Why Hadees not compiled like Quran حدیث کی کتابت قران کی طرح خلفاء راشدین نے کیوں نہ کی ؟




احادیث کے وحی ہونے یا نہ ہونے کی جہت سے بعض علماءِ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے دو حصے مقرر کر دیئے اور کہا کہ آپؐ کا ہر قول و فعل تو وحی نہیں البتہ آپؐ جب بحیثیت رسول احکام دے رہے ہوتے تھے تو وہ وحی پر مبنی ہوتے تھے۔ اس طرح آپؐ بحیثیت انسان اور بحیثیت رسول دو الگ الگ حیثیتیں رکھتے تھے۔ جب بحیثیت انسان خطاب کر رہے ہوتے تھے تو اس وقت وحی کی زبان میں کلام نہیں کرتے تھے البتہ بحیثیت رسول آپؐ ہمیشہ وحی کی زبان میں ہی کلام کیا کرتے تھے اور یہی حصہ واجب الاطاعت ہے۔ لیکن یہ نظریہ خود اپنے اندر شدید تضاد (self-contradiction) رکھتا ہے۔ مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، حجۃ البالغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور کتبِ حدیث میں مدون کیا گیا ہے اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ وہ امور جو امور تبلیغ رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: پیغمبر جو تم کو بتائے اس کی تعمیل کرو اور جس سے منع کرے اس سے باز آؤ۔ مَآ اٰتَکُمْ وَالرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاط۔ ایسے امور میں سے ایک حصہ علومِ معاد اور عالمِ ملکوت کے عجیب عجیب حالات کا ہے۔ یہ سب امور بواسطہ وحی کے ہی ہوا کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو ان میں کچھ دخل نہیں ہے اور انھی امور میں سے ایک حصہ احکامِ شرعی اور منافع کا وجود مذکورہ بالا میں سے کسی نہ کسی وجہ سے منضبط کرنے کا ہے۔ ان علوم میں سے بعض وحی کے ذریعے سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد سے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی وحی کے درجہ میں ہے۔۱۴۰؂
دراصل واقعہ یہ ہے (صورتِ حال کی صحیح عکاسی محترم خرم مرادؒ نے کر دی ہے) کہ حضوؐر معلم بھی تھے‘ داعی اور قائد بھی تھے‘ حاکم اور سپہ سالار بھی تھے مگر آپؐ نے یہ سارے کام اپنے علم و فہم‘ عقل و شعور اور اپنے اصحاب کے مشورے سے کیے تھے لہٰذا آپؐ کے احکامات مبنی بروحی نہیں تھے۔ اب ہم مکمل طور پر اس نتیجے پر پہنچ جانے کے بعد کہ احادیث مبارکہ وحی نہیں ہیں جس طرح قرآن وحی ہے‘ ہم یہ دیکھیں گے کہ احادیث کی صحیح پوزیشن کیا ہے؟
احادیث کی حیثیت
اب آپ صرف خط کشیدہ جملوں کو ہی دیکھیے کہ ان میں کیا کہا گیا ہے؟ پہلے خط کشیدہ جملے سے معلوم ہوتا ہے وحی کچھ اور ہے اور حضوؐر کا اجتہاد کچھ اور۔ دوسرے خط کشیدہ جملے میں پہلے تو یہی دہرایا گیا کہ ان علوم میں سے بعض وحی کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں اور بعض حضوؐر کے اجتہاد سے۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد سے الگ چیز ہے مگر اسی جملے میں اس بات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے کہ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی وحی کے درجہ میں ہے۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضوؐر کی شخصی اور پیغمبرانہ حیثیت میں فرق کرنے کا نظریہ خود اپنے اندر تضاد رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:
یہ بات مسلمات شریعت میں سے ہے کہ سنت واجب الاطاعت صرف وہی اقوال و افعالِ رسول ہیں جو حضوؐر نے رسول کی حیثیت سے کیے ہیں۔ شخصی حیثیت سے جو کچھ آپؐ نے فرمایا یا عمل کیا ہے وہ واجب الاحترام تو ضرور ہے مگر واجب الاتباع نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے حجۃ البالغہ میں باب بیانِ اقسام علوم النبیؐ کے عنوان سے اس پر مختصر مگر بڑی جامع بحث کی ہے۔ صحیح مسلم میں امام مسلم نے ایک پورا باب ہی اس اصول کی وضاحت میں مرتب کیا ہے اور اس کا عنوان رکھا ہے۔ ’’اس باب کے بیان میں کہ واجب صرف اُن ارشادات کی پیروی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرعی حیثیت سے فرمائے ہیں نہ کہ اُن باتوں کی جو دنیا کے معاملات میں آنحضورؐ نے اپنی رائے کے طور پر بیان فرمائی ہے‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حضوؐر کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت میں فرق کر کے یہ فیصلہ آخر کون کرے گا اور کیسے کرے گا کہ آپؐ کے افعال و اقوال میں سے سنت واجب الاتباع کیا چیز ہے اور محض ذاتی و شخصی کیا چیز؟ ظاہر ہے کہ ہم بطور خود یہ تفریق و تحدید کرلینے کے مجاز نہیں ہیں۔ یہ فرق دو ہی طریقوں سے ہو سکتا ہے یا تو حضوؐر نے اپنے کسی قول و فعل کے متعلق خود تصریح فرما دی ہو کہ وہ ذاتی و شخصی حیثیت میں ہے۔ یا پھر جو اصولِ شریعت آنحضوؐر کی دی ہوئی تعلیمات سے مستنبط ہوتے ہیں ان کی روشنی میں محتاط اہلِ علم یہ تحقیق کریں کہ آپؐ کے افعال و اقوال میں سے کس نوعیت کے افعال و اقوال آپؐ کی پیغمبرانہ حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں اور کس نوعیت کی باتوں اور کاموں کو شخصی اور ذاتی قرار دیا جاسکتا ہے۔۱۴۱؂
اس میں پہلی بات تو یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ مولانا محروم کے پہلے خط کشیدہ جملے میں اس بات سے صاف انکار کیا گیا ہے کہ ہم بطور خود یہ تفریق و تحدید کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں کہ ہم یہ متعین کرسکیں کہ حضوؐر کے کون سے افعال وا قوال ذاتی نوعیت کے تھے اور دوسرے پیغمبرانہ نوعیت کیے۔ لیکن دوسرے خط کشیدہ جملے میں بہرحال یہ اختیار ’’محتاط اہلِ علم‘‘ کو مل جاتا ہے۔ اس تضاد کی دراصل مجبوری یہ ہے کہ آپؐ نے بہت کم اِکا دُکا معاملات میں۔۔۔ اپنے افعال و اقوال کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ یہ ذاتی نوعیت کے ہیں یا نہیں۔ مثلاً جب آپؐ شرح زکوٰۃ مقرر فرما رہے تھے یا نصابِ زکوٰۃ کا تعین کر رہے تھے تو یقیناًآپؐ نے یہ نہیں بتایا کہ میں ذاتی حیثیت سے یہ کام کر رہا ہوں یا پیغمبر کی حیثیت سے۔ اسی طرح جب آپؐ نے حضرت زیدؓ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دو تو یہ نہیںّ بتایا کہ میں یہ کام ذاتی حیثیت سے کر رہا ہوں یا رسول کی حیثیت سے۔ لہٰذا مجبوری ہے کہ اس نظریئے میں تضاد اُبھر آئے اور دوسری بات یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ یہ کوئی معمولی معاملہ تو نہیں۔ اُمت کی ہدایت و رہنمائی کا معاملہ ہے۔ اس کی فلاح و کامیابی کا معاملہ ہے۔ جب حضوؐر کوئی کام کر رہے تھے یا حکم دے رہے تھے تو یہ ذمہ داری آخر کس کی بنتی ہے کہ وہ بتاتا کہ حضوؐر کے یہ افعال و اقوال کس نوعیت کے تھے؟ ظاہر بات ہے کہ ہر معقول شخص یہی جواب دے گا کہ یہ ذمہ داری حضوؐر ہی کی بنتی ہے کہ وہی ہم کو بتا جاتے کہ ان کے فلاں حکم یا فعل کو یہ حیثیت دو کیونکہ ’’ہم تو اس کے مجاز ہی نہیں کہ بطور خود یہ تفریق کر سکیں‘‘۔ اور جب ہم مجاز ہی نہیں تو ’’محتاط اہلِ علم‘‘ کس طرح اس کے مجاز ہوگئے؟ وہ غالباً ہم میں سے ہی ہوں گے!
اب اگر احادیث وحی نہیں ہیں تو ان کی اصل حیثیت کیا ہے؟ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اپنی کتاب ’’تدوین حدیث‘‘ میں لکھتے ہیں:
دنیا کی اسی تاریخ کے عظیم الشان‘ حیرت انگیز انقلابی حصہ کا نام‘ سچ پوچھیے تو حدیث ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جن انقلابات و حو ادث سے گزر کر نسلِ انسانی موجودہ حالت تک پہنچی ہے‘ ان میں ایک ایسا واقعہ کسی خاص شعبۂ حیات ہی میں نہیں بلکہ مذہبی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور اخلاقی ۔۔۔ تمام شعبوں میں انسانیت کا رُخ پلٹ دیا‘ جس سے زمین کا کوئی خاص حصہ نہیں بلکہ بلامبالغہ مشرق و مغرب دونوں متاثر ہوئے‘ ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ماضی کے اس مدہش حیرت انگیز واقعہ کی تاریخ یا تفصیلی بیان کا نام حدیث ہے۔۱۴۲؂
چند صفحات کے بعد اس تاریخ کو مسلمانوں ہی کی تاریخ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تاریخ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
آج جب علمی دنیا میں ’’فنِ تاریخ‘‘ ہر قسم کے احترام و اعزاز کا مستحق ہے تو ’’حدیث‘‘ جو صرف مسلمانوں ہی کی تاریخ نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا تمام دنیا کی انسانیت کے عظیم انقلابی عہدِآفریں دور کا ایک ایسا مکمل تاریخی مرقع ہے۔۔۔۱۴۳؂
اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں:
ماسوا اس کے سچ یہ ہے کہ بالکلیہ یہ میری تعبیر ہے بھی نہیں۔ فنِ حدیث کے سب سے بڑے امام‘ امام الائمہ حضرت امام بخاریؒ نے جو اپنی کتاب کا نام رکھا ہے اگر اسی پر غور کرلیا جائے تو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جو میں نے کہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ امام بخاریؒ کی کتاب آج تو صرف ’’بخاری شریف‘‘ کے نام سے مشہور ہے لیکن یہ اس کتاب کا اصلی نام نہیں ہے بلکہ خود حضرت امامؒ نے اپنی کتاب کا نام ’’الجامعُ الصحیحُ المسند المختصرُ مِنْ اُمُورِ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہُ عَلَیہِ وسلم واَیَّامِہٖ‘‘ رکھا ہے۔ اس میں ’’امور‘‘ اور ’’ایام‘‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی صحیح تعریف امام بخاریؒ کے نزدیک ان تمام امور کو حاوی ہے جن کا کسی نہ کسی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ہو۔ آگے ایام کے لفظ نے تو اس تعریف کو اور بھی وسیع کر دیا۔ یعنی وہی جات جو میں نے عرض کی تھی کہ فنِ حدیث دراصل اس عہد اور زمانہ کی تاریخ ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی ہمہ گیر‘ عالم پر اثرانداز ہونے والی ہستی انسانیت کو قدرت کی جانب سے عطا ہوئی۔ بہرکیف اگر اصطلاحی جھگڑوں سے الگ ہو کر پھل سے درخت کے پہچاننے کے اصول کو مدنظر رکھا جائے تو حدیث کے موجودہ ذخیرہ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد بھی ایک معمولی آدمی اس کا اندازہ کرسکتا ہے کہ حدیث کی صحیح حقیقت اور اس کی واقعی تعریف وہی ہو سکتی ہے جس کی طرف حضرت امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کے نام میں اشارہ فرمایا ہے اور میں نے جس کی تشریح کی ہے۔ تاریخ کے اس حصہ کی تدوین کس طرح اور کس زمانہ میں عمل میں آئی؟ اسی سوال کے جواب میں آپ کے سامنے وہ امتیازات اور خصوصیات بھی آجائیں گے جو تاریخ کے اس حصہ کو دنیا کے دوسرے تاریخی ذخیروں سے ممتاز کرتے ہیں۔۱۴۴؂
اسی کتاب میں دو ٹوک اندازم یں حدیث کی صحیح حیثیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ کہنا یقیناً مبالغہ نہ ہوگا کہ عہدِنبوتؐ میں ہی ہماری وہ تاریخ جس کا نام حدیث ہے اس کے کامل و ناقص زندہ نسخوں اور اڈیشنوں (اصحابؓ رسولؐ) کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی۔ کیا دنیا میں کوئی تاریخ یا کسی تاریخ کا کوئی حصہ ایسا موجود ہے جس کے عینی شاہد اتنی تعداد میں خود اس واقعہ کے مجسم آئینے بن کر دنیا کے سامنے پیش ہوئے ہوں؟۱۴۵؂
ان چاروں اقتباسات سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ احادیث کو ’’تاریخ‘‘کا مقام اور درجہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تاریخ اگر عہدنبوتؐ میں ہی لکھ لی جاتی یا اس کی عمومی اشاعت ہوجاتی تو قرآن اور اس تاریخ کے احکامات میں کوئی فرق باقی نہ رہ جاتا اس لیے مصلحتاً اس کی تدوین کو مؤخر کر دیا گیا۔ مثلاً وہ فرماتے ہیں:
اگر نبوت ہی کے عہد میں اس کثرت سے ان کے مکتوبہ مجموعے تیار ہوجائیں گے تو بتدریج ان حدیثوں سے پیدا ہونے والے احکام و نتائج میں اور قرآنی آیات سے پیدا ہونے والے احکام و نتائج میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔۱۴۶؂

اب اگر احادیث تاریخِ اسلام یا زیادہ صحیح الفاظ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک کی تاریخ ہے تو وحی خفی کی کیا حقیقت ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے؟ یا احادیث کے علاوہ بھی وحی خفی کہیں پائی جاسکتی ہے؟

وحی کی کئی قسمیں ہیں۔ وحی انبیاء علیہم السلام کے علاوہ‘ عام انسانوں‘ جانوروں اور دوسری مخلوقات پر بھی نازل ہوتی ہے۔ اصطلاحی یا شرعی لحاظ سے تو وحی جو کتابی شکل میں محفوظ ہے‘ اب صرف قرآن مجید میں پائی جاتی ہے اور یہ وحی انسانی ہدایت کے لیے نازل کی گئی اور قیامت تک کے لیے ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے۔ وحی خفی‘ وحی کی وہ قسم ہے جس کا ہدایت عامہ سے کوئی تعلق نہیں‘ جو نبی پر بھی نازل ہو سکتی ہے‘ انسان۔۔۔ جانور اور غیرعاقل مخلوقات مثلاً زمین اور آسمان‘ سب ہی پر نازل کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن شاہد ہے۔ اس کے بارے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے (رسائل و مسائل‘ حصہ سوم ص ۳۴۸) میں ارشاد فرمایا کہ ’’یہ وحی انسانوں سے بڑھ کر جانوروں پر اور شاید اُن سے بھی بڑھ کر نباتات و جمادات پر ہوتی ہے‘‘۔ وحی خفی کے نام پر خواہ مخواہ اعتراض کرنا یا سرے سے حدیث کے پورے ذخیرے ہی کو ’’عجمی سازش‘‘ قرار دینا کوئی صحت مندانہ اندازِ فکر نہیں۔ درست رویّہ یہ ہے کہ تاریخ کسی کے ہاتھ سے بھی مرتب ہو جائے ایک قابلِ تحسین قدم ہے چاہے مرتب کرنے والا عربی ہے یا عجمی۔ البتہ وحی کی دوسری اقسام کا تعلق سراسر اسی خاص فرد‘ جانور یا غیرعاقل مخلوق سے ہوتا ہے جس کی رہنمائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کی حیثیت قرآن کی طرح ہو ہی نہیں سکتی اس لیے یہ قرآن میں لکھی ہی نہیں گئی۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیمات (جلد اول) میں ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’رسالت اور اس کے احکام‘‘۔ یہ مضمون دراصل محترم غلام احمد پرویز مرحوم کے ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ مضمون کی نوعیت اسی طرح کی ہے جو ایک بحث مباحثے میں ہوجایا کرتی ہے۔ تاہم اس میں وحی خفی کی حقیقت پر مولانا مرحوم نے اظہارِخیال کیا ہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں:

قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر صرف کتاب ہی نازل نہیں کی جاتی تھی بلکہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ ہمیشہ وحی نازل کرتا رہتا تھا اور اسی وحی کی روشنی میں وہ سیدھی راہ چلتے تھے‘ معاملات میں صائب رائے قائم کرتے تھے اور تدبیریں عمل میں لاتے تھے۔* مثال کے طور پر دیکھیے:
نوح علیہ السلام طوفان کی پیش بندی کے لیے اللہ کی نگرانی میں وحی کے ماتحت کشتی بناتے ہیں (ہود:۳۷)۔ حضرت ابراہیم ؑ کو ملکوت سموات وارض کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے اور مُردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت دکھائی جاتی ہے۔

اسی طرح کی بہت سی مثالیں دینے کے بعد پوچھتے ہیں:

کیا ان میں سے کوئی بھی وحی ایسی ہے جو کتاب کی صورت میں ہدایت عامہ کے لیے نازل ہوئی ہو؟ یہ مثالیں اس امر کے ثبوت میں کافی ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی طرف اللہ تعالیٰ متوجہ رہتا ہے اور ہر ایسے موقع پر جہاں بشری فکرورائے کی غلطی کرنے کا امکان ہو اپنی وحی سے ان کی رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ اور یہ وحی اس وحی سے ماسوا ہوتی ہے جو ہدایت عام کے لیے ان کے واسطہ سے بھیجی جاتی اور کتاب میں ثبت کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے لیے ایک الٰہی ہدایت نامے اور دستور العمل کا کام دے۔
ایسی ہی وحی غیرمتلو اور وحی خفی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں۔۱۴۷؂

اس کے بعد مولانا محترم نے قرآن مجید سے متعدد مثالیں دی ہیں۔ ہمیں مولانا محترم کی تحریر کے اس حصے سے مکمل اتفاق ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں پر وحی ہو سکتی ہے‘ شہد کی مکھی پر وحی ہوسکتی ہے‘ زمین اور آسمان پر وحی ہوسکتی ہے‘ اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ وحی کی ان اقسام سے ہدایت عامہ مقصود نہیں‘ تو یہ بات مان لینے میں قطعاً کوئی حرج نہیں کہ چند مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آپؐ کی رہنمائی کے لیے اسی طرح کی ’’وحی خفی‘‘ نازل ہوئی ہو۔ اب چونکہ اس طرح کی وحی کا ہدایت عامہ سے کوئی تعلق نہیں‘ اسے انسانوں کے لیے ہدایت نامہ اور دستور العمل بننا ہی نہ تھا اس لیے اس کو کتاب میں ثبت نہیں کیا گیا۔ جس وحی کو انسانوں کے لیے ہدایت اور دستور العمل بننا تھا وہ قرآن مجید میں درج کی جاچکی ہے۔
اس طرح کی وحی خفی کی مثالیں احادیث میں بھی مل جائیں گی اور چند موقعوں پر قرآن مجید سے بھی اشارات مل جائیں گے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ احادیث کا سارا ذخیرہ اورآپؐ کے سارے احکامات ہی وحی خفی پر مشتمل ہیں۔ وحی خفی وہی ہو سکتی ہے جس کے لیے آپؐ نے خود تصریح کی ہو یا جس کی شہادت قرآن مجید دے رہا ہو۔ لیکن اس کی بھی حیثیت ہدایت عامہ کی نہیں ہوتی جیسا کہ خود مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ صرف انبیاء علیہم السلام کی ذاتی رہنمائی کے لیے ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ ہر جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عقل و فہم‘ شعور و ادراک اور اپنے اصحاب کے مشورے کے بعد فیصلہ فرمایا۔ قرآن مجید کے مجمل احکام کی تفصیلات طے کیں اور بعض نئے احکام دیے‘ یہ سارے احکام اپنی ضروریات‘ یعنی ظروف و احوال اور زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق تھے اور ان کا وحی سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا ان کو ہم ’’وحی خفی‘‘ یا ’’وحی غیرمتلو‘‘ کا نام نہیں دے سکتے۔ ایسے کلام‘ احکام اور قوانین کے متعلق بالکل درست فرمایا ہے جناب مولانا محمد ادریس میرٹھی نے۔ اپنی کتاب’’سنت کی تشریحی حیثیت‘‘ میںآپ لکھتے ہیں:

اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ظاہر ہے کہ ایک بشر کا کلام ہے جو ظروف و احوال کی قیود اور زمان و مکان کی حدود سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اس میں نہ وہ وسعت اور جامعیت ہوسکتی ہے نہ وہ احاطہ و استقصا۔ اس کا لازمی نتیجہ وضاحت و تفصیل ہے۔۱۴۸؂

نتیجۂ بحث: تغیر احوال و تغیر احکام

یہ تو طے ہے کہ وحی میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے وحی پر مبنی صرف وہ اصول و جزئیات مقرر کیے گئے ہیں جن پر زمان و مکان اور ظروف و احوال کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہی اصول و جزئیات کو قرآن میں درج کیا گیا اور اس کے بعد صرف قرآن کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تاکہ اس میں کسی قسم کی تحریف ممکن نہ ہو سکے اور وہ تمام جزئیات قرآن سے باہر رکھی گئیں جو وحی پر مبنی نہیں تھیں۔ یہ اس لیے ہوا کہ زمان و مکان کے بدل جانے سے ان جزئیات کو حسبِ ضرورت تبدیل کیا جا سکے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ زندگی میں جمود طاری ہوجاتا۔ ظروف و احوال کا تقاضا کچھ اور ہوتا لیکن ہم ماضی میں سانس لے رہے ہوتے۔ چونکہ ایسا ناممکن ہے اس لیے یہ تضاد ہمیں زیادہ عرصہ جینے نہ دیتا اور سچ پوچھیے تو جمود موت ہی کا دوسرا نام ہے اور زندگی حرکت کا۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہو سکے گی۔ قرآن مجید میں بیسیوں مرتبہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ایک دفعہ بھی نصابِ زکوٰۃ کا تعین کیا گیا نہ شرح زکوٰۃ مقرر کی گئی۔ آخر کیوں؟ کیا نعوذ باللہ خالقِ کائنات سے کوئی بھول ہوگئی تھی یا اس میں کوئی مصلحت پوشیدہ تھی؟ آخر اس میں کیا امر مانع تھا کہ صرف ایک آیت میں نصابِ زکوٰۃ اور شرحِ زکوٰۃ کا ذکر کر دیا جاتا۔ اس سے قرآن کی ضخامت پر کوئی بھی اثر نہ پڑتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یقیناًخداوندعالم سے سہو و نسیان نہیں ہوا۔ اس میں حکمت و مصلحت ہے۔
اس مسئلے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے (یا کم از کم ان کا عدمِ اتفاق ہمارے علم میں نہیں) کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصابِ زکوٰۃ مقرر کرتے وقت اشیاء میں مساوات (parity) کو مدنظر رکھا تھا۔ مثلاً حضوؐر کے زمانے میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت ساڑھے سات تولے سونے کے برابر تھی۔ اس لیے آپؐ نے انھیں نصابِ زکوٰۃ قرار دیا۔ اور مسئلہ یہ ٹھہرا کہ ایک شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا ہو تو وہ صاحبِ نصاب ہوگا۔ اب آج صورت حال ملاحظہ ہو۔ ایک شخص کے پاس سات تولے سونا‘ جس کی قیمت تقریباً ساٹھ‘ ستر ہزار روپے ہے‘ ہو تو یہ شخص زکوٰۃ نہیں ادا کرے گا کیونکہ وہ صاحبِ نصب نہیں۔ اس کے برعکس دوسرا شخص جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی‘ جس کی قیمت دس ہزار روپے سے بھی کم ہے‘ ہو تو وہ زکوٰۃ ادا کرنے کا پابند ہے کیونکہ ڈیڑھ ہزار سال قبل نصاب یہی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامت تک غریب تو زکوٰۃ ادا کرتا رہے مگر اس سے زیادہ امیر اس فرض کی ادایگی سے ’’محفوظ‘‘ قرار پائے۔
یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ زمانے کے تغیر و تبدل نے سونے اور چاندی کی شرح مبادلہ (rate of exchange) میں تبدیلی پیدا کر دی۔ اب اگر یہ نصاب قرآن میں مذکور ہوتا‘ یعنی نصاب کا تعین وحی کے ذریعے سے کر دیا گیا ہوتا‘ تو اس میں تبدیلی ممکن نہ تھی اور حکومتِ وقت قیامت تک غریب سے زکوٰۃ لیتی رہتی اور امیر کو نہ چھیڑتی۔* یہی وجہ ہے کہ یہ جزئیہ قرآن مجید میں درج نہیں ہوا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عملی انسان کی حیثیت سے اپنے زمانے کے حالات کے تحت‘ اپنے ہی زمانے کی شرح مبادلہ کے مطابق نصابِ زکوٰۃ اور شرحِ زکوٰۃ مقرر کر دیا۔ اسی سے یہ ثابت ہوا کہ حضوؐر کے احکام ظروف و احوال کی قیود اور زمان و مکان کی حدود سے ماورا نہیں ہو سکتے۔ فلہٰذا وحی نہیں قرار دیے جا سکتے۔ تغیر احوال کا لازمی نتیجہ تغیر احکام ہے۔ اس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضوؐر کے عہدمبارک میں تو تغیر احوال کی وجہ سے تغیر احکام‘ جسے نسخ بھی کہا جاتا ہے‘ ہوتا رہے مگر اس کے بعد صدیوں تک بلکہ قیامت تک تغیر احوال کا تصور ہی نہ ہو! یا اگر تغیر احوال کو تو مانا جائے مگر اس کے لازمی نتیجے یعنی تغیر احکام کا انکار کر دیا جائے!! اس ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تغیر احوال کی وجہ سے اور تو اور تعبُّدی امور میں بھی عہدِصحابہؓ میں ردّ و بدل اور کمی و بیشی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ ہم صرف ایک کا ذکر کریں گے۔(پوری بحث کے لیے دیکھیے رسائل و مسائل‘ حصہ پنجم‘ص ۲۱۴ تا ۲۳۷۔ از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ )
مولانا محترم لکھتے ہیں:

بخاری‘ نسائی‘ ابوداؤد‘ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت سائبؓ بن یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کے عہد میں جمعے کی پہلی اذان اسی وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر جب حضرت عثمانؓ کا زمانہ آیا اور آبادی بڑھ گئی تو انھوں نے تیسری اذان (پہلی دو۔ اذان اور تکبیر اقامت کہلاتی تھیں) یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر آنے سے پہلے دی جاتی ہے‘ کا حکم دیا جو زَوْراء کے مقام پر دی جاتی تھی۔
بخاری کی ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ جمعہ کے روز تیسری اذان کا اضافہ کرنے والے حضرت عثمانؓ تھے‘ جبکہ اہلِ مدینہ کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے حکم دیا کہ پہلی اذان اس مقام پر دی جائے جس کا نام زَوْراء تھا۔ پھر جب وہ منبر پر بیٹھ جاتے تھے تو اُن کا موذن اذان دیتا تھا اور جب وہ منبر سے اُترتے تھے تو مؤذن تکبیر اقامت کہتا تھا۔ یہ تعبُّدی امور کے دائرے میں ماثور و مسنون عمل پر ایک صریح اضافہ تھا جو خلیفۂ برحق نے ایسے زمانے میں کیا تھا جبکہ صحابہؓ و تابعینؒ سے دنیائے اسلام بھری پڑی تھی مگر اس کی مخالفت تو کیا ہوتی‘ اسلامی دنیا کے بلاد و امصار میں وہ مقبول ہوگئی۔۱۴۹؂

اس اقتباس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیکی زمانے میں بھی حالات میں تبدیلی آگئی تھی اور اتنی تبدیلی بہرحال آگئی تھی کہ خلیفۂ برحق کو حضور اکرمؐ کے حکم‘ وہ بھی تعبُّدی حکم‘ میں اپنے زمانے کے حالات کے مطابق تبدیلی کرنی پڑی۔ اب کیا یہ ذہن میں آنے والی بات ہے کہ عہدرسالتؐ میں اور عہدصحابہؓ میں، یعنی تقریباً تین دہائیوں تک تو حالات میں تبدیلیاں آتی رہیں‘ لیکن اس کے بعد پندرہ سو سال کا عرصہ گزر چکا لیکن زمانہ اور حالات وہیں کے وہیں رہیں اور ہم زبانِ حال اور زبانِ قال سے یہ اعلان کرتے رہیں کہ اب تغیرات نہیں آتے!!
بہرحال اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے حالات کے تحت حضور اکرمؐ کے جس حکم کو تبدیل کیا تھا وہ وحی پر مبنی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جزئیات میں تبدیلی صرف اسی صورت میں جائز ہے جب حالات میں تبدیلی آچکی ہو ورنہ وہی جزئیہ نافذ العمل رہے گا۔ اسی سے تغیر و ثبات کا حسین امتزاج قائم رہ سکتا ہے۔ قرآنی احکام و اوامر زمانے کے ہر دور کے لیے ہیں کیونکہ وحی پر مبنی ہیں (ملاحظہ ہو‘ حوالہ نمبر ۱۳۷)۔ قرآن سے باہر جزئیات وحی پر مبنی نہیں ہیں اس لیے اگر حالات میں تبدیلی آجائے تواِن میں تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے یہی کیا۔ حضرت عمرؓ کے عہدِمبارک میں تو درجنوں معاملات میں ایسی جزئیات میں تبدیلیاں لائی گئی تھیں جو اوّلیات عمرؓ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان میں سے صرف چند کا ذکر کرنا کافی ہوگا۔
مولانا خلیل احمد حامدیؒ ،جو پاکستان کی تحریکِ اسلامی کے قائد اور عربی زبان کے نامور عالم تھے‘ اپنے ایک اہم مضمون ’’اسلام کا نظامِ قضا‘‘ میں لکھتے ہیں:

اسی طرح طلاق ثلاثہ کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ آپؓ (حضرت عمرؓ) نے اس کے برعکس ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو ایک ہی طلاق کے بجائے اسے تین طلاق ہی شمار کیا۔۱۵۰؂

مولانا نجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں:

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شرابی لایا گیا تو آپؐ نے اس کو کھجور کی چھال یا ریشے کی بنی ہوئی چھڑی یا کوڑے سے تقریباً چالیس ضرب ماری۔ یہی طرزعمل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اختیار کیا مگر حضرت عمرؓ نے اسّی کر دیا۔ ۱۵۱؂

اسی طرح عہدنبویؐ میں امہات اولاد کی فروختگی پر پابندی‘ اور صبح کی اذان میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کے جملے کا اضافہ‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن شرائط پر باشندگان نجران سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ وہاں رہ سکتے ہیں‘ بعد میں حضرت عمرؓ کے حکم سے ان کی جلاوطنی‘ ان چند اولیاتِ عمرؓ میں شامل ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان احکامات میں تبدیلی صرف اس لیے ہی ممکن ہو سکی تھی کہ حالات کا تقاضا تھا‘ اور یہ احکامات وحی پر مبنی نہیں تھے۔ اس کی وجہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ:

تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف خداوند عالم ہے جس کے پاس حقیقی علم ہے اور جس علم میں زمانہ کے تغیرات سے ذرہ برابر کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔۱۵۲؂

مولانا مرحوم اپنے ایک مضمون ’’تدوین جدید اور اس کے تقاضے‘‘ جو ’’چراغِ راہ‘‘ کے اسلامی قانون نمبر میں شائع ہوا تھا‘ لکھتے ہیں:

اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد (static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانہ اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدون کیا گیا ہو اس صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانہ اور حالات اور مقامات کے بدل جانے پر بھی اس صورت میں کوئی تغیر نہ کیا جا سکے۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں بلکہ ہم کہیں گے کہ وہ اسلامی قانون کی روح ہی کو نہیں سمجھے ہیں۔۱۵۳؂

مولانا محترم کا یہ اقتباس ہم نے محض اس بات کی تائید کے لیے پیش کیا ہے کہ زمانہ‘ حالات اور مقامات کے بدل جانے سے کوئی قانون ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ’’تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد صرف خداوندعالم ہے‘‘۔ ہم نے یہ اقتباس اس لیے نہیں پیش کیا کہ مولانا محترم بھی اس بات کے قائل تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعین کردہ جزئیات میں تبدیلی جائز ہے۔ سنت کی آئینی حیثیت میں مولانا محترم نے بڑا واضح اسٹینڈ لیا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد کہ تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد صرف خداوند عالم ہے اور نیز یہ کہ کسی خاص زمانہ کے لیے کسی قانون کا مدون کیا جانا اور ہر دور کے لیے اسے اسی صورت پر قائم رکھنے پر اصرار کرنا جبکہ زمانہ‘ حالات اور مقامات بدل چکے ہوں‘ اسلامی قانون کی روح سے ناواقفیت کی دلیل ہے‘ مولانا محترم کا وہ اسٹینڈ جو انھوں نے سنت کی آئینی حیثیت میں لیا ہے‘ خاصا کمزور ہوجاتا ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا محترم کے مندرجہ بالا دونوں اقتباسات ہر لحاظ سے درست اور قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ حضوؐر کی متعین کردہ جزئیات میں بھی تبدیلی جائز اور ممکن ہے کیونکہ آپؐ تو بہرحال زمانی و مکانی قیود سے آزاد نہیں ہو سکتے تھے۔
اسلام کی اسی خصوصیت کی وجہ سے یہ آفاقی دین قرار دیا جا سکتا ہے‘ جس کا کسی خاص علاقے‘ زبان‘ نسل یا زمانے سے تعلق نہ ہو اور ہر دور کے لوگ اپنے اپنے معروضی حالات کے مطابق قرآنی اصولوں کی روشنی میں تفصیلی قانون سازی کر سکتے ہوں۔
یہ ایک حقیقت ہے جس سے منہ موڑنا تقریباً ناممکن ہے کہ قرآن کی اسپرٹ اور اصول غیرمتبدل ہیں۔ لیکن عملی زندگی کے احوال تغیر پذیر ہیں لہٰذا ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر کے ساتھ بالکل اسی طرح بدلنا ضروری ہے جس طرح عہدنبویؐ میں اور دورِصحابہؐ میں ان اصولوں کو منطبق کرتے ہوئے گذشتہ عہد کی جزئیات حسبِ حال تبدیل کی جاتی رہیں ورنہ وہ جمود جو ہمارے علوم اور قوانینِ حیات پر طاری ہے مزید مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔ ماضی کو یاد تو کیا جا سکتا ہے‘ اس کی تحسین بھی کی جاسکتی ہے مگر ماضی میں رہا نہیں جاسکتا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس حقیقت کو ۱۹۳۷ء میں ہی سمجھ لیا تھا۔ وہ چودھری نیاز علی خاں صاحب کو ایک مکتوب* میں لکھتے ہیں:

ہم خالص قرآن کی بنیاد پر اسلام کی (renaissance) نشاۃِ جدیدہ چاہتے ہیں۔ قرآن کی اسپرٹ اور اسلام کے اصول ہمارے نزدیک غیرمتبدل ہیں۔ مگر افکار اور معلومات کی ترتیب اور عملی زندگی کے احوال پر اس روح اور ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر اور علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلنا ضروری ہے۔ متقدمین اسلام اس چیز کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنے زمانہ میں عملاً اس کو برتا مگر متاخرین یہ سمجھے کہ اصول اور اسپرٹ کی طرح ان کا انطباق بھی غیرمتبدل ہے۔ اس چیز نے وہ جمود پیدا کیا جو سات سو برس سے ہمارے علوم اور ہمارے قوانینِ حیات پر طاری ہے۔۱۵۴؂

مولانا محترم نے یہ خط ۱۲ محرم ۵۶ھ بمطابق ۲۶ مارچ ۱۹۳۷ء کو لکھا تھا۔ اس وقت اُن کے نزدیک یہ بالکل واضح تھا مگر اس کے ساتھ ہی وہ اس کو کوئی آسان کام بھی نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اسی خط میں آپ نے یہ بھی لکھا کہ:

یہ کام بالکل نیا ہے اور ماضی و حال دونوں میں اس کے لیے پہلے سے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ اس لیے اِس نتیجہ کو اکثر لوگ مشکوک ہی پائیں گے اور خود آپ کو بھی اس کے لیے صحیح راستہ متعین کرنے میں دقتیں پیش آئیں گی مگر چونکہ مقصود بالکل واضح طور پر ہمارے سامنے متعین ہوچکا ہے اس لیے تمام مشکلات کے باوجود سیدھا راستہ ہم کو ضرور مل جائے گا۔۱۵۵؂

اگر یہ بات درست ہے (اور ہمارے نزدیک تو یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے) کہ احادیث نبوی یا۔۔۔ اسوۂ رسول۔۔۔ وحئ خداوندی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذاتی بصیرت کا نتیجہ ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو حالات عہدِرسالتؐ میں دنیائے اسلام کے تھے اگر ان میں تبدیلی آگئی ہو تو ان تبدیل شدہ حالات کے مطابق احکام میں تبدیلی ضروری ہے اور یہ عین اسوۂ رسولؐ ہے۔ اس موضوع کو ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہی کے اقتباس پر ختم کرتے ہیں:

یہ حقیقت یقیناً ناقابلِ انکار ہے کہ شارع نے غایت درجہ کی حکمت اور کمال درجے کے علم سے کام لے کر اپنے احکام کی بجاآوری کے لیے زیادہ تر ایسی ہی صورتیں تجویز کی ہیں جو تمام زمانوں اور تمام مقامات اور تمام حالات میں اس کے مقاصد کو پورا کرتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بکثرت جزئیات ایسے بھی ہیں جن میں تغیر حالات کے لحاظ سے احکام میں تغیر ہونا ضروری ہے۔ جو حالات عہدِرسالتؐ اور عہدِصحابہؓ میں عرب اور دنیائے اسلام کے تھے‘ لازم نہیں کہ بعینہٖ وہی حالات ہر زمانے اور ہر ملک کے ہوں۔ لہٰذا احکامِ اسلام پر عمل کرنے کی جو صورتیں اُن حالات میں اختیار کی گئیں تھیں‘ ان کو ہوبہو تمام زمانوں اور تمام حالات میں قائم رکھنا اور مصالح و حکم کے لحاظ سے ان کے جزئیات میں کسی قسم کا ردّ و بدل نہ کرنا ایک طرح کی رسم پرستی ہے جسے روحِ اسلامی سے کوئی علاقہ نہیں۔ ایک موٹی سی مثال لے لیجیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے سورج کی حرکت کے لحاظ سے اوقات مقرر فرمائے ہیں۔ اس لیے کہ عرب اور ربع مسکوں کے بیشتر حصوں کے لیے تعین اوقات کی یہی صورت مناسب ہے لیکن اگر کوئی شخص قطب شمالی کے قریب رہنے والوں کے لیے بھی نمازوں کے اوقات معین کرنے میں وہی سورج کے طلوع و غرب اور سایہ کے اُتار چڑھاؤ کا لحاظ کرے تو بظاہر یہ شارع کے منصوص احکام کی حرف بحرف پیروی ہوگی‘ مگر درحقیقت اس سے شارع کا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور اس کا شمار خلاف ورزی احکام میں ہوگا کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ترک صلوٰۃ اور اسقاطِ فرض ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جزئیات میں دلالۃ النص اور اشارۃ النص تو درکنار‘ صراحتہ النص کی پیروی بھی تفقہ کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ اور تفقہ کا اقتضا یہ ہے کہ انسان ہر مسئلہ میں شارع کے مقاصد اور مصالح پر نظر رکھے اور انھی کے لحاظ سے جزئیات میں تغیر احوال کے ساتھ ایسا تغیر کرتا رہے جو شارع کے اصولِ تشریح پر مبنی اور اس کے طرزِ عمل سے اقرب ہو۔۱۵۶؂؂

حاصل بحث

۱۔ انسانی علم محض اندازوں پر قائم ہے۔ پوری انسانی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ قطعی حقیقت کا ادراک ممکن ہی نہیں جب تک کہ تمام محسوس کائنات کا علم نہ حاصل ہوجائے۔ انسانی علم کے پاس صداقت کی کوئی کسوٹی ہے نہ معروضی پیمانہ جس کے مطابق کسی کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے انسانیت کے لیے کوئی ضابطۂ حیات دینے سے بالکل معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔ مجبوراً مغربی مفکرین تک کو یہ کہنا پڑا کہ ہمیں یہ بات اب قبول کرلینی چاہیے کہ جس طرح مثالی حکمرانوں کا کوئی وجود نہیں اسی طرح علم کے مثالی ذرائع بھی موجود نہیں لہٰذا انسانی مسائل کے لیے ایسے علم کی ضرورت ہے جو ماورائے بشر ہو۔
۲۔ انسانوں ہی کے طبقہ میں ایک گروہ ایسے متحد الخیال افراد کا گزرا ہے جو اگرچہ مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اس کے باوجود بنیادی امور میں متفق تھے۔ اُن کا دعویٰ یہی تھا کہ اُن کے پاس جو علم آیا ہے اس کا انسانی حواس سے کوئی تعلق نہیں‘ وہ ماورائے بشر ہے۔ اس علم کو وحی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ہر دور اور ہر قوم میں ایسے افراد آتے رہے جو انسانوں کو رشد و ہدایت کی تعلیم دیتے رہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جو وحی انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتی تھی وہ محدود طبقے اور محدود زمانے کے لیے تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی زمانے میں ایک سے زیادہ انبیائے کرام مبعوث ہوتے رہے کیونکہ ذرائع رسل و رسائل کی عدم موجودگی میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی ایک عالمگیر وحی نازل کرکے اس کی حفاظت کی جاتی۔ ممکن ان معنوں میں کہ بہرحال اللہ اس دنیا میں اسباب کے ذریعے ہی کاروبارِ حیات کا انتظام کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ زبور‘ تورات اور انجیل میں تحریف ممکن ہوسکی۔
۳۔ آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی‘ اس کو چونکہ قیامت تک کے لیے ہدایت عامہ کا ذریعہ بننا تھا اس لیے اس کی حفاظت کا براہِ راست اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا۔ اس کی حفاظت کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک طرف تو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس وحی کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا تو دوسری طرف اللہ کے نبیؐ نے اس وحی کو لکھوا کر محفوظ کروایا۔ اللہ کی وحی پر مبنی یہ وہ واحد کتاب ہے جو حضوؐر کے عہدِمبارک سے لے کر آج تک ہر دور میں ہر قسم کے تغیرات سے پاک رہی ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں پائی جاتی جو اس قدر قطعی الثبوت ہو۔
۴۔ چونکہ اس کتاب کو قیامت تک کے لیے واجب الاطاعت اور رشد و ہدایت کا ذریعہ بننا تھا‘ مگر ارتقائے زمانے کے ساتھ ساتھ اس کے اقتضاء ات و مصالح میں گوناگوں تغیرات و اختلافات ناگزیر ہیں‘ اس لیے یہ ضروری تھا کہ دائرہ کے نقطہ کی طرح قرآنی احکام و اوامر اپنی جگہ ثابت رہتے‘ لیکن اس قیام و ثبات کے باوجود ان میں جمود و تعطل نہ ہوتا بلکہ زمانے کے اقتضاء ات و تغیرات کے ساتھ وہ حرکت پذیر رہتے اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا جب قرآن میں صرف ان ہی اصول و کلیات پر اکتفا کیا جاتا جن کے دامن میں قیامت تک کی جزئیات سمٹی ہوئی ہیں‘ مگر ان جزئیات کو قرآن میں درج نہ کیا جاتا اور یہی قرآن نے کیا ہے۔
۵۔ قرآن چونکہ وحی الٰہی پر مشتمل ہے‘ اس لیے اس کے اصول و جزئیات غیرمتبدل ہیں۔ مگر افکار اور معلومات کی ترتیب اور عملی زندگی کے احوال پر قرآنی روح اور ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر اور علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلنا ضروری ہے۔ چنانچہ وہ جزئیات جن پر زمان و مکان اور تغیر احوال کے اثرات پڑسکتے تھے‘ قرآن میں نہیں رکھی گئیں۔ ایسا کرنا کسی بھول چوک یا سہو کا نتیجہ نہیں تھا‘ بلکہ مبنی برمصلحت تھا اور وہ مصلحت یہی ہو سکتی ہے کہ وحی میں تو چونکہ تبدیلی ممکن نہیں‘ اس لیے ان جزئیات کو وحی نہیں قرار دیا گیا۔ لہٰذا اب ایسی جزئیات جو قرآن میں نہیں تغیر احوال کے مطابق ان میں تغیر ممکن اور لازمی ہے۔
۶۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ایک عملی انسان ہونے کے ناطے یہی کیا۔ آپؐ نے قرآنی اصولوں کو اپنے ملک اور عہد کے خصوصی حالات کے مطابق منطبق کیا اور صرف وہ جزئیات مقرر فرمائیں جن کی ضرورت تھی۔ آپؐ آنے والے زمانے اور حالات کے متعلق جزئیات متعین نہیں فرما سکتے تھے کیونکہ تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف خداوندِعالم ہے جس کے پاس حقیقی علم ہے اور جس کے علم میں زمانہ کے تغیرات سے ذرہ برابر کوئی تغیر نہیں ہوتا‘‘۔لیکن چونکہ ’’اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد(static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانہ اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدون کیا گیا ہو اس صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانہ اور حالات اور مقامات کے بدل جانے پر بھی اس صورت میں کوئی تغیر نہ کیا جا سکے‘‘، اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مقرر کردہ جزئیات کو‘ وحی نہ ہونے کی وجہ سے قرآن میں تو خیر درج کروا ہی نہیں سکتے تھے‘ الگ ایک مجموعے کی صورت میں بھی لکھوا کر اُمت کو سپرد کیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
۷۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تغیر احوال کے مطابق تغیر احکام ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عہدرسالت اور عہدصحابہ میں عرب اور دنیائے اسلام کے جو حالات تھے وہ بعینہٖ ہر دور اور ہر ملک کے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا احکام اسلام پر عمل کرنے یا قرآنی اصولوں کو اُس دور پر منطبق کرنے کی جو صورتیں اُن حالات میں اختیار کی گئی تھیں اُن کو ہوبہو تمام زمانوں اور تمام حالات میں قائم رکھنا اور مصالح و حکم کے لحاظ سے ان جزئیات میں کسی قسم کا ردّ و بدل نہ کرنا اسوہ رسول کی پیروی نہیں بلکہ محض ایک طرح کی رسم پرستی ہے اور یہی چیز اس دور میں اسلامی نظام کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

۸۔ لہٰذا انسانیت کی فلاح اور بقا کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ بنی نوع انسان لپک کر وحی خداوندی کو سینوں سے لگا لیں۔ یہ وحی اپنی اصل حالت میں اب صرف قرآن مجید میں محفوظ ہے جو ہدایت عامہ کے لیے خداوندعالم کا عظیم تحفہ ہے۔
ہٰذا ما عندی والعلم عند اللّٰہ ، علیہ توکلت والیہ انیب


حوالہ جات

۱۴۰۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ : حجۃ البالغہ (اردو) مترجم مولانا عبدالحق حقانی‘ ص ۲۰۷
۱۴۱۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : سنت کی آئینی حیثیت‘ ص ۵۳۔۵۴
۱۴۲۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ : تدوینِ حدیث‘ ص ۴۔۵
۱۴۳۔ ایضاً‘ ص ۷۔۸
۱۴۴۔ ایضاً‘ ص ۹۔۱۰
۱۴۵۔ ایضاً‘ ص ۴۴
۱۴۶۔ ایضاً ‘ ص ۲۴۲

* اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات انبیاء علیہم السلام کی اس معنی میں رہنمائی کرتا ہو جب وہ کوئی غلط کام کربیٹھیں۔ یا جب کوئی بالکل ہی نئی بات سمجھانے کی نوبت آجائے مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم۔ مگر یہ کہنا درست نہیں ان کی ہدایت کے لیے ہمیشہ وحی نازل کی جاتی تھی تاکہ وہ سیدھی راہ چلیں‘ تدبریں عمل میں لائیں یا معاملات میں صائب رائے قائم کریں۔ نعوذباللہ کیا انبیاء ؑ عام انسانوں سے بھی کم عقل و فہم رکھتے تھے کہ ہر قدم پر ان کو انگلی پکڑ کر چلانے کی نوبت آتی؟ ان حالات میں ہمارے لیے انبیاء ؑ کو اسوہ بنانا تو ناممکن ہوگا کیونکہ وہ سیدھی راہ تو اس لیے چلے کہ ان پر وحی آتی تھی۔ معاملات میں صائب رائے اس لیے قائم کرتے تھے کہ اُن پر ہمیشہ وحی نازل ہوتی تھی۔ ہم تو عام انسان ہیں۔ دعوت و عزیمت کی راہ میں‘ اقامت دین کی جدوجہد میں ہم تو کسی ایسے ہی انسان کو نمونہ بنا سکتے ہیں جو انسان ہوتے ہوئے یہ سارے کام کرتا رہا ہو نہ کہ سیدھی راہ پر چلنے یا صائب رائے قائم کرنے کے لیے بھی بیرونی سہارے کا محتاج رہا ہو۔ مزید دیکھیے حوالہ نمبر۱۳۹
۱۴۷۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : تفھیمات‘ حصہ اول‘ ص ۳۰۶۔۳۰۷
۱۴۸۔ مولانا محمد ادریس میرٹھی: سنت کا تشریعی مقام‘ ص ۱۶۳

* اس مثال کو ہم آج ان تمام معاشی‘ معاشرتی یا سیاسی مسائل پر‘ جن میں زمانی و مکانی بعد کی وجہ سے تبدیلیاں آچکی ہیں‘ منطبق کرسکتے ہیں۔
۱۴۹۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : رسائل و مسائل‘ حصہ پنجم‘ ص ۲۲۵
۱۵۰۔ مولانا خلیل حامدی: اسلام کا نظامِ قضا‘ چراغِ راہ‘ اسلامی قانون نمبر‘ ص ۲۰۰
۱۵۱۔ مولانا نجیب اللہ ندوی: اجتہاد اور تبدیلئ احکام، چراغِ راہ‘ اسلامی قانون نمبر‘ ص ۲۰۲
۱۵۲۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : تنقیحات‘ ص ۱۸۳
۱۵۳۔ " تدوینِ جدید اور اس کے تقاضے‘ چراغِ راہ‘ اسلامی قانون نمبر‘ جلد دوم‘ ص ۱۱

* یہ اقتباس وثائقِ مودودی‘ ص ۸۲ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
۱۵۴۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : اقبال‘ دارالاسلام اور مودودی‘ مکتوب نمبر ۹‘ ص ۱۲۷
۱۵۵۔ ایضاً‘ ص ۱۲۷۔
۱۵۶۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : تفھیمات‘ حصہ دوم‘ ص ۳۸۸۔۳۸۹
http://www.javedahmadghamidi.com/books/view/ahadees-part-seven

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~



مزید پڑھیں:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہاٹس اپپ"یا SMS کریں   
  

No comments: