Pages

اسلام اور ریاست : ایک جوابی بیانیہ



دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ہمارا کوئی متفقہ بیانیہ یعنی (Narrative) ہونا چاہیے۔ جس میں وضاحت ہو کہ ہم بحیثیت قوم اور ملت کیا چاہتے ہیں اور اُس کے لیے ہمارا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ بہت سے اہلِ علم نے اس سمت میں کوششیں بھی کی ہیں لیکن تاحال کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔
 مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ (Narrative) کو آپ نے سوچ سمجھ کر بنا لیا مگر جن کے لیے بنایا گیا ہے کیا وہ اسے سمجھ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
کسی بھی بیانیے کے عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ عوام میں اپنی تاریخ کا صحیح شعور موجود ہو۔ اُن کو تعلیمی نظام کے ذریعے بچپن ہی سے اپنی تاریخ اس انداز میں پڑھائی جائے کہ اُن کو میٹرک تک پہنچتے پہنچتے یہ پوری طرح معلوم ہو جائے کہ دنیا میں مسلمان پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
ہم کیوں اپنے بچوں کو یہ نہیں بتاتے کہ مسلمان معاشرہ بیسویں صدی کے آغاز تک اس قدر زوال کا شکار تھا کہ قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ لہٰذا یورپی اقوام نے مسلمانوں کی برائے نام خلافت بھی ختم کر دی۔ جن مسلمانوں کی خلافت ختم ہوئی یہ وہی لوگ تھے جن کے آباؤ اجداد سے یورپی اقوام مسلسل خوفزدہ رہیں۔ لیکن یورپی اقوام نے علوم و فنون کا سہارا لیا اور مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

 علامہ اقبال کو مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا بہت افسوس تھا اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا علاج کرنے کے لیے نسخہ تجویز کیا تھا کہ مذہب کے حوالے سے مسلمانوں میں جو ایک جامد سی کیفیت پائی جاتی ہے وہ مذہبی فکر (Thought) کی تشکیل نو سے ختم کی جا سکتی ہے۔ یہ تشکیل نو کرے کون۔ مسلمان ملکوں میں یا تو ملوکیت جیسا نظام موجود ہے یا ملائیت کا نظام قائم کرنے کی کوششیں دکھائی دیتی ہیں یا ایرانی تجربہ ہے جو ماضی میں یورپ میں پاپائے روم کی حکومت کے نظام کے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ مغربی اقوام، جو کہ مسلمان تہذیب کی دشمن ہیں، انہوں نے مسلمان ملکوں کو جمہوریت کی طرف راغب کرنا اس انداز میں شروع کیا ہوا ہے کہ جو جمہوریت اُن کی بات مانے وہ ٹھیک باقی سب غلط۔
ہمیں اپنے بچوں کو بڑی تفصیل سے مغربی اقوام کی تاریخ پڑھانی چاہیے کہ اِن اقوام نے کس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے پوری دنیا کو اپنا غلام بنایا۔ پھر اپنے بچوں کو یہ بھی پڑھانا چاہیے کہ مسلمانوں نے کس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی سے منہ موڑا اور زوال پذیر ہوتے گئے۔
جب ہمارے بچوں کو یہ سمجھ آئے گی کہ آج کل ترقی کرنے کا ہتھیار کلاشنکوف نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی دریافتیں کرنا ہے تو پھر یہ بیانیہ اُن کی سمجھ میں آئے گا کہ بطور مسلمان ہم کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جو مذہبی تعلیم ہم اپنے بچوں کو دیتے ہیں اس میں کیوں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ مذہبی جوش و جذبے کی مدد سے آپ اپنے سے دوگنا طاقت والے دشمن پر تو ختم پا سکتے ہیں مگر جب دشمن کی طاقت آپ سے دس ہزار گنا زیادہ ہو تو پھر پہلے آپ کو اپنی طاقت بڑھانی چاہیے۔(افضل رحمان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحر حال ایک شخص نے ہمت کرکہ ایک جوابی بیانیہ پیش کیا۔ اس کی خوب تنقید ہوئی مگر ایک بحث کا آغاز ہوا۔ آئیے معلوم کریں وہ کیا کہتا ہے،اور تنقید کرہے والے کیا کہتے ہیں۔
 ......................................
اس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے پوری دنیا میں پیدا کردی ہے، یہ اسی فکر کانتیجہ ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں۔ اس کے مقابل میں اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ (Counter Narrative) ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کو مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کردیا جائے تو سیکولر ازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کرسکتا ہے۔ اس کی تفصیلات کو تو بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے لیکن اس فکر کا جو حصہ اسلام اور ریاست سے متعلق ہے، اس کا ایک خلاصہ ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔

1۔ اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لئے ہے۔

 وہ اسی کے
دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے جو احکام معاشرے کو دیئے ہیں، اس کے مخاطب بھی درحقیقت وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہوں۔ لہٰذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، انہوں نے اس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور ان میں بسنے والے غیرمسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت (Protected minority) کی ہے اور ریاست کے اصل مالکوں سے وہ اگر کسی حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں تو اسی حیثیت سے کرسکتے ہیں۔



2۔ جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے

، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کرلیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہوسکتا ہے اور ہم اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔ پہلی صدی ہجری کے بعد ہی ، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہا ان کے درمیان موجود تھے، ان کی دو سلطنتیں ، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہوچکی تھیں اور کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر ان میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا، اس لئے کہ اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے برخلاف یہ بات سب نے کہی اور ہم بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر کسی جگہ قائم ہو جائے تو اس سے خروج ایک بدترین جرم ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کے مرتکبین جاہلیت کی موت مریں گے۔
3۔ اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے، جس طرح کے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیںکہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انہیں ایک ہی قوم ہونا چاہئے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ انما المومنین اخوۃ (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں) ۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ وہ دسیوں اقوام ، ممالک اور ریاستوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس لئے یہ تقاضا تو ان سے کیا جاسکتا ہے اور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، ان کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں ان کے کام آئیں، وہ مظلوم ہوں تو ان کی مدد کریں، معاشی اور معاشرتی روابط کے لئے ان کو ترجیح دیں اور ان پر اپنے دروازے کسی حال میں بند نہ کریں، مگر یہ تقاضا نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہو کر لازماً ایک ہی قوم اور ایک ریاست بن جائیں۔ وہ جس طرح اپنی الگ الگ قومی ریاستیں قائم کرسکتے ہیں، اسی طرح دین و شریعت پر عمل کی آزادی ہو تو غیرمسلم ریاستوں میں شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم بن کر بھی رہ سکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز قران و حدیث کی رو سے ناجائز نہیں ہے۔


4۔ دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں،


 اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کرلیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جاسکتا ہے لیکن اس کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کررہے ہوتے ہیں، اس لئے انہیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس طرح کے عقائد و اعمال کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اس کے لئے قیامت کا انتظار کرنا چاہئے۔ دنیا میں ان کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور ان کے ساتھ تمام معاملات اسی طرح ہوں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ ان کی غلطی ان پر واضح کریں، انہیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، ان کے عقائد و نظریات میں کوئی چیز شرک ہے تو اسے شرک اور کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اس پر متنبہ کریں، مگر ان کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا انہیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کردینا چاہئے، اس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، اس لئےکہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سےواقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔

5۔ شرک ، کفر اور ارتداد یقیناً سنگین جرائم ہیں،


 لیکن ان کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا کا حق ہے۔ قیامت میں بھی ان کی سزا وہی دے گا اور دنیا میں بھی، اگر کبھی چاہے تو وہی دیتا ہے۔ قیامت کا معاملہ اس وقت موضوع بحث نہیں ہے۔ دنیا میں اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں اپنی عدالت کے ظہور کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو اس کی طرف اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ یہ رسول اس قوم پر اتمام حجت کرتا ہے، یہاں تک کہ کسی کے پاس خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد خدا کا فیصلہ صادر ہوتا ہے اور جو لوگ اس طرح اتمام حجت کے بعد بھی کفروشرک پر اصرار کریں، انہیں اسی دنیا میں سزا دی جاتی ہے۔ یہ ایک سنت الٰہی ہے جسے قرآن نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’ہر قوم کے لئے ایک رسول ہے۔ پھر جب ان کا رسول آجاتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘ اس کی نوعیت بالکل وہی ہے جو اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی اور واقعہ خضر میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس کا عام انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم جس طرح کسی غریب کی مدد کے لئے اس کی اجازت کے بغیر اس کی کشتی میں شگاف نہیں ڈال سکتے، کسی بچے کو والدین کا نافرمان دیکھ کر اس کو قتل نہیں کرسکتے، اپنے کسی خواب کی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنے بیٹے کے گلے پر چھری نہیں رکھ سکتے، اسی طرح کسی شخص کو اس کے شرک ، کفر یا ارتداد کی سزا بھی نہیں دے سکتے، الا یہ کہ وحی آئے اور خدا اپنے کسی رسول کے ذریعے سے براہ راست اس کام کا حکم دے۔ ہر شخص جانتا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے۔

6۔ اس میں شبہ نہیں کہ جہاد اسلام کا حکم ہے۔


 قرآن اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہےکہ ان کے پاس طاقت ہو تو وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ کریں۔ قرآن میں اس کی ہدایت اصلاً فتنہ کے استحصال کے لئے کی گئی ہے۔ اس کے معنی کسی شخص کو ظلم و جبر کے ساتھ اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کے ہیں۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں Persecution کہا جاتا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ حکم ان کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحیثیت جماعت دیا گیا ہے۔ اس کی جو آیتیں قرآن میں آئی ہیں، وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ان کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میں کسی اقدام کا حق بھی ان کے نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ ان کے اندر کا کوئی فرد یا گروہ ہرگز یہ حق نہیں رکھتا کہ ان کی طرف سے اس طرح کے کسی اقدام کا فیصلہ کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر فرمایا ہے کہ مسلمانوں کا حکمران ان کی سپر ہے، جنگ اسی کے پیچھے رہ کر کی جاتی ہے۔

7۔ اسلام جس جہاد کا حکم دیتا ہے، وہ خدا کی راہ میں جنگ ہے،


 اس لئے اخلاقی حدود سے بے پروا ہوکر نہیں کیا جاسکتا۔ اخلاقیات ہر حال میں اور ہر چیز پر مقدم ہیں اور جنگ و جدل کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ان سے انحراف کی اجازت کسی شخص کو نہیں دی۔ چنانچہ یہ بالکل قطعی ہے کہ جہاد صرف مقاتلین (combatants) سے کیا جاتا ہے۔ اسلام کا قانون یہی ہے کہ اگر کوئی زبان سے حملہ کرے گا تو اس کا جواب زبان سے دیا جائے گا، لڑنے والوں کی مالی مدد کرے گا تو اس کو مدد سے روکا جائے گا، لیکن جب تک وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنے کے لئے نہیں نکلتا، اس کی جان نہیں لی جاسکتی۔ یہاں تک کہ عین میدان جنگ میں بھی وہ اگر ہتھیار پھینک دے تو اسے قیدی بنایا جائے گا، اس کے بعد اسے قتل نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن میں جہاد کا حکم جس آیات میں دیا گیا ہے، اس کے الفاظ ہی یہ ہیں کہ ’’اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں اور اس میں کوئی زیادتی نہ کرو، اس لئے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوران عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اگر جنگ کرنے والوں کے ساتھ نکلے بھی ہوں تو بالعموم مقاتل نہیں ہوتے ، زیادہ سے زیادہ لڑنے والوں کا حوصلہ بڑھاسکتے اور زبان سے انہیں لڑنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔

8۔ دور حاضر کے مغربی مفکرین سے صدیوں پہلے قرآن نے اعلان کیا تھا کہ امرھم شوری بینھم ( مسلمانوں کا نظم اجتماعی ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہوگا)


اس کے صاف معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی حکومت ان کے مشورے سے قائم ہو گی۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے گا۔ مشورہ دینے میںسب کے حقوق برابر ہوں گے۔ جو کچھ مشورے سے بنے گا، وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکے گا۔ جس چیز کو وجود میں لانے کے لئے مشورہ کیا جائے گا، ہر شخص کی رائے اس کے وجود کا حصہ بنے گی۔اجماع و اتفاق سے فیصلہ نہ ہو سکے تو فصل نزاعات کے لئے اکثریت کی رائے قبول کر لی جائے گی۔یہی جمہوریت ہے۔چنانچہ آمریت کسی خاندان کی ہو یا کسی طبقے کی، گروہ یاقومی ادارے کی، کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جا سکتی ، یہاں تک کہ نظم اجتماعی سے متعلق دینی احکام کی تعبیر و تشریح کے لئے دینی علوم کے ماہرین کی بھی نہیں۔ وہ یہ حق یقیناً رکھتے ہیں کہ اپنی تشریحات پیش کریں اور اپنی آرا کا اظہار کریں، مگر ان کے موقف کو لوگوں کے لئے واجب الا اطاعت قانون کی حیثیت اسی وقت حاصل ہو گی، جب عوام کے منتخب نمائندوں کی اکثریت اسے قبول کر لے گی۔ جدید ریاست میں پارلیمان کا ادارہ اسی مقصد سے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاست کے نظام میں آخری فیصلہ اسی کا ہے اور اس کا ہونا چاہئے۔ لوگوں کا حق ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں پر تنقید کریں اور ان کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتے رہیں، لیکن ان کی خلاف ورزی اور ان سے بغاوت کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ علما ہوں یا ریاست کی عدلیہ، پارلیمان سے کوئی بالا تر نہیں ہو سکتا ۔’ امرھم شوریٰ بینھم‘ کا اصول ہر فرد اور ادارے کو پابند کرتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں سے اختلاف کے باوجود عملاً اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے اس سے ہٹ کر جو حکومت قائم کی جائے گی ،وہ ایک ناجائز حکومت ہو گی، خواہ اس کے سربراہ کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں یا اسے امیر المومنین کے لقب سے نواز دیا جائے۔

9۔ مسلمانوں کی حکومت اگر کسی جگہ قائم ہو تو اس سے بالعموم نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔


 یہ تعبیر مغالطہ انگیز ہے، اس لئے کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے حالانکہ قرآن و حدیث میں یہ حق کسی حکومت کے لئے بھی ثابت نہیں ہے۔ اسلامی شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں، ایک جو فرد کو بحیثیت فرد دیئے گئے ہیں، اور دوسرے جو مسلمانوں کے معاشرے کو دیئے گئے ہیں، پہلی قسم کے احکام خدا اور بندے کے درمیان ہے اور وہ اس میں کسی حکومت کے سامنے نہیں بلکہ اپنے پروردگار ہی کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہٰذا دنیا کی کوئی حکومت اسے مثال کے طور پر، روزہ رکھنے یا حج عمرہ کے لئے جانے یا ختنہ کرانے یا مونچھیں پست رکھنے اور وہ اگر عورت ہے تو سینہ ڈھانپنے، زیب وزینت کی نمائش نہ کرنے یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتی ۔ اس طرح کے معاملات میں تعلیم و تربیت اور تلقین و نصیحت سے آگے اس کے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔
ا لایہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان، ومال آبرو کے خلا ف زیادتی کا اندیشہ ہو۔ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ دین کے ایجابی احکام میں سے یہ صرف نماز اور زکوۃ ہے جس کا مطالبہ مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی اگر چاہے تو قانون کی طاقت سے کر سکتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اس کے بعد وہ پابند ہے کہ ان کی راہ چھوڑ دے اور کوئی چیز ان پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ رہے دوسری قسم کے احکام تو وہ درحقیقت دیئے ہی حکومت کو گئے ہیں۔ اس لئے کہ اجتماعی معاملات میں وہی معاشرے کی نمائندگی کرتی ہے۔ علماء ارباب حل و عقد سے ان پر عمل کا مطالبہ کریں تو یقیناً حق بجانب ہوں گے اور اپنے منصب کے لحاظ سے ان کو کرنا بھی چاہئے۔ مگر یہ شریعت پر عمل کی دعوت ہے ،نفاذ شریعت کی تعبیر اس کے لئے بھی موزوں قرار نہیں دی جا سکتی ۔


یہ دوسری قسم کے احکام درج ذیل ہیں:


ا ۔مسلمان اپنے حکمرانوں کی رعایا نہیں، بلکہ برابر کے شہری ہوں گے اور قانون اور ریاست کی سطح پر ان کے بڑے اور چھوٹے اور شریف اور وضیع کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا ان کے جان و مال اور آبرو کو حرمت حاصل ہو گی، یہاں تک کہ حکومت ان کی رضا مندی کے بغیر زکوۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی ان پر عائد نہیں کر سکے گی۔ ان کے شخصی معاملات ،یعنی نکاح ،طلاق تقسیم، وراثت ، لین دین، اور اس نوعیت کے دوسرے امور میں اگر کوئی نزاع ان کےدرمیان پیدا ہو جائے گی تو اس کا فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہو گا ۔
 روز و شب کی نمازوں، ماہ رمضان کے روزوں اور حج و عمرہ کے لئے انہیں تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ان پر عدل و انصاف کے ساتھ اور امرھم شوریٰ بینھم کے طریقے پر حکومت کی جائے گی۔ ان کے قومی املاک اجتماعی ضرورتوں کے لئے خاص رہیں گے۔انہیں نجی ملکیت میں نہیں دیا جائے گا،بلکہ اس طرح نشوو نما دی جائے گی کہ جو لوگ معیشت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں، ان کی ضرورتیں بھی ان املاک کی آمدنی سے پوری ہوتی رہیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کی تجہیز و تکفین مسلمانوں کے طریقے پر ہو گی ان کا جنازہ پڑھا جائے گا اور انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں اور ان کے طریقے پر دفن کیا جائے گا۔


ب۔نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی ۔یہ نمازیں صرف انہی مقامات پر ادا کی جائیںگی جو حکومت کی طرف سے ان کے لئے مقرر کر دیئے جائیں گے ۔ان کا منبر حکمرانوں کے لئے خاص ہو گا ۔وہ خود ان نمازوں کا خطبہ دیں گے اور ان کی امامت کریں گے یا ان کی طرف سے ان کا کوئی نمائندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کی حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر ان نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔


ج۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اصلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے ہوں گے۔ چنانچہ معاشرے کے صالح ترین افراد ان اداروں کے لئے کارکنوں کی حیثیت سے منتخب کئے جائیں گے وہ لوگوں کو بھلائی کی تلقین کریں گے اور ان سب چیزوں سے روکیں گے جنہیں انسان ہمیشہ سے برائی سمجھتا رہا ہے۔ تاہم قانون کی طاقت اسی وقت استعمال کریں گے،جب کوئی شحص کسی کی حق تلفی کرے گا یا اس کی جان و مال یا آبروکے خلاف کسی اقدام کے درپے ہو گا۔


د۔ حکومت اپنے دشمنوں کے معاملے میں بھی قائم بالقسط رہے گی۔ حق کہے گی ،حق کی گواہی دے گی اور حق و انصاف سے ہٹ کر کبھی کوئی اقدام نہیں کر ے گی۔


ہ ۔ ریاست کے اندر یا باہر اگر کسی سے کوئی معاہدہ ہوا ہے تو جب تک معاہدہ باقی ہے، لفظ او ر معنی دونوں کے اعتبار سے اس کی پابندی پوری دیانت اور پورے اخلاص کے ساتھ کی جائے گی۔


و۔ قتل اور فساد فی الارض کے سوا موت کی سزا کسی جرم میں بھی نہیں دی جائے گی۔ نیز ریاست کا کوئی مسلمان شہری اگر زنا، چوری، قتل، فساد فی الارض اور قذف کا ارتکاب کرے گا اور عدالت مطمئن ہو جائے گی کہ اپنے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے تو اس پر وہ سزائیں نافذ کی جائیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دعوت کو پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ قبول کر لینے کے بعد ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اپنی کتاب میں مقرر کر دی ہیں۔


ز۔ اسلام کی دعوت کو اقصائے عالم تک پہنچانے کے لئے حکومت کی سطح پر اہتمام کیا جائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اگر اس میں رکاوٹ پیدا کرے گی ایمان لانے والوں کو جبروتشدد کا نشانہ بنائے گی تو حکومت اپنی استطاعت کے مطابق اس رکاوٹ کو دور کرنے اور اس تشدد کو روکنے کی کوشش کرے گی۔ اگرچہ اس کے لئے تلوار اٹھانی پڑے۔


10۔ نظم اجتماعی سے متعلق یہ شریعت کے احکام ہیں

 اور اس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دیئے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے، تاہم مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اگر اس کے باوجود اس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے یا سرکشی اختیار کر لیتے ہیں تو علماو مصلحین کی ذمہ داری اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ انہیں دنیا اور آخرت میں اس کے نتائج سے خبردار کریں۔

انہیں حکمت کے ساتھ اور موعظہ حسنہ کے اسلوب میں صحیح رویہ اختیار کرنے کی دعوت دیں ،ان کے سوالات کا سامنا کریں، ان کے اشکالات دور کریں اور دلائل کے ساتھ انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کیوں دی ہے؟ اجتماعی زندگی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے ؟ اس میں احکام کی بنیاد کیاہے اور دور حاضر کا انسان اس کو سمجھنے میں دقت کیوں محسوس کرتا ہے ؟ اس کی تفہیم و تبیین کے لئے ایسے سالیب اختیار کریں جن سے اس کی حکمت ،معنویت اور اس کے مقاصد ان پر واضح ہوں اور ان کے دل و دماغ پورے اطمینان کے ساتھ اسے قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہو جائیں۔ قرآن میں ان کا منصب دعوت وہ انداز میںبتایا گیا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اس کے ارباب حل و عقد کے لئے داروغہ نہیں بنائے گئے کہ اپنے پیرو کاروں کے جتھے منظم کر ے بندوق کے زور پر انہیں شریعت کا پابند بنانے کی کوشش کریں۔


ریاست اور حکومت ...جاوید احمدغامدی
ریاست اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ علم سیاست کی اصطلاح میں ریاست معاشرے کی سیاسی تنظیم ہے اور حکومت کا لفظ اُن ارباب حل و عقد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اُس میں نظم و نسق قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں۔ پہلے ریاست کو لیجیے۔ اِ س کی جو اقسام اب تک دنیا میں نمایاں ہوئی ہیں، وہ اصلاً تین ہی ہیں:
ایک، جزیرہ نمائے عرب کی ریاست جس کی حدود خود خالق کائنات نے متعین کر کے اُس کو اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ چنانچہ اُسی کے حکم پر اُس کی دعوت اور عبادت کا عالمی مرکز اُس میں قائم کیا گیا اور ساتویں صدی عیسوی میں آخری رسول کی وساطت سے اعلان کر دیا گیا کہ ’لا یجتمع فیھا دینان‘ ’’اب قیامت تک کوئی غیر مسلم اِس کا شہری نہیں بن سکتا۔‘‘ اِس سے پہلے کئی صدیوں تک یہی حیثیت ریاست فلسطین کی تھی۔ اسلام اور اسلامی شریعت کے مخاطب یہاں بھی اپنی مختلف حیثیتوں میں افراد ہی ہوں گے، تاہم اِس طرح کی ریاست کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اِس کا مذہب اسلام ہے اور اِس میں حکومت بھی اسلام ہی کی ہو گی تو یہ تعبیر ہر لحاظ سے قابل فہم ہے۔ اِس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری، وہ ریاستیں جن کی حدود فاتحین اپنی فتوحات سے متعین کرتے اور اُن کے باشندوں کو محکوم بنا کر اُن پر حکومت کرتے ہیں۔ اِس طرح کی ریاستوں میں شاہی خاندان یا حکمران گروہ کا مذہب اور نظریہ ہی ریاست کا مذہب یا نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ اِن کا وجود جائز ہے یا ناجائز، اِن کے متعلق بھی اگر یہ کہا جائے کہ یہ مسلمان یا مسیحی یا کمیونسٹ ریاستیں ہیں تو اِسے ناقابل فہم قرار نہیں دے سکتے۔
تیسری، دور حاضر کی قومی ریاستیں جن کی حدود بین الاقوامی معاہدات سے متعین ہوتی اور جو وجود میں آتے ہی اپنے باشندوں کے لیے بنائے قومیت بن جاتی ہیں۔ لہٰذا رنگ، نسل، زبان، مذہب اور تہذیب و ثقافت کے اشتراک و اختلاف سے قطع نظر وہ اپنے آپ کو ہندی، مصری، امریکی، افغانی اور پاکستانی کہتے اور اپنی قومیت کا اظہار اِسی حوالے سے کرتے ہیں۔ اُن میں سے کوئی کسی کا حاکم یا محکوم نہیں ہوتا، بلکہ سب ہر لحاظ سے برابر کے شہری سمجھے جاتے ہیں اور اِسی حیثیت سے کاروبار حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔
دور حاضر کی یہی ریاستیں ہیں جن کے بارے میں میں نے لکھا ہے کہ اِن کا کوئی مذہب نہیں ہو سکتا۔ ریاست پاکستان اِسی نوعیت کی ایک ریاست ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اِس کے لیے نہ کوئی فرمان آسمان سے نازل ہوا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کی طرح یہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے، نہ مسلمانوں نے اِس کو فتح کر کے اِس میں رہنے والے غیرمسلموں کو اپنا محکوم بنا لیا ہے اور نہ وہ اُن کے ساتھ کسی معاہدے کے نتیجے میں اِس ریاست کے شہری بنے ہیں۔ وہ صدیوں سے اِسی سرزمین کے باشندے ہیں، جس طرح مسلمان اِس کے باشندے ہیں اور ریاست جس طرح مسلمانوں کی ہے، اُسی طرح اُن کی بھی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اِس اصول پر نہیں ہوئی تھی کہ ایک حصے کے مالک مسلمان اور دوسرے کے ہندو ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ اُن کے محکوم بنا دئیے گئے ہیں، بلکہ اِس اصول پر ہوئی تھی کہ برطانوی ہند کے جن حصوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اُنھیں الگ ملک بنا دیا جائے گا اور ہندوستان کی ریاستوں کے حکمران آزاد ہوں گے کہ چاہیں تو اپنی آزادی برقرار رکھیں اور چاہیں تو ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں، اِس سے قطع نظر کہ اُن کی رعایا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے یا ہندوؤں کی یا کسی دوسرے مذہبی فرقے کی۔ اِس طرح کی ریاست کو اگر اکثریت کے زور پر مسلمان یا مسیحی یا ہندو بنانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ محض تحکم اور استبداد ہو گا، جس کی تائید کوئی ایسا شخص نہیں کر سکتا جس کو اُس کے پروردگار نے حکم دیا ہو کہ وہ ہر حال میں قائم بالقسط رہے گا اور حق کی گواہی دے گا، اگرچہ یہ گواہی اُس کے اپنوں کے خلاف ہی پڑ رہی ہو۔ ریاست پاکستان میں رہنے والے غیرمسلموں کے حق میں یہ گواہی اب ضروری ہے کہ تاریخ کے صفحات پر ثبت کر دی جائے۔ یہ اُسی حقیقت کی گواہی ہے جو اِس ریاست کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو مجلس دستورساز سے خطاب کرتے ہوئے پوری صراحت کے ساتھ واضح فرمائی تھی۔ اُنھوں نے کہا تھا:
’’اب آپ آزاد ہیں۔ اِس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، آپ مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار ریاست کا اِس سے کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔ ہم اِس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور اُن ذمہ داریوں اور اُس بارگراں سے سبک دوش ہونا پڑا جو اُن کی حکومت نے اُن پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کے اُس مرحلے سے بتدریج گزر گئے۔ آپ بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ۔ اب جو چیز موجود ہے، وہ یہ کہ ہر فرد ایک شہری ہے اور سب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کے سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اِس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا، نہ مسلمان مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور ایک مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘
(قائد اعظم: تقاریر و بیانات 3594)
اِس پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا اسلام اِس طرح کی ریاست کو قبول کرتا ہے؟ اِس کے جواب میں میں نے یہ عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ اسلام کی دعوت معاشرے کے ارباب حل و عقد کے لیے ہے اور وہ اگر مسلمان ہوں تو نظم اجتماعی سے متعلق اُس کے احکام کے مخاطب بھی وہی ہیں۔ وہ ریاست کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے ہرگز کوئی حکم نہیں دیتا۔ چنانچہ اُس کے ماننے والے اِس طرح کی قومی ریاستوں میں بھی شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم بن کر رہ سکتے ہیں، جس طرح کہ اِس وقت دنیا کی بیش تر ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ اِس میں کوئی چیز اسلام اور اسلامی شریعت سے متصادم نہیںہے۔
دورحاضر کی قومی ریاستوں کے بارے میں یہ میرا موقف ہے۔ اِس کے بعد اب حکومت کو لیجیے۔ علم و عقل کی رو سے اِس کے متعلق دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں: ایک یہ کہ ریاست کے لیے حکمران اور ارباب حل و عقد کا تقرر انسان کا خالق کرے گا۔ دوسرے یہ کہ ریاست کے باشندے کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نبوت کے بعد پہلی بات کا امکان ہ کریں جو اُن کے پروردگار نے اپنے آخری پیغمبر کی وساطت سے نازل فرمائی ہے۔ قائداعظم جب پاکستان کے حوالے سے اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی شریعت کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کی مراد بھی یہی ہوتی ہے۔
دور حاضر کی قومی ریاستوں کے ساتھ شریعت کا تعلق اِس مقام پر پہنچ کر اور اِس طریقے سے قائم ہوتا ہے۔ میں نے یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اِسی کے پیش نظر اجتماعی زندگی سے متعلق اِس شریعت کے احکام کی ایک جامع فہرست بھی مرتب کر کے پیش کر دی ہے اور لکھا ہے کہ مسلمانوں کو یہ احکام اِس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دئیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔ اہل علم میری مرتب کردہ اِس فہرست سے دلائل کے ساتھ اختلاف کر سکتے اور اِس میں ترمیم و اضافہ بھی کر سکتے ہیں، لیکن ریاست اور حکومت کے اِس فرق کو سمجھنے اور اِس فہرست کو دیکھنے کے بعد بھی اگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے شریعت کو فرد کی انفرادی زندگی تک محدود کر دیا ہے یا سیاست، معیشت، معاشرت اور نظم اجتماعی سے متعلق اُس کے احکام کی نفی کر دی ہے اور اُن کا یہ تجاہل عارفانہ نہیں ہے تو اُن کی خدمت میں پھر اِس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ:
سخن شناس نہ ای دلبرا خطا ایں جاست
پاکستان کے عوام نے جمہوری طریقے سے 73 کے آءین میں قرار داد مقاصد جس کا حصہ ہے اپنا فیصلہ کر دیا اب تمام discussion بے معنی ہے. بات یہ ہے کہ عوام اسلام چاہتے ہین ملاءیت نہیں... انصاف بلا تفریق... شریعت چاہتے ھیں جس ہر عمل سے سیاست دان اور ملا مخلص نہیں ان کے مکروہ دہندے کو نقصان ھو گا.... عمل...عمل... انصاف کا نظام ... اسلام کا نظام... آفتاب أحمد خان 


Comments/Discussion: by M Aamir Hashim Khakwani
غامدی صاحب کے لئے اپنے تمام تر احترام کے باوجود یہ حقیقت ہی ہے کہ انہوں نے سیکولرازم کو آگے بڑھایا ہے، مگر کمال مہارت کے ساتھ کہ اسے سیکولر ازم کے روایتی لبادے سے الگ رکھا، وہ شائد یہ سوچتے ہیں‌کہ اس طرح مذہبی حلقوں کے لئے یہ قابل قبول ہوجائے گا، مزہبی فکر کے بھولپن کے بارے میں انہوں نے کچھ زیادہ ہی غلط اندازہ لگایا۔
یہ محض ایک ادبی فقرہ ہے کہ ریاست سیکولر ہو نہ مزہبی ، اسے جمہوری ہونا چاہیے۔ یہ کیا بات ہوئی، کیا سیکولر ریاست اور جمہوری ریاست ایک دوسرے سے متضاد اصطلاحات ہیں، یا پھر اسلامی ریاست اور جمہوریت کا تصور ایک دوسرے کے مخالف اور باہم تضاد پر مبنی ہے۔ ریاست سیکولر اور جمہوری بیک وقت ہوسکتی ہے ، مذہبی اور جمہوری بیک وقت بھی ہوسکتی ہے اور نہیں بھی، میرا اشارہ مشاورت پر مبنی نظام کی طرف ہے، اس کی شکل کسی حد تک روایتی مغربی جمہوریت سے مختلف ہوسکتی ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں آئین میں ہے۔
جمہوریت ایک طریقہ کار ہے، معاملات حکومت چلانے کا ، معاملات سرکار شخصی حکمرانی سے بھی چلائے جا سکتے ہیں، چین کی طرح‌ون پارٹی ‌حکمرانی بھی ہوسکتی ہے، سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے اکثر ممالک کی طرح یا پھر کثیر الجماعتی سیاست طرز حکومت بھی ہوسکتا ہے۔ اچھی بات ہے کہ غامدی صاحب یہ چاہتے ہیں‌کہ ریاست کو جمہوری ہونا چاہیے ، یعنی معروف معنوں‌میں جمہوری،کثیر الجماعتی سیاست والی۔معروف جمہوری روایات سے لیس۔
ریاست مگر اپنے معاملات چلانے، قوانین بنانے اور شہریوں کے لئے ڈوز اور ڈونٹس بنانے کے لئے رہنمائی بھی چاہیے ہوتی ہے، اسے ڈرائیونگ پرنسپلز بنانے کے لئے کوئی منبع چاہیے ہوتا ہے۔ وہ یا تو اسلامی سویلائزیشن کی طرف دیکھے گی، یا پھر ویسٹرن سویلائزیشن کی طرف ، ہندو سویلائزئشن یا کوئی اور تہذیب بھی ہوسکتی ہے۔ یہاں پر وہ بنیادی فرق آئے گا۔ مغربی جمہوریت میں عوامی رائے، عوامی نمائندوں کے ذریعے ہی ایکسرسائزکی جاتی ہے۔ اسلامی ریاست میں سربراہ کا تقرر تو جمہوری طریقے سے ہوگا، پارلیمانی انتخابات ہوں یا صدارتی ، مگر اسلامی ریاست، اس کے عوام، عوامی نمائندے سب پر کچھ نہ کچھ قدغنیں عائد ہوتی ہیں۔ وہ قدغنیں ہیں رب تعالیی کی۔ اسلامی ریاست ڈوز اور ڈونٹس بنانے کے لئے انسانی دانش پر بھروسہ نہیں کرے گی، بلکہ وہ الہامی قوانین سے رہنمائی لے گی، اسلامی تہذیب کی طرف دیکھے گی۔ اتنا سا فرق ،مگر بڑا بنیادی قسم کا فرق ہے یہ۔
یہ ممکن ہے کہ کسی ملک میں سو فیصد مسلمان ہوں‌،مگر وہاں اسلامی ریاست نہ ہو، بلکہ سیکولر ریاست کام کر رہی ہو۔ ترکی، مصر، شام، الجزائر ، تیونس وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ ویسے وہاں فکری بنیادوں پر سیکولرازم نافذ نہیں۔ ترکی مین ردعمل کی صورت میں سیکولرازم کے نام پر بدترین جبر رائج ہوا۔ مصر، شام، الجزائر وغیرہ میں حکمرانوں نے اسلامی قوتوں کو دبانے کے لئے سیکولرازم کا سہارا لیا، عملآ وہاں بد ترین آمریت ہی ہے اورسیکولرازم کو اس لئے سامنے رکھا ہےھ کہ چونکہ ملک کی اشرافیہ خدائی حدود وقیود سے بالاتر تعیشات میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ اگر معاشرے میں اسلامی قوتیں منظم ہوں گی تو وہ برسراقتدار آ جائیں گے، اکثریت چونکہ مسلمانوں کی ہے، اس لئے ملک میں فطری طور پر اسلامی قوانین ہی رائج ہوجا ئیں‌گے۔ اس لئے وہ اسلامی تحریکوں کو کچلنے میں اپنی پوری قوت صرف کرتے ہیں، مصر ایک بین مثال ہے۔ شام اور بحرین وغیرہ کا مسئلہ یہ ہے کہ فرقہ ورانہ طور پر اقلیت اکثریت پو مسلط ہے، وہ اکثریت کو کچلنا چاہتے ہیں۔
ہم اصطلاحات کو ان کے پس منظر اور فریم ورک ہی میں دیکھتے، جانتے اور کوٹ‌کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی تمام سیکولر ریاستیں مذہب کے ردعمل ہی میں سیکولر ہوئی ہیں، یہ ان کے خمیر کا حصہ ہے کہ مذہب یا الہامی قوانین سورس آف انسپائریشن نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ پھر انہیں مذہب کو کئی معاملات میں کئی حوالوں سے لازما اندر آنے دینا پڑے گا، جس سے بدک کر انہوں‌نے یہ تمام پاکھنڈ رچایا۔ کوئی ایسی سیکولر ریاست کی طرف اشارہ کریں۔ویسے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کی سورس آف انسپائریشن اسلامی تہذیب ہو یا نہ ہو۔
میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ اتنے بڑے پنگے لینے کا کون سا وقت ہے۔ اس وقت تو جتنا ایک اتفاق رائے ہوا ہے، اس کو بروئے کار لاتے ہوئے عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنا چاہیے۔انتہا پسندی کا متبادل اعتدال ہونا چاہیے، سیکولرازم تو ایک طرح کی شدت پسندی اور انتہائی موقف ہی ہے۔
پاکستان میں جو لوگ طے شدہ اصولوں کو دوبارہ سے چھیڑنا چاہتے ہیں، وہ بڑی خوفناک غلطی کر رہے ہیں، ابھی معاملات حد سے نہیں گزرے ، ہمارے بیشتر مسائل گورننس کے ہیں، یہ شدت پسندی بھی گورننس کی وجہ سے پیدا ہوئی اور اسے ہینڈل کیا جاسکتا ہے، تاہم لبرل ،سیکولر حلقے جو کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، اس کے ردعمل میں‌زیادہ بنیاد پرستی اور شدت پیدا ہو گی۔ ریاست تو اسلامی رہے گی، مگر مجھ خدشہ ہے کہ پھر آرتھوڈاکس فکر غالب آئے گی اور سعودی عرب، ایران ٹائپ ریاستی ڈھانچہ نہ تشکیل پا جائے۔ جناب غامدی صاحب اور ان کا پورا سکول آف تھاٹ بارودی سرنگوں سے بھرے میدان میں جوگنگ کر رہا ہے، فاسفورس سی بھری مٹھی لے کر وہ آگ پر ہاتھ سینکنا چاہتے ہیں۔ نتیجہ سب کو معلوم ہے کیا ہوگا؟
https://www.facebook.com/maamirhashim.khakwani/posts/980935445267271

Terrorism and solution

? دہشت گردی اور اس کا حل ؟

Related:
مزید پڑھیں:
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل