Liberalism, Fascism لبرل فاشزم

لبرل فاشزم …

چند مہینوں سے اردو صحافت کے کالموں میں اچانک ''لبرل فاشزم‘‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی اور بغیر سوچے سمجھے متعدد لکھنے والوں نے اس کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ دو متضاد مفاہیم کی حامل کوئی اصطلاح ایجاد کر کے ''نئے پن‘‘ کا تاثر تو قائم کر لیا جاتا ہے‘ لیکن اس میں سے کوئی مفہوم نکالنا اور پھر اس مفہوم کو قارئین تک پہنچانا ‘کافی مشکل کام ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ الگ الگ اصطلاحوں کو ان کے اصل مفہوم میںاستعمال کر کے‘ بات کو الجھانے سے گریز کیا جائے اور تضادات کے ٹکرائو سے نکلنے والی چنگاریوں میںبھی تیسری جہت نمایاں ہو سکتی ہے اور جو مفہوم پیدا کرنا مقصود ہو‘ دستیاب ہو جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کل کی تیزرفتاری میں کچھ دیر رک کر سوچ بچار کرنے کا رواج نہیں رہ گیا۔ سب کچھ روا روی میں ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر ذیشان ہاشم کا ایک مضمون نظر سے گزرا تو اندازہ ہوا کہ کسی نے تضادات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔خیالات ذی شان کے ہیں‘ میں صرف ان کی منفرد کوشش کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے قارئین کو بھی متوجہ کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمایئے:
''ہمارے دانشورانہ مکالمہ میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دور جدید کی سوشل سائنس کے تین بڑے رجحانات (لبرل ازم، سوشل ازم، اور فاشزم) کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں لبرل فاشزم کی اصطلاح یہاں کے بیشتر کالم نویس استعمال کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ اصطلاح معروف بھی ہو جاتی ہے‘ اس تحقیق و جستجو میں پڑے بغیر کہ اصل میں فاشزم ہے کیا؟ فاشسٹ ہونا کیونکر گالی ہے؟ گزشتہ صدی کے ابتدائی عشروں میں مغربی لبرل ازم نے‘ جس فاشزم سے جنگ لڑی دونوں کے درمیان کس بات کا نظریاتی اختلاف تھا ؟ اور یہ کہ مغرب میں‘ جس فاشزم کی لہر دوبارہ سے اٹھ رہی ہے ‘اس کا جنم کہاں سے ہوا اور وہ مغربی لبرل ازم کے لئے کیونکر اور کن بنیادوں پر خطرہ بن رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں‘ جن پر غوروفکر ‘ہمارے اہل علم و فکر کے لئے ضروری ہے‘ تب جا کر دانشورانہ مکالمہ سطحیت سے سنجیدگی کی طرف رجوع کرے گا۔
آئیے پہلے اس پربات کرتے ہیں کہ لبرل ازم اور فاشزم سے کیا مراد ہے؟ اور ان میں باہم اختلاف کیا ہے؟ اس کے بعد بقیہ پہلوؤں کو زیر بحث لانا ممکن ہو جائے گا۔فاشزم ایک ایسا سیاسی فلسفہ، تحریک یا عہد ہے جس میں قوم یا نسل یا وطن یا ملک یا وفاق کو فرد یعنی شہری سے بالاتر سمجھا جاتا ہے اور جس میں centralized (مرکزی، وفاقی ) اور جابرانہ (autocratic ) سیاسی‘ سماجی اور معاشی نظم پایا جاتا ہے۔لبرل ازم اس سے مختلف ہے۔ اس میں فرد ہر سماجی اکائی سے بالاتر ہے، قوم‘ نسل‘ وطن اور ملک فرد سے بالاتر نہیں۔ اس میں طاقت و اختیار decentralized ہوتے ہیں اور سیاسی سماجی و معاشی نظام فرد کی آزادی پر قائم ہوتا ہے۔ ریاست کے تمام ادارے شہریت کے حضور جوابدہ ہیں۔ سماجی و معاشی زندگی میں ہر فرد آزاد ہے کہ اپنے پرامن مقاصد کی جستجو کرسکے۔
مسولینی لبرل ازم کو فاشزم کا انٹی تھیسز سمجھتا تھا اس نے اپنی کتابFascism: Doctrine and Institutions میں ریاست کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور فرد کی اہمیت کو صرف اتنا تسلیم کیا ہے کہ فرد ریاست کے مفادات کا تابع ہے۔مسولینی کہتا ہے کہ یہ غیر فطری ہے کہ ریاست شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس کے الفاظ ہیں:''یہ اصول کہ سوسائٹی جو لوگوں سے وجود میںآتی ہے، صرف ان لوگوں کی فلاح اور ان کی آزادی کے لئے ہی قائم کی جاتی ہے۔ اگر کلاسیکل لبرل ازم سے مراد انفرادیت پسندی ہے تو فاشزم سے مراد صرف گورنمنٹ ہے۔‘‘
ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال جن کا شاہین آزاد پرواز پرندہ ہے ‘جو پہاڑوں کی چٹانوں پہ اپنی انفرادیت پسندی کا تحفظ کرتا ہے، انہوں نے مسولینی کی جو تعریف کی سو کی‘ ذرا برطانوی سوشلسٹ شاعر و ادیب برنارڈ شا کی بھی سن لیجئے جنہوں نے 1927 ء میں لکھا :''سوشلسٹ یہ جان کر مسرور ہوں گے کہ آخر کار انہیں ایک سوشلسٹ (مسولینی ) مل گیاہے‘ جو ویسے بولتا اور سوچتا ہے جیسے ایک ذمہ دار حکمران کو ہونا چاہئے ۔‘‘
جرمن فاشزم کا بانی Paul Lenschہے جو اپنی کتاب Three Years of world revolutionمیں لکھتا ہے:''سوشلزم کے لئے ضروری ہے کہ وہ انفرادیت پسندی یعنی لبرل ازم کے خلاف ایک شعوری اور پرعزم اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ فاشزم سماج میں اخلاقی جبر کا قائل ہے۔ وہ فرد کو اپنی مفروضہ اخلاقیات کے حضور سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے جرمن فاشزم کا سلوگن بھی یہی تھا کہ سماجی اخلاقیات انفرادی اخلاقیات سے بالاتر ہیں۔
ہٹلر اپنی کتابMein Kampf میں لکھتا ہے: ''آرینز اپنی ذاتی صلاحیتوں سے عظیم نہیں تھے بلکہ ان کی آمادگی تھی جس کے باعث وہ اپنی ذات کو سماج سے کمتر سمجھتے تھے اور اگر اس کے لئے وقت ان سے تقاضا کرتا تو وہ قربانیوں سے نہیں گھبراتے تھے۔‘‘
فاشزم‘ فرد کا انکار کرتا ہے اس کے حقوق کا بھی، اس کی ذات کا بھی، اس کی آزادی مساوات اور انصاف کا بھی۔ وہ ایک مفروضہ‘ تصور نظریہ یا عقیدہ کی آمریت کا نام ہے جو افراد سے اپنی پرستش اور خدمت گزاری کرواتا ہے۔ اسی بات کو ہٹلر اپنی کتاب میں ان الفاظ میں لکھتا ہے: ''فرد کے حقوق ہوتے ہی نہیں، اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں۔‘‘
فاشزم اپنی آمریت کا جواز‘ سماجی بہبود کو قرار دیتا ہے اور سماجی بہبود کے نام پر شخصی آزادی کو نفرت سے دیکھتا ہے۔ شہری کے مفادات کو‘ سماج دشمن قیاس کرتا ہے۔ اس کے نزدیک وہ تمام لوگ جو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے محنت مشقت کرتے ہیں ‘وہ سماج دشمن ہیں، وہ ریاست کے دشمن ہیں- ہٹلر لکھتا ہے:''ہماری قوم صرف ایک سادہ اصول سے صحت یاب ہو سکتی ہے۔سماجی مفادات کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی جائے۔‘‘
''فاشسٹ فلسفہ و نظام حکومت یہ نہیں کہ ریاست آپ کے لئے کیا کر سکتی ہے بلکہ حقیقتاً یہ ہے کہ آپ ریاست کے لئے کیا کر سکتے ہیں‘‘۔
''فاشزم کا ذکر ہو اور اس میں کارلائل کا تذکرہ نہ ہو، ایسا ناممکن ہے۔ جس طرح کلاسیکل لبرل ازم کے فلسفہ میں لاک، مل، بینتھم، والٹیر اور ایڈم سمتھ کا کردار ہے، اور کمیونزم کے فلسفہ میں مارکس کا، بالکل اسی طرح جدید فاشزم کی تبلیغ و تشریح میں کارلائل کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ یہ اتفاق نہیں کہ اپنے انجام کے آخری لمحات میں جب ہٹلر چہار سو شکست اور ناکامی دیکھ رہا تھا،وہ اپنے بنکر میں اپنے وفاداروں کے ساتھ محصور تھا اور دشمن کی فوجیں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ہٹلر نے اپنے قابل اعتماد اسسٹنٹ Goebbels کو کہا کہ ان لمحات میں خود کو پرسکون رکھنا چاہتا ہے اس لئے اسے ایک کتاب پڑھنے کو دی جائے۔ اس کے اسسٹنٹ نے پوچھا کہ جناب کونسی کتاب پڑھنا چاہیں گے تو اس نے تھامس کارلائل کی کتاب ''فریڈرک اعظم کی بائیو گرافی ‘‘ طلب کی اور اسی کتاب کو سینے سے لگائے دنیا سے کوچ کر گیا۔‘‘
- See more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2016-08-06/16371/54874196#sthash.OrIzKILO.dpuf
''کارلائل گریٹ مین (ہیروز) تھیوری کا خالق تھا۔ اس نے ہیروز کی جو خصوصیات بتائی ہیں ان پر ماؤ‘ سٹالن ‘ہٹلر اور مسولینی خوب پورے اترتے ہیں۔ اس نے آزادی، مساوات، اور انصاف کے تصورات کا مذاق اڑایا اور سب سے بڑی قدر طاقت و اقتدار کو قرار دیا۔ اس نے آزادی کا حق صرف ہیروز کے لئے مخصوص کیا اور باقی افراد کے لئے اس کا کہنا تھا کہ وہ ہیروز کے حضور سرنگوں ہو جائیں۔ وہ کہتا تھا کہ ہیروز اور عام لوگ برابر نہیں ہو سکتے۔ جس طرح ہیرو ‘دوسرے افراد پر حکومت کرتے ہیں اسی طرح ہیرو نسلیں بھی ‘دوسری کمتر نسلوں پر حکومت کرتی ہیں۔ انصاف قانون کی نظر میں برابری نہیں بلکہ انصاف ہیروز (عظیم افراد ) کا ارادہ و حکم ہے۔ اس نے سینکڑوں صفحات پر محیط تحریریں لکھیں ‘جن میں اس نے اس حکومت کی تعریف کی، جس سے لوگ ڈریں۔ اس نے لکھا کہ جنگیں‘ انقلاب ‘حملے ‘ تغیرات اور اکثریت پر جبر‘ زندگی کا حصہ ہے۔ فاشزم کو سمجھنے کے لئے آئیے ذرا تفصیل سے کارلائل کے خیالات کو سمجھتے ہیں تاکہ ہم اپنے عہد میں بھی فاشسٹ نظریات کی شناخت کر سکیں اور خود کو بھی کھنگال لیں کہ کہیں ہم اپنے رویوں اور نظریات و عقائد میں فاشسٹ تو نہیں؟
اس نے سب سے زیادہ لبرلز پر تنقید کی‘ خاص طور پر جان سٹارٹ مل اور ایڈم سمتھ‘ اس کی بدزبانی کا نشانہ بنے۔ اس نے ایڈم سمتھ کی Pin فیکٹری (مارکیٹ کے عمل کو سمجھانے کے لئے ایک کلاسیکل مثال) کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ''سب سے گھٹیا کام پیداواری محنت ہے اور سب سے اعلیٰ کام جنگیں لڑنا اور انقلاب برپا کرنا ہے۔ آخر معاشرہ کی تخلیقی صلاحیت کو‘ جنگ میں کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ بجائے اس کے کہ اس سے سوئیاں بنائی جائیں۔ آخر بجائے جنگ کے سوئیاں بنائے میں کیا جمالیات ہے؟‘‘ اس نے خود کو مطلق العنانی کا پیغمبر کہا اور کہا کہ میں‘ ہر اس چیز کی مخالفت کرتا ہوں جسے لبرل مانتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ سوشلسٹ بھی نہیں تھا اور مارکس نے اپنے عہد میں اسے ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دی تھی۔
اسے سب سے زیادہ غصہ‘ فری مارکیٹ معیشت پر تھا۔ اسی نے سب سے پہلے لکھا کہ اکنامکس ایک dismal (ہولناک، مایوس کن ) سائنس ہے۔ اسی سبب ‘وہ مارکیٹ کی پیداواری سرگرمیوں کو نفرت سے دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ ذہانت اور محنت ‘جنگوں میں اور حکومت کرنے پر کیوں نہیں صرف کی جاتی؟
فری مارکیٹ کیپیٹل ازم سے اس کی نفرت کی دوسری وجہ ‘غلامی کا خاتمہ ہے۔ چونکہ وہ بادشاہت اور جاگیرداری کا حامی تھا ‘اس لئے وہ فرد کی معاشی آزادی کو نفرت سے دیکھتا تھا۔ اس کے عہد میں بادشاہت کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ سیاسی سماجی اور معاشی آزادی حاصل ہو رہی تھی۔ اس کے نزدیک اس سب خرابی کی وجہLaises Faireمعیشت ہے جو تمام آزادیوں کو جنم دے رہی ہے۔ اس نے کہا کہ مساوات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ کو دوبارہ اختیارات اور طاقت دی جائے اور جو مضبوط اور طاقت ور ہے ‘وہ سیاسی سماجی اور معاشی زندگی کو کنٹرول کرے۔اسے پورا کیپیٹل ازم مضحکہ خیز لگتا تھا‘ جس کا اظہار اس (کارلائل)نے بار بار کیا۔ اس نے کیپیٹل ازم کے اصولوں ‘جیسے آزادی، عالمگیر بنیادی حقوق اور ترقی کا مذاق اڑایا۔ وہ کہتا تھا: ''یہ کیسا معاشرہ چاہتے ہیں‘جو مساوی آزادی دیتا ہو؟ جس میں کوئی آقا اور غلام نہیں۔ سب کے برابر حقوق ہیں۔ سوسائٹی کی معیشت پر کسی کا کنٹرول نہیں بس‘ ڈیمانڈ اور سپلائی معیشت کو منظم کرتی ہے۔ لوگ کسی حکم کی پیروی نہیں بلکہ اپنے اپنے سیلف انٹرسٹ (شخصی آرزوؤں) کی جستجو کرتے ہوں۔ جس طرح سیاسی آزادی کے قائل ہیں‘ ویسے ہی معیشت اور سماج کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ وہ لکھتا ہے: ''میں پوچھتا ہوں کیا یہ احمقانہ بات نہیں، سوائے ہیروز کے کوئی اور بھی درست ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
جو گورے نہیں ‘وہ انسان ہی نہیں۔ اگر وہ غلام نہیں تو انہیں مار دیا جائے۔ اس نے کالوں کو دو پاؤں والا جانور قرار دیا۔ اس نے لکھا کہ انکی بس اتنی وقعت ہے کہ انہیں غلام بنا دیا جائے۔
بہترین سوسائٹی وہ ہے جس میں اشرافیہ کی بالادستی ہو۔ عام لوگ تو رعایا بننے کے لئے پیدا ہوتے ہیں ان میں self determination اور self responsibility کہاں؟
اپنے عہد میں اس کا ہیرو نپولین تھا۔ اس نے کہا کہ ہیرو جیسا کہ نپولین ‘پیدا ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ حکومت کریں۔
لبرل ازم ‘فرد پر سوسائٹی اور ریاست کے جبر کا قائل نہیں۔ وہ سوسائٹی کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے جس میں خود تنظیمی کی صلاحیت ہو اور حکومت و ریاست ‘بطور ایک سماجی ادارہ کے ‘اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ یوں لبرل ازم میں ‘سوسائٹی کو ڈیزائن یا کنٹرول کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ وہ لبرل ازم کے اس موقف پر چڑتا اور کہتا تھا ''فرد کیا ہے؟ فرد کچھ بھی نہیں۔ فرد کے حقوق نہیں ہوتے‘ اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں (یہی بات بار بار ہٹلر اور مسولینی دہراتے تھے) اس کا آزاد ارادہ نہیں ہوتا۔ بس اس نے محض اتباع کرنا ہوتا ہے۔ سوسائٹی پر ریاست کو برتری حاصل ہے کیونکہ ریاست کی کمان ہیرو کے پاس ہوتی ہے۔ سوسائٹی پر اشرافیہ کا غلبہ ہوتا ہے ‘جو ہیرو کی کمانڈ پر رعایا سے کام لیتے ہیں‘‘۔
فاشزم اور لبرل ازم میں‘ زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک ریاستی آمریت اور ہیروازم پر قائم ہے‘ تو دوسرا شخصی آزادیوں، آزادی میں مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کی اساس پر قائم قانون کی حکمرانی کا قائل ہے۔ دونوں کو ملانا ناممکن ہے۔ ایک لبرل ‘فاشسٹ نہیں ہو سکتا اور ایک فاشسٹ‘ لبرل نہیں ہو سکتا۔
ریاستوں کا عمومی رجحان فاشسٹ ہوتا ہے جیسے پاکستان کا ریاستی جبر بلوچستان اور فاٹا پر، بھارت کا کشمیر اور تامل ناڈو پر، چین کا سنکیانک پر، امریکہ کی خارجہ پالیسیاں، ایران کا سنی آبادی، دیگر اقلیتوں اور شہریوں پر نظریاتی جبر، سعودیہ کا شیعہ آبادی اور شہریوں پر نظریاتی جبر، اسرائیل کا فلسطین پر اور ترکی، شام، عراق اور ایران کا کردوں پر‘ ایسی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جبکہ فرد اور سوسائٹی پر امن ہوتے ہیں، لوگ تعاون و تبادلہ کی اساس پر پرامن زندگی پسند کرتے ہیں۔ نیشن اسٹیٹ کے تصور نے جہاں ایک طرف جمہوریت اور داخلی آزادیوں کی راہ ہموار کی ہے ‘وہیں ان ریاستوں کی خارجہ پالیسیاں، کمزور شناختوں کے لئے داخلہ پالیسیاں اور ریاست کی فرد اور سوسائٹی پر کنٹرول کی کوشش نے جدید فاشزم کو جنم دیا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کارلائل‘ باوجود اپنے متعصب اور ظالمانہ نظریات کے برطانیہ میں بہت مقبول رہا۔ اسی طرح ہٹلر اور مسولینی جمہوری عمل سے‘ باقاعدہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئے۔ جس مقبولیت پسند سیاست سے‘ وہ اقتدار میں آئے اسی طرز کی سیاست امریکہ میں ٹرمپ، ترکی میں اردوان، برطانیہ میں بورس جانسن اور Jeremy Corbyn، بھارت میں بی جے پی اور مودی، روس میں پوتن، اسرائیل میں نیتن یاہو، فلپائن میں Duterte، نیدر لینڈ میں Geert Wilders، ہنگری میںViktor Orbán، پولینڈ میں Jaroslaw Kaczynski ، اور یورپ میں پھلتی پھولتی انٹی امیگرنٹ تحریکیں کر رہی ہیں۔ یہ غیر لبرل (Illiberal) ہیں اور مقبولیت پسند جمہوریت سے ‘اپنے فاشسٹ نظریات کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا بیانیہ بھی ہٹلر ‘مسولینی اور کارلائل سے ملتا ہے کہ سیاسی سماجی اور معاشی آمریت نافذ کر کے‘ قوم کو عظیم سے عظیم تر بنایا جائے۔ لبرل ازم سیاست ‘معیشت اور سماج کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا ہے۔ لبرل ‘جمہوریت ایک سیاسی بندوبست ہے معاشی یا سماجی نہیں اور اس پر انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کی کڑی شرط عائد ہے۔ دور جدید میں، لبرل ازم کو پھر فاشسٹ نظریات سے خطرہ ہے۔ ایک بار پھر میدان سجنے کو ہے مگر ہمارا دانشور لبرل فاشسٹ کی اصطلاح متعارف کروا کر نہ صرف اپنے خول میں قید ہے بلکہ اپنی لاعلمی اور بے خبری کی باقاعدہ تصویر بنا کر اپنے قارئین کو گمراہ کر رہا ہے۔‘‘
 نذیر ناجی 
- See more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2016-08-07/16382/72069491#sthash.sASw8Mve.dpuf

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace
 A Project of 
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
BooksArticles, BlogsMagazines,  VideosSocial Media
Overall near 3 Million visits/hits

No comments: