قربانی ایک عبادت - احکام ومسائل




سوشل میڈیا پر کچھ جدت پسند حضرات یہ مہم چلا رہے ہیں کہ جو پیسے قربانی پر خرچ کیے جا رہے ہیں ان سے غریب ، حآجت مند، نادار لوگوں کی مدد کرنا چاہیے، گوشت تو انسان کھا ہی لیتا ہے- بظاھر یہ ایک معقول بات نظر آتی ہے مگر یہ بہت نا معقول خیال ہے جو دین اور قربانی کی حقیقت سے لا علمی کا مظہر ہے- ہم لوگ بہت جگہ فضول خرچی کرتے ہیں، انٹرٹینمنٹ ، شاپنگ برانڈز، فضول رسمیں، ڈریس، کنوینس (کارکے اعلی جدید ماڈل) وغیرہ وغیرہ مگر اس وقت ہمیں بچت کرکہ صدقه خیرات کا خیال نہیں اتا ، اگر آتا ہے تو صرف اسلامی احکا مات ، عبادات میں کنجوسی یا کمی کرنے کا- حج ، عمرہ ، قربانی کے اخراجات بھاری معلوم ہوتے ہیں- یہ لا علمی اور ایمان کی کمزوری ہے- اسلام فضول خرچی کو ناپسند کرتا ہے ، عبادات اور تمام معاملات میں سادگی اختیارکرنے سے انسانیت کی خدمت بھی ہو سکتی ہے اور اللہ کی رضا کا حصول بھی-

کچھ مسلمانوں نے  قربانی کو فیشن اور دکھاوا ، سٹیٹس سمبل بنا دیا ہے- یہ قربانی جو کے ایک عبادت کا عمل ہے اس کی نفی ہے- بہت مہنگے جانور خریدنا اور اس کی  میڈیا پر تشہیر کرنا مناسب اقدام نہیں- 
صدقه ، خیرات ایک مستحب عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہنا چاہیے- قربانی مخصوص دنوں میں ایک اسپیشل عمل ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اس کا کوئی اور سبسٹیٹوٹ substitute ہو سکتا ہے- ہاں اگر کسی نے ایک لاکھ یا پچاس ہزار روپے قربانی پر خرچ کرنے کا پروگرام بنایا ہے اور اچانک کسی حادثہ میں بہت لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے اور اس کے لیے بجٹ میں ممکن نہیں تو وہ قربانی کا کم قیمت جانور خرید سکتا ہے ، یا گاۓ میں ایک یا زیادہ حصہ ڈال سکتا ہے جو اس وقت 8 ہزار سے 10 ہزار روپیہ تک ہے- اس طرح سے قربانی بھی ہو جائے گی اور کسی مستحق کی مدد بھی-  


قربانی حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی قربانی کرنے کا حکم دیا گیا،قربانی کرنا حکمِ خداوندی کی تعمیل ہے- ارشادربانی ہے:


فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (108:2 سورة الكوثر)
 'تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا، وَلٰکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ․(الحج۲۲:۳۷)
’’اﷲ کو (تمھاری) اِن (قربانیوں) کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘




Hajj is one of the pillars of Islam >>> Hajj  .... >>> Hager: An Egyptian Princess

فضیلت قربانی
حضورسید عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اولاد آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ گ کے یہاں مقبولیت کی سند پا لیتا ہے اس لئے تم قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔(جامع الترمذی رقم الحدیث:۳۹۴۱)
جناب زید بن ارقم ص سے مروی ہے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ  یہ قربانیاں کیا ہیں، فرمایا:تمہارے باپ جناب ابراہیم ں کی سنت ہے''صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یارسول اللہ اہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے فرمایا ہربال کے بدلے نیکی ہے عرض کی اُون کا کیا حکم ہے فرمایااُون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے۔(سنن ابن ماجۃ،رقم الحدیث:۷۲۱۳)
قربانی کی پابندی
جناب عبداللہ بن عمر ص نے فرمایا کہ رسول اللہ انے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہرسال پابندی سے قربانی فرماتے رہے
نو ذی الحج کا روزہ
جناب قتادہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں فرمایا کہ میں اللہگ  سے امیدرکھتا ہوں کہ وہ اس (دن روزہ رکھنے)کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرمائے گا-


جب کوئي شخص قربانی کرنا چاہے اورچاندنظرآنے یا ذی القعدہ کے تیس دن پورے ہونے کی بنا پرذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے توقربانی ذبح کرنے تک اس کے لیے اپنے بال اورناخن یا جلد وغیرہ سے کچھ کاٹنا حرام ہے ۔(شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی)  کچھ علماء بال ناخن نہ کاٹنے کو مستحب کہتے ہیں-
(اگرکسی شخص نے بھول کریا جہالت میں بال وغیرہ کٹوا لیے یا اس کے بال بغیر قصد وارادہ کے گر گئے تواس پرکوئي گناہ نہیں ، اوراگراسے اتارنے کی ضرورت پیش آجائے تواسے کاٹنے میں کوئي گناہ اورحرج نہيں ہوگا مثلا کسی کا ناخن ٹوٹ جائے اوراسے ٹوٹا ہواناخن تکلیف دیتا ہوتواس کےلیے کاٹنا جائز ہے ، اوراسی طرح اگر اس کے بال آنکھوں میں پڑنے لگیں تواس کے لیے اسےزائل کردے ، یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے-)
 قربانی سے قبل بال اورناخن یا جلد وغیرہ سے کچھ کاٹنا حرام ،دلیل مندجہ ذیل حدیث ہے :
ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو ۔
اورایک روایت کے الفاظ ہيں : جب عشرہ ( ذی الحجہ ) شروع ہوجائے اورتم میں سے کوئي قربانی کرنا چاہے تووہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ) مسند احمد اورصحیح مسلم ۔
اورایک روایت کے الفاظ ہيں : توقربانی کرنے تک اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ۔
اورایک روایت کے الفاظ ہيں : تووہ اپنے بال اورجلد میں سے کچھ بھی نہ لے ۔

اورجب کوئي شخص عشرہ ذی الحجہ کے دوران قربانی کرنے کی نیت کرے تواسے اپنی نیت کے وقت سے ہی بال اورناخن کٹوانے سے رک جانا چاہیے ، اوراس نے قربانی کرنے کی نیت سے قبل جوکچھ کاٹا ہے اس کا کوئي گناہ نہيں ہوگا ۔
اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ جب قربانی کرنے والا شخص قربانی کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلیے حاجی کے بعض اعمال میں شریک ہوا تو بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے سے رکنے کے ساتھ احرام کے بعض خصائص میں بھی شریک ہوگيا ۔
اوریہ حکم یعنی بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی خاص ہے ، اورجس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے وہ اس سے تعلق نہيں رکھتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اورتم میں سے کوئي قربانی کرنے کاارادہ کرے تو )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ : یا جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہو ، اوراس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہيں کہ آپ نےانہيں بال وغیرہ کٹوانے سےمنع فرمایا ہو ۔

تواس بنا پرقربانی کرنے والے کے اہل وعیال کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں بال ، ناخن وغیرہ کٹوانے جائز ہیں ۔

اورجب قربانی کرنے کا اراہ رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال ، ناخن یا اپنی جلد سے کچھ کاٹ لے تواسے اللہ تعالی کے ہاں توبہ کرنی چاہیے اورآئندہ وہ ایسا کام نہ کرے ، اوراس پرکوئي کفارہ نہيں ہوگا اورنہ ہی یہ اس کے لیے قربانی کرنے میں مانع ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس سے قربانی میں ممانعت پیدا ہوجاتی ہے ۔

اوراگرکسی شخص نے بھول کریا جہالت میں بال وغیرہ کٹوا لیے یا اس کے بال بغیر قصد وارادہ کے گر گئے تواس پرکوئي گناہ نہیں ، اوراگراسے اتارنے کی ضرورت پیش آجائے تواسے کاٹنے میں کوئي گناہ اورحرج نہيں ہوگا مثلا کسی کا ناخن ٹوٹ جائے اوراسے ٹوٹا ہواناخن تکلیف دیتا ہوتواس کےلیے کاٹنا جائز ہے ، اوراسی طرح اگر اس کے بال آنکھوں میں پڑنے لگیں تواس کے لیے اسےزائل کردے ، یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے-
دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) 
...........................
ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور قربانی کے احکام ومسائل از: محمدنجیب قاسمی، ریاض اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَأَصحَابِہِ اَجْمَعِین․ ماہ ِ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ:
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم (سورة الفجر آیت نمبر ۲)میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ) جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج کا اہم رکن: وقوفِ عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لہٰذا ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں۔ احادیث میں ان ایام میں عبادت کرنے کے خصوصی فضا ئل وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسانہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ (صحیح بخاری ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرہٴ ذی الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں، لہٰذا تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیا کرو۔ (طبرانی) ان ایام میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، تکبیرِ تشریق کے کلمات یہ ہیں: اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ لَآ اِلٰہ الَّا اللّٰہُ۔ وَاللّٰہُ اَکْبَر۔ اللّٰہُ اَکْبَر۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ عرفہ کے دن کا روزہ: حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔ ( صحیح مسلم) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا نویں ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔ وضاحت: اختلافِ مطالع کے سبب مختلف ملکوں میں عرفہ کا دن الگ الگ دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں؛ کیونکہ یوم عیدالفطر، یوم عید الاضحی، شبِ قدر اور یومِ عاشورہ کے مثل ہر جگہ کے اعتبار سے جو دن عرفہ کا قرار پائے گا، اُس جگہ اُسی دن میں عرفہ کے روزہ رکھنے کی فضیلت حاصل ہو گی، انشاء اللہ۔ قربانی کی حقیقت: قربانی کا عمل اگرچہ ہر امت کے لیے رہا ہے، جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِکِلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسِکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورة الحج ۳۴) ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی؛ تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے؛ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے اور اسی وقت سے اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی؛ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو قیامت تک جاری رہے گی۔ اس قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال ووقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے حجة الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی جس میں سے ۶۳ اونٹ کی قربانی آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی اور بقیہ ۳۷ اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر (یعنی ذبح) فرمائے۔ (صحیح مسلم ۔حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم) یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے ارشاد (ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں) کا عملی اظہار ہے اور اس عمل میں اُن حضرات کا بھی جواب ہے جو مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کہہ دیتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی کے بجائے غریبوں کو پیسے تقسیم کردیے جائیں ۔ اسلام نے جتنا غریبوں کا خیال رکھا ہے اس کی کوئی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی؛ بلکہ انسانیت کو غریبوں اور کمزوروں کے درد کا احساس شریعتِ اسلامیہ نے ہی سب سے پہلے دلایا ہے۔ غرباء ومساکین کا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے شریعت اسلامیہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم عید الاضحی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جیسا کہ ساری انسانیت کے نبی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ (سنن دار قطنی، سنن کبری للبیہقی) اِن دِنوں بعض حضرات نے باوجویکہ کہ انہوں نے قربانی کے سنتِ موٴکدہ اور اسلامی شعار کا موقف اختیار کیا ہے ۱۴۰۰ سال سے جاری وساری سلسلہ کے خلاف اپنے اقوال وافعال سے گویا یہ تبلیغ کرنی شروع کردی ہے کہ ایک قربانی پورے خاندان کے لیے کافی ہے اور قربانی کم سے کم کی جائے جو سراسر قرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہے؛ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے اقوال وافعال کی روشنی میں امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ان ایام میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے۔ دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضاء الٰہی ہونی چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ صَلاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن (سورة الانعام ۱۶۲) میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کی رضامندی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ نیز اللہ جلّ شانہ کا فرمان ہے: لَن یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاوٴُہَا وَلٰکِن یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورة الحج ۳۷) اللہ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون؛ لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ قربانی کی اہمیت وفضیلت: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی ۔ابواب الاضاحی) غرضیکہ حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی باوجویکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے گھرمیں بوجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں (بھی) نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ ۔ باب ثواب الاضحیہ) ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی ۔ باب ما جاء فی فضل الاضحیہ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ (سنن دار قطنی باب الذبائح، سنن کبری للبیہقی ج۹ ص ۲۶۱) قربانی کا وجوب: قربانی کو واجب یا سنتِ موٴکدہ قرار دینے میں زمانہٴ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے؛ مگر پوری امتِ مسلمہ متفق ہے کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور جو شخص قربانی کرسکتا ہے اس کو قربانی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے خواہ اس کو واجب کہیں یا سنتِ موٴکدہ یا اسلامی شعار۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ہمیشہ قربانی کیا کرتے تھے باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے گھر میں اشیاء خوردنی نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی مہینے تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ  نے قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کو واجب قرار دیا ہے، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد ابن حنبل کی ایک روایت بھی قربانی کے وجوب کی ہے۔ ہندوپاک کے جمہور علماء نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے؛ کیونکہ یہی قول احتیاط پر مبنی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ  نے بھی قربانی کے وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے۔
قربانی کے وجوب کے لیے متعدد دلائل میں سے چندپیش ہیں: (۱) اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم (سورة الکوثر) میں ارشاد فرماتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ اس آیت میں قربانی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور امر عموماً وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے، جیساکہ مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص  (ولادت ۳۰۵ھ) اپنی کتاب(احکام القرآن) میں تحریر کرتے ہیں : حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس آیت (فَصَلِّ لِرَبِّکَ) میں جو نماز کا ذکر ہے، اس سے عید کی نماز مراد ہے اور (وَانْحَرْ) سے قربانی مراد ہے۔ مفسر قرآن شیخ ابوبکر جصاص  فرماتے ہیں کہ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: (۱) عید کی نماز واجب ہے۔ (۲) قربانی واجب ہے۔ (۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ۔ باب الاضاحی ہی واجبہ ام لا، مسند احمد ج۲ ص ۳۲۱، السنن الکبری ج۹ ص ۲۶۰ کتاب الضحایا) وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور اس نوعیت کی سخت وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ قربانی کرنا واجب ہے۔ (۳) حضرت جندب بن سفیان البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عید الاضحی کے دن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے) ذبح نہیں کیا تو اسے چاہیے کہ وہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کرے۔ (صحیح بخاری۔ باب من ذبح قبل الصلاة اعاد) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی کی نماز سے قبل جانور ذبح کرنے پر دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا؛ حالانکہ اُس زمانہ میں صحابہٴ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی۔ یہ قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے ۔ قربانی کس پر واجب ہے: ہر صاحبِ حیثیت کو قربانی کرنی چاہیے جیساکہ حدیث میں گزراکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے اس فرمان سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قربانی کے وجوب کے لیے صاحب وسعت ہونا ضروری ہے؛ البتہ مسافر پر قربانی واجب نہیں، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ (المحلی بالآثار لابن حزم ج ۶ ص ۳۷) قربانی کے جانور: بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ (نر و مادہ) قربانی کے لیے ذبح کیے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔ (سورة الانعام ۱۴۳ و ۱۴۴) قربانی کے جانوروں میں بھینس بھی داخل ہے؛ کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے، لہٰذا بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔ امتِ مسلمہ کا اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔ (کتاب الاجماع لابن منذر ص ۳۷) حضرت حسن بصری  (متوفی۱۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۷ ص ۶۵) حضرت امام سفیان ثوری  (متوفی ۱۶۱ھ) فرماتے ہیں کہ بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔ (مصنف عبد الرزاق ج۴ ص ۲۳) حضرت امام مالک  (متوفی ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ بھینس گائے ہی ہے (یعنی گائے کے حکم میں ہے) (موطا مالک باب ما جاء فی صدقہ الفطر) ہندوپاک کے جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ سعودی عرب کے مشہور عالم شیخ محمد بن عثیمین  نے بھی بھینس کو گائے کے حکم میں شامل کیا ہے۔ بھینس عربوں میں نہیں پائی جاتی ہے؛ اس لیے اس کاذکر قرآن کریم میں وضاحت سے نہیں ہے۔ (مجموع فتاوی ورسائل شیخ ابن عثیمین  ۳۴/ ۲۵) موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں میں یہی مذکور ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ جانور کی عمر: قربانی کے جانوروں میں بھیڑ اور بکرا بکری ایک سال، گائے اور بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے؛ البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد: اگر قربانی کا جانور بکرا، بکری، بھیڑ یا دنبہ ہے تو وہ صرف ایک آدمی کی طرف سے کفایت کرتی ہے:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔ (اعلاء السنن۔ باب ان البدنہ عن سبعة) اگر قربانی کا جانور اونٹ، گائے یا بھینس ہے تو اس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (صحیح مسلم ۔ باب جواز الاشتراک الخ.) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی؛ چنانچہ اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔ (صحیح مسلم ۔ باب جواز الاشتراک الخ.) وضاحت: حجة الوداع اور صلح حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوئے تھے، اس پر قیاس کرکے علماء امت نے فرمایا ہے کہ عید الاضحی کی قربانی میں بھی اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ قربانی کے ایام:قربانی کے تین ایام ہیں ۱۰ و ۱۱ و ۱۲ ذی الحجہ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قرآن کی آیت (وَیَذْکَرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَعْلُوْمَاتٍ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایام معلومات سے مراد یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد دو دن ہیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم الرازی ج۶ چ ۲۶۱) حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہیں بچنا چاہیے۔ (صحیح بخاری۔ باب ما یوٴکل من لحوم الاضاحی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے دن تین ہی ہیں؛ اس لیے کہ جب چوتھے دن قربانی کا بچا ہوا گوشت رکھنے کی اجازت نہیں تو پورا جانور قربان کرنے کی اجازت کہاں سے ہوگی؟ وضاحت: تین دن کے بعد قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت ابتداء اسلام میں تھی بعد میں اجازت دے دی گئی کہ اسے تین دن بعد بھی رکھا جاسکتا ہے۔ (مستدرک حاکم ج۴ ص ۲۵۹) اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب تین دن کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی تو تین دن کے بعد قربانی بھی کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ گوشت تو پورے سال بھی رکھا جاسکتا ہے تو کیا قربانی کی اجازت بھی پورے سال ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ تین دن کے بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے کہ قربانی کے دن تین ہی ہیں۔ (موطا مالک ۔ کتاب الضحایا) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن ۱۰ ذی الحجہ اور اس کے بعد کے دو دن ہیں؛ البتہ یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) کو قربانی کرنا افضل ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی ج ۲ ص ۲۰۵) وضاحت: بعض علماء کرام نے مسند احمد میں وارد حدیث (کُلُّ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ ذِبْحٌ) کی بنیاد پر فرمایا کہ اگر کوئی شخص ۱۲ ذی الحجہ تک قربانی نہیں کرسکا تو ۱۳ ذی الحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے؛ لیکن حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل  نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں فرمایا ہے کہ قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل  نے خود اپنی کتاب میں وارد حدیث کے متعلق وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل  نے تحریر کیا ہے کہ متعدد صحابہٴ کرام مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی بھی یہی رائے تھی۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قربانی کو صرف تین دن تک محدود رکھا جائے؛ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایک صحابی سے ۱۳ ذی الحجہ کو قربانی کرنا ثابت نہیں ہے۔ قربانی کرنے والا ناخن اور بال نہ کاٹے: ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ ( مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں قربانی کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔ لہٰذا اگر بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے کی ضرورت ہو تو ذی القعدہ کے آخر میں فارغ ہوجائیں۔
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/ : لنک

.................................................................

مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہاٹس اپپ"یا SMS کریں   
     
  
Facebook.com/AftabKhan.page

No comments: