے کوئی ہدایت نہیں پہنچی اور وہ تمہارے سینے میں کھٹکتے ہیں تو ان کو اچھی طرح سمجھو ، امثال و اشباہ ( ملتے جلتے مسائل ) سے واقفیت حاصل کرو پھر جو امور درپیش ہیں انہیں ان پر قیاس کرو اور جو تمہارے نزدیک اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہو اور تمہیں حق سے قریب تر نظر آئے اسے اختیار کر لو۔”
[11] (سنن الدارقطنی، کتاب الاقضیة و الاحکام ، کتاب عمر رضی الله عنه الی ابی موسیٰ الاشعری۔ گو یہ روایت اسناداً ضعیف ہے مگر اس کے متابعات مل جاتے ہیں۔)
قاضی شریح کو نصیحت
قاضی شریح کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب منصب قضا تفویض کیا تو ایک بار انہیں ایک خط میں نصیحت فرمائی :
” ان جاءک شئ فی کتاب الله فاقض به و لا تلفتک عنه الرجال فان فاءک ما لیس فی کتاب الله فانظر سنة رسول الله ﷺ فاقض بها فان جاءک ما لیس فی کتاب الله و لم یکن فیه سنة من رسول الله ﷺ فانظر ما اجتمع علیه الناس فخذ به فان جاءک ما لیس فی کتاب الله و لم یکن فی سنة رسول الله ﷺ و لم یتکلم فیه احد قبلک فاختر ای الامرین شئت ان شئت ان تجتهد برایک ثم تقدم فتقدم و ان شئت ان تاخر فتاخر و لا اری التاخر الا خیرا لک۔”
” اگر تمہارے پاس کوئی ایسا واقعہ آئے جو قرآن میں ہو تو اسی پر فیصلہ کرو اور لوگوں کی وجہ سے اسے نہ چھوڑو۔ اگر تمہارے پاس ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر تمہارے پاس ایسا مسئلہ آئے جو نہ کتاب اللہ میں ہو اور سنت رسول اللہ ﷺ میں تو دیکھو جس پر لوگوں نے اتفاق کیا ہو اسے لے لو۔اور اگر تمہارے پاس ایسا مسئلہ آئے جو نہ کتاب اللہ میں ہو ، نہ سنت رسول اللہ ﷺ میں ہو اور نہ ہی اس کے متعلق کسی نے تم سے قبل کوئی بات کی ہو تو پھر دو کاموں میں سے جسے چاہو اختیار کرلو۔ اگر چاہو کہ اپنی رائے سے کوشش کر کے آگے بڑھو تو آگے بڑھ جاؤ اور اگر پیچھے رہنا چاہو تو پیچھے رہو ، اور میرے خیال میں پیچھے رہنا ہی تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ “
[12] ( سنن النسائی ، آداب القضاة ، باب الحکم باتفاق اهل العلم ۔ سنن الدارمی ، کتاب المقدمة، باب الفتیا و ما فیه من الشدة)
[12] ( سنن النسائی ، آداب القضاة ، باب الحکم باتفاق اهل العلم ۔ سنن الدارمی ، کتاب المقدمة، باب الفتیا و ما فیه من الشدة)
علم اسرار دین
مصالح شریعت پر نظر رکھنا ، احکام الٰہی کی حکمتوں پر غور وفکر کرنا اور کتاب و سنت کے معارف و دقائق کی جستجو کرنا ” علم اسرار دین ” کی بنیاد ہیں۔ اللہ رب العزت نے حضرت عمر کو اس کا ذوقِ عظیم عطا کیا تھا۔ بلاشبہ کاشانہ نبوت کے بہت سے فیض یافتگان تھے جو اس ذوق سے بہرہ ور تھے مگر اس ذوق و کیفیت کو علم و فن کی شکل دینا حضرت عمر ہی کی اوّلیات میں سے ہے۔
شاہ ولی اللہ نے حضرت عمر ، حضرت علی ، زید بن ثابت ، عبد اللہ بن عباس اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا ذکر کیا ہے ان حضرات صحابہ نے علم اسرار دین سے تعرض کیا اور اس کے وجوہ بیان کیے۔ [13] ( حجۃ اللہ البالغہ)
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :
” شاہ صاحب نے جن لوگوں کا نام لیا، ان میں عبد اللہ بن عباس کی عمر آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت 13 برس کی تھی۔ حضرت علی کا سِن جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت دس گیارہ برس سے زیادہ نہ تھا۔ زید بن ثابت کا سِن آنحضرت کی ہجرت کے وقت 11 برس کا تھا۔ حضرت عائشہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت کل 18 برس کی تھیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گو یہ سب بزرگ اس علم کے ترقی دینے والے ہوں گے۔ لیکن اولیت کا منصب حضرت عمر ہی کو حاصل ہوگا۔”
[14] (الفاروق ، حصہ دوم : 210)
[14] (الفاروق ، حصہ دوم : 210)
علم اسرار دین سے اسی شغف کے اثرات ہمیں حضرت عمر کے ذوقِ اجتہاد میں ملتے ہیں۔
وحی الٰہی سے مطابقت
حضرت عمر کے مجتہدانہ ذوق کی اہمیت تو اسی وقت واضح ہو گئی تھی جب رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں حضرت عمر اپنی رائے دیتے تھے اور اللہ رب العزت اسی رائے کے مطابق وحی کا نزول فرماتا۔ اسی سے حضرت عمر کے مقام اجتہاد کی رفعت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :
” واقفت ربی فی ثلاث : فی مقام ابراهیم، و فی الحجاب و فی اساری بدر۔”
” میں اپنے رب کے ساتھ تین باتوں میں موافق ہوا۔ ایک مقام ابراہیم ( میں نماز کی جگہ مقرر کرنے سے متعلق ) ، دوسرا ( عورتوں کے ) حجاب ( سے متعلق ) اور تیسرا اسیران بدر ( سے متعلق )۔”
[15] (صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضي الله عنه)
[15] (صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضي الله عنه)
اس پر چوتھے کا اضافہ کر لیجیے کہ منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھنے سے متعلق بھی حضرت عمر کی رائے کے مطابق ہی وحی الٰہی کا نزول ہوا۔
مقام ابراہیم
کعبۃ اللہ میں مصلی مقرر کرنے سے متعلق مسئلہ درپیش ہوا تو حضرت عمر نے فرمایا :
” لو اتخذت من مقام ابراھیم مصلی۔”
[16] (صحیح البخاری ، کتاب التفسیر ، باب قوله عز و جل ” و اتخذوا من مقام ابراهیم مصلی “)
[16] (صحیح البخاری ، کتاب التفسیر ، باب قوله عز و جل ” و اتخذوا من مقام ابراهیم مصلی “)
” کیوں نہ مقام ابراہیم کو آپ مصلیٰ بنا لیں۔”
چنانچہ اسی کے مطابق اللہ کا فرمان نازل ہوا۔
آیتِ حجاب
رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن آیتِ حجاب کے نزول سے قبل پردہ نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عمر کو یہ بات شاق گزرتی تھی انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اپنے خیال کا اظہار کیا۔ لیکن نبی کریم ﷺ وحی کا انتظار فرماتے تھے۔ چنانچہ خاص پردہ کی آیت نازل ہوئی جس کو آیت حجاب کہتے ہیں۔
[17] (صحیح البخاری ، کتاب التفسیر ، باب قوله عز و جل ” و اتخذوا من مقام ابراهیم مصلی ” ، صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه)
[17] (صحیح البخاری ، کتاب التفسیر ، باب قوله عز و جل ” و اتخذوا من مقام ابراهیم مصلی ” ، صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه)
اسیران بدر
اسیران بدر کے معاملے میں جب اختلاف ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو رائے دی اسی کے مطابق وحی الٰہی کا نزول ہوا۔
[18] (صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه)
[18] (صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه)
منافق کی نماز جنازہ
عبد اللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا۔ جب مرا تو آنحضرت ﷺ نے محض اپنی طبعی خوش خلقی کی بنا پر اس کی نماز پڑھنی چاہی ، جب رسول اللہ ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر نے آپ ﷺ کا کپڑا تھاما اور فرمایا :
” یا رسول الله ﷺ ! ا تصلی علیه و قد نهاک الله ان تصلی علیه۔“
” اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا آپ اس کی نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس پر نماز پڑھنے سے آپ کو منع فرمایا ہے۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
” انما خیرنی الله فقال : ٱسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ أَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ إِن تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ سَبۡعِينَ مَرَّةٗ ( التوبة : 80 ) و سازید علی سبعین۔“
” بے شک اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے ، فرمایا ہے : ” تم ان کے لیے دعا کرو یا نہ کرو تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا۔” تو میں ستر بار سے زیادہ دعا کروں گا۔”
سیدنا عمر نے فرمایا : ” انه منافق ”
” بے شک وہ منافق ہے۔”
نبی کریم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ تب اس پر سورہ توبہ کی حسب ذیل آیت اتری :
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٖ مِّنۡهُم مَّاتَ أَبَدٗا وَلَا تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِۦٓۖ ( التوبة : 84 )
” کسی منافق کی نماز مت پڑھو جب وہ مر جائے ، اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہو۔”
[19] (صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه)
[19] (صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه)
اذان کی ابتداء
نماز کے لیے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے اذان کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے ہی قائم ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں :
” کان المسلمون حین قدموا المدینة یجتمعون فیتحینون الصلوٰت و لیس ینادی بها احد فتکلموا یوما فی ذٰلک فقال بعضهم اتخذوا ناقوساً مثل ناقوس النصاریٰ و قال بعضهم قرناً مثل قرن الیهود فقال عمر رضی الله عنه ا و لا تبعثون رجلا ینادی بالصلاۃ ؟ قال رسول الله ﷺ یا بلال قم فناد بالصلاة۔” [20]
” مسلمان جب مدینہ میں آئے تو وقت کا اندازہ کرکے جمع ہوکر نماز پڑ ھ لیا کرتے تھے اور کوئی شخص اس پر ندا نہیں کرتا تھا۔ ایک دن لوگ اس پر بات کرنے لگے۔ بعض نے کہا کہ عیسائیوں کی طرح ناقوس بجا لیا کریں اور بعض نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا بجا لیا کریں تو سیدنا عمر نے کہا کیوں نہ ہم لوگ کوئی آدمی مقرر کر دیں جو لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کر دیا کرے ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ اے بلال ! اٹھو اور نماز کے لیے اعلان کرو۔
[20] (صحیح مسلم ، کتاب الصلوٰة ، باب بدء الاذان)
[20] (صحیح مسلم ، کتاب الصلوٰة ، باب بدء الاذان)
مسائل اعتقادیہ میں حضرت عمر کا تدبر
علم اسرار دین کے بانی اور شریعت کے ابتدائی مجتہد مطلق ہونے کی حیثیت سے اور اس سے بھی بڑھ کے امت محمدیہ ﷺ کے ایک سچے غم خوار ہونے کی حیثیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر لازم تھا کہ وہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کرتے۔ عقائد کا معاملہ ، ایمان و کفر تک جا پہنچتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی تکمیلِ توحید ہے۔ حضرت عمر جا بجا لوگوں کو دین میں غلو اختیار کرنے اور مائل بہ شرک ہونے سے نہایت سختی سے روکتے ۔
چنانچہ حجر اسود کو دیکھ کر حضرت عمر نے جو کچھ مجمع عام میں کہا وہ ان کے اسی توحیدی مزاج کی پکار ہے۔ ان کا یہ تاریخی جملہ آج بھی تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے :
“انی اعلم انک حجر و انک لا تضر ولا تنفع۔” [21]
“میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔”
[21] (صحیح البخاري ، كتاب الحج ، الاول فی : باب ما ذكر في الحجر الأسود، و الثاني في : باب الرمل في الحج و العمرة و الثالث في : باب تقبيل الحجر الأسود ۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم ، سنن أبی داود ، سنن ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ اور موطاء امام مالک وغیرہا میں بھی روایت کی گئی ہے۔)
[21] (صحیح البخاري ، كتاب الحج ، الاول فی : باب ما ذكر في الحجر الأسود، و الثاني في : باب الرمل في الحج و العمرة و الثالث في : باب تقبيل الحجر الأسود ۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم ، سنن أبی داود ، سنن ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ اور موطاء امام مالک وغیرہا میں بھی روایت کی گئی ہے۔)
اس ایک جملے میں حضرت عمر نے دنیا کے ہر پتھر کی قیمت بتا دی ، خواہ کتنا ہی گراں بار ہو ، کتنا ہی بیش قیمت ہو یا کیسی ہی مقدس چوکھٹ پر آویزاں ہو۔
اسی طرح وہ درخت ، جس کے نیچے آنحضور ﷺ نے لوگوں سے جہاد پر بیعت لی تھی ، لوگوں کے نزدیک متبرک سمجھا جانے لگا تھا اور لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے تھے۔ حضرت عمر کا توحیدی مزاج بھلا ایسی مبتدعانہ حرکت کو کیسے برداشت کر سکتا تھا اس لیے اسے جڑ ہی سے کٹوا دیا۔
[22] (ازالۃ الخفاء حصہ دوم صفحہ 91- علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں بیعت رضوان کے واقعہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ ابن سعد نے طبقات میں اس واقعہ کو قلمبند کیا ہے۔ بحوالہ الفاروق)
رسول اللہ ﷺ سے غیر معمولی محبت کے باوجود بھی حضرت عمر ان کی ذات میں امکانِ غلو سے بھی گریز کرتے۔ ایک دفعہ سفر حج سے واپسی کے دوران راستے میں ایک مسجد تھی جس میں ایک دفعہ جناب رسول کریم ﷺ نے نماز پڑھی تھی۔ اس خیال سے لوگ اس طرف دوڑے ، کہ نماز پڑھیں۔ حضرت عمر نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اہل کتاب انہی باتوں کی بدولت تباہ ہوئے کہ انہوں نے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت گاہ بنا لیا تھا
[23] (ازالۃ الخفاء از شاہ ولی اللہ ، حصہ دوئم ، ص91 بحوالہ الفاروق ، حصہ دوم ، ص 208)
[23] (ازالۃ الخفاء از شاہ ولی اللہ ، حصہ دوئم ، ص91 بحوالہ الفاروق ، حصہ دوم ، ص 208)
مصالح شریعت کی جستجو
حضرت عمر ہمیشہ مسائل شریعت کی نسبت اس کے مصالح اور وجوہ پر زیادہ غور کرتے تھے اور اگر کبھی ان کے خیال میں کوئی مسئلہ خلاف عقل ہوتا تو فوراً رسول اللہ ﷺ سے دریافت کر لیتے تھے۔ دورانِ سفر میں جو نمازِ قصر کا حکم دیا گیا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ ابتدائے اسلام میں راستے محفوظ نہ تھے اور کافروں کی طرف سے ہمیشہ خوف کا سامنا رہتا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں خود ارشاد ہوتا ہے :
وَإِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ أَن تَقۡصُرُواْ مِنَ ٱلصَّلَوٰةِ إِنۡ خِفۡتُمۡ أَن يَفۡتِنَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْۚ ( النساء : 101 )
” جب تم زمین پر گھومو پھرو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگر تم نماز کو قصر کرلو جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں تشویش میں مبتلا کر دیں گے۔”
لیكن جب راستے پُر امن ہو گئے اور خدشہ خوف جاتا رہا تب بھی قصر کا حکم باتی رہا۔ حضرت عمر کو اس پر استعجاب ہوا لہٰذا آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ اب سفر میں قصر کیوں کیا جاتا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا انعام ہے۔ [24] ( صحیح مسلم احادیث نماز سفر)
حقِ تعزیر کا استعمال
حدود شرعی تو معلوم و متعین ہوتی ہیں جنہیں تبدیل کرنے کا اختیار خود شارع علیہ السلام کو بھی نہیں ہوتا لیکن تعزیر وقت و مصالح اور احوال و ظروف کے مطابق خلیفہ کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے۔ یہ حکومتی ضرورت ہے ، ہر حکومت کم و بیش اس کا استعمال کرتی ہے۔ حضرت عمر کے دورِ حکومت میں ہمیں کثرت کے ساتھ تعزیری سزاؤں اور تعزیری نوعیت کے فیصلے ملتے ہیں۔
عصبیت جاہلیہ اور فخر و غرور کی روایات کی حضرت عمر نے حوصلہ شکنی کی۔ لڑائیوں میں قبائل اپنے قبیلوں کی جَے پکارا کرتے تھے ، حضرت عمر نے اسے حکماً بند کر وایا۔[25]
[25] (الفاروق ، حصہ دوم ، ص 212 ، نامی پریس کان پور 1899ء)
حضرت عمر فاروق اعظم کو لوگوں کی اخلاقیات کی طرف غیر معمولی توجہ رہتی تھی۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے شاعری کی اصلاح کی طرف اپنی توجہ منعطف کی۔ ہجو کرنے پر سزا مقرر کی۔
حضرت عمر ہی نے پہلے پہل عاشقانہ اشعار میں عورتوں کے نام استعمال کرنے کی ممانعت کی اور اس پر سزا مقرر کی۔
مدینہ میں قبیلہ بنی سُلیم کے ایک نوجوان تھے جو بڑے خوبصورت تھے۔ ایک بار رات کے گشت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چند عورتوں کی زبان سے ان کی تعریف سنی تو دوسرے ہی دن انہیں بلوا بھیجا اور انہیں مدینہ سے باہر بصرہ کی جانب روانہ کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں خود ان کی کوئی غلطی نہ تھی۔ لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مصلحت کا اقتضا یہی تھا کہ انہیں جلا وطن کیا جائے۔ اس واقعے کو سدّ ذرائع کی مثال میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔
جب ان کے کسی عمال کا جرم ثابت ہو جاتا تو اسے کسی صورت نہ بخشتے اور کچھ نہ کچھ تعزیری سزا ضرور دیتے تاکہ دوسروں کو بھی عبرت ہو۔
ذمیوں کے حقوق
ذمیوں کو جو حقوق حضرت عمر نے دیئے ہیں ، دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حکمران نے اپنے حدود سلطنت میں دوسری قوم و ملت کے لوگوں کو نہیں دیئے ہوں گے۔ حتیٰ کہ آج جب کہ دنیا انسانیت نوازی اور سیکولر ازم کی دعویدار ہے، تب بھی اس باب میں رفعت فاروقی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جسٹس سیّد امیر علی باوجودیکہ شیعہ ہیں ، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اعتراف عظمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” یہ ایک قابلِ ملاحظہ امر ہے ، جس کی نظیر جدید تاریخ میں بھی نہیں ملتی ، کہ فتح مصر کے بعد حضرت عمر نے عیسائی کلیسا کے اوقاف کی حفاظت ایک امانت کے طور پر کی اور سابقہ حکومت کی طرف سے پادریوں کے لیے جو وظیفے مقرر تھے وہ جاری رکھے۔”
[26] ( روح اسلام : 426 ، مترجم محمد ہادی حسین ، ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور 1972ء)
[26] ( روح اسلام : 426 ، مترجم محمد ہادی حسین ، ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور 1972ء)
ذمیوں کے حقوق کے سلسلے میں جو کچھ بھی مساعی سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دی وہ خالصتاً ان کے اجتہادی کارناموں کے ذیل میں آتا ہے ، کیونکہ اس ضمن میں نبی کریم ﷺ کے طرزِ عمل کی کوئی عملی نظیر موجود نہیں تھی۔
عمال بحیثیت اجیر خاص
سیدنا عمر عمال سلطنت کو جب مقرر فرماتے تو اسے دوسرے کام کرنے سے منع کر دیتے ، بایں وجہ کہ وہ ان عمالینِ سلطنت کو بھی ” اجیرِ خاص ” تصور کرتے تھے۔ اجیر خاص ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو ایک کام کے لیے مامور ہو اور اسے اس کے سوا دوسرے کام کرنے سے منع کیا جائے۔
حضرت عمر نے جناب ابو موسیٰ اشعری کو تجارت کرنے سے منع کر دیا تھا۔[27]
[27] (مصنف عبد الرزاق)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ کو بھی جب بحرین کا عامل مقرر کیا تو عامل ہوتے ہوئے ان کے دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کو نا پسند فرمایا۔[28]
[28] ( العقد الفرید)
[28] ( العقد الفرید)
ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ امیر کا تجارت کرنا ( کاروبارِ مملکت کے لیے ) باعثِ خسارہ ہے۔[29]
[29] ( فقہ عمر : 5)
حد خمر
حضرت عمر کے ابتدائی دور میں شارب خمر ( مے نوش ) کو 40 کوڑوں کی سزا دی جاتی تھی۔ لیکن اپنی خلافت کے آخری ایام میں کبار صحابہ سے مشورہ کے بعد آپ نے یہ سزا 40 کوڑوں سے بڑھا کر 80 کوڑے مقرر کی۔ واقعہ یہ ہوا کہ حضرت خالد بن ولید نے ابو ابرہ کو حضرت عمر کے پاس بھیجا جب وہ پہنچے تو اس وقت حضرت عمر کے پاس حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت زبیر بن عوام بھی موجود تھے۔ ابو ابرہ نے حضرت عمر تک حضرت خالد کا یہ پیغام پہنچایا کہ لوگ کثرت سے مے نوشی اختیار کرتے جا رہے ہیں اور سزا کو کم تصور کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے اصحابِ کبار سے مشورہ کے بعد حد خمر 80 کوڑے مقرر کی۔ [30]
[30] ( فقہ عمر : 76)
[30] ( فقہ عمر : 76)
ہم جانتے ہیں کہ حدودِ شرعی معلوم اور متعین ہیں ، انہیں نہ معاف کیا جا سکتا ہے اور نہ تخفیف و زیادتی کی جا سکتی ہے۔ حضرت عمر کا ایسا کرنا سنت کے خلاف نہیں تھا۔ ڈاکٹر محمد روّاس قلعہ جی لکھتے ہیں :
” حضرت عمر کے نزدیک 80 کوڑے کی سزا کو چالیس کوڑوں پر ترجیح دینے کی وجہ وہ روایت ہے جو حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مے نوشی پر جوتیوں کے چالیس جوڑے مارے اور حضرت عمر نے ہر جوتی کی جگہ ایک کوڑا مقرر کیا۔ ” [31]
[31] ( فقہ عمر : 77)
[31] ( فقہ عمر : 77)
ایک مرتبہ ایک شخص نے رمضان المبارک میں شراب نوشی کی۔ حضرت عمر نے اسے حد میں 80 کوڑے اور تعزیر میں 20 کوڑوں کی سزا دی ، کیونکہ اس نے حرمت رمضان کو پامال کیا تھا۔ [32]
[32] (فقہ عمر : 78)
حالتِ اضطرار
حضرت عمر حدود و تعزیرات میں حالت اضطرار کا عذر پیش نظر رکھتے تھے ۔
حضرت عمر کے پاس ایک عورت لائی گئی جسے صحراء میں جب کہ وہ شدید پیاسی تھی ، ایک چرواہا ملا۔ عورت نے اس سے پانی مانگا۔ اس نے اسے پانی دینے سے انکار کیا۔ سوائے اس صورت کے کہ وہ اسے اجازت دے کہ وہ اس کے ساتھ بدکاری کرے۔ عورت نے اسے اللہ کا واسطہ دیا مگر وہ نہیں مانا۔ جب اس عورت کی قوت برداشت جواب دے گئی تو اس نے اس شخص کو اپنے آپ پر قدرت دے دی۔ حضرت عمر نے اضطرار کی اس حالت کی بناء پر اس عورت سے حد ساقط کر دی۔[33]
[33] ( مصنف عبد الرزاق : 7/407 ، سنن البیہقی : 8/236 ، المغنی لابن قدامہ : 8/187 بحوالہ فقہ عمر : 93)
[33] ( مصنف عبد الرزاق : 7/407 ، سنن البیہقی : 8/236 ، المغنی لابن قدامہ : 8/187 بحوالہ فقہ عمر : 93)
یہ تو حالتِ اضطرار میں کیے گئے زنا کی مثال تھی ، حضرت عمر حالت اضطرار میں کیے گئے سرقے پر بھی قطع ید کی سزا نہیں دیتے تھے۔[34] قحط سالی کے دنوں میں تو آپ نے قطع ید کی سزا ہی موقوف کر دی تھی۔[35]
[34] ( فقہ عمر : 94) [35] (حوالہ مذکور)
[34] ( فقہ عمر : 94) [35] (حوالہ مذکور)
زنا بالجبر
سیدنا عمر ، زنا بالجبر میں مجبور پر حد کا نفاذ نہیں کرتے تھے اور صرف جبر کرنے والے ہی کو سزا دیتے تھے۔
موطاء امام مالک میں نافع سے روایت ہے کہ ایک غلام ان غلام و لونڈیوں پر مقرر تھا جو خمس میں آتی تھیں، اس نے انہیں غلام لونڈیوں میں ایک سے زنا بالجبر کیا، سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے اس کو کوڑے مارے اور نکال دیا اور لونڈی کو نہ مارا کیونکہ اس پر جبر ہوا تھا۔[36]
[36] (موطاء امام مالک ، کتاب الحدود ، باب ما جاء فی حد الزنا)
گو اس سے قبل رسول اللہ ﷺ نے اپنے عہد میں [37] اور حضرت صدیق اکبر نے اپنے عہد میں [38] مجبور پر حد جاری نہیں کی ، مگر حضرت فاروق اعظم کے عہد میں زنا بالجبر کے مختلف النوع واقعات پیش آئے جس میں حضرت عمر کے فیصلے بعد والوں کے لیے نظیر بنے۔
[37] )سنن الترمذی ، ابواب الحدود ، باب ما جاء فی المراة اذا استکرهت علی الزنا)
[38] (موطاء امام مالک ، کتاب الحدود ، باب ما جاء فیمن اعترف علیٰ نفسه بالزنا)
[37] )سنن الترمذی ، ابواب الحدود ، باب ما جاء فی المراة اذا استکرهت علی الزنا)
[38] (موطاء امام مالک ، کتاب الحدود ، باب ما جاء فیمن اعترف علیٰ نفسه بالزنا)
عہدِ فاروقی ہی میں زنا بالجبر کا ایک نہایت اہم واقعہ پیش آیا ، جس اس صورت حال کے کئی ایک پہلو واضح ہوئے ۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے :
قبیلہ ہذیل کے لوگوں کے پاس ایک مہمان آیا۔ لکڑیاں اکٹھی کرنے کے لیے انہوں نے اپنی ایک لونڈی بھیجی۔ مہمان اس پرفریفتہ ہو گیا اور اسے برائی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ عورت کے انکار پر اس نے دست درازی شروع کر دی۔ کچھ دیر لڑائی جاری رہی کہ اسی اثنا میں وہ عورت پیچھے ہٹی اور ایک وزنی پتھر اسے دے مارا۔ پتھر نے اس کے جگر کے ٹکرے کر دیے اور وہ مر گیا۔ پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور سارا ماجرا سنایا۔ اس کے گھر والے دربارِ فاروقی میں حاضر ہوئے اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تفتیش کے لیے کسی کو بھیجا ، تو ان دونوں کے نشانات حسب بیان مبینہ مقام پر پائے گئے۔ اس موقع پر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ دیا وہ تاریخ عدل و انصاف میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے اور اسلام کی فطری تعلیمات کی دلیلِ بیّن بھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
” ذاک قتیل اللّٰه، و اللّٰه لا یؤدی أبداً۔“ [39]
” وہ اللہ تعالیٰ کا مارا ہوا ہے۔ اللہ کی قسم اس کی دیت کبھی ادا نہ کی جائے گی۔”
[39] (السنن الکبریٰ للبیہقی : 8/337۔ و نیز یہ واقعہ مصنف عبد الرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ اور شرح السنۃ للبغوی میں بھی موجود ہے۔)
اس روایت اور حضرت عمر کے فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ جس کے ساتھ زنا بالجبر ہوا ہے اس سے محض گواہوں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس ضمن میں قرائن و آثار بھی قوی شہادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے جبر کرنے والے کو قتل بھی کر دے تو اس سے قصاص طلب نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ کسی کا محض دعویٰ دلیل نہیں بن سکتا دعوے کے ساتھ کسی چشم دید گواہی یا قوی قرینے کا ہونا ضروری ہے۔
نکاح محلل (حلالہ)
نکاح محلل سے مراد ایسا نکاح ہے جو کسی ایسی عورت سے کیا جائے جسے طلاقِ مغلظہ مل چکی ہو ، نکاح اس غرض سے کیا جائے کہ وہ اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔ حضرت عمر نکاح محلل یعنی عورت کے نکاح ثانی کو تو درست سمجھتے تھے مگر اس میں کسی شرطِ فاسد کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ یعنی نکاح کرنے والا اس شرط پر نکاح کرے کہ بعد از صحبت طلاق دیدے گا تاکہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔ اس طریقے کو حلالہ کہتے ہیں۔
حضرت عمر نے بر سر منبر یہ اعلان فرمایا تھا کہ میرے پاس جو محلل اور محلل لہ لائے جائیں گے تو میں انہیں رجم کر دوں گا۔[40]
[40] ابن ابی شیبہ : 1/222 ، المحلیٰ : 10/181 بحوالہ فقہ عمر : 374
ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی لکھتے ہیں :
” حضرت عمر نے حلالہ کی سزا میں شدت اس لیے اختیار فرمائی کہ یہ اللہ کی شریعت میں ایک طرح کی حیلہ سازی ہے۔” [41]
[41] فقہ عمر : 374
تراویح
رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں صرف 3 رات اجتماعی تراویح پڑھائی ، اس کے بعد یہ سلسلہ موقوف کر دیا اس خیال سے کہ کہیں صحابہ کا ذوق عبادت دیکھ کر تراویح کی یہ نماز مسلمانوں پر فرض نہ ہو جائے۔ صحیح مسلم میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رمضان کی ایک شب نبی کریم ﷺ تقریباً آدھی رات کو نکلے اور مسجد میں نماز پڑھی ، چند لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہو گئے۔ صبح لوگ اس واقعے کا ذکر کرنے لگے ، دوسری رات اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔ صبح پھر اس واقعے کا ذکر ہوا ، تیسری رات کو مسجد میں اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہوئے نبی کریم ﷺ نکلے اور نماز پڑھائی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو لوگ اس قدر جمع ہو گئے کہ مسجد تنگ پڑ گئی لیکن رسول اللہ ﷺ نہ نکلے ، لوگ نماز ، نماز پکارنے لگے، یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہو گیا ۔ نبی کریم ﷺ نکلے ، نماز پڑھائی اور لوگوں کی طرف منہ کیا اور شہادتین اور حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا :
” فانه لم یخف علی شانکم اللیلة و لکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنها ۔” [42]
” معلوم ہو کہ تمہارا آج کی رات کا حال مجھ پر پوشیدہ نہ تھا مگر مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں تم پر رات کی یہ نماز ( تراویح ) فرض نہ ہو جائےاور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آ جاؤ۔”
[42] (صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب : ما جاء فی صلاة رمضان)
[42] (صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب : ما جاء فی صلاة رمضان)
اس کے بعد صحابہ اپنے اپنے طور پر مختلف جگہوں پر تراویح کی نماز با جماعت پڑھ لیا کرتے تھے۔ حضرت عمر نے اسی موقوف سلسلے کی تجدید کی۔ حضرت عمر کا ایسا کرنا کسی بھی طرح بدعت کے ذیل میں نہیں آتا۔ گو اپنے اس فعل کے لیے ” نعمت البدعة هذه ” [43] کا جملہ استعمال کیا تھا ،
[43] (موطاء امام مالک ، باب ما جاء فی قیام رمضان)
اس سے بعض اہل علم [44] بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ حضرت عمر کا با جماعت نمازِ تراویح پڑھوانا بدعتِ حسنہ کی قبیل سے تھا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر وہ اپنے فعل کو بدعت کہہ رہے ہیں تو وہ بدعت ، بدعتِ سیئہ تو نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ان لوگوں نے بدعت کی تقسیم قبول کر لی۔[45]
[44] مثلاً ڈاکٹر محمد روّاس قلعہ جی در کتاب فقہ عمر : 126۔ بلکہ انہوں نے ایک غضب یہ بھی کیا کہ بدعت کی اس تقسیم کو خود حضرت عمر کی جانب منسوب کر دیا۔
[45] اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بدعت سے متعلق حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اقتباس پیش کیا جائے۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں :
” گزشتہ لوگوں نے شاید بدعت میں کچھ حسن دیکھا ہوگا جو بدعت کے بعض امور کو مستحسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافق نہیں ہے اور بدعت کے کسی فرد کو حسنہ نہیں جانتا بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ اسلام کے اس ضعفت و غربت کے زمانہ میں سلامتی سنت کے بجا لانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے حاصل کرنے سے وابستہ ہے۔ فقیر بدعت کو کلہاڑی کی طرح جانتا ہے جو بنیادِ اسلام کو گرا رہی ہے اور سنّت کو چمکنے والے ستارہ کی طرح دیکھتا ہے جو گمراہی کی سیاہ رات میں ہدایت فرما ہے ۔” ( کشف المعارف : 207 ، مرتبہ عنایت عارف مطبوعہ الفیصل ناشران کتب لاہور 2006ء)
مگر ان حضرات نے اس پر غور نہیں کیا کہ یہاں بدعت کا لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے نہ کہ اصطلاحِ شرعی میں۔ ایسا ممکن بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ:
رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ، اور حضرت عمر رضی الللہ عنہ بلا شبہ خلیفہ راشد تھے۔ فرمان رسالتمآب ﷺ ہے :
[43] (موطاء امام مالک ، باب ما جاء فی قیام رمضان)
اس سے بعض اہل علم [44] بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ حضرت عمر کا با جماعت نمازِ تراویح پڑھوانا بدعتِ حسنہ کی قبیل سے تھا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر وہ اپنے فعل کو بدعت کہہ رہے ہیں تو وہ بدعت ، بدعتِ سیئہ تو نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ان لوگوں نے بدعت کی تقسیم قبول کر لی۔[45]
[44] مثلاً ڈاکٹر محمد روّاس قلعہ جی در کتاب فقہ عمر : 126۔ بلکہ انہوں نے ایک غضب یہ بھی کیا کہ بدعت کی اس تقسیم کو خود حضرت عمر کی جانب منسوب کر دیا۔
[45] اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بدعت سے متعلق حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اقتباس پیش کیا جائے۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں :
” گزشتہ لوگوں نے شاید بدعت میں کچھ حسن دیکھا ہوگا جو بدعت کے بعض امور کو مستحسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافق نہیں ہے اور بدعت کے کسی فرد کو حسنہ نہیں جانتا بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ اسلام کے اس ضعفت و غربت کے زمانہ میں سلامتی سنت کے بجا لانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے حاصل کرنے سے وابستہ ہے۔ فقیر بدعت کو کلہاڑی کی طرح جانتا ہے جو بنیادِ اسلام کو گرا رہی ہے اور سنّت کو چمکنے والے ستارہ کی طرح دیکھتا ہے جو گمراہی کی سیاہ رات میں ہدایت فرما ہے ۔” ( کشف المعارف : 207 ، مرتبہ عنایت عارف مطبوعہ الفیصل ناشران کتب لاہور 2006ء)
مگر ان حضرات نے اس پر غور نہیں کیا کہ یہاں بدعت کا لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے نہ کہ اصطلاحِ شرعی میں۔ ایسا ممکن بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ:
رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ، اور حضرت عمر رضی الللہ عنہ بلا شبہ خلیفہ راشد تھے۔ فرمان رسالتمآب ﷺ ہے :
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”
[46]
[46]
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”
[46] (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ بدعات و محدثات کی کثرت کے دور میں سنت رسول اور سنت خلفاء راشدین کو لازم پکڑنا چاہیے۔ پھر حضرت عمر کے فعل کو کس طرح بدعت کہا جا سکتا ہے ؟
علامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی “عون المعبود ” میں حافظ ابن رجب حنبلی کی “جامع العلوم و الحکم ” سے ملخصاً نقل کرتے ہیں :
” فقوله ﷺ ” کل بدعة ضلالة ” من جوامع الکلم لا یخرج عنه الشئ ، و هو اصل عظیم من اصول الدین ۔ و اما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فانما ذٰلک فی البدع اللغویة لا الشرعیة ، فمن ذٰلک قول عمر رضی الله عنه فی التراویح ” نعمت البدعة هذه ” …………” [47]
” آپ ﷺ کا فرمانا کہ ہر بدعت ضلالت ہے ، نہایت جامع کلام ہے ، اس سے کچھ بھی خارج نہیں۔ یہ اصولِ دین کی اصلِ عظیم ہے۔ رہا بعض سلف کے کلام میں بعض بدعت سے متعلق استحسان کا ذکر تو بلا شبہ یہ بدعتِ لغوی ہے نہ کہ بدعت شرعی۔ جیسے تراویح سے متعلق حضرت عمر کا یہ قول کہ یہ اچھی بدعت ہے۔…………”
[47] (عون المعبود : 2/2136)
[47] (عون المعبود : 2/2136)
تراویح کے معاملہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل پر بدعت کا اطلاق اس لیے بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے سامنے حضور ﷺ کی عملی نظیر موجود تھی۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے موقوفہ لیکن پسندیدہ عمل کی ترویج کی۔
فقہ
علم فقہ کے تو حضرت عمر بانی ہیں۔ اس فن کی پرورش اور ارتقاء حضرت عمر ہی کی رہین منت ہے۔
حضرت حذیفہ بن الیمان فرماتے ہیں :
” انما یفتی الناس ثلاثة رجل : امام او وال و رجل یعلم ناسخ القرآن من المنسوخ ۔“
” بے شک لوگوں میں سے تین طرح کے لوگ فتویٰ دے سکتے ہیں ۔ امام یا والی اور وہ شخص جو قرآن کے ناسخ کو منسوخ سے جانتا ہو۔”
لوگوں نے پوچھا ایسا شخص کون ہے ؟
فرمایا : عمر بن الخطاب۔[48]
[48] ( سنن الدارمی ، کتاب المقدمة ، باب یفتی الناس فی کل ما یستفتی)
[48] ( سنن الدارمی ، کتاب المقدمة ، باب یفتی الناس فی کل ما یستفتی)
اہل سنت و الجماعت کے جتنے بھی فقہی مسالک ہیں ، وہ تمام کے تمام سیدنا فاروقِ اعظم ہی کے علم کے خوشہ چیں ہیں۔ بقول شاہ ولی اللہ مذاہبِ اربعہ کی حیثیت فقہ عمر کی شرح اور ائمہ اربعہ کی حیثیت حضرت عمر جیسے مجتہد مطلق مستقل کے مجتہدین منتسبین کی سی ہے۔ فرماتے ہیں :
” حضرت عمر کی اجتہادات میں اصابت ( مصیب ہونا ) اس حدِ کمال تک ہے کہ ائمہ اربعہ کی پوری فقہ آپ ہی کے متونِ اجتہاد کی شرح ہے۔ امیر المومنین فاروقِ اعظم اس مقام میں ” مجتہدِ مطلق ” کے درجہ پر فائز ہیں۔ ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ) رحمہم اللہ تعالیٰ ایسے مجتہد منتسب ہیں ، جو درجہ اجتہادات میں مجتہد مطلق ہونے کی بجائے حضرت عمر کے فیضان سے بہرہ مند ہیں۔” [49]
[49] ( فقہ عمر : 25)
ایک دوسرے مقام پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں :
” علم احکام است کہ الیوم بفقۃ مسمی می شود و اقوی مسائل فقہیہ اجماعیات فاروق اعظم است ، و ہیچ چیز اشبہ بعلوم انبیاء علیہم الصلوٰت مانند امر مجمع علیہ نیست زیرا کہ قطع در بسیاری از مسائل فقہیہ بدون اجماع میسر نمی شود و اتفاق امت بغیر اجماع بدست نمی آید و ہیچ خصلت درمیان امت مہم تر از اتفاق نیست مفاسد تفریق بسیار است و ہر چند اتفاق بیشتر تفرق کمتر شنا سندہ ماخذ فقہ میداند کہ اہل سنت کہ حملہ لواء شریعت ایشان اند و قلب کتیبہ ملت ایشان اند مدار ایشان بر مسائل اجماعیہ فاروق است ہمان مسائل است کہ اصل و مدار فقہاء اربعہ افتا و بسا مسائل کہ اگر نص فاروق را دران اعتبار نکنند حجت بآن قائم نشود و بسا مسائل کہ در زمان آنحضرت ﷺ و صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واضح نشد و با قاصی وا دانی نرسید و اختلاف دران بر انداختہ نشد فاروق اعظم آنرا مجمع علیہ گردایندہ انچہ از دست فاروق باقی ماند ہمان است مختلف فیہ کہ تا روز قیامت دران اتفاق شدنی نیست اگر سعی فاروق نمی بود علما شذر و ندرمی شدند و حیص و بیص بسیار می دیدند و راہِ اجتہاد واضح نمی شد و تحقیق حق میسر نمی آمد۔” [50]
اجماعیاتِ فاروقی
حضرت عمر فاروق کے دور میں کثرت سے جدید مسائل پیش ہوئے اور جن پر فاروقِ اعظم کی زیر صدارت مجلسِ علم میں اکابر صحابہ نے اجماع کیا۔ یہ اجماعیات فاروقی شریعت کی اساس اور احکام دین کی بنیاد ہیں۔
جس قدر اجماعی فیصلے حضرت عمر فاروق کے عہد میں حضرت عمر کے زیرِ صدرات مجلسِ صحابہ میں ہوئے ۔ اس قدر نہ ان سے قبل ہوئے اور نہ ہی ان کے بعد۔
قبولیت عامہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگرچہ خود بہت بڑے فقیہ و مجتہد اور بزبانِ رسالت محدث و ملہم تھے۔ انہیں منصب خلافت بھی حاصل تھی تنہا ان کی رائے بھی فتویٰ کے لیے کافی ہو سکتی تھی۔ لیکن مفادِ عامہ اور احتیاط کے پیشِ نظر وہ اکثر مسائل کو عموماً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں پیش کرتے تھے اور ان مسائل پر نہایت آزادی ، دقت نظری اور نکتہ سنجی کے ساتھ بحثیں ہوتی تھیں۔ بقول علامہ بلاذری : حضرت عمر نے کسی ایسے مسئلہ کو جو ان سے پہلے طے نہیں ہوا تھا، بغیر صحابہ کے مشورہ کے فیصلہ نہیں کیا۔[51]
[51] ( کتاب الاشراف)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں :
” کان من سیرة عمر انه کان یشاور الصحابة و یناظر هم حتی تنکشف الغمة و یاتیه الثلج فصار غالب قضایاه و فتاواه متبعةً مشارق الارض و مغاربها۔“[52]
[52] ( حجۃ اللہ البالغہ)
” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مشورہ اور مناظرہ کرتے تھے یہاں تک کہ پردہ اٹھ جاتا تھا اور یقین آ جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فتوؤں کی تمام مشرق و مغرب میں پیروی کی گئی ہے۔”
ایک لائقِ توجہ وضاحت
حضرت صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما نے اجتہادات بھی کیے ، ان کے اجتہادات کو صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے قبول کیا۔ بعض اجتہادات سے اصحاب کرام نے اختلاف بھی کیا اور انہیں اس اختلاف کا حق بھی حاصل تھا ، اور یہ وہی اختلاف ہے جو امت کے حق میں رحمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جن مسائل میں اختلاف ہوا وہ خالصتاً اجتہادی نوعیت کے امور تھے ، جن میں ایک سے زائد رائیں ممکن تھیں جن امور کا تعلق تکمیلِ شریعت سے تھا اس پر تمام صحابہ یک زبان و ہمنوا تھے-
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
بشکریہ : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مقام اجتہاد: https://goo.gl/XgMNMy
مزید :
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
بشکریہ : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مقام اجتہاد: https://goo.gl/XgMNMy
مزید :
- فاروق اعظم : https://goo.gl/0BWr06
[1] آمدی ، ج 3 ص 139 بحوالہ شاہ ولی اللہ اور اصول فقہ ، از ڈاکٹر مظہر بقا ، ص 532
[2] صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل
[3] صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل
[4] سنن ابی داود، کتاب القضایا ، باب اجتهاد الرئ فی القضا۔ سنن الدارمی ، کتاب المقدمة ، باب الفتیا و ما فیه من الشدة ۔ گو یہ حدیث مرسل ہے لیکن اصولاً و معناً درست ہے اور علمائے محققین اس سے استدلال کرتے ہیں۔
[5] تاریخ الخلفاء میں یہ روایت طبرانی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔ ( 1/42)
[6] طبقات ابن سعد
[7] یہ حدیث مسند احمد ، ترمذی اور حاکم میں روایت ہوئی ہے۔ حاکم کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے لیکن ان کے تساہلِ حدیث سے حدیث کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ ترمذی کے مطابق حسن غریب ہے ، البانی حسن قرار دیتے ہیں ، بعض نے حسن لذاتہ قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کے بعض راویوں کو منکر اور سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی ضعیف حدیث ہے جس کے شواہد و متابعات موجود ہیں جس کی وجہ سے ترمذی کی اصطلاح کے مطابق یہ حدیث حسن غریب اور عام اصطلاح کے مطابق حسن لذاتہ کے درجے تک پہنچتی ہے۔ مناقب میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔
[8] صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
[9] فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر : 169
[10] سنن دارمی ، کتاب المقدمة ، باب الفتیا و ما فیه من الشدة
[11] سنن الدارقطنی، کتاب الاقضیة و الاحکام ، کتاب عمر رضی الله عنه الی ابی موسیٰ الاشعری۔ گو یہ روایت اسناداً ضعیف ہے مگر اس کے متابعات مل جاتے ہیں۔
[12] سنن النسائی ، آداب القضاة ، باب الحکم باتفاق اهل العلم ۔ سنن الدارمی ، کتاب المقدمة، باب الفتیا و ما فیه من الشدة
[13] حجۃ اللہ البالغہ
[14] الفاروق ، حصہ دوم : 210
[15] صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضي الله عنه
[16] صحیح البخاری ، کتاب التفسیر ، باب قوله عز و جل ” و اتخذوا من مقام ابراهیم مصلی “
[17] صحیح البخاری ، کتاب التفسیر ، باب قوله عز و جل ” و اتخذوا من مقام ابراهیم مصلی ” ، صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه
[18] صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه
[19] صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضی الله عنه
[20] صحیح مسلم ، کتاب الصلوٰة ، باب بدء الاذان
[21] صحیح البخاري ، كتاب الحج ، الاول فی : باب ما ذكر في الحجر الأسود، و الثاني في : باب الرمل في الحج و العمرة و الثالث في : باب تقبيل الحجر الأسود ۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم ، سنن أبی داود ، سنن ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ اور موطاء امام مالک وغیرہا میں بھی روایت کی گئی ہے۔
[22] ازالۃ الخفاء حصہ دوم صفحہ 91- علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں بیعت رضوان کے واقعہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ ابن سعد نے طبقات میں اس واقعہ کو قلمبند کیا ہے۔ بحوالہ الفاروق
[23] ازالۃ الخفاء از شاہ ولی اللہ ، حصہ دوئم ، ص91 بحوالہ الفاروق ، حصہ دوم ، ص 208
[24] صحیح مسلم احادیث نماز سفر
[25] الفاروق ، حصہ دوم ، ص 212 ، نامی پریس کان پور 1899ء
[26] روح اسلام : 426 ، مترجم محمد ہادی حسین ، ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور 1972ء
[27] مصنف عبد الرزاق
[28] العقد الفرید
[29] فقہ عمر : 5
[30] فقہ عمر : 76
[31] فقہ عمر : 77
[32] فقہ عمر : 78
[33] مصنف عبد الرزاق : 7/407 ، سنن البیہقی : 8/236 ، المغنی لابن قدامہ : 8/187 بحوالہ فقہ عمر : 93
[34] فقہ عمر : 94
[35] حوالہ مذکور
[36] موطاء امام مالک ، کتاب الحدود ، باب ما جاء فی حد الزنا
[37] سنن الترمذی ، ابواب الحدود ، باب ما جاء فی المراة اذا استکرهت علی الزنا
[38] موطاء امام مالک ، کتاب الحدود ، باب ما جاء فیمن اعترف علیٰ نفسه بالزنا
[39] السنن الکبریٰ للبیہقی : 8/337۔ و نیز یہ واقعہ مصنف عبد الرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ اور شرح السنۃ للبغوی میں بھی موجود ہے۔
[40] ابن ابی شیبہ : 1/222 ، المحلیٰ : 10/181 بحوالہ فقہ عمر : 374
[41] فقہ عمر : 374
[42] صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب : ما جاء فی صلاة رمضان
[43] موطاء امام مالک ، باب ما جاء فی قیام رمضان
[44] مثلاً ڈاکٹر محمد روّاس قلعہ جی در کتاب فقہ عمر : 126۔ بلکہ انہوں نے ایک غضب یہ بھی کیا کہ بدعت کی اس تقسیم کو خود حضرت عمر کی جانب منسوب کر دیا۔
[45] اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بدعت سے متعلق حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اقتباس پیش کیا جائے۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں :
” گزشتہ لوگوں نے شاید بدعت میں کچھ حسن دیکھا ہوگا جو بدعت کے بعض امور کو مستحسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافق نہیں ہے اور بدعت کے کسی فرد کو حسنہ نہیں جانتا بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ اسلام کے اس ضعفت و غربت کے زمانہ میں سلامتی سنت کے بجا لانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے حاصل کرنے سے وابستہ ہے۔ فقیر بدعت کو کلہاڑی کی طرح جانتا ہے جو بنیادِ اسلام کو گرا رہی ہے اور سنّت کو چمکنے والے ستارہ کی طرح دیکھتا ہے جو گمراہی کی سیاہ رات میں ہدایت فرما ہے ۔” ( کشف المعارف : 207 ، مرتبہ عنایت عارف مطبوعہ الفیصل ناشران کتب لاہور 2006ء )
[46] سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة
[47] عون المعبود : 2/2136
[48] سنن الدارمی ، کتاب المقدمة ، باب یفتی الناس فی کل ما یستفتی
[49] فقہ عمر : 25
[50] قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین : 59-60 ، مطبع مجتبائی دہلی 1310ھ
[51] کتاب الاشراف
[52] حجۃ اللہ البالغہ
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
Also Related:
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits
No comments:
Post a Comment