Juma Mubarak جمعہ کی فضیلت


جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت مستحب ہے، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة، أضاء له من النّور ما بين الجمعتين [صححه الألباني 6470 في صحيح الجامع]
(جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے)۔ http://tanzil.net/#18:1
...................................................
انسداد فرقہ واریت
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ : ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾ اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اللہ کےواضح احکامات کے باوجود اسلام میں فرقہ واریت کا زہر کیسے داخل ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئیے اسلام کی ابتدائی تاریخ کا مختصر جائزہ ضروری ہے >>>https://goo.gl/8ANxZ6
.....................................................
 جمعہ کی فضیلت :
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بے شمار امتیازات اور فضائلِ جلیلہ  سے مخصوص کیا، جن میں سے ایک یوم جمعہ کا امت کے لیے خاص کرنا ہے،جب کہ اس دن سے اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاری کو محروم رکھا،حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أضلّ الله عن الجمعة من كان قبلنا. فكان لليهود يوم السبت. وكان للنّصارى يوم الأحد. فجاء الله بنا. فهدانا الله ليوم الجمعة. فجعل الجمعة والسبت والأحد. وكذلك هم تبع لنا يوم القيامة. نحن الآخرون من أهل الدّنيا والأولون يوم القيامة المقضي لهم قبل الخلائق۔[رواه مسلم 856]

’’ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے والوں کو جمعہ کے دن سے محروم رکھا،یہود کے لیے ہفتہ کا دن اور نصاری کے لیے اتوار کا دن تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں برپا کیا اور جمعہ کے دن کی ہمیں ہدایت فرمائی اور جمعہ ہفتہ اور اتوار بنائے،اسی طرح یہ اقوام روز قیامت تک ہمارے تابع رہے گی،دنیا والوں میں ہم آخری ہیں اور قیامت کے دن اولین میں ہونگے، اورتمام مخلوقات سے قبل اولین کا فیصلہ کیا جائے گا‘‘ [رواه مسلم].
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: (جمعہ کو جمعہ اس لیے کہا گیا کیوں کہ یہ لفظ جَمَع سے مشتق ہے، اس دن مسلمان ہفتے میں ایک مرتبہ جمع ہوتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے اس دن اپنی بندگی کے لیے جمع ہونے کا حکم دیا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:  

}يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ{ [الجمعة: 9]

(مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے گی تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو)آیت میں سعی سے مراد تیزی سے چلنا نہیں ہے بلکہ جمعہ کے لیے جلد نکلنے کا اہتمام کرنا ہے، یاد رہے کہ نماز کے لیے بھاگتے ہوئے جانے سے روکا گیا۔

حسن فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم سعی سے مراد بھاگتے ہوئے جانا نہیں ہے، بلکہ نماز کے لیے  وقار وسکینت اور دل کی  نیت اور خشوع وخضوع کے ساتھ جانے کا حکم دیا گیا‘‘ [تفسير ابن كثير 4/385/386].

ابن قیمؒ فرماتے ہیں: (جمعہ کا دن عبادت کا دن ہے، اِس کا دنوں میں ایسا مقام ہے جیسا کہ مہینوں میں ماہِ رمضان کا، اور اس دن مقبولیت کی گھڑی کا وہی درجہ ہے جیسا کہ رمضان میں شبِ قدر کا)۔  [زاد المعاد 1/398].

جمعہ کے دن کے فضائل:

1-دنوں میں بہترین دن: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

خير يوم طلعت عليه الشّمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه أدخل الجنّة، وفيه أخرج منها، ولا تقوم السّاعة إلا في يوم الجمعة۔ [رواه مسلم 854]

’’جس دن میں سورج طلوع ہوتا ہے اس میں سب سے بہترین جمعہ کا دن ہے،اسی دن میں حضرت آدم پیدا ہوئے، اسی دن جنت میں داخل کیئے گئے، اور اسی دن اس سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن‘‘ [مسلم].

2-فضائلِ جمعہ میں نمازِ  جمعہ کے بھی فضائل شامل ہیں، کیونکہ نماز اسلام کے فرائض اور مسلمانوں کے جمع ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس نے نمازکی ادائیگی میں غفلت برتی اللہ تعالیٰ اس کے قلب پر مہر لگادیتے ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں مذکور ہے۔

3-جمعہ کے دن ایک گھڑی ہوتی ہے اس میں دعا قبول کی جاتی ہے،حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

فيه ساعة. لا يوافقها عبد مسلم، وهو يصلّي، يسأل الله شيئًا، إلا أعطاه إياه". زاد قتيبة في روايته: وأشار بيده يُقَلَلها۔[رواه البخاري 935 ومسلم 852]
(اس میں ایک گھڑی ایسی ہے، جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے) ۔[متفق عليه].

ابن قیمؒ نے قبولیت دعا کی گھڑی کے تعیین کے سلسلے میں اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد حدیثِ رسول کی روشنی میں ذیل کے دو قول کو ترجیح دی ہیں۔

اول: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے۔ [مسلم].

دوم: جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک، اور یہی قول راجح ہے۔ [زاد المعاد 1/389، 390].

4- جمعہ کے دن کا صدقہ دیگر ایام کے صدقوں سے بہتر ہے۔

ابن قیم ؒفرماتے ہیں: (ہفتے  کے دیگر دنوں کے مقابلے جمعہ کے دن کے صدقہ کا ویسا ہی مقام ہے جیسا کہ سارے مہینوں میں رمضان کا مقام ومرتبہ ہے۔) حضرت کعب کی حدیث میں ہے: ’’...جمعہ کے دن صدقہ دیگر ایام کے مقابلے (ثواب کے اعتبار سے) عظیم ہے۔ [موقوف صحيح وله حكم الرفع].

5- یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اپنے مومنین بندوں کے لیے جنت میں تجلی فرمائیں گے، انس بن مالک ؓ اللہ تعالیٰ کے فرمان}وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ{ [ق:35]  کے بارے میں فرماتے ہیں: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ہر جمعہ تجلی فرمانا ہے۔

6-جمعہ کا دن ہفتہ میں بار بار آنے والی عید ہے، حضرت عباس ؓ سے مروی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إن هذا يوم عيد جعله الله للمسلمين فمن جاء إلى الجمعة فليغتسل۔ [رواه ابن ماجه 908 وحسنه الألباني].

(یہ عید کا دن ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے طے کیا ہے، لہٰذا جسے جمعہ ملے وہ اس دن غسل کرے)

7-یہ وہ دن ہے جس میں گناہوں کی معافی ہوتی ہے: سلمان سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يغتسل رجلٌ يوم الجمعة، ويتطهر ما استطاع من طهرٍ، ويدهن من دهنه، أو يمس من طيب بيته، ثم يخرج فلا يفرق بين اثنين، ثم يصلّي ما كتب له، ثم ينصت إذا تكلم الإمام، إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى» [رواه البخاري 883]
(جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں)۔ [البخاري].

8-جمعہ کے لیے چل کرجانے والے کے ہر قدم پر ایک برس کے روزے رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے، حضرت اوس بن اوس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: من غَسَّل يوم الجمعة واغتسل، وبكَّر وابتكر، ومشى ولم يركب، ودنا من الإمام فاستمع ولم يلغ كان له بكل خطوة عمل سنّة أجر صيامها وقيامها»  [رواه ابن ماجه 898 وأبو داود 345وصححه الألباني]

(جس نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اور مسجد اول وقت پہنچ کر خطبہ اولی میں شریک رہا، اور امام سے قریب بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔) [أحمد وأصحاب السنن وصححه ابن خزيمة].

الله أكبر!! جمعہ کے لیے جانے پر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب؟!

تو ان نعمتوں کو پانے والے کہاں ہے؟! ان عظیم لمحات کو گنوانے والے کہاں ہے؟!

ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [الحديد:21].

(یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے)

9- ہفتے کے پورے دنوں میں جہنم کو تپایا جاتا ہے مگر جمعہ کے دن اس عظیم دن کے اکرام وشرف میں یہ عمل بند رہتا ہے[دیکھیے: زاد المعاد 1/387].

10-جمعہ کے دن یا رات میں فوت ہونا حُسن خاتمہ کی علامت ہے، کیونکہ جمعہ کے دن مرنے والا قبر کے عذاب اور فرشتوں کے سوالات سے محفوظ رہتا ہے، حضرت ابن  عمرو ؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما من مسلمٍ يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة، إلا وقاه الله فتنة القبر» [رواه التّرمذي 1074 وحسنه الألباني]

(جو مسلمان جمعہ کے دن یا رات میں فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسےقبر کی آزمائش سے بچادیتے ہیں)۔ [أحمد والترمذي وصححه الألباني].

جمعه أحكام اور آداب

پیارے مسلم بھائی:

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ جمعہ کے دن کی تعظیم کرے، اس دن کے فضائل کو غنیمت جانے اور اس دن ہر قسم کی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے، یومِ جمعہ کے کچھ آداب اور احکام ہیں، جن سے آراستہ ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

ابن قیمؒ فرماتے ہیں: (نبی کریم ﷺ کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ ﷺ دیگر ایام کے مقابلے مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے،علماء کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ آیا جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن۔ [زاد المعاد 1/375].

دیکھیے- پیارے بھائی – کتنے جمعہ مہمان کی طرح گذر گئے، اور آپ نے کوئی توجہ بھی نہیں دی، بلکہ بہت سے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ  وہ جمعہ کے دن  اس لیے انتظار کرتے ہیں تاکہ اس میں نافرمانی ِرب اور معاصیِ الہٰی کریں۔

احکام وآداب:

1-مستحب ہے کہ امام جمعہ کی فجر میں مکمل سورہ سجدہ اور سورہ دھر پڑھے،جیسا کہ آپ ﷺ کا طریقہ تھا، اور کسی ایک سورت پر اکتفاء نہ کرے، جیسا کہ بعض ائمہ کا معمول ہے۔

2-جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت اوس بن اوس ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنّ من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خُلق آدم وفيه قُبض وفيه النّفخة وفيه الصّعقة فأكثروا عليّ من الصّلاة فيه فإنّ صلاتكم معروضة عليّ» [رواه أبو داود 1047 والنّسائي 1373 وابن ماجه 896 وصححه الألباني]

 (تمہارے دنوں میں افضل ترین دن جمعہ ہے،اسی روز آدم کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی اور اسی دن صور پھونكا جائےگا، اور اسى ميں بے ہوشى طارى ہو گى، لہذا مجھ پر اس دن كثرت سے درود پڑھو، كيونكہ تمہارا درود مجھ پر پيش كيا جاتا ہے)

3- نماز ِجمعہ ہر آزاد مکلف مقیم مرد پر فرض ہے، لہٰذا کسی مسافر، کسی عورت یا غلام پر جمعہ واجب نہیں ہے، ہاں ان میں سے کوئی اگر جمعہ میں شریک ہوجائے توان کی نماز ِجمعہ درست ہے، بیماری یا خوف وغیرہ جیسے عذر کی وجہ سے نماز جمعہ ساقط ہوجاتی ہے۔ [الشرح الممتع 5/7-24].

4-جمعہ کے دن غسل کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:

’’إذا جاء أحدكم إلى الجمعة فليغتسل‘‘

(جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے  تو چاہیے کہ غسل کرے) [متفق عليه].

5-خوشبو کا استعمال کرنا، مسواک کرنا اور اچھا لباس زیبِ تن کرنا، جمعہ کے آداب میں شامل ہے، حضرت ابوایوب ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب امرأته إن كان لها ولبس من صالح ثيابه ثم لم يتخط رقاب الناس ولم يلغ عند الموعظة كانت كفارة لما بينهما» [رواه أبو داود 347 وحسنه الألباني].

 (جس نے جمعہ کے دن غسل کیا،اگر خوشبو ہوتو استعمال کیا، بہترین کپڑے پہنے، پھر اطمینان کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، اگر موقع ملے تو دو رکعت پڑھی، کسی کو تکلیف نہیں دی، پھر امام کے خطبہ ختم کرنے تک خاموش رہا، (اس کا یہ عمل) دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے)۔

ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

غسل يوم الجمعة على كل محتلم. وسواك. ويمس من الطّيب ما قدر عليه» [رواه مسلم 846]

 (جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے، اسی طرح مسواک کرنا اور اگر قدرت ہوتو خوشبو کا استعمال کرنا)

6-نماز ِجمعہ کے لیے جلدی جانا مستحب ہے، لیکن  آج اس سنت کا جنازہ نکل رہا ہے، اللہ تعالیٰ اس سنت کو زندہ کرنے والوں کی زندگی میں برکت دے۔

اور آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

 إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الأول فالأول. فإذا جلس الإمام طووا الصحف وجاؤوا يستمعون الذّكر. ومثل المهجر الّذي يهدي البدنة. ثم كالّذي يهدي بقرة. ثم كالّذي يهدي الكبش. ثم كالّذي يهدي الدّجاجة. ثم كالّذي يهدي البيضة» [رواه مسلم 850]

(جب جمعہ كا دن ہوتا ہے تو مسجد كے ہر دروزاے پر فرشتے كھڑے ہو كر پہلے آنے والے كو پہلے لكھتے ہيں، سب سے پہلے آنے والا شخص اس كى طرح ہے جس نے اونٹ قربان كيا ہو، اوراس كے بعد اس كى طرح جس نے گائے قربان كى اور اس كے بعد جس نے مينڈھا قربان كيا ہے، پھر وہ جس نے مرغى قربان كى ہو پھر وہ جس نے انڈا قربان كيا ہو، اور جب امام نکلے اور منبر پر بيٹھ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپيٹ كر ذكر سننے آجاتے ہيں)

بھائیو:

خیر کے کاموں میں سبقت کرنے والے کہاں ہیں ؟!

نمازوں کے لیے پہلے جانے والے کہاں ہیں ؟!

عزم وہمت اور پامردی والے لوگ کہاں چلے گئے ؟!

7-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام کے خطبے کے لیے آنے تک لوگ نفل نمازوں، ذکر اور تلاوت قرآن میں مصروف رہیں۔

8-خطبہ کے دوران خاموش رہنا اور بغور خطبہ سننا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت، والإمام يخطب، فقد لغوت [متفق عليه].

(اگر تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو، تو تم نے غلطی کی)۔ اور احمد کی روایت میں اس طرح ہے: «’’اور جس نے غلطی کی اس( جمعہ  کے اجر وثواب) میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے‘‘۔

اور ابوداؤد کی روایت میں ہے: «اور جس نے غلطی یا خطا کی؛ تو وہ (جمعہ کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے) ظہر کا اجر پاتا ہے۔ [صححه ابن خزيمة].

9-جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت مستحب ہے، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة، أضاء له من النّور ما بين الجمعتين [صححه الألباني 6470 في صحيح الجامع]

(جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے)۔

10- جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دُخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کے لیے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد 1/382].

11-بطور خاص جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا اور اس کی رات کو قیام کے لیے خاص کرنا مکروہ ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا تختصّوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي. ولا تخصّوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام. إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم [رواه مسلم 1144]

 (جمعہ کی رات کو قیام کے لیے خاص نہ کرو، اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزے کے لیے  خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کوئی سلسلہ وار  روزے رکھ رہا ہو)۔

12-جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا خواہاں ہو اسے چاہیے کہ وہ جمعہ سے پہلے والے دن (جمعرات) یا بعد والے دن(ہفتہ) کو رکھے؛ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يصومنّ أحدكم يوم الجمعة إلا يوما قبله أو بعده [رواه البخاري 1985]

( تم میں سے کوئی جمعہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے،مگر یہ کہ اس سے پہلے والے ایک دن(بھی) رکھے یا بعد والے دن)۔

13-جمعہ کی سنتیں: حدیث میں آیا ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے‘‘ [متفق عليه] اسی طرح یہ بھی وارد ہے کہ آپ ﷺ نے جمعہ کے بعد نماز پڑھنے والوں کو چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا‘‘[مسلم].

اسحاق کہتے ہیں: اگر جمعہ کی (سنتیں) مسجد میں پڑھے تو چار پڑھے، اور اگر گھر میں پڑھے تو دو رکعت پڑھے۔ ابوبکر الاثرم کہتے ہیں: یہ دونوں بھی جائز ہے۔ [الحدائق لابن الجوزي 2/183].

14-اس شخص کے لیے مستحب ہے جو مسجد میں اُس وقت داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو کہ بیٹھنے سے پہلے دو  مختصر رکعتیں پڑھ لے؛ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ خطبۂ  جمعہ دے رہے تھے، سلیک الغطفانی آئے، اور بیٹھ گئے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا جاء أحدكم، يوم الجمعة، والإمام يخطب، فليركع ركعتين، وليتجوز فيهما [رواه مسلم 875]

( جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن مسجد آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے)۔

15-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام نمازِ جمعہ میں سورہ ٔ جمعہ اور سورہ ٔ منافقون، یا سورۂ  اعلی اور غاشیہ پڑھے، نبی کریم ﷺ یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے‘‘۔ [مسلم].

جمعہ اور ہماری غلطیاں

أ-نمازیوں کی غلطیاں:

1-بعض لوگ نمازِ جمعہ کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

لينتهين أقوام عن ودعهم الجمعات. أو ليختمن الله على قلوبهم. ثم ليكونن من الغافلين [رواه مسلم 865]

(خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رُک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے)۔

2-بعض لوگ نمازِ جمعہ کے لیے آتے وقت جمعہ کی نیت کے استحضار کا خیال نہیں رکھتے، اور عام معمول کے مطابق مسجد پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ جمعہ اور دیگر عبادات کی درستگی کے لیے نیت کا ہونا شرط ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

إنّما الأعمال بالنّيات [رواه البخاري 1] (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔

3-جمعہ کی رات میں دیر تک شب بیداری کرنا، اور نمازِ فجر کے وقت سوتے رہنا، جس کی وجہ سے جمعہ کے دن کا آغاز ہی کبیرہ گناہ سے ہوتا ہے، حالانکہ فرمان نبوی ﷺ ہے:

أفضل الصّلوات عند الله صلاة الصبح يوم الجمعة في جماعة [صححه الألباني 1566 في السّلسلة الصّحيحة]

(اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازوں میں افضل ترین نماز جمعہ کے دن کی باجماعت فجر کی نماز ہے)۔

4-خطبہ جمعہ میں شریک ہونے میں غفلت اورر سستی سے کام لینا،بعض لوگ خطبہ کے دوران مسجد پہنچتے ہیں اور بعض کا تو یہ حال ہوتا ہے اس وقت مسجد پہنچتے ہیں جب جمعہ کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔

5-جمعہ کا غسل چھوڑنا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، مسواک کا اہتمام نہ کرنا اسی طرح جمعہ کے دن اچھے کپڑے زیب تن نہ کرنا۔

6-اذان جمعہ کے بعد خریدوفروخت کرنا؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

}يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ{ [الجمعة:9].

(مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے گی تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔)

ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے. ‘‘

7-بعض افراد نافرمانی کے کاموں کو جمعہ کے دن عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، جیسے بعض لوگ کمالِ نظافت خیال کرتے ہوئے داڑھی کاٹتے ہیں۔

8-بعض لوگ اگلی صفوں کے پُر ہونے سے پہلے ہی مسجد کے آخری حصے میں بیٹھ جاتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو مسجد کے اندرونی حصے میں جگہ ہونے کے باوجود بیرونی حصے میں ہی بیٹھتے ہیں۔

9-کسی شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر اس جگہ پر خود بیٹھنا: حضرت جابر ؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يُقيمنَّ أحدكم أخاه يوم الجمعة. ثمّ ليخالف إلى مقعده فيقعد فيه. ولكن يقول: افسحوا۔ [رواه مسلم 2178]

(جمعہ کے دن کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے،کہ اس جگہ پر خود بیٹھے، بلکہ کہے: جگہ کشادہ کرو )۔

10-گردنوں کو پھلانگنا اور دو کے درمیان تفریق کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں پر تنگی کرنا۔ ’’ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايك شخص لوگوں كى گردنيں پھلانگتا ہوا آيا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے فرمايا:

اجلس فقد آذيت وآنيت [رواه ابن ماجه 923 وصححه الألباني]  (بیٹھ جا تونے تکلیف دی اور تاخیر کی)۔

11-باتوں یا تلاوت کے ذریعے آواز بلند نہ کرے، کہ نمازیوں اور دیگر تلاوت کرنے والوں کو دشواری کا سامنا  نہ ہو۔

12-بغیر عذر کے اذان کے بعد مسجد سے نکلنا۔

13-خطبہ کے دوران خطیب کی جانب توجہ نہ دینا۔

14-دونوں خطبوں کے درمیان دو رکعت کا پڑھنا، ہاں دونوں خطبوں کے دوران کے وقفے میں دعا اور استغفار پڑھنا مشروع ہے۔ لیکن  نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔

15- نماز کے دوران کثرت سے حرکت کرنا، اور امام کا سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکلنا، اور نماز کے بعد کے اذکار چھوڑ کر مسجد کے دروازوں پر بھیڑ کرنا۔

ب-خطباء اور واعظین کی غلطیاں:

1-خطبہ کا طویل کرنا اور نماز کا مختصر کرنا، حضرت عمارہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن طول صلاة الرّجل، وقصر خطبته، مئنة من فقهه -أي علامة- فأطيلوا الصّلاة واقصروا الخطبة. وإن من البيان سحرًا [رواه مسلم 869]

(آدمی کا نماز کو طویل کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے فقیہ ہونے کی علامت ہے، تو نماز کو طویل کرو اور خطبہ کو مختصر، اور بیشک تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے)۔

2-خطبہ کے لیے مناسب موضوع کا انتخاب نہ کرنا اور اسی طرح مناسب تیاری نہ کرنا، اور ایسے موضوعات پر تقریر کرنا جس کی لوگوں کو کوئی خاص ضرورت نہ ہو۔

3-بہت سے  واعظین اور خطباء لغوی  غلطیوں کی جانب توجہ نہیں دیتے۔

4-بعض خطباء موضوع اور ضعیف احادیث اور بغیر سوچے سمجھے غلط اقوال نقل کرتے ہیں۔

5- بعض خطباء دوسرے خطبہ میں صرف دعا پر اکتفاء کرتے ہیں اور اسی کے عادی ہیں۔.

6-خطبہ کے دوران قرآن کی کسی بھی آیت کا پیش نہ کرنا، یہ انداز نبی کریم ﷺ کے طریقے کے خلاف ہے، حضرت حارثہ بنت نعمان فرماتی ہیں: میں نے سورۂ}ق وَالْقُرْآَنِ الْمَجِيدِ{ زبانی یاد نہیں کیا مگر ہر جمعہ آپ ﷺ سے خطبوں میں سن سن کر۔ [مسلم].

7-بعض خطباء کا خطبہ کے دوران جوش وولولہ کا اظہار نہ کرنا،حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:

كان رسول الله -صلّى الله عليه وسلم- إذا خطب احمرّت عيناه، وعلا صوته، واشتد غضبه كأنه منذر جيش. [رواه مسلم 867]۔

(نبی کریم ﷺ  جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتا تھا،اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں )۔

وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.

http://www.wathakker.info/ur/flyers/view.php?id=805



مزید پڑھیں:

Also Related:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
SalaamOne سلام

Humanity, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
Web,Books, Articles, Magazines,, Blogs, Social Media,  Videos
Over 3 Million visits/hits

Blasphemy against Prophet Muhammad (pbuh) توہین رسالتﷺ



.سم الله الرحمن الرحيم
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر. جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا.




توہین قرآن اور توہین رسالتﷺ  کے معاملہ پر مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی بہت حساس ہیں - اس سنگین جرم کی سزا قانون میں موجود ہے جس پر شاز ہی عمل درآمد ہوا- اس قانون کے مطابق پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش،یا انکے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے انکے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو، یا انکے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا ، ان سب کی سزا عمر قید یا موت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا-
 مغرب کے سیکولر اور لا مذہبی معاشرہ میں اعلی مذہبی شخصیات، پیغیمبران کی توہین کو  نام نہاد آزادی اظھار کہہ کر اگنور کیا جاتا ہے- مگر وہاں یہودیوں کے دوسری جنگ عظیم میں ہولو کاسٹ کا انکار جرم ہے اور انکاری  intellectuals کو سزائیں دے جاتی ہیں- ابھی کچھ عرصہ پہلے کچھ  فس بک ، ٹویٹرز اکونٹس سے (یه  بلاگرزنہیں ) نے پاکستان میں توہین رسالتﷺ کی- عوام سر تا پا احتجاج میں ہیں- معاملہ عدالت میں ہے- 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ جس کسی نے بھی توہین رسالت کی وہ قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتا اور خبر بیچنے کے لیے ناموس رسالتؐ بیچنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدس ہستیوں کی شان میں سوشل میڈیا پر گستاخی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں ہورہی ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے علما، صحافیوں اور عوام سے گزارش کی کہ میرے حق یا عاصمہ جہانگیر کی مخالفت میں سوشل میڈیا پر کسی قسم کی کوئی مہم نہ چلائی جائے۔
میڈیا پراس سلسلے میں سیکولر، لبرل لابی سوالا ت اٹھا رہی ہے کہ قرآن میں اس کو جرم نہیں کہا، اس کو اور دوسرے سوالات  کو address کرنے کی کوشس ہے-اس کے ساتھ توہین رسالتﷺ کی مسلمانوں کے لیے اہمیت کا بھی جائزہ لیا ہے- 
محمد رسول الله ﷺ سے محبت مسلمان کے ایمان کا ایک اہم جزو ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین” (متفق علیہ)
“تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاداور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔”
ایک دوسری حدیث میں جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تین چیزیں جس کے اندر ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پائےگا۔
۱۔ اللہ اور اس کا رسول، اس کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ۔
۲۔ آدمی صرف اللہ کے لیے کسی سے محبت کرے اور اللہ ہی کے لیے کسی سے نفرت کرے۔
۳۔ کفر میں دوبارہ جانے کو وہ اتنا ہی ناپسند کرے، جتنا کہ وہ جہنم میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (متفق علیہ)
اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی کچھ علامتیں ہیں، جن کو علماء نے ذکر کیا ہے اور تفصیل سے ان کو بیان کیا ہے، جو کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں جیسے رسول کی اقتداء ، آپ کی سنت کی پیروی اور آپ پر درود و سلام بھیجنا وغیرہ۔ مسلمان چاہے کتنا بھی گناہگار ہو، وہ رسول الله ﷺکی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا، اورناموس رسول کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا-
توہین رسالت اور قرآن:
گستاخ رسول ﷺ دنیا کی بدترین مخلوق ہے؛ کیونکہ وہ اپنے اس قبیح عمل سے الله ، رسول ﷺاور مومنین کو بھی تکلیف پہنچا تا ہے- سورہ احزاب (33) کی آیات  56,57,58 کی ترتیب قابل غور ہے، پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ رسول الله ﷺ   پر درود و سلام فرماتے ہیں ، پھر الله اور رسول کو  اذیت کا ذکر اور پھر مومنوں کو اذیت پہنچنا صریح گناہ قرار دیا:
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿٥٧﴾ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿احزاب33:58)
ترجمہ : اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو (56) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے (57) اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے ﴿33:58)
مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی گستاخی عام مومنوں کی گستاخی کی طرح نہیں ہے۔ اللہ تعالی کو ایذا ، تکلیف اور ضرر کوئی نہیں پہنچا سکتا- اللہ کی طرف ایذا کی نسبت کرنا دراصل بالخصوص اس کے رسولﷺ کو ایذا دینا ہے یعنی رسول اللہﷺ کی ایذا و تکلیف کو اللہ اپنی ایذا فرماتا ہے- جب رسول اللہﷺ کو  ایذا و تکلیف پھنچے گی تو مومنین بھی  ایذا و تکلیف میں ہوں گے- لہٰذا گستاخ رسولﷺ الله ، رسولﷺ اور تمام مومنین کو بیک وقت ایذا پہنچا رہا ہے- ایسا جرم اور گناہ عظیم شاید ہی کوئی اور ہو،بلا شک وہ ملعون سخت ترین سزا کا مستحق ہے- ایسے مجرم کےانسانی ہمدردی کی آڑ میں  مدد گاراور ہمدرد خود ہی اپنے جرم اور گناہ کی سنگینی  کا اندازہ لگا سکتے ہیں -
..........................
میرے حضورﷺ کا اخلاق کس قدر عظیم ہے!
احادیث اور سیرت کی کتابوں میں بے شمار واقعات ہیں جو بتلاتے ہیں کہ ہمارے حضورﷺ کے اخلاق اس قدر بلندوبالا ہیں کہ انسانی تاریخ ایسے واقعات پیش کرنے سے تہی دامن ہے مگر تحقیق کرتے ہوئے اپنے حضورﷺ کے ایک فرمان پر میری نظر پڑی تو حضورﷺ کا اخلاقی رویہ مجھے آسمان کے افق پر ایک ایسے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے حسین سمندر کی صورت میں نظر آیا، جسے میں دیکھتا ہی رہ گیا اور حیرتوں کے جہان میں انگشت بدنداں ہو کر حضورﷺ کی محبتوں کے نورانی دریا میں تیراکی کرنے لگا۔ لوگو! میرے حضورﷺ نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے اک نصیحت آموز جملہ ارشاد فرمایا!
لَاتَسُبُّوْا الشَّیْطَانَ وَتَعُوْذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّہٖ '' شیطان کو گالی مت دو‘‘ ہاں! اتنا ضرور کہ اس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ مانگتے رہا کرو مذکورہ حدیث شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اپنے سلسلہ صحیحہ میں لائے ہیں اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ قارئین کرام! شیطان کو گالی دینے سے میرے حضورﷺ نے منع کیا۔ ہاں ہاں! اس کو گالی دینے سے منع کیا جو برائیوں کا منبع ہے، جو فساد کی جڑ ہے۔ انسانی قتل اور بربادیوں کا سرچشمہ ہے۔ میرے حضورﷺ نے اسے بھی گالی دینے سے منع کیا۔ ہاں ہاں! میرے حضورﷺ کی شریعت میں جب شیطان کو بھی گالی دینا جائز نہیں تو کسی برے آدمی کو گالی دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ کوئی آدمی چاہے جس قدر بھی برا ہے، شیطان جتنا برا تو نہیں پھر انسان کو گالی کیوں؟ شیطان کو گالی دینے سے اس لئے میرے حضورﷺ نے منع کیا کہ شیطان اگرچہ بے شمار گالیوں کا مستحق ہے مگر حضورﷺ کے امتی کے اخلاق کا تقاضا ہے کہ اس کا اخلاقی معیار اونچا رہے، وہ پست نہ ہونے پائے۔ اس کا شیطان کے معاملے میں اخلاقی معیار گر گیا تو پھر یہ گرتا ہی چلا جائے گا۔ اصل مسئلے کے حل کی جانب میرے حضورﷺ نے توجہ دلائی کہ شیطان کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ یہ ایک مہذب طریقہ ہے یہ فرض بھی ہے اور انسان کی ضرورت بھی ہے۔ جی ہاں! اپنا مہذبانہ فریضہ ادا کیا جائے مگر اخلاقی معیار بالا رکھا جائے۔ اس کو بٹہ نہ لگنے دیا جائے، داغ نہ پڑنے دیا جائے اور نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی سورۃ ''الانعام‘‘ میں توحید کو خوب خوب بیان فرمایا ہے اور پھر توحید والوں کو ایک سبق بھی یاد کروایا ہے، فرمایا ''(مسلمانو!) جن معبودوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں تم انہیں گالی نہ دینا۔ جواب میں یہ لوگ نادانی میں اللہ تعالیٰ کو گالی دے ڈالیں گے۔‘‘ (108) یعنی بت پرست مشرک اگر اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے تو اس کا باعث وہ مسلمان بنے گا جو مشرکین کے کسی بت کو گالی دے گا۔ اللہ اللہ! یہ ہے ہر اس مسلمان کا اخلاقی معیار جو قرآن پر ایمان رکھتا ہے۔ اسی طرح امام بخاری ''ادب‘‘ کے عنوان میں ایک حدیث لائے ہیں جس کے مطابق حضورﷺ اس شخص پر تعجب کرتے ہیں جو اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔ صحابہ نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! ایسا بدنصیب کون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دے گا، فرمایا جب کوئی کسی کے ماں باپ کو گالی دے گا تو جواب میں وہ بھی گالی دے سکتا ہے یوں کسی کے ماں باپ کو گالی دینے والے نے دراصل اپنے ماں باپ کو گالی دی۔ سبحان اللہ! یہ ہے وہ اخلاقی معیار جو حضرت محمد کریمﷺ نے انسانیت کو دیا۔ بخاری اور مسلم میں احادیث موجود ہیں کہ عرب کے حکمران، مدینہ کی سرکارحضرت محمد کریمﷺ کی خدمت میں یہودیوں کا ایک وفد ملاقات کے لئے گھر میں حاضر ہوا۔ آتے ہی انہوں نے ''اَلسَّامُ عَلَیْکُم‘‘ کہا۔ ''سام‘‘ کا معنی موت ہے یعنی ان بداخلاق لوگوں نے حضورﷺ کے پاس آ کر بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ حضرت عائشہؓ نے فوراً جواب دیا، موت تم پر ہو اور اللہ کی لعنت بھی ہو۔ اس پر حضورﷺ نے فوراً اپنی اہلیہ محترمہ کو ٹوکا اور فرمایا، اے عائشہؓ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرم خوئی کے حامل اخلاقی رویے کو پسند فرماتے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کی، اے اللہ کے رسولﷺ آپ نے سنا تو ہے کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں۔ فرمایا، میں نے صرف ''وَعَلَیْکُم‘‘ کہہ دیا۔ اب اگر تم نے ان کو جواب دینا ہی تھا تو جیسا انہوں نے کہا اتنا ہی جواب دیتیں۔ لعنت کا جو لفظ استعمال کیا، یہ زیادتی کر دی، لہٰذا زیادتی کیونکر کی؟ اللہ اللہ! یہ ہے میرے حضورﷺ کا عظیم اخلاق جس کی آپﷺ اپنی پوری امت کو تلقین فرما رہے ہیں کہ میری امت کے ہر شخص اور ہر خاتون کو تہذیب کے ایسے اعلیٰ مقام پر ہونا چاہئے کہ زیادتی کا جواب دینا بھی ہو تو صرف اسی قدر جس قدر زیادتی ہوئی ہے اور عظمت اخلاق کا نبوی تقاضا بہرحال یہ ہے کہ برابر کا جواب بھی نہ ہو۔ امریکہ کے سابق صدر بش کو عراق میں جب ایک شخص نے جوتا مارا تھا تو بعض جذباتی مسلمانوں نے اس پر مسرت اور خوشی کا اظہار کیا تھا مگر میں نے اس پر سخت برا منایا تھا، اس لئے کہ یہ انسانیت کی توہین تھی۔ انسانیت کی تکریم کے خلاف تھا، وہ قرآن جو میرے حضورﷺ پر نازل ہوا اس نے واضح بتلایا کہ ''ہم نے آدمؑ کی اولاد کو تکریم عطا فرمائی۔‘‘ (القرآن) بُش بھی اولادِ آدم میں سے ایک شخص ہے لہٰذا اسے جوتا کیوں؟ یہ طرز عمل میرے حضورﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے۔ روم کا بادشاہ یعنی اپنے دور کا بش جو تھا، میرے حضورﷺ نے اسے خط لکھا تو ''عظیم الروم‘‘ لکھا یعنی رومیوں کا عظیم حکمران... جی ہاں! حضورﷺ نے اسے عزت و تکریم کے ساتھ مخاطب فرمایا۔ آہ! ہم اپنے حضورﷺ کے مبارک رویّوں سے دور چلے گئے۔ اس کے بعد کتنے ہی لیڈروں کی طرف جوتے اچھالے گئے مگر آغاز کس نے کیا۔ میرے حضور کا کلمہ پڑھنے والے نے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم بدتہذیب لوگ ہیں۔ لوگو! اپنے دین کو بدنام نہ کرو، اپنے حضورﷺ کی مبارک سیرت کو سامنے رکھو۔ یاد رکھو! گولی کا زخم جسم پر لگتا ہے، وہ زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ جوتے کا توہین آمیز زخم دل پر لگتا ہے۔ یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ ایسا زخم کمینگی ہے اور بدتہذیبی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
حکمرانو! ایک بات پر غور کرو، اللہ تعالیٰ کی سب سے محبوب اور کائنات کی عظیم ہستی حضرت محمد کریمؐ کہ جنہوں نے انسانیت کو اخلاق کا اعلیٰ ترین درس دیا۔ بتلائو! ان کی اگر کوئی توہین کرے تو وہ کتنا بڑا بدبخت ہے۔ انسانیت کا مجرم اور پرلے درجے کا ملعون ہے۔ ایسے ملعون کو اللہ کا قرآن بھی ملعون کہتا ہے۔ ایسے بدترین جانوروں نے جو بلاگز بنائے، بتلائو، تم نے ایسے لوگوں کا کیا کیا؟ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں پاک فوج کے محبِ رسول آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کہ ان کے سکیورٹی اداروں نے ایسے بدبختوں کا پتہ چلایا اور ان کے مزاجوں کو دھلائی کے پراسس سے گزارا۔ ابھی تو وہ پراسس میں تھے کہ بعض نام نہاد آزادی کے سرخیل بول پڑے اور سیاسی حکمرانوں نے بیرونی پریشر پر ان کو ملک بدر کر دیا۔ حکمرانو! اللہ کے لئے سوچو، یہ تم نے کیا کیا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج محترم شوکت عزیز صدیقی کو عقیدت بھرا سلام کہ انہوں نے اس پرخوب خوب ایکشن لیا اور سوئی ہوئی وزارت داخلہ کی بھی آنکھ کھلی۔ اللہ کرے کہ حرمت رسولؐ کے مجرم جو بھگا دیئے گئے واپس لائے جائیں اور جو موجود ہیں وہ اپنے انجام کو پہنچیں۔ محسن انسانیتؐ کی حرمت و عزت کا تحفظ کرنے والے دونوں جہانوں میں سرخرو ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے ایک ممبر نے اپنے کولیگ کو جس طرح کے طعنے دیئے، گالیاں دیں، آج کل میڈیا پر جگ ہنسائی اور حکمران جماعت کی تذلیل کا جو سامان ہو رہا ہے، میں اس منظر کو حرمت مصطفیؐ کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ حکمرانوں نے حرمت رسولؐ کے دفاع سے غفلت اور کوتاہی کا جو ارتکاب کیا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ کا ایک معمولی جھٹکا ہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ پاکستان کے بانی حضرت قائداعظم رحمہ اللہ کا اپنا نام ''محمد علی‘‘ ہے۔ انہیں تو نام محمد سے اس قدر پیار تھا کہ لندن میں قانون کے اس ادارے میں داخلہ لیا جس کے بلیک سٹون پر دنیا کے عظیم قانون دانوں کے نام کی فہرست میں پہلا نام ''حضرت محمد کریمﷺ‘‘ کا تھا۔
آج ان کی مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نوازشریف صاحب کی حکمرانی میں توہین رسالت کے مجرم باہر بھاگ جائیں۔ یقین نہیں آتا کہ میاں نواز شریف کے دور میں کہ جنہیں سکون ملتا ہے تو حضورﷺ کے پڑوس ''ریاض الجنۃ‘‘ میں۔ ان کے دور حکمرانی میں گستاخ اس قدر دلیر ہو جائیں کہ سکون کے ساتھ باہر پرواز کر جائیں۔
یاد رہے! 23مارچ کو لاہور کے میدان میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح جس پنڈال میں قیامِ پاکستان کی بات کر رہے تھے۔ اس سائبان کی جھالر پر پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ آج اس مارچ میں امید ہے کہ میاں محمد نوازشریف صاحب کی حکومت حرمت رسولﷺ کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ (امیر حمزہ- دنیا )
http://dunya.com.pk/index.php/author/ameer-hamza/2017-03-17/18902/71305587#tab2
.............................
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اپنی طرف سے گستاخ بلاگرز کے سہولت کاروں نے بہت زبردست سازش رچائی تھی۔ جانے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے پراسرار گمشدگی کا ڈھونگ رچا کر ہماری خفیہ ایجنسیوں پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور جہموری دورِ حکومت میں فوج کے خلاف نعرے لگوائے۔ لیکن ان کا یہ پلان اس وقت زبردست طریقے سے فیل ہو گیا جب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اس معاملے میں کودے اور اپنے شو کے ذریعے بہت زبردست شعوری مہم کا آغاز کیا۔ اور جب یہ معاملہ بہت زیادہ ہائی لائٹ ہو گیا تو گمشدہ (مبینہ گستاخ) بلاگرز جس پراسرار طریقے سے غائب ہوئے تھے اسی پراسرار طریقے سے واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے. جبران ناصر جیسے سہولت کاروں نے جیو نیوز اور پیمرا سے مل کر عامر لیاقت کی آواز بند کروا دی لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا ہے کہ دوسروں کی آؤاز بند کروانے والوں کی اپنی گھگھی بندھ گئی جب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلا گیا اور اس معاملے میں براہ راست اعلیٰ عدلیہ، وزارت داخلہ اور دیگر ادارے کود پڑے- ایک اور جھوٹ اس وقت سامنے آیا جب وقاص گورایہ کے ایک سہولت کار ''عاطف توقیر'' نے جرمنی سے وقاص گورایہ کا اپنے کمپیوٹر پر لائیو ویڈیو انٹرویو کیا تو اس میں وقاص نے کسی قسم کے تشدد کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کوئی تشدد نظر آ رہا تھا۔ جب کہ اج بی بی سی پر وقاص گورایہ کا انٹرویو پڑھا تو وہ کہہ رہا تھا کہ مجھ پر بہت زیادہ تشدد ہوا۔ عاطف توقیر علم و ادب کے لبادے میں چھپا ہوا ایک سانپ ہے جس سے میری پہلے اس موضوع پر بحث چلتی رہتی تھی۔ آج جب اس سے رابطہ کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھے بلاک کر کے بھاگ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس کے جھوٹ کا پول کھل چکا تھا ایک اور مبینہ گستاخ بلاگر عاصم سعید جس نے پچیس فروری کو (یعنی رہائی سے ایک مہینہ بعد کی) تصویر شنگھائی ایگزیبیشن سینٹر سے اپلوڈ کی جس میں وہ خوش باش اور تندرست نظر آ رہا تھا، یہ جھوٹ بھی بے نقاب ہو گیا کہ ان پر کسی نے تشدد کیا تھا۔ بلکہ یہ سب اول دن سے رچایا گیا ایک ڈرامہ تھا۔ اور اب یہ کیس عدالت میں ہے جس کی وجہ سے لبرل سیکولر طبقعے کی نیندیں حرام ہوئی پڑی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اور ماروی سرمد تو لگتا ہے کسی بھی وقت کسی کو بھی کاٹ سکتی ہیں۔ فرنچ کٹیا دانشور صبح سے اپنی ''دیوارِ گریہ'' پر گریہ و زاری کر رہا ہے۔ انشاءاللہ اس بدمعاش اور گستاخ طبقعے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ ہم حکومت پر زور ڈال کر سوشل میڈیا کو پاکستان سے بند کروائیں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک مزے کی بات اس سارے قصے میں یہ تھی کہ جس ممتاز قادری کے خلاف اس لادین طبقعے نے وہ طوفانِ بدتمیزی مچایا ہوا تھا کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔۔۔ اور جب تک اس کو پھانسی کے پھندے پر نہ چھولا دیا گیا تب تک ان کے سینوں میں ٹھنڈک نہیں اتری۔ اور اسے محض اتفاق کہہ لیجیے یا پھر اللہ کی کرنی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسی ممتاز قادری کا عاشق ہے جس نے عشق رسول پر جان قربان کر دی۔ یعنی ان کی جان کل بھی ''عشقِ رسول'' میں پھنسی ہوئی تھی اور اج بھی ''عشقِ رسول'' میں ہی پھنسی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کا سب سے بڑا مقصد ہی اس ''عشقِ رسول'' کا خاتمہ تھا جو ہر مسلمان کا سرمایہ حیات ہے کتنی سازشیں رچائی تھیں مگر آخر میں خود ہی اپنے جال میں پھنس گئے۔ مجھے قران کے وہ الفاظ یاد آ گئے .وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ایک چال انہوں نے چلی، اور ایک چال اللہ چلتا ہے اور بے شک اللہ ایک بہترین بہترین چال چلنے والا ہے تحریر: عاشور عاصم
……………………………………...

(((((((((ایک سوال )))))))))))
قرآن کریم (سوره القلم, آیات نمر ٢ سے ١٦) میں ایک کافرکا نام لیے بغیر دس عیوب شمار کیے گئے ہیں- جن میں سب سے بڑا عیب؛ ا'اس کی اصل میں خطا' ہونا ہے-  وہ شخص کون تھا، ااکثر کے نزدیک ولید بن مغیرہ مراد ہے جو گستاخ  رسول الله ﷺ بھی تھا - سوال ھے کیا یہ آیات صرف مخصوص طور پر ایک شخص ( ولید بن مغیرہ) کے متعلق ھیں یا ان آیات کا اطلاق قیامت تک کے تمام گستاخوں پر ہوگا، یعنی جو بھی نبی ﷺ کا گستاخ ہوگا اس کی 'اصل میں خطا ھوگی'؟
اس سبجیکٹ پر تحقیق کے لیے مندرجہ ذیل جید مستند علماء کی تفاسیرکا مطالعہ کیا:
1. کنز الایمان - احمد رضا خان بریلوی
2. تفسیر ضیاء القرآن- پیر کرم شاہ الازہری
3. ڈاکٹر علامہ طاہر القادری:
4. تفسیر عشمانی؛ مولانا شبیر احمد عثمانی
5.تفہیم القرآن- از سید ابواعلیٰ مودودی
6. تفسیر بیان القرآن - مولانا اشرف علی تھانوی صاحب
7. تفسیر- مفتی تقی عثمانی
8. تفسیر ابن كثیر(آٹھویں صدی ھجری)
9.تفسیر جلالین: جلال الدین سیوطی, جلال الدین محلی (دسویں صدی ھجری) (English Translation)
تمام تحقیقی مواد اور لنکس  آپ کی سہولت اور مزید مطالعہ کے لیے ایھاں مہیا کر دیا گیا ہے: https://goo.gl/g4saFJ



خلاصہ تحقیق:
عمومی طور پر مفسرین کی تحریروں میں مندرجات اور طریقه بیان کے  عام فرق کے علاوہ کچھ خاص اختلاف نہیں معلوم ہوتا- احمد رضا خان بریلوی صاحب  'کنز الایمان' میں لکھتے ہیں: " ولید نے نبی کریم کی شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا 'مجنون' ، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اس کے دس واقعی عیوب ظاہر فرمادیئے اس سے سید عالم کی فضیلت اور شان محبوبیّت معلوم ہوتی ہے"۔
پیر کرم شاہ الازہری، تفسیر ضیاء القرآن میں (سوره القلم, آیات نمر ٢ سے ١٦) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :" ان آیات میں دس عیوب شمار کیے گئے ہیں۔ عام لوگوں میں ان عیوب میں سے دو چار کا پایا جانا تو ممکن ہے لیکن سب میں ان تمام عیوب کا بیک وقت پایا جانا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ چنانچہ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ ان آیات میں ایک خاص شخص کا ذکر ہورہا ہے جس میں یہ تمام نقائص بدرجۂ اتم موجود تھے ۔ وہ شخص کون تھا، اس سلسلہ میں تین کافروں کا نام لیا جاتا ہے ۔ ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث اور اخنس بن شریق ، اکثر کے نزدیک ولید بن مغیرہ مراد ہے۔"
واضح ہے کہ مختلف ادوار میں جو گستاخ رسول ﷺ  ہیں یا ہوں گے ان میں دس غلیظ خصوصیات کا اکٹھا ہونا مشکل ہے- قرآن کی آیات کسی خاص وقت یا افراد کے بارے میں بھی نازل ہوئیں، ان کا اس وقت سے بھی تعلق ہے اورابدی تعلق بھی مفسرین واضح کرتے ہیں- ضروری نہیں کہ ایسا ہر آیات پر لاگو ہو- سورہ لہب (111) ابو لہب کے متعلق نازل ہوئی، اسی طرح القریش (١٠٦)، سورہ روم ( 30) کی آیات  2سے 7 کا  تعلق اس وقت سے تھا-
مذکور مفسرین میں سے کسی مفسر کی تفسیر میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا جس سے ان آیات کوگستاخ رسول ﷺ کے نسشانیوں یا  دائمی پشینگوئی قرار دیا ہو- اگر کسی کوکسی جید عالم کی کوئی 'مستند' تحریر(ذاتی راے، opinion نہیں) ملے تو علم میں اضافہ ہو گا - (واللہ اعلم )
تحقیقی جائزہ:
پہلے مذکورہ آیات ، سورة القلم (آیت  2 تا 16) اور ترجمہ
بسم الله الرحمن الرحيم
مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ﴿٢﴾ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ﴿٣﴾ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ ﴿٥﴾ بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ ﴿٦﴾ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٧﴾ فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ ﴿٨﴾ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴿٩﴾ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ﴿١٤﴾ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿١٥﴾ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ ﴿١٦﴾
ترجمہ : کنز الایمان - احمد رضا خان بریلوی :
تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں (2) اور ضرور تمہارے لیے بے انتہا ثواب ہے (3) اور بیشک تمہاری خُو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے (4) تو اب کوئی دم جاتا ہے کہ تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے (5) کہ تم میں کون مجنون تھا، (6) بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکے، اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر ہے، (7) تو جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا، (8) وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑجائیں، (9) اور ہر ایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل [(ف 9) کہ جھوٹی اور باطل باتوں پر قسمیں کھانے میں دلیر ہے مراد اس سے یا 'ولید بن مغیرہ' ہے یا 'اسود بن یَغُوث' یا 'اخنس بن شریق' ۔ آگے اس کی صفتوں کا بیان ہوتا ہے-] (10) بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا (11) بھلائی سے بڑا روکنے والا حد سے بڑھنے والا گنہگار (12) عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ[ درشت خُو( بد مزاج ، بد زبان) اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا] ﴿13﴾  اس پر کہ کچھ مال اور بیٹے رکھتا ہے، (14) جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں (15) قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے (  القلم68:16)





ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا آیت (عتل زنیم) کون ہے؟


1. تفسیر- کنز الایمان - احمد رضا خان بریلوی :
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿68:13﴾
ترجمہ - درشت خُو( بد مزاج ، بد زبان) اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا (13)
(اصل میں خطا) یعنی بدگوہ تو اس سے افعال خبیثہ کا صدور کیا عجب ۔ مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا کہ محمد (مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وسلم) ) نے میرے حق میں دس باتیں فرمائیں ہیں نوکو تو میں جانتا ہوں کہ مجھ میں موجود ہیں لیکن دسویں بات اصل میں خطا ہونے کی اس کا حال مجھے معلوم نہیں یا تو مجھے سچ سچ بتادے ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا اس پر اس کی ماں نے کہا کہ تیرا باپ نامرد تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ مرجائے گا تو اس کا مال غیر لے جائیں گے تو میں نے ایک چرواہے کو بلالیا تو اس سے ہے ۔  http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=2&ipp=8&tid=68&urtrans_id=5&tafseer_id=3]
فائدہ : ولید نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا مجنون ، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اس کے دس واقعی عیوب ظاہر فرمادیئے اس سے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فضیلت اور شان محبوبیّت معلوم ہوتی ہے ۔



2. تفسیر ضیاء القرآن- پیر کرم شاہ الازہری
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿68:13﴾
ترجمہ : اکھڑ مزاج ہے، اس کے علاوہ بد اصل ہے
تفسیر- ان آیات میں دس عیوب شمار کیے گئے ہیں۔ عام لوگوں میں ان عیوب میں سے دو چار کا پایا جانا تو ممکن ہے لیکن سب میں ان تمام عیوب کا بیک وقت پایا جانا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ چنانچہ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ ان آیات میں ایک خاص شخص کا ذکر ہورہا ہے جس میں یہ تمام نقائص بدرجۂ اتم موجود تھے ۔ وہ شخص کون تھا، اس سلسلہ میں تین کافروں کا نام لیا جاتا ہے ۔ ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث اور اخنس بن شریق ، اکثر کے نزدیک ولید بن مغیرہ مراد ہے۔
مشکل الفاظ کے معانی: حلاف: کثیر الحلف بالباطل ۔ کثرت سے جھوٹی قسمیں کھانے والا۔ مہین: رجل حقیر۔ حقیر اور ذلیل آدمی ۔ ھماز والھامز : العیاب۔ ع یب جو ۔ نکتہ چیں۔ مشاء بنمیم: جو چغلی کھانے کے لیے بکثرت چلتا پھرتا رہے۔ معتد: متجاوز للحد۔ حد سے تجاوز کرنے والا۔ اثیم: کثیر الاثم۔ بڑا بدکار۔ عتل: الجافی الغلیظ ۔ اکھڑ مزاج ۔ الزنیم: الملصق بالقوم الدعی۔ یعنی جو اس قوم سے نہ ہو لیکن زبردستی اسے اس میں شامل کیا گیا ہو۔

3. ڈاکٹر علامہ طاہر القادری:
سورہ القلم  کی آیات نمبر 8 سے 18 تک ،  ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جتنے ذِلت آمیز اَلقاب باری تعالیٰ نے اس بدبخت کو دئیے آج تک کلامِ اِلٰہی میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں گستاخی کی، جس پر غضبِ اِلٰہی بھڑک اٹھا۔ ولید نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ بولا تھا، جواباً باری تعالیٰ نے اُس کے دس رذائل بیان کیے اور آخر میں نطفۂ حرام ہونا بھی ظاہر کر دیا، اور اس کی ماں نے بعد ازاں اِس اَمر کی بھی تصدیق کر دی۔ (تفسیر قرطبی، رازی، نسفی وغیرھم)-

4. تفسیر عشمانی؛ مولانا شبیر احمد عثمانی:
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿68:13﴾
اکھڑ مزاج ہے، اس کے علاوہ بد اصل ہے [یعنی ان خصلتوں کے ساتھ بدنام اور رسوائے عالم بھی ہے حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "کہ یہ سب کافر کے وصف ہیں آدمی اپنے اندر دیکھے اور یہ خصلتیں چھوڑے" (تنبیہ) { زَنِیْمٍ } کے معنی بعض سلف کے نزدیک ولدالزنا اور حرامزادے کے ہیں۔ جس کافرکی نسبت یہ آیتیں نازل ہوئیں وہ ایسا ہی تھا-
5. تفہیم القرآن- از سید ابواعلیٰ مودودی
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿68:13﴾
ترجمہ : اور اِن سب عیوب کے ساتھ  بد اصل ہے،
لفظ عُتُل استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں ا یسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو خوب ہٹاکٹا اور بہت کھانے پینے والا ہو، اور اس کے ساتھ نہایت بُد خُلق، جھگڑلو اور سفّاک ہو۔
لفظ زَنِیْم ۔ کلامِ عرب میں یہ لفظ  اُس ولدالزنا کے لیے  بولا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کافر ونہ ہو مگر اس میں شامل ہوگیا ہو۔ سعید بن جُبَیر ا ور شعبی کہتے ہیں کہ یہ لفظ اُس شخص کے لیےبھی بولا جاتا ہے جو لوگوں میں اپنے شر کی وجہ سے معروف و مشہور ہو۔
اِن آیت میں جس شخص کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں اُس کےبارے میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ کسی نے کہا ہےکہ یہ شخص وَلید بن مغیرہ تھا۔ کسی نے اَسْود بن عَبدِ لَغُیوث کا نام لیا ہے ۔ کسی نے اَخْنَس بن شُرَیق کو اس کا مصداق ٹھیرا یا ہے ۔ اور بعض لوگوں نے کچھ دوسرے اشخاص کی نشاندہی کی ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں نام لیے بغیر صرف اُس کے اوصاف بیان کر دیے گئے ہیں۔ اِس سے معلو م ہوتا ہے کہ مکہ میں وہ اپنے اِن اوصاف کے لیے اتنا مشہور تھا کہ اس کانام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی یہ صفات سنتے ہی ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اشارہ کس کی طرف ہے- [http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/0_Tafheem.html ]

6. تفسیر بیان القرآن - مولانا اشرف علی تھانوی صاحب
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿68:13﴾
ترجمہ : سخت خو اور اس کے علاوہ بدذات ہے
زنیم لغت عرب میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو کسی دوسری قوم یا خاندان کی طرف منسوب کرے یہ آیت ولید بن مغیرہ مخزومی کے بارہ میں نازل ہوئی تھی جس میں دوسرے ذمائم کے علاوہ یہ برائی بھی تھی کہ اپنے آپ کو ایک اور خاندان کی طرف منسوب کرتا تھا۔



7. تفسیر-مفتی تقی عثمانی
جو کافر لوگ آنحضرت کی مخالفت میں پیش پیش تھے ، اور آپ کو اپنے دین کی تبلیغ سے ہٹانا چاہتے تھے ، ان میں کیئی لوگ ایسے تھے جن میں وہ اخلاقی خرابیاں پایئ جاتی تھیں جن کا تذکرہ (سوره القلم ) آیات ١٠ سے ١٢ میں فرمایا گیا ہے - بعض مفسرین نے ایسے افراد کا نام بھی لیا ہے کہ وہ اخنس بں شریق، اسود بن ابدیغوث یا ولید بن مغیرہ تھے-



8. تفسیر ابن كثیر:
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿68:13﴾
فرمایا بد خلق خوب کھانے پینے والا لوگوں پر ظلم کرنے والا پیٹو آدمی، لیکن اس روایت کو اکثر راویوں نے مرسل بیان کیا ہے، ایک اور حدیث میں ہے اس نالائق شخص پر آسمان روتا ہے جسے اللہ نے تندرستی دی پیٹ بھر کھانے کو دیا مال و جاہ بھی عطا فرمائی پھر بھی لوگوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے، یہ حدیث بھی دو مرسل طریقوں سے مروی ہے، غرض (عتل) کہتے ہیں جس کا بدن صحیح ہو طاقتور ہو اور خوب کھانے پینے والا زور دار شخص ہو ۔ (زنیم) سے مراد بدنام ہے جو برائی میں مشہور ہو، لغت عرب میں (زنیم) اسے کہتے ہیں جو کسی قوم میں سمجھا جاتا ہو لیکن دراصل اس کا نہ ہو، عرب شاعروں نے اسے اسی معنی میں باندھا ہے یعنی جس کا نسب صحیح نہ ہو، کہا گیا ہے کہ مراد اس سے اخنس بن شریق ثقفی ہے جو بنو زہرہ کا حلیف تھا اور بعض کہتے ہیں یہ اسود بن عبد یغوث زہری ہے، عکرمہ فرماتے ہیں ولد الزنا مراد ہے، یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جس طرح ایک بکری جو تمام بکریوں میں سے الگ تھلگ اپنا چرا ہوا کان اپنی گردن پر لٹکائے ہوئے ہو تو یہ یک نگاہ پہچان لی جاتی ہے اسی طرح کافر مومنوں میں پہچان لیا جاتا ہے، اسی طرح کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن خلاصہ سب کا صرف اسی قدر ہے کہ زنیم وہ شخص ہے جو برائی سے مشہور ہو اور عموماً ایسے لوگ ادھر ادھر سے ملے ہوئے ہوتے ہیں جن کے صحیح نسب کا اور حقیقی باپ کا پتہ نہیں ہوتا ایسوں پر شیطان کا غلبہ بہت زیادہ رہا کرتا ہے ، جیسے حدیث میں ہے زنا کی اولاد جنت میں نہیں جائے گی، اور روایت میں ہے کہ زنا کی اولاد تین برے لوگوں کی برائی کا مجموعہ ہے، اگر وہ بھی اپنے ماں باپ کے سے کام کرے۔ پھر فرمایا اس کی ان شرارتوں کی وجہ یہ ہے کہ یہ مالدار اور بیٹوں کا باپ بن گیا ہے ہماری اس نعمت کا گن گانا تو کہاں ہماری آیتوں کو جھٹلاتا ہے اور توہین کر کے کہتا پھرتا ہے کہ یہ تو پرانے افسانے ہیں اور جگہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے آیت (ذرنی ومن خلقت وحیداً) مجھے چھوڑ دے اور اسے جسے میں نے یکتا پیدا کیا ہے اور بہت سا مال دیا ہے اور حاضر باش لڑکے دیئے ہیں اور بھی بہت کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی طمع ہے کہ میں اسے اور دوں ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا یہ تو میری آیتوں کا مخالف ہے میں اسے عنقریب بدترین مصیبت میں ڈالوں گا اس نے غور و فکر کے اندازہ لگایا یہ تباہ ہو۔ کتنی بری تجویز اس نے سوچی میں پھر کہتا ہوں، یہ برباد ہو اس نے کیسی بری تجویز کی اس نے پھر نظر ڈالی اور ترش رو ہو کہ منہ بنا لیا، پھر منہ پھیر کر اینٹھنے لگا اور کہ دیا کہ یہ کلام اللہ تو پرانا نقل کیا ہوا جادو ہے، صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی کلام ہے، اس کی اس بات پر میں بھی اسے (سقر) میں ڈالوں گا تجھے کیا معلوم کہ (سقر) کیا ہے نہ وہ باقی رکھے نہ چھوڑے بدن پر لپیٹ جاتی ہے اس پر انتیس فرشتے متعین ہیں، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ اس کی ناک پر ہم داغ لگائیں گے یعنی اسے ہم اس قدر رسوا کریں گے کہ اس کی برائی کسی پر پوشیدہ نہ رہے ہر ایک اسے جان پہچان لے جیسے نشاندار ناک والے کو بہ یک نگاہ ہزاروں میں لوگ پہچان لیتے ہیں اور جو داغ چھپائے نہ چھپ سکے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ بدر والے دن اس کی ناک پر تلوار لگے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیامت والے دن جہنم کی مہر لگے گی یعنی منہ کالا کر دیا جائے گا تو ناک سے مراد پورا چہرہ ہوا ۔ امام ابو جعفر ابن جریر نے ان تمام اقوال کو وارد کر کے فرمایا ہے کہ ان سب میں تطبیق اس طرح ہو جاتی ہے کہ یہ کل امور اس میں جمع ہو جائیں یہ بھی ہو وہ بھی ہو، دنیا میں رسوا ہو سچ مچ ناک پر نشان لگے۔



9. .تفسیر جلالین: جلال الدین سیوطی, جلال الدین محلی (دسویں صدی ھجری) (English Translation)

English Tafsir - Jalalayn - by Jalal ad-Din al-Mahalli and Jalal ad-Din as-Suyuti:
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿68:13﴾
Coarse-grained, crude, moreover ignoble, an adopted son of Quraysh — namely, al-Walid b. al-Mughira, whose father claimed him after eighteen years; Ibn ‘Abbas said, ‘We know of no one whom God has described in the derogatory way in which He describes him, blighting him with ignominy that will never leave him (the adverbial qualifier [ba‘da dhalika, ‘moreover’] is semantically connected to zanim, ‘ignoble’)
More English translations of (68:13): http://www.islamawakened.com/quran/68/13/default.htm

(`Utul (cruel), and moreover Zanim.) "A man from the Quraysh who stands out among them like the sheep that has had a piece of its ear cut off.'' The meaning of this is that he is famous for his evil just as a sheep that has a piece of its ear cut off stands out among its sister sheep. In the Arabic language the Zanim is a person who is adopted among a group of people (i.e., he is not truly of them). Ibn Jarir and others among the Imams have said this. Concerning Allah's statement.
نتائج :
ان آیات (سوره القلم, آیات نمر ٢ سے ١٦) میں دس عیوب شمار کیے گئے ہیں۔ عام لوگوں میں ان عیوب میں سے دو چار کا پایا جانا تو ممکن ہے لیکن سب میں ان تمام عیوب کا بیک وقت پایا جانا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ چنانچہ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ ان آیات میں ایک خاص شخص کا ذکر ہورہا ہے جس میں یہ تمام نقائص بدرجۂ اتم موجود تھے ۔ وہ شخص کون تھا، اس سلسلہ میں تین کافروں کا نام لیا جاتا ہے ۔ ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث اور اخنس بن شریق ، اکثر کے نزدیک ولید بن مغیرہ مراد ہے۔"
واضح ہے کہ مختلف ادوار میں جو گستاخ رسول ﷺ  ہیں یا ہوں گے ان میں دس غلیظ خصوصیات کا اکٹھا ہونا مشکل ہے- قرآن کی آیات کسی خاص وقت یا افراد کے بارے میں بھی نازل ہوئیں، ان کا اس وقت سے بھی تعلق ہے اورابدی تعلق بھی مفسرین واضح کرتے ہیں- ضروری نہیں کہ ایسا ہر آیات پر لاگو ہو- سورہ لہب (111) ابو لہب کے متعلق نازل ہوئی، اسی طرح القریش (١٠٦)، سورہ روم ( 30) کی آیات  2سے 7 کا  تعلق اس وقت سے تھا- لہٰذا اکثر مفسرین اس پر متفق ہیں کہ مذکورہ آیات مکه کے ایک خاص کافر شخص جو اسلام دشمن اور گستاخ رسول بھی تھا کے متعلق نازل ہوئیں-
ان آیات میں مستقبل کے کسی گستاخ رسول کی پشین گوئی معلوم نہیں ہوتی اگرچہ ان خصوصیات کا ایسے ملعون میں موجود ہونا خارج از امکان نہیں-(واللہ اعلم)
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~`

رویے میرے حضورﷺ کے 



مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Lahore Resolution [23 March, 1940] by majinnah