حضرت! ہم آپ کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں! خدا کے لیے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجیے۔ ہماری زندگیوں میں زہر نہ گھولیے۔ ہمیں ڈکٹیٹ نہ کیجیے۔ Non-Issues کو ہماری زندگیوں کا مقصد و محور نہ بنائیے۔ ابھی ملائیشیا میں آپ نے فیصلہ کیا کہ اللہ کا لفظ غیر مسلم استعمال نہیں کر سکتے۔ انہیں یہ لفظ استعمال کرنے سے پہلے عہد رسالت میں بھی نہ روکا گیا۔ دیکھیے، سورۃ یونس:
''تو پوچھ کون روزی دیتا ہے تُم کو آسمان سے اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون تدبیر کرتا ہے کاموں کی سو بول اٹھیں گے کہ اللہ!‘‘
پھر آپ نے بنگلہ دیش میں فتویٰ دیا کہ مسجد میں کرسی کا استعمال جائز نہیں! سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کی کس مسجد میں کرسیاں نہیں رکھی ہوئیں‘ جدہ کی ایک مسجد میں باقاعدہ صوفے پڑے ہوئے دیکھے۔ ایک مسلمان جو بوڑھا ہے‘ معذور ہے‘ کیا کرے؟ کیا وہ نماز پڑھنا چھوڑ دے اور اس لیے کہ آپ خوش ہو جائیں! آپ بغلیں بجا سکیں کہ ہم ہیں ان کی زندگیوں کے مالک!
اب پاکستان میں آپ یہ نیا مسئلہ کھڑا کر رہے ہیں کہ خدا کا لفظ استعمال نہ کرو! ایک ہزار سال کا دینی ادب جو ایران‘ ترکی‘ وسط ایشیا اور برصغیر میں تخلیق ہوا‘ آپ کی بے دلیل خواہش کی بھینٹ چڑھا کر نذر آتش کر دیں؟ کچھ تو خدا کا خوف کیجیے۔ آپ اس مفلوک الحال بھوکی‘ ننگی‘ کرپشن کی ماری ہوئی قوم سے اس کا خدا بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔
پہلے آپ نے فرمایا کہ ٹیلی ویژن حرام ہے۔ جھگڑے ہوئے۔ میاں کے بیوی سے‘ بیوی کے میاں سے‘ اولاد کے والدین سے‘ والدین کے اولاد سے‘ تعلقات خراب ہوئے‘ گھر اجڑے‘ طلاقیں ہوئیں‘ پھر ایک دن ٹیلی ویژن ''مسلمان‘‘ ہو گیا۔ بس ایک خاص طبقے کو پروگرام ملنے کی دیر تھی۔ کبھی کہا گیا کہ میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا بدعت ہے! یہ کرسی پارلیمنٹ میں بھی جائز ہے‘ وزارت میں بھی روا ہے۔ اسلامک ایڈوائزری کونسل میں بھی ''اسلامی‘‘ ہے۔ صرف مدارس کے طلبہ کے لیے ''غیر اسلامی‘‘ ہے! کیونکہ ان کی ننھی منی معصوم زندگیوں پر آپ کو مکمل اختیار ہے!
بارش ہو رہی تھی۔ ایک صاحب بھیگتے جا رہے تھے۔ ایک مولانا چھتری لیے اُسی راستے پر گامزن تھے۔ انہوں نے کرم کیا اور چھتری کا ایک حصّہ اُن صاحب کے سر پہ کر دیا۔ ان صاحب نے اِس ''لفٹ‘‘ کا باقاعدہ شکریہ بھی ادا کیا۔ ایک ہفتہ بعد وہ صاحب ایک ریستوران میں اپنے مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کہیں سے مولانا نمودار ہوئے اور کہنے لگے‘ جناب اُس دن میں چھتری مہیا نہ کرتا تو آپ بھیگ جاتے۔ اُن صاحب نے پھر شکریہ ادا کیا۔ لیکن اب مولانا کا یہ معمول ہو گیا کہ وہ جہاں کہیں ان صاحب کو دیکھتے‘ احسان جتاتے۔ وہ شخص تنگ آ گیا۔ ایک دن وہ ساحلِ سمندر پر سیر کر رہا تھا۔ مولانا بھی وہیں تھے‘ اس سے پہلے کہ وہ ایک بار پھر جتاتے‘ اس شخص نے کپڑوں سمیت سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ غوطے کھائے‘ سانس بند کر کے پانی کے اندر چلا گیا‘ پھر باہر نکلا اور کہا، حضرت! اِس سے زیادہ تو نہ بھیگتا!
چنانچہ درخواست ہے کہ آپ اپنی چھتری ہمارے سر سے بے شک ہٹا لیجیے۔ اسلام پر صرف آپ کی اجارہ داری نہیں‘ جنہیں آپ تکبر سے اور حقارت سے دیکھ رہے ہیں‘ وہ بھی خدا ہی کے بندے ہیں اور چار حرف انہوں نے بھی پڑھ رکھے ہیں۔
مگر ٹھہریے! آپ کے پاس تو اپنی چھتری ہی نہیں! یہ چھتری جو آپ نے تان رکھی ہے‘ یہ تو آپ نے خود کہیں سے مانگی ہے!
محمد اظہار الحق
See more at:
http://m.dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2017-01-04/18101/23877488#sthash.115wA1vT.dpuf
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:
Follow @AftabKhanNet | Facebook Page |
|
No comments:
Post a Comment