ان دنوں لوگ کئی چیزوں مثلاً جنگ کے خطرات آئے روز ہونے والے تصادم ‘ فضائی اور آبی آلودگی ‘ بھوک زوال پذیر اخلاقی اقدار اور اسی قسم کے دیگر موضوعات کے بارے میں باتیں کررہے ہیں جس کے نتیجے میں کئی دیگر موضوعات سامنے آئے ہیں مثلاً امن ‘ اطمینان ‘ ماحولیات ‘ ا نصاف ‘ رواداری اور باہمی مکالمہ جیسے معاملات بد قسمتی سے ماسوائے چند موثر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے والے فطرت کو مزید مفتوح و مغلوب بناتے ہوئے مزید مہلک ہتھیار بنانے میں کوشاں ہیں ۔
اس مسئلے کی اصل جڑ در اصل مادیت پسندانہ تصور میں پیوست ہے ‘ جس نے عصری سماجی زندگی میں مذہب کا عمل دخل بری طرح سے محدود کردیا ہے ‘ اور اس کا نتیجہ انسانیت اور فطرت کے مابین اور انفرادی سطح پر مرد وزن کے مابین توازن کے بگاڑ کی صورت میں نکلا ہے ۔
صرف چند لوگوں کا اس بات کا احساس ہے کہ سماجی ہم آہنگی ‘نظام فطرت کے ساتھ موافقت ‘انسانوں کے مابین امن واتفاق اور فرد کی ذات کے اندر حسن ترتیب ‘ صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب زندگی کے مادی اور روحانی پہلوﺅں میں باہمی مفاہمت اور جوڑ پیدا ہوگا ۔ نظام فطرت کے ساتھ موافقت ‘ سماج میں امن وانصاف اور تکمیل ذات صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب بندہ اپنے رب کے ساتھ جڑا ہو
مذہب بظاہر متضاد چیزوں مثلاً مذہب اور سائنس ‘ دنیا وآخرت ‘فطرت اور صحائف آسمانی ‘ مادیت اور روحانیت اور روح وجسم میں ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرتا ہے مذہب سائنسی مادہ پرستی سے ہونے والے نقصانات کے خلاف ایک مضبوط دفاع کا کام کرتا ہے سائنس کو اس کے درست مقام پر لاتا ہے اور اقوام اور لوگوں کے مابین تصادم کو ختم کرتا ہے ۔
فطری سائنس ایک روشن زینے کی بجائے جوکہ رب کائنات سے قربت کا ذریعہ بنتی بے یقینی اور بے اعتقادی کا ایک ایسا ذریعہ بن چکی ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی کیونکہ مغرب اس بے اعتقادی کا اصل مرکز بن چکا ہے اور عیسائیت اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اس لئے عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین مکالمہ ناگزیر ہوچکا ہے ۔ بین المذاہب مکالمے کا مقصد محض یہ نہیں کہ سائنسی مادہ پرستی کو نیست ونابود کرتے ہوئے اس کا عالمی سطح پر تباہ کن تصور ختم کیا بجائے بلکہ مذہب کی اصل روح اس چیز کی متقاضی ہے۔ یہودیت ‘ عیسائیت اور اسلام اور حتیٰ کہ ہندو وزم اور دیگر مذاہب ایک ہی منبع کو تسلیم کرتے ہیں اور بشمول بدھ مت اسی مقصد کے حصول کیلئے کوشاں ہیں بحیثیت ایک مسلمان میں تمام انبیاءاور تاریخ میں مختلف قوموں کے لئے بھیجی جانے والی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں اور ان پر ایمان رکھنے کو بطور مسلمان لازمی سمجھتا ہوں ایک مسلمان حضرت ابراہیم ‘حضرت موسیٰ ‘ حضرت داﺅد ‘ حضرت عیسیٰ اور دیگر تمام انبیاءکا سچا پیرو کار ہوتا ہے ۔ کسی ایک بھی نبی یا آسمانی کتاب پر ایمان نہ رکھنے کا مطلب مسلمان نہ ہونا ہے اس لئے ہم مذہب کی وحدت بنیادی یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں جو کہ رب کائنات کی رحمت کا ذریعہ اور مذہب پر ایمان کی آفاقیت کی دلیل ہے ۔
لہٰذا اس طرح مذہب ایمان کا ایک ایسا نظام ہے جو تمام نسلوں اور تمام عقائد کو اپنی آغوش میں لیتا ہے اور ایک ایسی شاہراہ ہے جو کہ ہر فرد کو بھائی چارے کے ہمہ گیر دائرے میں لیتی ہے ۔
قطع نظر اس کے ہر مذہب کے پیرو کار اپنی روز مرہ زندگی میں کس طرح اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں مذہب بالعموم پیار محبت ‘ باہمی احترام رواداری ‘ عفو ودر گزر ‘ خدا ترسی ‘انسانی حقوق کی پاسداری ‘ امن آشتی ‘بھائی چارے اور آزادی جیسی اقدار کو اولیت دیتا ہے ۔ ان میں سے اکثر اقدار کو حضرت موسیٰ ‘ حضرت عیسیٰ ‘ اور محمد کے پیغام میں نمایاں حیثیت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ بدھا ‘زردشت ‘ لاﺅزو ‘ کنفیوشس اور ہندو سکالرز کے پیغام میں بھی ‘
ہمارے پاس نبی پاک حضرت محمد کا بیان موجود ہے جسکا ذکر غالباً حدیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے کہ دنیا کے خاتمے کے قریب حضرت عیسیٰ کا پھر سے ظہور ہوگا ‘ہم یہ نہیں جانتے کہ آیا ان کا ظہور جسمانی طور پر ہوگا لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ جب آخری زمانہ قریب آئے گا تو پیار محبت ‘ امن ‘ بھائی چارہ عفو ودر گزر ‘ خدا ترسی اور روحانی پاکیزگی جیسی اقدار کو اولیت حاصل ہوگی جس طرح حضرت عیسیٰ کے دور میں تھی مزید یہ کہ حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کی طرف بھیجاگیا تھا ‘ اور کیونکہ تمام عبرانی انبیا نے انہی اقدار کو اولیت دی اس لئے یہودیوں سے مکالمہ ضروری ہوگا اور اسلام ‘ عیسائیت اور یہودیت کے مابین قریبی تعلقات بھی لازمی طور پر قائم کرنے ہوں گے ۔
کٹر مسلمانوں ‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین مکالمے کے کئی مشترک نکات ہیں ‘ جیسا کہ فلسفے کے ایک امریکی پروفیسر مائیکل وسکو گروڈ نے کہا کہ مسلمان اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی نظریاتی اور مذہبی وجوہات اتنی ہی ہیں جتنی کہ عیسائیوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی ۔ مزید یہ کہ عملی اور تاریخی طور پر اسلامی دنیا عیسائیوں سے معاملات طے کرنے کا بہتر ریکارڈ رکھتی ہے ۔ ان کے مابین نہ تو کوئی امتیاز ہے اور نہ ہی کوئی ہولو کوسٹ ‘ اس کے برعکس مشکلات کے دور میں ہمیشہ انہیں خوش آمدید کہا گیا ہے مثلاً یہودیوں کو سپین سے نکالے جانے کے بعد سلطنت عثمانیہ نے انہیں گلے لگایا ۔
باہمی مکالمہ اور مسلمانوں کی مشکلات :۔
عیسائی ‘ یہودی اور دوسروں کو باہمی مکالمے کی صورت میں اندرونی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے میں ان چند وجوہات کا جائزہ پیش کرنا چاہوں گا جن کی بناءپر مسلمانوں کو مکالمے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں اور یہی وجوہات اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی ذمہ دار ہیں ۔
فلر اور لیسر کے مطابق صرف پچھلی صدی میں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں جتنے مسلمان شہید ہوئے پوری تاریخ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے عیسائیوں کی تعداد اس کے برابر نہیں ۔کئی مسلمان اس سے بھی زیادہ جامع اعداد وشمار پیش کررہے ہیں اور اس یقین کا اظہار کررہے ہیں کہ مغربی پالیسیوں کا مقصد مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے ۔ یہ تاریخی تجربہ پڑھے لکھے اور با شعور مسلمانوں کے دلوں میں یقین پختہ کرنے کا باعث بن رہا ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف ایک ہزار برس پرانی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سے بھی بڑھ کر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس کے لئے انتہائی جدید اور پیچیدہ طریقہ کار بروئے کار لائے جارہے ہیں ۔ نتیجتاً کلیساکی جانب سے مکالمے کی دعوت کوشک وشبے کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے مزید برآں اسلامی دنیا بیسویں صدی میں مغرب کے براہ راست یا بالواسطہ غلبے کے سائے میں داخل ہوئی اس دنیا کے سب سے بڑی نمائندہ اور محافظ سلطنت عثمایہ مغربی حملوں کی بناءپر زمین بوس ہوئی ‘ ترکی نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد کی بڑی دلچسپی سے حمایت کی مزید یہ کہ 1950ءکی دھائی میں ترکی کے اندر ڈیمو کریٹک پارٹی اور پیپلز پارٹی کے باہمی تصادم کی وجہ سے اسلام کے بارے میں مزاحمت پسندوں اور بعض اوقات دانشوروں کے ذہنوں میں اسلام کا تصادم پزیر مزاحمتی اور سیاسی نظام کا تصور پیدا ہوا بجائے اس کے کہ اسے ایک انسان کی قلبی ‘ روحانی اور فکری اصلاح کرنے والا مذہب سمجھا جاتا بعض اسلامی ممالک بشمول ترکی میں اسلام کو کسی جماعت کی آئیڈیا لوجی سمجھنے کی وجہ سے اس تصور کو مزید تقویت ملی ۔
اس کے نتیجے میں سیکولر سوچ کے حامل افراد اور بعض دوسرے لوگوں نے مسلمانوں اور اسلامی سر گرمیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا ۔
اسلام کو ایک سیاسی نظریے کے طور پر بھی دیکھا جانے لگا کیونکہ مسلمانوں کی جنگ آزادی میں ایک اہم محرک کے طور پر سامنے آیا اس لئے یہ محض حریت پسندی کا ایک نظریہ بن گیاکوئی بھی نظریہ علیحدگی کا باعث بنتا ہے جبکہ مذہب انسان کے ذہن کو روشنی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان تو کل سکون قلب ‘ احساس اور تجربے کی بنیاد پر ادراک کی قوت بخشتا ہے ۔ مذہب کی بنیادی روح انسان میں ایمان ‘ محبت ‘ خدا ترسی اور ہمدردی پیدا کرنا ہے اسلام کو ایک سخت گیر سیاسی نظریہ اور آزادی حاصل کرنے کے نظریے تک محدود کرنے سے اسلام اور مغرب کے مابین ایک دیوار کھڑی کردی گئی اور اس کی بناءپر اسلام کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں ۔
عیسائی تاریخ نے اسلام کی جو شکل پیش کی اس کی بناءپر بین المذاہب مکالمے کے حوالے سے مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی کئی صدیوں تک عیسائیوں کو یہ باور کرایاگیا کہ اسلام یہودیت اور عیسائیت کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے اور اس طرح نبی پاک کو ( نعوذ بااللہ ) ایک بناﺅٹی ‘اور حضرت عیسیٰ کا مخالف بنا کر پیش کیا جاتا رہا جس کی مسلمان ایک دیوتا کے طور پر پرستش کرتے ہیں ۔ حتیٰ کہ آجکل کتابوں میں بھی آپ کو ایک عجیب وغریب تصورات کے حامل شخص کے طور پر جو ہر صورت میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
مکالمہ ضروری ہے :۔
آج بین المذاہب مکالمے کے اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے پہلے قدم کے طور پر ہمیں ماضی کو فراموش کرنا ہوگا مناظرے بازی کو ختم کرنا ہوگا عمومی نکات کو ترجیح دینے کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا جو کہ مناظرے بازی سے بھی زیادہ بڑھ کر ہے مغرب میں دانشوروں اور مذہبی پیشواﺅں کے رویوں میں اسلام کے حوالے سے تبدیلی نظر آرہی ہے یہاں میں میسگنن ( مرحوم ) کا حوالہ خصوصی طور پر دینا چاہوں گا جنہوں نے اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا " حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا دین جس کا احیاءمحمد نے کیا " وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ عیسائیت کے بعد کے دور میں اسلام کا کردار مثبت بلکہ پیغمبرانہ ہے اسلام ایک ایمان ویقین کا دین ہے یہ فلسفیوں کے خدا پر فطری یقین کا دین نہیں بلکہ ابراہیم کے خدا اسحاق کے خدا ‘ اسماعیل کے خدا پر ایمان کا دین ہے یہ رضائے الٰہی کا ایک عظیم اسرار ہے وہ قرآن کی خدائی تصنیف اور محمد کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں ۔
ہمارے نبی پاک کے حوالے سے مغرب کے تصور میں بھی کچھ نرمی پیدا ہوئی ہے عیسائی مذہبی پیشواﺅں کے ساتھ ساتھ کئی مغربی مفکرین میسگنن ‘چارلس جے لیڈٹ ‘ وائے مبارک ‘ آئرین ایم ڈالمس ‘ ایل گارڈٹ ‘ نارمن ڈنئیل مائیکل لی لانگ ‘ ایچ ماریئر ‘ اولیور لے کومبے اور تھامس مرٹن نے اسلام اور نبی پاک دونوں کے لئے گرمجوشی ظاہر کی ہے اور مکالمے کی ضرورت کی بھی حمایت کی ہے اس کے علاوہ سیکنڈ ویٹیکن کونسل نے بھی جس نے باہمی مکالمے کے عمل کا آغاز کیا یہ کہا ہے کہ اسلام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کے بارے میں کیتھولک چرچ کا رویہ تبدیل ہوچکا ہے کونسل کے دوسرے دور میں پوپ پال ششم نے کہا
" دوسری طرف کیتھولک چرچ اس سے بھی بڑھ کر عیسائیت کے افق سے پرے دیکھ رہا ہے اب یہ ان دیگر مذاہب کی جانب متوجہ ہورہا ہے جو ایک خدا کا تصور محفوظ رکھتے ہیں جو برتر ‘ سب کا خالق اور ہماری قسمت اور فہم ودانش کا مالک ہے یہ مذاہب خدا کی عبادت پورے خلوص اور عملی عقیدت کے اظہار کے ذریعے کرتے ہیں ۔
انہوں نے اس چیز کی بھی نشاندہی کی کہ کیتھولک چرچ ان مذاہب کے خیر ‘سچائی اور انسان پہلوﺅں کی بھی تعریف وتوصیف کرتا ہے ۔
”چرچ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ جدید معاشرے میں مذہب کے مفہوم کی ساکھ بر قرار رکھنے کے لئے اور خدا کی بندگی کی خاطر چرچ از خود بندے پر خدا کے حقوق کی سختی سے تائید کرنے والابنے گا ۔
نتیجتاً آخر میں جاری کئے گئے تحریری بیان میں جس کا عنوان کلیسا کے غیر عیسائی مذاہب سے تعلقات کا اعلامیہ تھا کہاگیا کہ ہماری دنیا میں جو کہ سکڑ چکی ہے اور جہاںتعلقات میں زیادہ قربت آچکی ہے لوگ مذہب سے انسانی فطرت کے ان پر اسرار پہلوﺅں کے حوالے سے جو انسان کے دل کو الٹ پلٹ دیتے ہیں تسلی بخش جواب چاہتے ہیں ۔ انسان کیا ہے ؟ زندگی کا مفہوم اور مقصد کیا ہے ؟ نیکی اور بھلائی کیا ہے اس کا اجرا کیا ہے اور گناہ کیا ہے ؟ اذیت اور ابتلا کا منبع کیا ہے ؟ حقیقی خوشی حاصل کرنے کا کونسا راستہ ہے ؟ موت کیا ہے مرنے کے بعد اعمال کی جانچ پرکھ کیا ہے اور دنیاوی اعمال کے بدلے ملنے والے ثمر کامعاملہ کیا ہے ؟ عدم اور وجود کا اسرار کیا ہے ؟
ان موضوعات کے حوالے سے دیگر مذاہب اپنے اپنے نکتہ ہائے نظر رکھتے ہیں اور یہ کہ چرچ دیگر مذاہب کی اقدار کو کلی طور پر رد نہیں کرتا کونسل دیگر مذاہب کے ممبران سے باہمی مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
چرچ اپنے فرزندوں کی بطور عیسائی زندگی بسر کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں محتاط انداز میں ہمدردی کے ساتھ ‘مکالمے کے ذریعے اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انہیں سمجھنے کی اور ان میں اخلاقی اور سماجی اقدار کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پوپ جان پال دوئم اپنی کتاب "CROSSING THE THRESHOLD OF HOPE" میں ( مسلمانوں کی لا پرواہی کی باوجود ) یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہی سب سے بہتر انداز میں دھیان کے ساتھ عبادت کرتے ہیں و ہ اپنے قارئین کو اس بات کی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ اس حوالے سے عیسائیوں کو مسلمانوں کو ایک مثالی نمونے کے طور پر لینا چاہئے ۔
اس کے علاوہ آج کی جدید دنیا میں مادیت کے تصورات کی اسلام کی جانب سے مزاحمت اور اس کے اہم کردار پربھی مغربی مبصرین حیران ہیں ۔ ای ‘ ایچ جرجی کے اس حوالے سے مشاہدات بہت اہم ہیں
اپنی اہمیت ‘ اپنی بقاءاور حقیقت مندانہ جذبے کے حوالے سے ‘ نسلی اور مارکسی تصورات کے خلاف یکجہتی کے حوالے سے استحصال کی کھلی ‘مذمت کے حوالے سے بھٹکی ہوئی اور خون آلود انسانیت کے حوالے سے اسلام آج کی جدید دنیا کا سامنا ایک خصوصی مشن کے حوالے سے کرتا ہے نہ تو مذہبی باریکیوں کی بناءپر اسلام کسی مخمصے کا شکار ہے اور نہ ہی یہ اندر سے بٹا ہوا ہے اصول وعقائد کے کٹرپن کے بوجھ تلے بھی نہیں دبا ہوا عزم کی پختگی کا منبع اسلام اور جدید دنیا کا توافق ہے ۔
مسلمان اور مغرب قریباً چودہ سوبرس سے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں مغرب کے نکتہ نظر سے اسلام نے مغرب میں کئی اطراف سے در اندازی کی اور اس کے لئے خطرے کا باعث بنا یہ حقائق اب تک نہیں بھلائے گئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس محاذ آرائی کی بناءپر مسلمانوں کا مغرب کی مخالفت کرنا یا انہیں نا پسند کرنا اسلام اور مسلمان دونوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے جدید ذرائع مواصلات اور نقل وحمل نے پورے کرہ ارض کو ایک عالمی گاﺅں میں تبدیل کردیا ہے اور اب ہر قسم کے تعلقات باہمی اثرات کے حامل ہیں ۔
مغرب اسلام یا اس کی سر زمین کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتا اور نہ ہی مسلمان فوجیں مغرب کی سر زمین پر پیش قدمی کر سکتی ہیں ۔
مزید برآں اب جبکہ دنیا میں باہمی تعامل مزید بڑھ چکا ہے دونوں اطراف کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتی ہیں مغرب سائنس ‘ ٹیکنالوجی ‘ معاشیات اور فوجی برتری رکھتا ہے تاہم اسلام جس چیز کا مالک ہے وہ زیادہ اہم عوامل ہیں جیسا کہ قرآن اور سنت اسے پیش کرتے ہیں اسلام نے اپنے عقائد کو اس کی روحانی ماہیت کو نیکی اور بھلائی کے تصور کو اور اخلاقیات کو بر قرار کھا ہے اور گزشتہ چودہ صدیوں سے اسلام کے تمام پہلو کھلتے چلے جارہے ہیں اس کے علاوہ اس میں مسلمان کے اندر ایک نئی روح اور زندگی پھونکنے کی قوت چھپی ہے جو کہ کئی صدیوں سے خوابدیدہ تھی اور اس کے علاوہ کئی دوسرے انسانوں میں بھی جو کہ مادہ پرستی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
کوئی بھی مذہب فلسفے اور سائنس کی آندھی سے متاثر ہونے سے نہیں بچ سکا اور وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ یہ آندھی شدت اختیار نہیں کرے گی یہ اور کئی دیگر عوامل مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ اسلام کو خالصتاً ایک سیاسی اور معاشی نظریے کے طور پر پیش کریں اور نہ ہی یہ عوامل مسلمانوں کو اس چیز کی اجازت دیتے ہیں کہ مسلمان مغرب عیسائیت ‘ یہودیت اور کئی دیگر مشہور ومعروف مذاہب مثلاً بدھ مت کو تاریخی تناظر میں دیکھیں اور اس کے مطابق رویہ اپنائیں۔
وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو ایک سائنسی نظریے کے طور پر نہ کہ ایک مذہب کے طور پر اختیار کیا ہے انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ اس کے پیچھے کارفرما قوت ذاتی یا قومی عنادو نفرت اور اس قسم کے محرکات تھے ۔
اگر یہ بات ہو تو ہمیں اسلام کو تسلیم کرتے ہوئے بنیادی نکتہ آغاز کے طور پر اسلامی طرز عمل کو نہ کہ موجودہ جبر زیادتی کو اپنانا چاہئے کہ حضرت محمد نے سچا مسلمان انہیں قرار دیا جو اپنے کلام اور عمل سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے اور عالمی امن کے سب سے زیادہ قابل بھروسہ نمائندہ ہیں مسلمان جہاں کہیں بھی جاتے ہیں اس بلند تر احساس کے ساتھ جاتے ہیں جو ان کے دل کی گہرائی میں پرورش پارہا ہوتا ہے کسی کے لئے ایذار سانی یا تکلیف کا باعث ہونے کے برعکس یہ امن اور سلامتی کا نمونہ ہیں ان کے نزدیک جسمانی یا زبانی تشدد مثلاً غیبت ‘ تہمت ‘ تضحیک یا طنز وتشنیع میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہماری سوچ اور فکر کا نکتہ آغاز اسلامی بنیادوں پر ہونا چاہئے مسلمانوں کا باہمی ملاپ واشتراک سیاسی یا نظریاتی بنیاد پر نہیں ہوتا جسے بعد میں محض دکھاوے کے لئے اسلام کا لبادہ پہنادیا جاتا ہے یا محض اپنی خواہشات کو نظریات کے طور پر پیش کردیا جائے اگر ہم اس رجحان پر قابو پا لیں تو اسلام کی اصل شکل وصورت واضح ہوگی اسلام کی موجودہ مسخ شدہ شکل جوکہ اس کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے اور جو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے ہاتھوں ہوئی اس نے مسلم اور غیر مسلم دونوں کو خوفزدہ کررکھا ہے ۔
سڈنی گریفتھ ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے تناظر میں مغرب اسلام کو دیکھتا ہے وہ کہتے ہیں امریکی یونیورسٹیوں میں اسلام کو ایک دین کے طور پر نہیں پڑھایا جاتا بلکہ سیاسیات یا بین الاقوامی تعلقات کے ڈپارٹمنٹس میں اسے پولیٹیکل سائنس کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور اسلامی دنیا کے مغرب زدہ حلقوں میں اور ایشیاءاور افریقہ میں غیر مسلموں میں بھی یہی تصور موجود ہے زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اسلام کے پرچم تلے آگے بڑھنے والے کئی گروہوں نے اسلام کا یہی تصور برآمد کیا ہے اور اسی تصور کو تقویت دی ہے
مکالمے کے لئے اسلام کا آفاقی پیغام :۔
چودہ سو سال قبل اسلام کی پکار ان سب میں عظیم تر تھی جس کا تجربہ دنیا کوکبھی بھی ہوا تھا قرآن پاک اہل کتاب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے ۔
” اے اہل کتاب آﺅ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہو ۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم(صرف خدا کی بندگی اور اطاعت کرنے والے )ہیں۔ (3:64)
یہ پکار جو کہ نو ہجری میں آئی اس کا آغاز " لا" سے ہوا یعنی " نہیں " جوکہ دین اسلام میں لا الہ اللہ ‘ کے طور پر مکمل حکم ہے کسی مثبت چیز کا حکم دینے کی بجائے بعض کام نہ کرنے کا کہاگیا ہے تاکہ الہامی مذاہب کے پیروکار اپنی باہمی دوری کو ختم کر سکیں ایک ایسا وسیع تر بیان جس پر تمام مذاہب کے لوگ متفق ہوسکیں اگر لوگ اس پکار کو مسترد کرتے تو پھر ان کے لئے قرآن پاک کی یہ آیت تھی” تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین“ (109:6)
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دوسرے اس پکار کو قبول نہیں کرتے تو ہم اپنے طور پر اللہ کے حضور سربسجود ہیں ہم اس راہ پر چلتے رہیں گے جو ہم نے چنی ہے اور تمہیں تمہاری راہ مبارک ہو ۔
المالیلی حامدی یازر جو کہ ایک مشہور ومعروف ترک مفسر قرآن ہیں نے اس قرآنی آیت کے بارے میں بڑی دلچسپ بات کہی
" اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی طرح مختلف افکار " اقوام ‘مذاہب اور آسمانی صحائف کو ایک فکر اور سچائی میں سمو دیاگیااور اسے کس طرح اسلام نے انسانیت کو نجات اور آزادی کا وسیع ‘فراخ اور سچا راستہ دکھایا ‘ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ محض عرب اور غیر عرب تک محدود نہیں ہے مذہبی ترقی فکری تنگ نظری اور ایک دوسرے سے دوری سے ممکن نہیں بلکہ ان کی آفاقیت اور وسعت پر منحصر ہے۔
اسلام ہی فکری وسعت اور نجات کی یہ شاہراہ ہے اور آزادی کا یہ اصول ہمارے لئے ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے بدیع الزماں نورسی نے دائرءاسلام کی کشادگی کو استنبول کی با یذیر مسجد میں اس طرح بیان کیا ۔
ایک مرتبہ میں نے اسم ضمیر "ہم " پر غور کیا جو کہ ایک آیت میں یوں استعمال ہوا ہے ۔ ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں“ (1:5)
اور میرا جی چاہا کہ میں اس بات کی وجہ جان سکوں کہ " میں " کی بجائے " ہم" کا لفظ کیوں استعمال ہوا ہے اور اچانک مجھے با جماعت نماز کی صفت اور اس میں پوشیدہ حکمت سمجھ میں آگئی ۔
میں نے دیکھا کہ بایذیر مسجد میں نماز کی با جماعت ادائیگی سے ہر فرد میری شفاعت کی دعا کرنے والا بن گیا تھا اور جب تک میں قرآن کی قرآت کرتا رہا ہر ایک میری گواہی دیتا رہا ۔
اجتماعی طور پر کئے جانے والے بندگی کے اظہار نے مجھے یہ حوصلہ دیا گیا میں اپنی ٹوٹی پھوٹی نماز کو بارگاہ الٰہی میں پیش کر سکوں۔
اچانک مجھ پر ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا اسنتبول کی تمام مساجد ایک ساتھ با یزید مسجد کی سر پرستی میں آگئیں ۔
مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ سب میرے مقصد کی توثیق کررہی ہیں اور ہر فرد نے مجھے اپنی نماز میں شامل کر لیا ہے ۔ اس وقت میں نے خود کو ایک مسجد میں پایا جوکہ خانہ کعبہ کو چاروں طرف سے دائرے میں لئے ہوئی مساجد میں سے ایک تھی ۔ میرے منہ سے نکلا " اے اللہ تمام تعریفیں تیرے لئے ہی ہیں میرے پاس شفاعت کی دعا کرنے والے اتنے بندے ہیں یہ سب بھی وہی کہہ رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں اور میری بات کی توثیق کررہے ہیں "
اس حقیقت کے انکشاف کے بعد میں نے خود کو کعبہ کے سامنے کھڑا پایا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے قطار در قطار کھڑے نمازیوں کو گواہ بنایا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ۔
میں نے اس شہادت کا گواہ حجرا سود کو بھی بنایا اور اچانک مجھ پر ایک اور انکشاف ہوا میں نے دیکھا کہ وہ جماعت جس کے ساتھ میں نماز ادا کررہا تھا تین دائروں میں تقسیم ہوگئی ۔
پہلی جماعت اللہ اور اس کی وحدت پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں کی تھی دوسرے دائرے میں اللہ کی تمام مخلوقات اللہ کو یاد کررہی تھیں ہر مخلوق اپنے انداز میں عبادت میں مصروف تھی اور میں بھی اس جماعت میں شریک تھا تیسرے دائرے میں میں نے ایک عجیب حلقہ دیکھا جو بظاہر چھوٹا تھا لیکن اپنے فرض کے حوالے سے اور معیار کے حوالے سے بہت بڑا تھا میرے جسم کے ذرات سے لے کر خارجی حواس تک ہر حلقہ بندگی اور اطاعت میں مصروف تھا ۔
مختصر یہ کہ اسم ضمیر " ہم ‘جوکہ " ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ میں استعمال ہوا ہے ان تینوں جماعتوں کو ظاہر کرتا ہے میں نے تصور کیا کہ ہمارے نبی جو کہ قرآن کی عملی تفسیرہیں مدینہ میں کھڑے نبی نوع انسان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں لوگو ‘ بندگی اختیار کرو اپنے رب کی۔ (2:21)
دوسرے انسانوں کی طرح میں نے بھی اس حکم کو اپنی روح میں اترتے محسوس کیا اور میری طرح سب نے جواب میں کہا "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں"
دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے ساتھ کس طرح میل ملاپ کیا جائے :۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
یہ اللہ کی کتاب ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کیلئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں (2:2)
بعد میں یہ بتایاگیا ہے کہ یہ متقی لوگ وہ ہیں
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے ( یعنی قرآن )اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (2:3-4)
قرآن پاک ابتداہی سے بڑے تیکھے انداز میں لوگوں سے پہلے والے انبیاءاور ان کی کتابوں پر ایمان لانے کو کہتا ہے قرآن پاک کی ابتداءمیں ہی یہ شرط میرے لئے بہت اہم ہے اور خاص کر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مکالمہ کے حوالے سے ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں ۔
اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے ۔ (29:46)
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ کونسا انداز اور کونسا طرز فکر اپنانا ہے بدیع الزماں کا نقطہ نظر اور انداز انتہائی منفرد ہے کوئی بھی شخص جو اپنے مخالف کو بحث میں شکست دینا چاہتا ہو رحم کے جذبے سے خالی ہے ۔
وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں
اگر تمہیں شکست ہوجائے اور دوسرا فتح یاب ہوجائے تو آپ کو اپنی خامی دور کرنی چاہئے بحث اپنی انا کی تسکین کے لئے نہیں ہونی چاہئے بلکہ حقائق کی جان کاری کے لئے ہو ایک اور جگہ آتا ہے ۔
اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کا برتاﺅ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالاہے اللہ انصاف کرنیوالوں کو پسند کرتا ہے ۔ (60:8)
بعض لوگوں کے مطابق بعض آیات میں اہل کتاب پر سخت تنقید کی گئی ہے درحقیقت اس قسم کی تنقید غلط رویوں کے خلاف غلط سوچ ‘ سچائی مزاحمت ‘ نفرت پیدا کرنے والی نا پسندیدہ عادات کے خلاف ہے انجیل میں اس قسم کے رویوں کے خلاف زیادہ سخت تنقید موجود ہے تاہم اس قسم کی سخت تنقید کے بعد لوگوں کے دلوں کو سچائی کے لئے بیدا کرنے اور امید پیدا کرنے کے لئے نرم الفاظ استعمال کئے گئے ہیں
اس کے علاوہ قرآن پاک نے یہودیوں ‘ عیسائیوں اور مشرکوں کے جن رویوں پر تنقید کی ہے ان کا رخ ان مسلمانوں کی طرف بھی ہے جو اس قسم کے طرز عمل کا شکار ہوئے قرآن پاک کے قاری اور مفسر دونوں اس بات پر متفق ہیں الہامی مذاہب بد نظمی اور بے ترتیبی ‘ دھوکا وفریب فساد اور ظلم کی سختی سے ممانعت کرتے ہیں اسلام کا لفظی مطلب امن ‘ سلامتی اور بھلائی ہے فطری طور پر امن ‘ سلامتی اور بھلائی کا دین ہونے کے ناطے اسلام جنگ کو ایک غلط رویے کے طور پر دیکھتا ہے جس پر قابو پانا چاہئے تاہم ذاتی دفاع کا معاملہ استثنائی ہے جس طرح کے ایک جسم اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے جراثیم کے خلاف لڑتا ہے تاہم ذاتی دفاع بھی چند رہنماءاصولوں کے مطابق ہونا چاہئے اسلام نے ہمیشہ امن اور بھلائی کی بات کی ہے جنگ کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے اسلام نے جنگ کو بھی متوازن بنانے اور ایک حد میں رکھنے کے لئے قانون بنائے ہیں مثال کے طور پر اسلام انصاف اور عالمی امن کو اس طرح لیتا ہے ۔
کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاﺅ ۔ (5:8)
اسلام نے جو دفاعی حد تخلیق کی اس کی بنیاد مذہب جان ومال ‘فکر اور نسل کشی کا تحفظ کرنے والے اصول تھے ۔ موجودہ قانونی نظام نے بھی یہی کہا ہے ۔
اسلام انسانی زندگی کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتا ہے ۔ کسی ایک انسان کے قتل سے مراد کسی بھی انسان کا قتل لیاجاتاہے ۔ حضرت آدم کا بیٹا قابیل پہلا قاتل تھا اگر چہ کہ ان کے نام قرآن پاک یا سنت میںتخصیص کے ساتھ نہیں دیئے گئے لیکن ہم انجیل میں پڑھتے ہیں کہ قابیل نے ہابیل کو غلط فہمی کی بناءپر رقابت کی آگ میں جل کر ناجائز طور پر قتل کردیا تھا ۔
اس طرح خون خرابے کے دور کا آغاز ہوا اسی بناءپر ایک حدیث میں نبی پاک فرماتے ہیں ۔
" جب بھی ایک ناجائز قتل کیا جاتاہ ے تو اس کا کچھ گناہ قابیل کے حصے میں بھی لکھ دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے ناجائز قتل کی راہ کھولی تھی۔
قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جس کسی نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس کسی نے کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے کل انسانیت کی جان بچائی (5:32)
فتح گلولین کے منتخب مضمون